سعادت مند اپوزیشن
ماضی میں 2008ء سے 2013ء تک پیپلز پارٹی کی جو حکومت برسر اقتدار رہی
ماضی میں 2008ء سے 2013ء تک پیپلز پارٹی کی جو حکومت برسر اقتدار رہی، اسے اہل سیاست پاکستانی تاریخ کی کرپٹ ترین حکومت کا نام دیتے ہیں۔ ہم اس تنازعے میں پڑے بغیر اس اہم مسئلے کو اجاگر کرنا چاہتے ہیں کہ اگر مسلم لیگ (ن) فرینڈلی اپوزیشن کا کردار ادا نہ کرتی تو نہ پیپلز پارٹی پانچ سال حکومت میں رہتی نہ اسے یہ اعزاز حاصل ہوتا کہ وہ پاکستان کی سیاسی تاریخ کی پہلی حکومت ہے جسے یہ اعزاز حاصل ہوا ہے۔
میاں برادران کا شمار پاکستان کے سیاسی شرفا میں ہوتا ہے اسے ہم میاں برادران کی شرافت ہی بلکہ غیر معمولی شرافت ہی کہہ سکتے ہیں کہ اس نے ایک ایسی حکومت کو پہلی بار اپنی پانچ سالہ مدت پوری کرنے کا موقع فراہم کیا جسے بدنام زمانہ کہا جاتا ہے۔ یہ ایک ایسا احسان ہے جس کا بدلہ چکانا پی پی کی اخلاقی ذمے داری تھی۔ پانامہ لیکس کے انکشافات کے بعد بدقسمتی سے شریف فیملی کو اس قدر بدنام کیا گیا کہ میاں صاحب پارلیمنٹ میں آنے سے گریزاں تھے۔ انھیں بجا طور پر یہ خطرہ تھا کہ اپوزیشن ان کی آمد پر غیر معمولی بلکہ غیر اخلاقی شور شرابا کرے گی اور آف شور کمپنیوں کے حوالے سے ان پر سخت تنقید کے تیر برسائے گی۔
اس خوف کی ایک بڑی وجہ یہ بھی تھی کہ اس بار اپوزیشن بہ ظاہر ہی سہی اسی طرح متحد تھی جس طرح 2014ء کے دھرنوں کے زمانے میں جمہوریت کے پرستار متحد تھے اور کسی کو جمہوریت میں مداخلت کی اجازت دینے کے لیے تیار نہ تھے لیکن فرق یہ تھا کہ 2014ء میں سارے جمہوریت پسند خطرے کی زد میں تھے اور 2016ء میں صرف شریف فیملی خطرے میں ہے۔ لیکن نہ صرف پیپلز پارٹی نے بلکہ سوائے تحریک انصاف کے تقریباً ساری جماعتوں نے ''جمہوری اخلاق'' کا مظاہرہ کرتے ہوئے صرف اتنا کہا کہ میاں صاحب آپ پارلیمنٹ میں تشریف لائیں ہم نہ آپ سے کوئی سوال کریں گے نہ تنقید کریں گے نہ ہوٹنگ کریں گے نہ آپ کی شان میں کسی قسم کی گستاخی کریں گے۔ اور ہوا بھی یہی میاں صاحب پوری شان سے آئے اپنی کہانی سنائی اور شان سے رخصت ہوئے اسے بھی ہم پاکستانی سیاست کا ایک تاریخی انقلاب ہی کہہ سکتے ہیں۔
سیاست اور جمہوریت جاریہ پر نظر ڈالنے سے پہلے اگر ہم ان دونوں عناصر ترکیبی کی تعریف اور مقاصد کو سمجھ لیں تو اس ملک کے 20 کروڑ غریب اور ناخواندہ عوام کو بھی سیاست اور جمہوریت جاریہ کو سمجھنے میں آسانی ہو جائے گی ہم ان دونوں عناصر کے کتابی اور نظریاتی معنوں اور مقاصد کے پیچھے وقت ضایع کرنے اور عوام کو امتحان میں ڈالنے کے بجائے صرف ان عناصر کا بنیادی مقصد و مفہوم بتانا زیادہ ضروری سمجھتے ہیں اور وہ مقصد و مفہوم ہے عوام کی خدمت عوامی مسائل کا حل۔ اس پس منظر میں اگر ہم سیاست جاریہ پر نظر ڈالتے ہیں تو صرف یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ سیاست اور جمہوریت کا مقصد صرف حصول اقتدار اور حفاظت اقتدار کے علاوہ کچھ نہیں۔ اس کھیل میں عوام کی خدمت، عوامی مسائل کے حل کی حیثیت دور کے ڈھول سے زیادہ نہیں ہے لیکن عوام کی تسلی اور معلومات کے لیے ہم یہاں جمہوریت کا کتابی مطلب بتا دیتے ہیں۔ جمہوریت کا کتابی مطلب ہے ''عوام کی حکومت، عوام کے لیے، عوام کے ذریعے'' اور سیاست کا مطلب ہمارے سیاستدانوں کے مطابق ''عبادت'' ہے۔
آئیے! اب اس پس منظر میں ہم سیاست جاریہ کا ایک سرسری جائزہ لیتے ہیں، ویسے تو ہمارے ملک میں سیاست ہر وقت کسی نہ کسی بحران میں ملوث رہتی ہے لیکن تازہ بحران سے آف شور کمپنیاں جن کا انکشاف پانامہ پیپرز نے کیا ہے۔ آف شور کمپنیاں ماہرین کے مطابق منی لانڈرنگ اور کرپشن کی آماجگاہیں ہیں۔ کیا آف شور کمپنیاں واقعی کرپشن اور منی لانڈرنگ مافیا ہیں؟ اس سوال کی ضرورت اس لیے پیش آ رہی ہے کہ اس سوال کے جواب میں ہی حالیہ بحران سمجھ میں آ سکتا ہے۔
سرمایہ دارانہ نظام نے چوروں ڈاکوؤں اور لٹیروں کو چوری ڈکیتی اور لوٹ مار کی دولت کو حفاظت سے رکھنے کے لیے جو لاکر مہیا کیے ہیں ان میں سوئس بینکس ہیں اور آف شور کمپنیاں ہیں۔ پانامہ لیکس کے بارے میں ہمارے صدر ممنون حسین نے بجا طور پر کہا ہے کہ ''پانامہ لیکس قدرت کی لاٹھی ہے۔ بدعنوان پکڑ میں آنے والے ہیں۔ کچھ ابھی کچھ ایک سال کے دوران پکڑے جائیں گے۔ ملزموں کو سزا ملنے تک ملک درست نہیں ہو گا۔'' ہم صدر محترم کی ہمت مردانہ کی داد دیے بغیر نہیں رہ سکتے کہ انھوں نے اس بات کی ذرہ برابر پرواہ نہیں کی کہ خود ان کے وزیراعظم اور ان کے دو بیٹے ایک بیٹی پانامہ لیکس کا شکار ہیں، لیکن پانامہ لیکس کی انکشاف کردہ آف شور کمپنیاں ہماری اشرافیہ کی واحد کمین گاہ ہیں نہ آف شور کمپنیاں کرپشن کی منی لانڈرنگ کی واحد آماجگاہ ہیں۔
اربوں کھربوں کی اشرافیائی لوٹ مار کی داستانیں تو ملک کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک بکھری ہوئی ہیں۔ ہمارے کپتان جو بقول بڑے میاں صاحب کے موقعے کی تلاش میں رہتے ہیں۔ اس موقعے سے بھرپور فائدہ اٹھانے کی کوشش کی لیکن بدقسمتی سے وہ یہ بات بھول گئے کہ وہ بھی جائز یا ناجائز کسی آف شور کمپنی کے مالک رہے ہیں۔ جب یہ بات پبلک میں آئی تو حکومت کے نورتنوں کی جان میں جان آئی اور انھوں نے شدت کے ساتھ جوابی حملے شروع کر دیے۔ پھر تو ایسا گھمسان کا رن پڑا کہ کان پڑی آواز سنائی نہ دینے لگی۔
لیکن جبہ و دستار کے ساتھ کندھے پر چادر ڈالے رکھنے والے محترمین نے محسوس کر لیا کہ اگر بات یوں ہی آگے بڑھتی رہی تو موقعے کی تاک میں رہنے والی کوئی اور طاقت آگے آ جائے گی اور جمہوریت کی وہ بھینس پانی میں چلی جائے گی جس کا دودھ وہ نسلوں سے پیتے آ رہے ہیں۔ اس ممکنہ افتاد سے بچنے کے لیے ان سیانوں نے وہی حربہ استعمال کیا جو وہ اب تک کرتے آ رہے ہیں۔ یعنی اس بھونچال کو انتہائی چالاکی اور مہارت کے ساتھ کمیٹیوں کے لٹھے میں لپیٹ دیا۔ بات آئی گئی ہو گئی، آف شور کمپنیاں ہوں حکمرانوں کی اربوں کی کرپشن کے کیس ہوں یا کھربوں کے بینکوں کے قرضے حسب روایت ماضی کی داستانیں بن جائیں گے۔ عوام حیرت سے ایک دوسرے کا منہ دیکھتے رہ جائیں گے اور جمہوریت کے مزار پر ایک نیا آف شور کمپنیوں کا کتبہ نصب ہو جائے گا۔ باقی رہے نام اللہ کا۔