صدر زرداری کا خیبر پختونخوا اسمبلی سے خطاب

اسفندیارولی خان ،صدر کے دورہ کے موقع پر پشاور میں ہونے کے باوجود چند قدموں کا فاصلہ طے کرکے خطاب سننے کو نہیں آئے۔


Shahid Hameed November 20, 2012
اے این پی کی پوری ٹیم صدر زرداری کے دورہ کے دوران پیپلز پارٹی ساتھ چل رہی تھی ۔ فوٹو: فائل

صدر آصف علی زرداری کے صوبائی اسمبلی سے خطاب کا شدت کے ساتھ انتظار کیاجارہا تھا۔

کیونکہ اس بات کی توقع کی جارہی تھی کہ آصف علی زرداری جو خیبرپختونخوا اسمبلی سے خطاب کرنے والے پہلے صدر ہیں وہ اپنے خطاب کے دوران صوبہ کی معاشی مشکلات اور امن وامان کی صورت حال کو پیش نظر رکھتے ہوئے بہت سے اقدامات کا اعلان کریں گے، تاہم صدر نے یہ خطاب پالیسی دینے کے لیے کیا او روہ بڑے واضح انداز میں پالیسی دے گئے ہیں کہ ملک کی بقاء صرف اور صرف جمہوریت ہی میں ہے اور اگر کسی کی توقع یہ ہے کہ جمہوریت سے ہٹ کر کسی دوسرے نظام میں ملک کی بقاء ہے تو یہ اس کی غلطی ہے۔

کیونکہ اگر کسی دوسرے نظام کی جانب دیکھا گیا تو اس کا نتیجہ عرب ممالک میں ہونے والی اس تبدیلی جیسا ہی ہوگا جو ایک تحریک کی شکل میں ایک کے بعد دوسرے ملک پہنچ رہی ہے اور اس تحریک کو عالمی قوتوں کی آشیرباد حاصل ہے ۔ صدر نے اپنی تقریر میں بڑے واضح انداز میں ان سازشوں کی جانب بھی اشارہ کردیا جو ایک عرصہ سے جاری ہیں اور جن کا مقصد ملک کے ٹکڑے کرتے ہوئے اسے تقسیم کرنا ہے، انہوںنے ان سازشوں کا جس طریقہ سے راستہ روکا اس بارے میں انہوں نے واضح کردیا کہ صوبوں کو اختیارات دینے ہی سے ان سازشوں کو ناکام کیاجاسکتا تھا اور اس کا ادراک کرتے ہوئے ہی صوبوں کو اختیارات دیئے گئے ہیں ۔

دہشت گردی اور عسکریت پسندی موجود بھی ہے اور اس کا نشانہ سابق امیر جماعت اسلامی قاضی حسین احمد جیسے لوگ بن بھی رہے ہیں اسی لیے صدر مملکت نے اپنی تقریر میں واضح کردیا کہ اس سوچ کو شکست دینا ہوگی کیونکہ یہ سوچ پاکستان پر قابض ہونے کی خواہاں ہے ۔ ان کی یہ بات اس بات کی غمازی کرتی ہے کہ نہ صرف دہشت گردموجود ہیں بلکہ وہ اب بھی اس کے لیے کوشاں ہیں کہ موجودہ نظام کو ختم کرتے ہوئے سارا کنٹرول اپنے ہاتھوں میں لے لیں۔

اسی لیے انہوں نے اس سوچ کو ختم کرنے اور پاکستان کو بچانے کی بات کی ہے جو بہت واضح انداز میں اس طرف اشارہ ہے کہ عسکریت پسندی کے خاتمے کے لیے جو کاروائیاں جاری ہیں وہ فی الحال اسی طرح جاری رہیں گی ،اس بات کا امکان ظاہر کیاجارہا تھا کہ صدر اپنے خطاب کے دوران شمالی وزیرستان میں آپریشن کے حوالے سے بھی ایوان کو اعتماد میں لیں گے تاہم صدر نے اپنے خطاب میں کئی امور کی جانب نہایت ہی سرسری انداز میں اشارہ کیاہے اور ایک مخصوص سوچ کو ختم کرتے ہوئے پاکستان بچانے کی بات کی جوعسکریت پسندوں کے خلاف مزید کاروائیوں کی طرف اشارہ ہے ۔

خیبرپختونخوا کے ملاکنڈ ڈویژن میں سوات اور دیگر اضلاع میں عسکریت پسندوں کے خلاف فوجی آپریشن ہوئے دو سال سے زائد عرصہ گزر چکا ہے لیکن وہاں اب بھی فوج موجود ہے جس کے بارے میں واضح طور پر حکومت کی جانب سے کچھ بھی نہیں کہاجارہا کہ فوج ان اضلاع سے کب جائے گی اور انتظام کب مکمل طور رپر سول انتظامیہ کے حوالے کیاجائے گا؟تاہم صدر نے اپنے خطاب کے دوران اس حوالے سے بھی واضح گائیڈ لائن دے دی ہے کہ حکومت پولیس اور اپنی سول انتظامیہ کو تیار کرے تاکہ وہ یہ انتظام سنبھال سکے کیونکہ فوج ہمیشہ کے لیے نہیں رہ سکتی۔

یقینی طور پر اس پالیسی کے انتظا رمیں صرف ملاکنڈ یا سوات کے بسنے والے منتظر نہیں تھے بلکہ صوبہ بھر کے عوام اس پالیسی کے انتظار میں تھے کیونکہ جب تک فوج ملاکنڈ ڈویژن میں ایکٹو حالت میں نظر آتی رہے گی یہ تاثر ملتا رہے گا کہ فوجی آپریشن جاری ہے۔ صدر کی جانب سے دی جانے والی گائیڈ لائنز کی روشنی میں اب یقینی طور پر اس سلسلے میں بھی پیش رفت ہوگی

چونکہ اٹھارویں ترمیم کے تحت صدر اپنے تمام تر اختیارات وزیراعظم کو منتقل کرچکے ہیں اس لیے صدر نے اپنے خطاب میں صوبہ کی تاجر اور صنعتکار برادری کے لیے مالیاتی پیکج میں دو سال کی توسیع دینے کے حوالے سے کوئی اعلان نہیں کیا تاہم یہ دلاسہ ضرور دیا کہ یہ مطالبہ مرکزی حکومت تک پہنچادیاجائے گا تاکہ وزیراعظم اس سلسلے میں اعلان کرسکیں ،یہ مطالبہ ایک متفقہ مطالبہ تھا کیونکہ اس سلسلے میں صوبائی اسمبلی پہلے ہی متفقہ قرارداد پاس کرچکی ہے تاہم اس سے ہٹ کر جس طریقہ سے صدر کی موجودگی میں جو مطالبات پیش کیے گئے انھیں دیکھتے ہوئے نہیں لگتا کہ اس سلسلے میں باقاعدہ طور پر کوئی ہوم ورک ہوا ہو یا حکومت نے اپوزیشن اور سپیکر صوبائی اسمبلی کو اعتماد میں لیا ہو ۔

یوں تو عوامی نیشنل پارٹی کی پوری کی پوری حکومتی ٹیم صدر کے دورہ کے دوران منظر میں ان تھی اورپیپلز پارٹی کے قدم سے قدم ملا کر چل رہی تھی تاہم دونوں پارٹیوں کے درمیان آئندہ عام انتخابات کے حوالے سے راہیں جدا کرنے کے جو بیانات سامنے آچکے ہیں ان کی وجہ سے ایک کھچائو واضح طور پر دیکھنے کو نظر آیا ،اے این پی کے سربراہ اسفندیارولی خان ،صدر کے دورہ کے موقع پر پشاور میں ہونے کے باوجود وزیراعلیٰ ہائوس سے اسمبلی تک چند قدموں کا فاصلہ طے کرکے خطاب سننے کو نہیں آئے، نہ ہی صدر نے اپنے خطاب میں اے این پی کو اس انداز میں دہشت گردی کے خلاف اقدامات پر خراج تحسین پیش کیا جس کی وہ توقع کررہے تھے۔

صدر نے صوبائی اسمبلی سے اپنے خطاب میں جے یو آئی(ف)کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن سے سیاست سیکھنے اور آفتاب شیر پائو کے صاحبزادے سکندر شیر پائو کی اسمبلی ایوان میں موجودگی کو خوش آئند یونہی نہیں قراردیا بلکہ اس کے پیچھے کہیں ان کی ان دونوں پارٹیوں سے آئندہ انتخابات میں ایڈجیسٹمنٹ کرنے کی خواہش چھپی ہوئی تھی جسے ان کی صوبائی ٹیم آئندہ عام انتخابات کے موقع پر عملی جامہ پہنانے کی کوشش کرے گی ۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں