سیاسی صف بندیوں کا آغاز
ساکنانِ شہرِ قائد کے چہروں پر خوف ہے، شہر میں ہر طرف بدامنی کا راج ہے اور قیمتی انسانی جانیں دہشت گردوں کا ہدف ہیں
غارت گر لمحے گویا زندگی کے تعاقب میں ہیں۔
ساکنانِ شہرِ قائد کے چہروں پر خوف نمایاں ہے، شہر میں ہر طرف بدامنی کا راج ہے اور قیمتی انسانی جانیں دہشت گردوں کا ہدف ہیں۔ حکم راں حلقوں کا اصرار ہے کہ کراچی میں بدامنی اور دہشت گردی کا سلسلہ دراصل پیپلز پارٹی کی حکومت کو نااہل ثابت کرنے اور کم زور بنانے کی سازش کا حصّہ ہے۔
پی پی پی کی مخالف سیاسی جماعتوں کو حکومتِ سندھ، کراچی میں قیامِ امن کے لیے سنجیدہ نظر نہیں آتی اور ان کے مطابق حکومت اپنی ذمے داریاں پوری کرنے میں ناکام ہو چکی ہے۔ ان حالات میں اگلے عام انتخابات کا شور بھی سنائی دے رہا ہے، جس کے لیے سیاسی محاذ پر مختلف جماعتوں نے اپنی صفیں درست کرنا شروع کر دی ہیں۔
تاہم محرم الحرام کی آمد پر پچھلے دنوں کے مقابلے میں سیاسی جماعتوں کی سرگرمیاں محدود ہو گئی ہیں، لیکن دس محرم الحرام کے بعد مقامی سیاست کے میدان اگلے عام انتخابات کے لیے سیاسی سرگرمیوں میں اضافہ ہو گا۔ اس سلسلے میں مختلف پارٹیوں کے راہ نماؤں کے دورے، عہدے داروں اور کارکنان سے ملاقاتیں اور تنظیمِ نو کے اعلانات کے ساتھ عوامی جلسے دیکھنے میں آئیں گے۔
پچھلے دنوں سیاسی اور باشعور عوامی حلقوں میں وفاقی وزیرِ داخلہ رحمٰن ملک کا کراچی میں موٹر سائیکل چلانے پر پابندی عاید کرنے اور چند گھنٹوں کے لیے موبائل فون سروس کی معطلی کا فیصلہ موضوعِ بحث رہا۔ اس پر عوام کی طرف سے شدید ردعمل دیکھنے میں آیا اور بعض سیاسی جماعتوں نے اس کی مخالفت کرتے ہوئے حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ امن و امان کی صورتِ حال بہتر بنانے اور دہشت گردوں کا قلع قمع کرنے کے لیے سنجیدہ اور فوری اقدامات کرے، اس طرح کی پابندیوں سے عوام کی مشکلات میں اضافہ ہو گا اور یہ حکومت اور متعلقہ اداروں کی نااہلی کا ثبوت اور ناکامی کا اظہار ہے۔ وفاقی وزیر کا وہ فیصلہ فوری عدالتی حکم کے بعد مؤثر نہیں رہا، لیکن موٹر سائیکل پر ڈبل سواری کی پابندی برقرار ہے۔چند روز تک پیپلز پارٹی کے مخالفین کے 'موٹر سائیکل' پر بیانات سے بھی سیاسی محاذ گرم رہا۔
گذشتہ دنوں کراچی میں جماعت اسلامی سندھ تنظیم نو کے عمل سے گزری، جس کا اعلان صوبائی امیر جماعت اسلامی، ڈاکٹر معراج الہدیٰ صدیقی نے کیا۔ جماعتِ اسلامی کے راہ نما ممتاز حسین سہتو کو جنرل سیکریٹری، جب کہ اسد اللہ بھٹو، ڈاکٹر ممتاز میمن، راشد نسیم، عبد الغفار عمر، محمد حسین محنتی کے نام سندھ کے نائب امراء کے طور پر سامنے آئے۔ ڈاکٹر معراج الہدیٰ صدیقی نے صوبائی شوریٰ کے ایک اجلاس کے بعد میڈیا کو بریفنگ دیتے ہوئے ان ناموں کا اعلان کیا۔
اجلاس کے بعد میڈیا کو بتایا گیا کہ عبدالوحید قریشی، حافظ نصر اللہ عزیز، علامہ حزب اللہ جکھرو، عبدالحفیظ بجارانی اور نواب مجاہد بلوچ جماعت اسلامی سندھ کے ڈپٹی جنرل سیکریٹریز مقرر کیے گئے ہیں۔ صوبائی مجلس شوریٰ کے اجلاس میں سندھ کی سیاسی، امن و امان کی صورتِ حال خصوصاً کراچی میں بڑھتی ہوئی قتل و غارت گری، انتخابی فہرستوں کے معاملے سمیت دیگر تنظیمی امور پر غور کیا گیا۔ صوبائی امیر ڈاکٹر معراج الہدیٰ صدیقی نے اس موقع پر کہا کہ جماعت اسلامی واحد دینی اور سیاسی جماعت ہے، جس میں ہر سطح پر قیادت کے لیے انتخابات کا عمل اراکین کی آراء اور مشورے سے انجام پاتا ہے۔
انھوں نے کہا کہ جماعت اسلامی آیندہ انتخابات میں بھرپور حصہ لے گی۔ انھوں نے کہا کہ امریکی اشاروں پر کراچی میں قتل و غارت گری اور مذہبی فسادات کی گھناؤنی سازشوں کو کام یاب نہیں ہونے دیں گے، حکم رانوں کی نااہلی کی وجہ سے کراچی سمیت پورا سندھ بد امنی کی آگ میں جل رہا ہے، صوبائی و مرکزی حکومت اپنے فرائض اور ذمے داریاں نبھانے میں ناکام ہو چکی ہے اور بوکھلاہٹ میں عوام کے لیے مزید اذیت ناک فیصلے کر رہی ہے۔ ڈاکٹر معراج الہدیٰ نے کہا کہ ہم کرپٹ قیادت سے نجات اور عوام کو مشکلات سے نکالنے کے لیے تمام مثبت سیاسی و دینی جماعتوں کے ساتھ مل کر تبدیلی کے ایجنڈے کے تحت انتخابی مہم چلائیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ دھاندلی سے انتخابی نتائج تبدیل کیے گئے تو اسے عوام اور سیاسی جماعتیں قبول نہیں کریں گی، الیکشن کمیشن کی ذمے داری ہے کہ وہ تمام سیاسی جماعتوں کے خدشات دور کرے۔
گذشتہ دنوں کراچی پریس کلب میں مختلف سیاسی جماعتوں کے راہ نماؤں نے مشترکہ پریس کانفرنس میں کراچی میں ووٹر لسٹوں سے متعلق اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ موجودہ حکومت کی ایک اتحادی جماعت کو اگلے عام انتخابات میں جتوانے کے لیے ناجائز اور غیر قانونی طریقے استعمال کیے جا رہے ہیں، جسے کسی صورت قبول نہیں کیا جائے گا اور اس کے خلاف بھرپور مزاحمت کریں گے۔ اس پریس کانفرنس میں جماعتِ اسلامی، ن لیگ، جے یو پی، جے یو آئی کے راہ نماؤں نے کہا کہ صوبائی الیکشن کمیشن من مانیاں کر رہا ہے اور الیکشن کمیشن آف پاکستان اس کے آگے بے بس نظر آتا ہے۔
تحریکِ صوبہ ہزارہ (سندھ) کے راہ نما الیاس تنولی نے اپنے ساتھیوں سمیت متحدہ قومی موومینٹ میں شمولیت کا اعلان کر دیا ہے۔ گذشتہ دنوں الیاس تنولی نے ایم کیو ایم کی رابطہ کمیٹی کے اراکین توصیف خانزادہ اور گل فراز خٹک سے خورشید بیگم سیکریٹریٹ میں ملاقات کی، جس میں انھوں نے ایم کیو ایم میں اپنی شمولیت کا اعلان کیا اور کہا کہ ایم کیو ایم، وہ واحد جماعت ہے، جس نے ہزارے وال برادری کے لیے آواز بلند کی اور ان کا ساتھ دیا۔ ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین نے مظلوموں کے لیے آواز بلند کر کے ان کے دل جیت لیے ہیں۔ اس موقع پر رابطہ کمیٹی کے اراکین نے شمولیت اختیار کرنے والے افراد سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ اپنے حقوق کی جدوجہد کے لیے قائد الطاف حسین نے ملک بھر کے مظلوم عوام کو مضبوط پلیٹ فارم مہیا کیا ہے اور وہ وقت دور نہیں جب عوام کی حمایت سے ایم کیو ایم ملک کی سب سے بڑی جماعت بن جائے گی۔
سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ شہر کے سیاسی حلقہ ہائے انتخاب میں آنے والے دنوں میں پیپلز پارٹی، متحدہ قومی موومینٹ، اے این پی، جماعتِ اسلامی، تحریکِ انصاف، سنی تحریک و دیگر سیاسی و مذہبی جماعتوں کے راہ نماؤں کے اجلاسوں اور امیدواروں کے عوامی رابطوں کی وجہ سے ہلچل نظر آئے گی، لیکن موجودہ حالات میں جہاں عام زندگی متأثر ہو رہی ہے، وہیں سیاست دانوں اور ان کے عوامی جلسوں کے دوران دہشت گردی کا خدشہ بھی ہے، جس کے منفی اثرات اگلے عام انتخابات کے لیے ووٹنگ کے عمل پر پڑ سکتے ہیں۔ ملک میں جمہوریت کے سفر کو آگے بڑھانے کے لیے عوام اسی صورت میں اپنے گھروں سے اسی صورت میں باہر آئیں گے، جب انھیں پُرامن ماحول اور حقِ رائے دہی کے استعمال کا آزادانہ موقع دیا جائے گا۔
ساکنانِ شہرِ قائد کے چہروں پر خوف نمایاں ہے، شہر میں ہر طرف بدامنی کا راج ہے اور قیمتی انسانی جانیں دہشت گردوں کا ہدف ہیں۔ حکم راں حلقوں کا اصرار ہے کہ کراچی میں بدامنی اور دہشت گردی کا سلسلہ دراصل پیپلز پارٹی کی حکومت کو نااہل ثابت کرنے اور کم زور بنانے کی سازش کا حصّہ ہے۔
پی پی پی کی مخالف سیاسی جماعتوں کو حکومتِ سندھ، کراچی میں قیامِ امن کے لیے سنجیدہ نظر نہیں آتی اور ان کے مطابق حکومت اپنی ذمے داریاں پوری کرنے میں ناکام ہو چکی ہے۔ ان حالات میں اگلے عام انتخابات کا شور بھی سنائی دے رہا ہے، جس کے لیے سیاسی محاذ پر مختلف جماعتوں نے اپنی صفیں درست کرنا شروع کر دی ہیں۔
تاہم محرم الحرام کی آمد پر پچھلے دنوں کے مقابلے میں سیاسی جماعتوں کی سرگرمیاں محدود ہو گئی ہیں، لیکن دس محرم الحرام کے بعد مقامی سیاست کے میدان اگلے عام انتخابات کے لیے سیاسی سرگرمیوں میں اضافہ ہو گا۔ اس سلسلے میں مختلف پارٹیوں کے راہ نماؤں کے دورے، عہدے داروں اور کارکنان سے ملاقاتیں اور تنظیمِ نو کے اعلانات کے ساتھ عوامی جلسے دیکھنے میں آئیں گے۔
پچھلے دنوں سیاسی اور باشعور عوامی حلقوں میں وفاقی وزیرِ داخلہ رحمٰن ملک کا کراچی میں موٹر سائیکل چلانے پر پابندی عاید کرنے اور چند گھنٹوں کے لیے موبائل فون سروس کی معطلی کا فیصلہ موضوعِ بحث رہا۔ اس پر عوام کی طرف سے شدید ردعمل دیکھنے میں آیا اور بعض سیاسی جماعتوں نے اس کی مخالفت کرتے ہوئے حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ امن و امان کی صورتِ حال بہتر بنانے اور دہشت گردوں کا قلع قمع کرنے کے لیے سنجیدہ اور فوری اقدامات کرے، اس طرح کی پابندیوں سے عوام کی مشکلات میں اضافہ ہو گا اور یہ حکومت اور متعلقہ اداروں کی نااہلی کا ثبوت اور ناکامی کا اظہار ہے۔ وفاقی وزیر کا وہ فیصلہ فوری عدالتی حکم کے بعد مؤثر نہیں رہا، لیکن موٹر سائیکل پر ڈبل سواری کی پابندی برقرار ہے۔چند روز تک پیپلز پارٹی کے مخالفین کے 'موٹر سائیکل' پر بیانات سے بھی سیاسی محاذ گرم رہا۔
گذشتہ دنوں کراچی میں جماعت اسلامی سندھ تنظیم نو کے عمل سے گزری، جس کا اعلان صوبائی امیر جماعت اسلامی، ڈاکٹر معراج الہدیٰ صدیقی نے کیا۔ جماعتِ اسلامی کے راہ نما ممتاز حسین سہتو کو جنرل سیکریٹری، جب کہ اسد اللہ بھٹو، ڈاکٹر ممتاز میمن، راشد نسیم، عبد الغفار عمر، محمد حسین محنتی کے نام سندھ کے نائب امراء کے طور پر سامنے آئے۔ ڈاکٹر معراج الہدیٰ صدیقی نے صوبائی شوریٰ کے ایک اجلاس کے بعد میڈیا کو بریفنگ دیتے ہوئے ان ناموں کا اعلان کیا۔
اجلاس کے بعد میڈیا کو بتایا گیا کہ عبدالوحید قریشی، حافظ نصر اللہ عزیز، علامہ حزب اللہ جکھرو، عبدالحفیظ بجارانی اور نواب مجاہد بلوچ جماعت اسلامی سندھ کے ڈپٹی جنرل سیکریٹریز مقرر کیے گئے ہیں۔ صوبائی مجلس شوریٰ کے اجلاس میں سندھ کی سیاسی، امن و امان کی صورتِ حال خصوصاً کراچی میں بڑھتی ہوئی قتل و غارت گری، انتخابی فہرستوں کے معاملے سمیت دیگر تنظیمی امور پر غور کیا گیا۔ صوبائی امیر ڈاکٹر معراج الہدیٰ صدیقی نے اس موقع پر کہا کہ جماعت اسلامی واحد دینی اور سیاسی جماعت ہے، جس میں ہر سطح پر قیادت کے لیے انتخابات کا عمل اراکین کی آراء اور مشورے سے انجام پاتا ہے۔
انھوں نے کہا کہ جماعت اسلامی آیندہ انتخابات میں بھرپور حصہ لے گی۔ انھوں نے کہا کہ امریکی اشاروں پر کراچی میں قتل و غارت گری اور مذہبی فسادات کی گھناؤنی سازشوں کو کام یاب نہیں ہونے دیں گے، حکم رانوں کی نااہلی کی وجہ سے کراچی سمیت پورا سندھ بد امنی کی آگ میں جل رہا ہے، صوبائی و مرکزی حکومت اپنے فرائض اور ذمے داریاں نبھانے میں ناکام ہو چکی ہے اور بوکھلاہٹ میں عوام کے لیے مزید اذیت ناک فیصلے کر رہی ہے۔ ڈاکٹر معراج الہدیٰ نے کہا کہ ہم کرپٹ قیادت سے نجات اور عوام کو مشکلات سے نکالنے کے لیے تمام مثبت سیاسی و دینی جماعتوں کے ساتھ مل کر تبدیلی کے ایجنڈے کے تحت انتخابی مہم چلائیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ دھاندلی سے انتخابی نتائج تبدیل کیے گئے تو اسے عوام اور سیاسی جماعتیں قبول نہیں کریں گی، الیکشن کمیشن کی ذمے داری ہے کہ وہ تمام سیاسی جماعتوں کے خدشات دور کرے۔
گذشتہ دنوں کراچی پریس کلب میں مختلف سیاسی جماعتوں کے راہ نماؤں نے مشترکہ پریس کانفرنس میں کراچی میں ووٹر لسٹوں سے متعلق اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ موجودہ حکومت کی ایک اتحادی جماعت کو اگلے عام انتخابات میں جتوانے کے لیے ناجائز اور غیر قانونی طریقے استعمال کیے جا رہے ہیں، جسے کسی صورت قبول نہیں کیا جائے گا اور اس کے خلاف بھرپور مزاحمت کریں گے۔ اس پریس کانفرنس میں جماعتِ اسلامی، ن لیگ، جے یو پی، جے یو آئی کے راہ نماؤں نے کہا کہ صوبائی الیکشن کمیشن من مانیاں کر رہا ہے اور الیکشن کمیشن آف پاکستان اس کے آگے بے بس نظر آتا ہے۔
تحریکِ صوبہ ہزارہ (سندھ) کے راہ نما الیاس تنولی نے اپنے ساتھیوں سمیت متحدہ قومی موومینٹ میں شمولیت کا اعلان کر دیا ہے۔ گذشتہ دنوں الیاس تنولی نے ایم کیو ایم کی رابطہ کمیٹی کے اراکین توصیف خانزادہ اور گل فراز خٹک سے خورشید بیگم سیکریٹریٹ میں ملاقات کی، جس میں انھوں نے ایم کیو ایم میں اپنی شمولیت کا اعلان کیا اور کہا کہ ایم کیو ایم، وہ واحد جماعت ہے، جس نے ہزارے وال برادری کے لیے آواز بلند کی اور ان کا ساتھ دیا۔ ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین نے مظلوموں کے لیے آواز بلند کر کے ان کے دل جیت لیے ہیں۔ اس موقع پر رابطہ کمیٹی کے اراکین نے شمولیت اختیار کرنے والے افراد سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ اپنے حقوق کی جدوجہد کے لیے قائد الطاف حسین نے ملک بھر کے مظلوم عوام کو مضبوط پلیٹ فارم مہیا کیا ہے اور وہ وقت دور نہیں جب عوام کی حمایت سے ایم کیو ایم ملک کی سب سے بڑی جماعت بن جائے گی۔
سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ شہر کے سیاسی حلقہ ہائے انتخاب میں آنے والے دنوں میں پیپلز پارٹی، متحدہ قومی موومینٹ، اے این پی، جماعتِ اسلامی، تحریکِ انصاف، سنی تحریک و دیگر سیاسی و مذہبی جماعتوں کے راہ نماؤں کے اجلاسوں اور امیدواروں کے عوامی رابطوں کی وجہ سے ہلچل نظر آئے گی، لیکن موجودہ حالات میں جہاں عام زندگی متأثر ہو رہی ہے، وہیں سیاست دانوں اور ان کے عوامی جلسوں کے دوران دہشت گردی کا خدشہ بھی ہے، جس کے منفی اثرات اگلے عام انتخابات کے لیے ووٹنگ کے عمل پر پڑ سکتے ہیں۔ ملک میں جمہوریت کے سفر کو آگے بڑھانے کے لیے عوام اسی صورت میں اپنے گھروں سے اسی صورت میں باہر آئیں گے، جب انھیں پُرامن ماحول اور حقِ رائے دہی کے استعمال کا آزادانہ موقع دیا جائے گا۔