اسلام کے بنیادی ارکان کی اہمیت

حج کی فضیلت کے بارے میں آپؐ نے فرمایا ’’ اور حج مبرور کا بدلہ تو جنت ہی ہے۔‘‘


May 27, 2016
اگر مسلمان ان پر شعور کے ساتھ عمل پیرا ہوجائیں تو معاشرے میں اخوتِ اسلامی، اَمن و سکون اور رُوحانی و اَخلاقی اقدار فروغ پائیں گی ۔ فوٹو : فائل

اَرکانِ اِسلام پانچ ہیں، جن میں پہلا رُکن اﷲ تعالیٰ کی وحدانیت اور نبی کریمؐ کی نبوت اور رِسالت کا اِقرار ہے۔ دُوسرا رُکن نماز، تیسرا روزہ، چوتھا زکوٰۃ اور پانچواں حج ہے۔ اِن اَرکانِ خمسہ میں سے ہر ایک کے بارے میں متعدد آیات اور اَحادِیث وارِد ہوئی ہیں۔ نبی کریمؐ نے اِرشاد فرمایا '' اِسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر قایم ہے، اِس بات کی گواہی دینا کہ اﷲ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمدؐ اﷲ کے رسول ہیں، نماز قایم کرنا، زکوٰۃ دینا، رمضان مبارک کے روزے رکھنا اور بیت اﷲ کا حج کرنا اُس شخص کے لیے جو اُس تک جانے کی طاقت رَکھتا ہو۔'' (جامع الترمذی)

اِن پانچ اَرکان کو ایک مومن کی شخصیت سنوارنے اور اس کا مثالی کردار بنانے میں بہت بڑا دخل ہے۔ سب سے پہلے رُکن کلمۂ شہادت کو لے لیجیے، جس کے ذریعے ایک مومن اَپنے رَب کی وحدانیت کا اِقرار کرکے مخلوق کی عبودیت سے آزاد ہوجاتا ہے اور نبی کریمؐ کی رِسالت کا اِقرار کرکے زِندگی گزارنے کا رَاستہ متعین کرلیتا ہے۔ یہ اِیمان کی بنیاد اور یہی وہ بنیادِی عقیدہ ہے جس پر باقی اَرکان اور اِسلامی تعلیمات کا دار و مدار ہے۔ یہی وَجہ ہے کہ قرآنِ کریم نے عقیدۂ توحید اور رِسالت پر بہت زور دِیا ہے اور سیکڑوں آیات میں اسے بیان کیا گیا ہے۔ اِرشادِ بارِی ہے ''اﷲ تعالیٰ نے خود اِس بات کی شہادت دِی ہے کہ بہ جز اس کے کوئی معبود نہیں اور فرشتوں نے بھی اس کی شہادت دِی اور اہلِ علم نے بھی اس کا اِقرار کیا۔ اُس کی شان یہ ہے کہ وہ انصاف کے ساتھ کارخانۂ عالم کا انتظام کرنے والا ہے۔'' (آلِ عمران)

ہر پیغمبرؑ نے اِسی توحید کی دعوت دِی۔ رسول اکرمؐ نے فرمایا

''اے میری قوم! اﷲ کی عبادت کرو اُس کے سوا کوئی معبود نہیں۔''

گویا اﷲ تعالیٰ کی وحدانیت پر خود اﷲ تعالیٰ گواہ ہیں، اُس کے فرشتے گواہ ہیں اور اَنبیاء کرام علیہم السلام اور عقلاء گواہ ہیں۔

اِسی طرح قرآنِ کریم نے نبی کریمؐ کی رِسالت کا اِعلان کیا

''محمد صلی اﷲ علیہ وَسلم اﷲ کے رسول ہیں۔'' (الفتح)

اور ان کی رِسالت پر اِیمان لانے کا حکم دیتے ہوئے فرمایا ''اے اِیمان والو! اِیمان لے آؤ اﷲ پر اور اُس کے رسول پر۔'' (النساء)

اِسلام کا دُوسرا رُکن نماز ہے ''نماز قایم کرو۔'' (البقرۃ)

نماز کو دِین کا ستون کہا گیا ہے اور یہ ایک ایسا فریضہ ہے جس کے ذریعے مسلم اور غیر مسلم کی پہچان ہوتی ہے۔ نماز وہ عبادت ہے جو ایک مومن کی شخصیت کو بنانے میں بنیادِی کردار اَدا کرتی ہے اور بندے کا تعلق اَپنے رب سے جوڑتی ہے

''اور نماز قایم کرو میری یاد کے لیے۔'' (طٰہٰ)

نماز ہر قسم کی بے حیائی اور بُرائی سے روکتی ہے۔ نماز گزشتہ گناہوں کا کفارہ بن کر مومن کو گناہوں کی آلودگی سے پاک صاف کردیتی ہے۔ بخاری و مسلم میں ہے کہ نبی کریمؐ نے نماز کی فضیلت اور اُس کے فائدے کو ایک حسی اور ظاہری مثال دے کر یوں سمجھایا ہے کہ پانچ نمازوں کی مثال ایسی ہے جیسے ایک شخص کے دروازے کے سامنے پانی کی ایک نہر جارِی ہو اور وہ شخص اُس میں پانچ وقت غسل کرتا ہے، بتاؤ کیا اُس کے بدن پر میل کچیل باقی رہے گا۔۔۔ ؟

صحابہ کرام رِضوان اﷲ علیہم اَجمعین نے عرض کیا کہ اُس کے بدن پر میل کچیل نہیں رہے گا۔ تو آپؐ نے فرمایا، یہی مثال پانچ نمازوں کی ہے، جس نے اُن کو اَدا کیا اﷲ تعالیٰ اُسے ان نمازوں کی برکت سے گناہوں کی آلودگی سے پاک فرما دیتے ہیں۔

ایک دُوسری حدیث میں یوں فرمایا ''پانچ نمازیں ایک جمعے سے دُوسرا جمعے تک گناہوں کا کفارہ بن جاتی ہیں، جب تک کہ کبیرہ گناہ کا اِرتکاب نہ کیا جائے'' یعنی گناہوں میں سے صغیرہ گناہ خود بہ خود معاف ہوجاتے ہیں، اَلبتہ کبیرہ گناہ کی معافی کے لیے توبہ و اِستغفار کی ضرورت ہے۔

اِسلام کے اَرکان میں ایک رُکن رمضان مبارک کا روزہ ہے۔ جو مومن کے دِل میں مراقبے کی صفت پیدا کرتا ہے، جس سے وہ یہ سمجھتا ہے کہ میں اَپنے رَب کے سامنے ہوں اور وہ مجھے ہر حال میں دیکھ رہا ہے۔ روزہ گناہوں سے بچنے کے لیے ڈَھال کا کام دیتا ہے۔ روزہ ڈَھال ہے، روزہ اَپنے محتاج بھائیوں کی بھوک اور پیاس یاد دِلا کر اُن کے ساتھ ہم دَردِی اور تعاون پر آمادہ کرتا ہے۔

روزے کی فضیلت کے بارے میں آپؐ نے فرمایا ''اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ روزہ میرے لیے ہے اور میں ہی اُس کا بدلہ دُوں گا اور فرمایا کہ جنت میں روزہ داروں کے لیے ایک خاص دروازہ ہوگا جس کا نام ریان ہے۔''

اِسلام کے اَرکان میں ایک اَہم رُکن زکوٰۃ ہے۔ اِرشادِ بارِی ہے ''نماز قایم کرو اور زکوٰۃ اَدا کرو۔'' (البقرۃ)

اَلبتہ اِس فریضہ کی اَدائی کے لیے شرط یہ ہے کہ اِنسان مال دار اور صاحب نصاب ہو۔ اِسی لیے زکوٰۃ کو مالی عبادت کہا جاتا ہے اور یہ بھی مومن کی شخصیت میں اَہم کردار اَدا کرتی ہے اور اُسے بخل، کنجوسی اور مال دارِی کے بُرے اَثرات سے بچا کر اُس کے دِل میں غریبوں کی محبت اور اُن کے حق میں سخاوت اور ہم دَردِی کا جذبہ پیدا کرتی ہے۔ نبی کریمؐ نے فرمایا ''یعنی یہ زکوٰۃ کا مال ان کے اَغنیاء سے لیا جائے گا اور انہِیں کے فقراء اور محتاجوں میں اسے تقسیم کیا جائے گا''

اس کی اَہمیت کا اَندازہ اِس سے لگایا جاسکتا ہے کہ خلیفہ راشد اَمیرالمؤمنین حضرت سیّدنا صدیق اَکبرؓ کے دورِ خلافت میں آپؓ نے زکوٰۃ دینے سے اِنکار کرنے والوں کے خلاف جہاد کیا اور اس کی فضیلت کے لیے یہی کافی ہے کہ اس پر جنت کی بشارت دِی گئی ہے۔

اَرکانِ اِسلام کا آخری رُکن حج ہے، جس کا تعلق بیت اﷲ شریف سے ہے، جو مکہ مکرمہ میں ہے۔ جس کی طرف ہر مسلمان پانچ وقت منہ کرکے نماز اَدا کرتا ہے اور یہ فریضہ ہر اُس مسلمان پر عمر بھر میں ایک بار فرض ہے جو وہاں جانے کی طاقت رَکھتا ہو۔

اِرشادِ بارِی ہے ''اور اﷲ کے لیے فرض ہے لوگوں پر بیت اﷲ کا حج کرنا جو شخص کہ اُس تک پہنچنے کی طاقت رَکھتا ہو۔'' (آلِ عمران)

حج بھی مومن کی زِندگی میں ایک عجیب اِنقلاب برپا کرتا ہے کیوں کہ وہ ایسے گھر کی زِیارَت کرتا ہے جس کو اﷲ تعالیٰ نے مرکز ہدایت بنایا ہے اور وہ ایسے گھر کی زِیارَت کرتا ہے جو مرکزِ وحی رہا ہے۔ وہ اس سرزمین کا مشاہدہ کرتا ہے جہاں سے وحی کی اِبتدا ہوئی۔

''پڑھ اَپنے رَب کے نام سے جو سب کا بنانے وَالا ہے۔''

اور جہاں پر اس وحی کی تکمیل ہوئی۔

''آج میں پورَا کرچکا ہوں تمہارے لیے دِین تمہارَا اور پورَا کیا تم پر میں نے احسان اَپنا اور پسند کیا میں نے تمہارے وَاسطے دِین اِسلام۔'' (المائدۃ)

حج کے موقع پر حاجی کے سامنے ماضی کی سارِی تصویر آجاتی ہے کہ اس سرزمین میں نبی کریمؐ اور آپؐ کے جان نثاروں نے اس دِین کے لیے کیا کیا قربانیاں دِیں۔ وہ حضرت اِبراہیم اور حضرت اِسماعیل علیہما السلام کی قربانیوں کو یاد کرکے اَپنے اَندر ایک نیا جذبہ، نیا اِیمان لے کر آتا ہے۔ نیز دُنیا کے ہر گوشے سے آئے ہوئے مختلف رَنگ و نسل اور مختلف زبانیں بولنے وَالے مسلمانوں سے مل کر اخوتِ اِسلامی اور اِسلامی مساوَات کا مشاہدہ کرتا ہے۔

حج کی فضیلت کے بارے میں آپؐ نے فرمایا '' اور حج مبرور کا بدلہ تو جنت ہی ہے۔''

اَرکانِ اِسلام اَپنے اَندر آج بھی اِنسان کی شخصیت کی تعمیر کی صلاحیت رَکھتے ہیں۔ جس طرح کہ اِسلام کے اِبتدائی دور میں اُن سے ایک عظیم اُمت کی تعمیر ہوئی ہے، جس کی گواہی خود قرآن نے دِی ہے۔

''محمد اﷲ کے رسول ہیں اور وہ لوگ جو آپ کے ساتھ ہیں وہ کفار کے مقابلے میں بہت سخت اور آپس میں نہایت رحم دِل ہیں۔'' (الفتح)

آج بھی اَگر اِن اَرکانِ اِسلام کو سمجھ کر اور فرایض، وَاجبات اور آداب کے ساتھ اَدا کیا جائے تو یقینا اس کے اَثرات مسلمان معاشرے پر پڑیں گے اور اس میں اخوتِ اِسلامی اور اَمن وسکون کی فضا پھیلے گی اور رُوحانی اور اَخلاقی قدریں زِندہ ہوں گی۔
(مولانا ڈاکٹرعبد الرزّاق اسکندر)

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں