یوم تکبیر تجدید عہد کا دن
قوموں کی تاریخ میں بعض لمحوں اور دنوں کی بہت اہمیت ہوتی ہے، کسی قوم کو کوئی ایک دن فرش سے اٹھاکر عرش پر لے جاتا ہے۔
قوموں کی تاریخ میں بعض لمحوں اور دنوں کی بہت اہمیت ہوتی ہے، کسی قوم کو کوئی ایک دن فرش سے اٹھاکر عرش پر لے جاتا ہے۔ 28مئی 1998 یقینا ایک ایسا ہی روز سعید تھا۔ اس دن پاکستان نے ایٹمی دھماکا کرکے ساری دنیا کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا، بھارت و اسرائیل جیسے بعض ممالک میں تو پاکستان کی اس کامیابی سے صف ماتم بچھ گئی، مگر سارے عالم اسلام میں ایٹمی دھماکے سے خوشی کی لہر دوڑگئی۔
ہر سال 28مئی کو چاغی میں کیے گئے ایٹمی دھماکوں کی یاد میں ملک بھر میں ''یوم تکبیر'' منایا جاتا ہے اور تقریبات، جلسوں اور جلوسوں کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ پاکستان نے یہ ایٹمی دھماکے اس وقت کیے جب انڈیا ایٹمی دھماکوں کے بعد پاکستان کو اپنی طفیلی ریاست بنانا چاہتا تھا۔ 11 اور 13 مئی کے بھارت کے ایٹمی دھماکوں کے بعد انڈیا نے پاکستان کو تذلیل کرنے کے لیے ایسے ایسے بیانات اپنے وزراء حتیٰ کہ وزیر اعظم نے لوک سبھا میں دیے ۔
پوری قوم کی یہ تمنا تھی کہ بھارتی جارحیت کا بھرپور طریقے سے جواب دیا جائے۔ چنانچہ پاکستانی سائنسدانوں نے عسکری اور سیاسی قیادت کے فیصلے پر چاغی کے مقام پر 28مئی 1998 کو پانچ اور 30 مئی کو کھاران میں ایک وسیع صحرائی وادی میں چھٹا ایٹمی دھماکا کرکے بھارت کی جارحیت کا بھرپور انداز میں جواب دیا اور اللہ کی رحمت سے پاکستان دنیا کی ساتویں اور عالم اسلام کی پہلی ایٹمی قوت بن گیا۔ چھ کامیاب ایٹمی دھماکوں کے بعد پاکستان نے دنیا کے نیوکلیئر کلب میں اپنے قدم مضبوطی سے گاڑھ لیے۔ پاکستان کے ایٹمی دھماکوں کی وجہ سے خطے میں طاقت کا بگڑتا ہوا توازن بحال ہوگیا اور پاکستان کی دفاعی قوت میں بیش بہا اضافہ ہوا۔
ایٹم بم بناکر چلانا ایک دن کی بات نہیں خاص طور پر جب یہ سارا کام نجی وسائل اور ذرایع سے کرنا مقصود ہو۔ دنیا کی کوئی بھی طاقت خواہ آپ کے کتنی ہی قریب ہو کسی بھی قسم کے ایٹمی یا میزائل پروگرام میں آپ کا ساتھ نہیں دیتی کیونکہ ایٹمی عدم پھیلاؤ کے بین الاقوامی معاہدوں کے ہاتھوں مجبور ہوتی ہے۔ پاکستان کے سابق وزیراعظم شہید ذوالفقار علی بھٹو سے ہزار اختلاف کیجیے مگر آپ کو یہ اعتراف کرنا پڑے گا کہ جب 1974کو بھارت نے آف دی ریکارڈ ایٹمی دھماکا کرلیا تو یہ واضح ہوگیا کہ بھارت نے عام جنگی اور ایٹمی ہتھیاروں کی دوڑ میں سبقت حاصل کرلی ہے اور پاکستان پیچھے رہ گیا ہے، بھٹو نے عین اسی لمحے ہی یہ فیصلہ کرلیا کہ ہم گھاس کھائیں گے مگر ایٹم بم ضرور بنائیں گے۔
بھٹو نے نعرہ تو لگادیا تھا مگر اتنے بڑے پروگرام پر عملی طور پرکام کرنا اور سائنسی پیچیدگیوں کے مشکل مراحل سے گزر کر اس خواب کو تعبیر دینے کے لیے جوہر قابل کی ضرورت تھی۔ دشمنان پاکستان بھٹو کے نعروں کا تمسخر اڑا رہے تھے، بھٹوکے شب و روز اسی پیج و تاب میں گزر رہے تھے مگر اللہ کی شان نرالی ہے، اللہ پاک وطن کی فضاؤں سے بہت دور مگر وطن کی مٹی کی محبت دل میں بسائے ایک انتہائی قابل اور ذہین نوجوان سائنس دان کو منتخب کرچکا تھا، جس نے اپنی غیر معمولی ذہانت کے باعث بہت ہی کم عرصے کے دوران انتہائی پیچیدہ سائنسی گتھیاں سلجھانے میں مہارت حاصل کرلی تھی، جو بالکل منفرد طریقے سے پاکستان کو ایٹمی طاقت بنانے کا فیصلہ کرچکا تھا۔
اسی لیے اس نے از خود بھٹو کو خط لکھا کہ وہ یہ عظیم کارنامہ سرانجام دے سکتا ہے۔ اس نے جو دعویٰ کیا وہ سچ کر دکھایا۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے پاکستان کو دنیا کی پہلی اسلامی ایٹمی قوت بناکر عظیم سائنسی کارنامہ انجام دیا ۔ ذوالفقار علی بھٹو نے ایٹمی پروگرام کی بنیاد رکھی، ضیاء الحق نے نہایت دلچسپی اور سرعت کے ساتھ اس منصوبے کو پایہ تکمیل تک پہنچایا اور پھر آخر میں 28مئی 1998میں ہر طرح کے دباؤ کو ٹھکراتے ہوئے میاں محمد نواز شریف نے ایٹمی دھماکے کر ڈالے۔
ایٹم بم کی تیاری کے ابتدائی حالات کا جائزہ لیا جائے تو اس وقت حالات انتہائی نامساعد تھے کیونکہ اس قسم کے کام کی تعلیم اور ٹریننگ نہ توکسی کالج اور یونیورسٹی میں دی جاتی ہے اور نہ ہی اس موضوع تک اس کے انتہائی خفیہ ہونے کی وجہ سے رسائی ممکن ہے۔ آج کل توکمپیوٹر اور انٹرنیٹ کی سہولت میسر ہے جس سے کام کا کچھ نہ کچھ آئیڈیا ہوجاتا ہے لیکن آج سے چالیس سال پہلے یہ چیزیں دسترس سے باہر تھیں حتیٰ کہ ایک تو فوٹوکاپی مشین تک نہیں تھی، ایک ٹوٹی پھوٹی فورڈ ویگن ٹرانسپورٹ تھی اور ایک تاریک اور بدبو دار کمرہ لیبارٹری تھا جس میں بیٹھنے کے لیے چارکرسیاں بھی پوری نہیں ہوتی تھیں۔ یہاں پر بیٹھ کرایٹمی سائنسدانوں نے ایٹم بم بنایا تھا۔ لوگوںکی طعن وتشنیع اس کے علاوہ تھی کہ ایک ملک میں جہاں توپ کا گولہ تک بنتا نہیں وہاں ایٹم بم کدھر سے بن جائے گا۔ گورنمنٹ کو بھی شاید یقین نہیں تھا کہ یہ کام ہوجائے گا اس وجہ سے فنڈز کی فراہمی بھی کوئی خاص نہیں تھی۔
اگر تھی تو ایک چیز اللہ تعالیٰ پر بھروسہ اور جذبہ صادق کہ یہ بقاء کی جنگ ہے اور اس جنگ کو لڑتے ہوئے یا تو ہم کامیاب ہوجائیں گے یا پھر مرمٹیں گے، اس کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں ہے۔ ان باتوں کا تذکرہ محض اس لیے کیا ہے کہ قوم کو یہ معلوم ہو کہ سائنسدانوں اور انجینئرز نے کتنی خاموشی سے انتہائی نامساعد حالات میں کام کیا ہے۔
ایٹمی دھماکے کرنے کے بعد بھی ہمارے جوہری ومیزائل ساز ادارے خواب خرگوش کے مزے نہیں لے رہے بلکہ وطن عزیز کے دفاع کو مضبوط سے مضبوط تر، ایٹمی اثاثہ جات کو جدید سے جدید تر، ایٹمی ہتھیاروں کے کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم کو موثر سے موثر تر بنانے کے لیے دن رات کوشاں ہیں۔ آج دنیا جانتی ہے کہ پاکستان نے ایٹم بم اپنے مایہ ناز سائنسدانوں کی انتھک کوششوں سے بالکل اپنے طور پر بنایا ہے جس میں کوئی غیر ملکی امداد یا عنصر شامل نہیں ہے۔ بم بنانے کے مرحلے کے بعد ایک انتہائی اہم مرحلہ نگہداشت اور ایک مربوط کمانڈ اورکنٹرول کا نظام بنانے کا تھا۔ 1998 سے لے کر آج 2016 کے اٹھارہ سال میں ہمارے اداروں نے نہایت انہماک کے ساتھ اس نظام کے ایک ایک پرزے کو جانفشانی سے نصب کیا، نتیجہ دیکھ لیجیے کہ مغربی خدشات کو باطل قرار دیتے ہوئے عالمی برادری نے حال ہی میں پاکستان کے ایٹمی پروگرام کو انتہائی محفوظ قرار دیا ہے۔
پاکستان ایک ترقی پذیر ملک ہے اور اقتصادی ترقی کے لیے بجلی کی پیداواری کمی کا شکار بھی ہے۔ چنانچہ عالمی ادارہ برائے ایٹمی توانائی کے تحفظات کے تحت ایٹمی بجلی کی پیداوار پاکستان کے بجلی کے پیداواری منصوبہ بندی کا لازمی حصہ ہے۔
پاکستان ایٹمی بجلی گھر چلانے کا تجربہ رکھتا ہے اور تربیت یافتہ ماہرین ومضبوط بچاؤوحفاظتی نظام کے ہوتے ہوئے بین الاقوامی سطح پر سول ایٹمی تعاون کے معیار پر پورا اترتا ہے۔ لٰہذا پاکستان کو بھی بلا تفریق ایٹمی بجلی کی پیداواری صلاحیت میں اضافے کے لیے بین الاقوامی تعاون حاصل ہونا چاہیے، ایٹمی ایندھن کی جدید پیداواری صلاحیت کے ساتھ پاکستان اس قابل ہے کہ ایٹمی ایندھن کی پیداواری خدمات پیش کرے اور عالمی سطح پر ایٹمی ایندھن کی رسد کو یقینی بنانے کے لیے کسی بھی غیر جانبدار نظام میں شامل ہو۔پاکستان اپنی قومی و بین الاقوامی ذمے داریوں کا مکمل ادراک رکھتا ہے اور انھیں پورا کرنے میں پرُ عزم بھی ہے، بدلتی ہوئی علاقائی صورتحال سے بھی غافل نہیں، لٰہذا ہر وہ قدم اٹھانے میں حق بجانب ہے جو پاکستان کی قومی سلامتی کو یقینی بنانے کے لیے ضروری ہوگا۔