وزیراعلیٰ بلوچستان پر صوبائی اراکین اسمبلی کا اظہار اعتماد
اسلم رئیسانی نے اعتماد کا ووٹ لے کر سیاسی بحران کم کرنے کی کوشش کی لیکن بحران سپریم کورٹ کے فیصلے تک ختم نہیں ہوگا۔
سپریم کورٹ کے عبوری حکم کے بعد بلوچستان حکومت کی آئینی حیثیت کے حوالے سے مختلف قیاس آرائیوں کے ساتھ ہی بلوچستان اسمبلی کا ریکوزیشن پر بلایا گیا۔
اجلاس13 نومبر کو منعقد ہوا جس میں وزیراعلیٰ بلوچستان نواب اسلم رئیسانی نے ایوان سے اعتماد کا ووٹ حاصل کیا ۔ 12 نومبر کو بلوچستان اسمبلی کے اراکین نے قائم مقام اسپیکر سید مطیع اﷲ آغا کو اجلاس بلانے کی درخواست پیش کی تھی جس پر انھوں نے 13 نومبر کی شام4 بجے بلوچستان اسمبلی کا اجلاس طلب کرلیا۔ اجلاس میں وزیراعلیٰ بلوچستان سمیت متعدد اراکین نے ایوان میں مشترکہ قرار داد پیش کی جس میں صوبے کی مجموعی صورتحال بالخصوص امن و امان پر اراکین نے بحث کی۔
اس قرار داد کی منظوری کے فوری بعد بی این پی عوامی کے پارلیمانی لیڈر سید احسان شاہ نے وزیراعلیٰ بلوچستان نواب محمد اسلم خان رئیسانی پر اعتماد کے حوالے سے ایوان میں قرار داد پیش کی جس پر قائم مقام اسپیکر سید مطیع اﷲ آغا نے رائے شماری کرائی تو64 کے ایوان میں قرار داد کے حق میں44 ووٹ آئے اور اس طرح وزیراعلیٰ بلوچستان نے اعتماد کا ووٹ حاصل کرلیا ۔ بعد ازاں قائم مقام اسپیکر نے اسمبلی کا اجلاس غیر معینہ مدت کیلئے ملتوی کردیا۔ اسمبلی اجلاس کے بعد وزیراعلیٰ نواب محمد اسلم رئیسانی نے میڈیا کے ساتھ بات چیت کے دوران ان اراکین کا شکریہ ادا کیا جنہوں نے ان کے حق میں اعتماد کا ووٹ دیا۔
وزیراعلیٰ بلوچستان نواب اسلم رئیسانی نے اعتماد کا ووٹ حاصل کرکے اس صوبے میں جاری سیاسی بحران کو کم کرنے کی کوشش تو کی لیکن بحران سپریم کورٹ کے فیصلے تک ختم نہیں ہوگا ۔ دوسری طرف پیپلز پارٹی بلوچستان کے صدر میر صادق عمرانی نے بھی پیپلز پارٹی کی صوبائی کونسل کا اجلاس اسی روز کوئٹہ میں طلب کیا جس میں صوبے بھر سے صوبائی کونسل کے اراکین کے علاوہ دو صوبائی وزراء جان علی چنگیزی اور غزالہ گولہ نے بھی شرکت کی۔
اجلاس میں میر صادق عمرانی نے ایک قرار داد پیش کی جس میں وزیراعلیٰ بلوچستان پر عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ کے عبوری حکم کے بعد اب حکومت کی آئینی حیثیت نہیں رہی اور اسمبلی کا اجلاس بلانا بھی غیر آئینی ہے لہٰذا وزیراعلیٰ کو برطرف کرکے صوبے میں گورنر راج نافذ کیا جائے۔ صوبائی کونسل نے یہ قرار داد منظور کرلی۔ پیپلز پارٹی کے بعض اراکین اور صوبائی کونسل کے اس فیصلے نے صوبے کو ایک مرتبہ پھر سیاسی بحران میں مبتلا کردیا ہے ۔ قائم مقام گورنر محمد اسلم بھوتانی جو سپیکر بلوچستان اسمبلی بھی ہیں ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کی باتیں سامنے آرہی ہیں۔
