یہ پاکستان
اس سے زیادہ کسی سرگرمی کی ضرورت نہیں۔ امریکا کے پاس وہ سب کچھ ہے
کچھ پہلے جب امریکا دنیا کی واحد سپر پاور بن گیا تھا تو اس کی ایک خاتون لیڈر نے بڑی تمکنت کے ساتھ یہ اعلان کیا تھا کہ امریکا کے روئے زمین کے سب سے طاقت ور ملک بن جانے کے بعد اب یہ اس کا فرض ہے کہ وہ دنیا کی دیکھ بھال کر کے اور اسے اپنی مرضی سے چلانے کی کوشش کرے۔ اب پوری دنیا امریکا کی ذمے داری بن چکی ہے اور اس کی پرامن زندگی امریکا کا فرض ہے۔
اسی کے ساتھ کئی امریکی دانشوروں کی یہ رائے بھی سامنے آئی کہ امریکا دو سب سے بڑے سمندروں کی حفاظت میں ہے اور اسے اپنی دنیا میں ہی مست رہنا چاہیے۔ بس یہی کافی ہے کہ اس کا دفتر خارجہ ان رجسٹریوں اور دستاویزات کا محافظ ہی رہے جو امریکا اور بیرونی دنیا کے درمیان معاملات سے متعلق ہوتی ہیں۔
اس سے زیادہ کسی سرگرمی کی ضرورت نہیں۔ امریکا کے پاس وہ سب کچھ ہے جو کسی بھی ملک کے پاس ہو سکتا ہے اس لیے امریکا کو اپنے اندر ہی ایک پرامن اور خوشگوار زندگی بسر کرنی چاہیے اور بیرونی دنیا کے مسائل میں نہیں الجھنا چاہیے لیکن امریکا کے ایک صدر نے عالمی جنگ میں کود کر عام امریکیوں کے اس خیال کی نفی کر دی۔ تب سے اب تک امریکا دنیا کا ایک بڑا بلکہ سب سے بڑا کھلاڑی ہے جو پوری دنیا کے مسائل اور معاملات میں ملوث رہتا ہے۔ امریکا اپنی سرحدوں سے باہر اپنی خارجہ پالیسی کے جن پہلوؤں میں دلچسپی رکھتا ہے ان میں سے کئی ایک پاکستان سے بھی متعلق ہیں اور امریکا ان میں مسلسل دلچسپی کا اظہار کرتا رہتا ہے۔ اس کی کئی وجوہات ہیں۔
پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جو اپنی ایک الگ آئیڈیالوجی رکھتا ہے یہ اس کے وجود میں شامل ہے اور کئی پاکستانیوں کے خیال میں یہ ملک اسی آئیڈیالوجی اور نظریات کی ترویج کے لیے بنایا گیا ہے۔ یہ ملک اپنے ان نظریات کی مخالف بلکہ دشمن قوم کو شکست دے کر وجود میں آیا ہے اور اپنے نظریاتی مخالفوں کے خلاف اس کی کشمکش جاری رہتی ہے بلکہ باقاعدہ جنگیں بھی برپا ہو چکی ہیں۔
جن کی وجہ سے دونوں ملکوں اور دونوں نظریات کے درمیان تلخی بہت بڑھ چکی ہے۔ پاکستان نہ صرف اپنے نظریات کی پابندی کا دعوے دار ہے بلکہ ان کے تحفظ کے لیے جدید ترین ذرایع بھی تلاش کرتا رہتا ہے اس لیے آج وہ اسلامی دنیا کا پہلا ایٹمی ملک ہے اگر اسے اپنے نظریات کو لاحق خطرات کا احساس نہ ہوتا تو وہ ایٹم بم نہ بناتا اور اس طرح ایک عالمی سطح کی ذمے داری سے محفوظ رہتا۔ لیکن ایک تو سخت اور عالمی تبدیلی کے مدعی نظریات دوسرے اپنے ان زندہ و پایندہ نظریات کے مخالف عناصر سے تحفظ پاکستان کے بنیادی مسائل ہیں۔
دنیا کی ایک بہترین فوج اور ایٹم بم یہ سب اسی ضرورت کے تحت ہیں۔ پاکستان کو اپنی فوج پر فخر ہے جو بھارت کے مقابلے میں ایک کمتر مسلح فوج ہے اور جس کی طاقت کسی عالمی طاقت کے مقابلے میں بہت کم ہے مگر پھر بھی پاکستان کی فوج اور بم میں کوئی ایسی طاقت چھپی ہوئی ہے کہ امریکا جیسی بڑی طاقت پاکستان کے خلاف کوئی نہ کوئی کارروائی کر گزرتی ہے پاکستان پر امریکا کے ڈرون حملے امریکا کی برہمی کے سوا اور کیا ہیں۔ نہ معلوم امریکا ہم سے کیوں اس قدر ناراض ہے یا پھر بھارت کو خوش رکھنے کے لیے وہ پاکستان کو دباتا رہتا ہے۔
پاکستان مخالف کئی اقدامات میں بھارت کا ہاتھ بالکل واضح ہوتا ہے اور افغانستان کی سیاست بھی پاکستان کے مخالف اقدامات میں ملوث کر دی جاتی ہے۔ افغانستان اس وقت امریکا اور بھارت کے زیر اثر ہے۔ ویسے بھی افغانستان کے حکمران بھارت کے زیر اثر رہے ہیں جب کہ افغانستان کے عوام پاکستان کے ساتھ رہے ہیں یہ ایک پرانی کہانی ہے بہر حال اب صورت حال ذرا سی بدلی ہے اور امریکی مداخلت کی وجہ سے افغانستان کے عوام بھی مجبور ہیں۔
بات پاکستان کی نظریاتی اور تاریخی رویوں اور رجحانات سے شروع ہوتی تھی۔ پاکستان مسلمانوں کی تاریخ کی ایک مثال ہے اور ملک اپنے قیام کے وقت سے لے کر اب تک اپنے اس تاریخی تعلق پر فخر کرتا رہتا ہے۔ پاکستان کو مسلمان سیاست اور تاریخ کا ایک حصہ قرار دیا گیا ہے اور مسلمانوں کی تاریخ کا جو سلسلہ چودہ سو برس پہلے شروع ہوا تھا وہ پاکستان سے گزر رہا ہے اور پاکستان کل کلاں کچھ بھی بن سکتا ہے امریکا اسی خطرناک پاکستان کو ذہن میں رکھ کر اس کے خلاف ڈراؤنی کارروائیاں کر رہا ہے اور ڈرون حملوں سے ڈرا رہا ہے۔
کیا ہم ڈر جائیں یہ فیصلہ پاکستان کے عوام نے نہیں بلکہ ان کے حکمرانوں نے کرنا ہے اور انھیں ان کے مقام و مرتبے اور ان کے ملک کے تاریخ سے آگاہ کرنا ہے تا کہ وہ ملک کو دشمنوں سے بچا سکیں۔ پاکستان ایک عام سا ملک نہیں ہے اس کا ایک تاریخی کلچر ہے اور ایک ماضی ہے جو زندہ ہے اور آج کی سپر پاور بھی اسے فراموش نہیں کرتی۔