وزیراعلیٰ بلوچستان نے بھی میڈیا کے ساتھ بات چیت کے دوران اسپیکر کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کے حوالے سے کہا کہ اس حوالے سے کوئی بھی فیصلہ صوبائی حکومت میں شامل اتحادی جماعتوں کے ساتھ صلاح و مشورے کے بعد کیا جائے گا۔ بعض سیاسی حلقوں کا دعویٰ ہے کہ بلوچستان حکومت نے سپیکر کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لانے کا اصولی فیصلہ کرلیا ہے اور یہ بھی طے کرلیا گیا ہے کہ تحریک عدم اعتماد کامیاب ہونے کی صورت میں سپیکر شپ مخلوط حکومت میں شامل اتحادی جماعت مسلم لیگ (ق) کو دے دی جائے گی جس کیلئے جعفر خان مندوخیل مضبوط اُمیدوار ہوسکتے ہیں۔
بلوچستان میں جاری اس بحران کو ختم کرنے کیلئے وفاقی حکومت نے بھی کوششیں شروع کردی ہیں اس حوالے سے وزیراعظم راجہ پرویز اشرف نے وزیراعلیٰ بلوچستان سے بھی رابطہ کیا اور وزیراعلیٰ اور ان کے ساتھیوں کو اسلام آباد بلایا ۔ اسلام آباد میں19 نومبر کو وزیراعلیٰ نواب محمد اسلم رئیسانی کی زیر صدارت صوبائی مخلوط حکومت میں شامل جماعتوں کے مشترکہ پارلیمانی گروپ کا غیر معمولی اجلاس منعقد ہوا۔ دوسری طرف پیپلز پارٹی کے صوبائی صدر میر صادق عمرانی نے پارلیمانی گروپ کے اس اجلاس کو بھی غیر آئینی قرار دیا ہے۔
ان کا موقف ہے کہ سپریم کورٹ کے عبوری حکم کے بعد حکومت اپنی آئینی حیثیت کھوچکی ہے اس لئے اسمبلی کا اجلاس ہو یا کوئی اور اجلاس غیر آئینی ہے ۔یہ سطور چھپنے سے قبل بلوچستان کے حوالے سے سپریم کورٹ میں20 نومبر کیس کی سماعت بھی ہوچکی ہوگی وزیراعلیٰ بلوچستان اور ان کے اتحادیوں نے سپریم کورٹ میں پیش ہونے کا فیصلہ بھی کرلیا ہے۔ سپریم کورٹ کا اس حوالے سے کیا فیصلہ آتا ہے وہ بعد میں معلوم ہوگا اگرچہ بلوچستان میں سیاسی بحران بدستور موجود ہے لیکن سیاسی حلقے وزیراعلیٰ بلوچستان کے بھائی بلوچستان متحدہ محاذ کے سربراہ نوابزادہ میر سراج رئیسانی اور قائم مقام گورنر و سپیکر بلوچستان اسمبلی محمد اسلم بھوتانی کی کراچی میں ہونے والی ملاقات کو بھی اہمیت دے رہے ہیں ۔
اجلاس13 نومبر کو منعقد ہوا جس میں وزیراعلیٰ بلوچستان نواب اسلم رئیسانی نے ایوان سے اعتماد کا ووٹ حاصل کیا ۔ 12 نومبر کو بلوچستان اسمبلی کے اراکین نے قائم مقام اسپیکر سید مطیع اﷲ آغا کو اجلاس بلانے کی درخواست پیش کی تھی جس پر انھوں نے 13 نومبر کی شام4 بجے بلوچستان اسمبلی کا اجلاس طلب کرلیا۔ اجلاس میں وزیراعلیٰ بلوچستان سمیت متعدد اراکین نے ایوان میں مشترکہ قرار داد پیش کی جس میں صوبے کی مجموعی صورتحال بالخصوص امن و امان پر اراکین نے بحث کی۔
اس قرار داد کی منظوری کے فوری بعد بی این پی عوامی کے پارلیمانی لیڈر سید احسان شاہ نے وزیراعلیٰ بلوچستان نواب محمد اسلم خان رئیسانی پر اعتماد کے حوالے سے ایوان میں قرار داد پیش کی جس پر قائم مقام اسپیکر سید مطیع اﷲ آغا نے رائے شماری کرائی تو64 کے ایوان میں قرار داد کے حق میں44 ووٹ آئے اور اس طرح وزیراعلیٰ بلوچستان نے اعتماد کا ووٹ حاصل کرلیا ۔ بعد ازاں قائم مقام اسپیکر نے اسمبلی کا اجلاس غیر معینہ مدت کیلئے ملتوی کردیا۔ اسمبلی اجلاس کے بعد وزیراعلیٰ نواب محمد اسلم رئیسانی نے میڈیا کے ساتھ بات چیت کے دوران ان اراکین کا شکریہ ادا کیا جنہوں نے ان کے حق میں اعتماد کا ووٹ دیا۔
وزیراعلیٰ بلوچستان نواب اسلم رئیسانی نے اعتماد کا ووٹ حاصل کرکے اس صوبے میں جاری سیاسی بحران کو کم کرنے کی کوشش تو کی لیکن بحران سپریم کورٹ کے فیصلے تک ختم نہیں ہوگا ۔ دوسری طرف پیپلز پارٹی بلوچستان کے صدر میر صادق عمرانی نے بھی پیپلز پارٹی کی صوبائی کونسل کا اجلاس اسی روز کوئٹہ میں طلب کیا جس میں صوبے بھر سے صوبائی کونسل کے اراکین کے علاوہ دو صوبائی وزراء جان علی چنگیزی اور غزالہ گولہ نے بھی شرکت کی۔
اجلاس میں میر صادق عمرانی نے ایک قرار داد پیش کی جس میں وزیراعلیٰ بلوچستان پر عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ کے عبوری حکم کے بعد اب حکومت کی آئینی حیثیت نہیں رہی اور اسمبلی کا اجلاس بلانا بھی غیر آئینی ہے لہٰذا وزیراعلیٰ کو برطرف کرکے صوبے میں گورنر راج نافذ کیا جائے۔ صوبائی کونسل نے یہ قرار داد منظور کرلی۔ پیپلز پارٹی کے بعض اراکین اور صوبائی کونسل کے اس فیصلے نے صوبے کو ایک مرتبہ پھر سیاسی بحران میں مبتلا کردیا ہے ۔ قائم مقام گورنر محمد اسلم بھوتانی جو سپیکر بلوچستان اسمبلی بھی ہیں ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کی باتیں سامنے آرہی ہیں۔
وزیراعلیٰ بلوچستان نے بھی میڈیا کے ساتھ بات چیت کے دوران اسپیکر کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کے حوالے سے کہا کہ اس حوالے سے کوئی بھی فیصلہ صوبائی حکومت میں شامل اتحادی جماعتوں کے ساتھ صلاح و مشورے کے بعد کیا جائے گا۔ بعض سیاسی حلقوں کا دعویٰ ہے کہ بلوچستان حکومت نے سپیکر کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لانے کا اصولی فیصلہ کرلیا ہے اور یہ بھی طے کرلیا گیا ہے کہ تحریک عدم اعتماد کامیاب ہونے کی صورت میں سپیکر شپ مخلوط حکومت میں شامل اتحادی جماعت مسلم لیگ (ق) کو دے دی جائے گی جس کیلئے جعفر خان مندوخیل مضبوط اُمیدوار ہوسکتے ہیں۔
بلوچستان میں جاری اس بحران کو ختم کرنے کیلئے وفاقی حکومت نے بھی کوششیں شروع کردی ہیں اس حوالے سے وزیراعظم راجہ پرویز اشرف نے وزیراعلیٰ بلوچستان سے بھی رابطہ کیا اور وزیراعلیٰ اور ان کے ساتھیوں کو اسلام آباد بلایا ۔ اسلام آباد میں19 نومبر کو وزیراعلیٰ نواب محمد اسلم رئیسانی کی زیر صدارت صوبائی مخلوط حکومت میں شامل جماعتوں کے مشترکہ پارلیمانی گروپ کا غیر معمولی اجلاس منعقد ہوا۔ دوسری طرف پیپلز پارٹی کے صوبائی صدر میر صادق عمرانی نے پارلیمانی گروپ کے اس اجلاس کو بھی غیر آئینی قرار دیا ہے۔
ان کا موقف ہے کہ سپریم کورٹ کے عبوری حکم کے بعد حکومت اپنی آئینی حیثیت کھوچکی ہے اس لئے اسمبلی کا اجلاس ہو یا کوئی اور اجلاس غیر آئینی ہے ۔یہ سطور چھپنے سے قبل بلوچستان کے حوالے سے سپریم کورٹ میں20 نومبر کیس کی سماعت بھی ہوچکی ہوگی وزیراعلیٰ بلوچستان اور ان کے اتحادیوں نے سپریم کورٹ میں پیش ہونے کا فیصلہ بھی کرلیا ہے۔ سپریم کورٹ کا اس حوالے سے کیا فیصلہ آتا ہے وہ بعد میں معلوم ہوگا اگرچہ بلوچستان میں سیاسی بحران بدستور موجود ہے لیکن سیاسی حلقے وزیراعلیٰ بلوچستان کے بھائی بلوچستان متحدہ محاذ کے سربراہ نوابزادہ میر سراج رئیسانی اور قائم مقام گورنر و سپیکر بلوچستان اسمبلی محمد اسلم بھوتانی کی کراچی میں ہونے والی ملاقات کو بھی اہمیت دے رہے ہیں ۔