صدرزرداری کی پنجاب میں کامیاب رابطہ مہم
صدر آصف زرداری کے منڈی بہاؤالدین جلسے سے خطاب کے بعد ان کے دو عہدوں کے بارے بحث میں بھی کافی گرمی پیدا ہوگئی ہے۔
صدر آصف زرداری نے ایوان صدر سے باہر بھرپور سر گرمیاں شروع کر دی ہیں اور اس رابطہ مہم کاآغاز پنجاب میں پیپلزپارٹی کے گڑھ منڈی بہاؤالدین میں بڑے عید ملن جلسے سے کیا ہے ۔اس کا اہتمام پیپلزپارٹی سے گہری وابستگی رکھنے والے گوندل برادران نے کیا جنہوں نے پرویز مشرف دور میں بھی ڈٹ کر پارٹی کا ساتھ دیا تھا ۔
پنجاب کے اس اہم سیاسی گھرانے کے چار افراد قومی و صوبائی اسمبلی کے ممبران ہیں۔ ان میں وفاقی وزیر نذر محمد گوندل، پنجاب اسمبلی میں پیپلزپارٹی کے پارلیمانی لیڈر میجر (ر) ذوالفقار گوندل، قومی اسمبلی کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے چیئرمین ندیم افضل چن اور رکن صوبائی اسمبلی وسیم افضل چن شامل ہیں۔
ان کا دعویٰ ہے کہ منڈی بہاؤالدین صدر زرداری کے جلسے میں تقریباً ایک لاکھ افراد شریک تھے اور یہ صرف قومی اسمبلی کے دو حلقوں کا جلسہ تھا۔ میجر(ر) ذوالفقار گوندل کے مطابق مسلم لیگ(ن) کے صدر نواز شریف اور نائب وزیراعظم چوہدری پرویز الٰہی سمیت دیگر اہم سیاسی شخصیات اور مقامی قیادت کو بھی اس عید ملن جلسے میں مدعو کیا گیا تھا۔ چوہدری پرویز الٰہی وہاڑی میں پارٹی مصروفیات کے باعث شریک نہیں ہوسکے۔ میاں نواز شریف کیوں نہیں آئے، اس کی وجہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے۔ ملکوال میں جلسے سے خطاب کرکے صدر زرداری نے پنجاب میں طبل جنگ بجا دیا ہے اور مدمقابل سیاسی قوتوں کو احساس دلایا ہے کہ پیپلز پارٹی پنجاب میں پوری آب وتاب سے زندہ ہے ۔
پنجاب کے دیگرشہروں میں بھی ایسے ہی جاندار جلسوں کے پروگرام بنائے جارہے ہیں ۔ صدر آصف زرداری کے منڈی بہاؤالدین جلسے سے خطاب کے بعد ان کے دو عہدوں کے بارے بحث میں بھی کافی گرمی پیدا ہوگئی ہے۔ سپریم کورٹ ، اسلام آباد اور لاہور ہائیکورٹ میں اس حوالے سے پٹیشنز بھی دائر ہیں۔ سپریم کورٹ نے اصغر خان کیس میں جو فیصلہ دیا ہے، اس میں 50سے زائد صفحات صدر کے سیاسی کردار پر ہیں۔ اب وفاق نے اصغر خان کیس کے فیصلے پر نظر ثانی کی اپیل دائر کردی ہے۔ اس کیس میں اصغر خان نے پٹیشن اس وقت کے صدر غلام اسحٰق خان کے خلاف دائر کی مگر فیصلہ پاکستان کے موجودہ صدر آصف زرداری کے خلاف دیا گیا۔
صدر زرداری کو اس کیس میں فریق نہیں بنایا گیا اور انہیں سنا بھی نہیں گیا جس پر پیپلزپارٹی کے تحفظات ہیں۔ پیپلزپارٹی سمجھ رہی کہ عدالت عظمیٰ کے فیصلے میں صدر زرداری کو اس لیے لپیٹا جارہا ہے کہ کسی طریقے سے انہیں انتخابی مہم سے الگ کیا جائے۔ ادھر پیپلزپارٹی کی مجبوری یہ ہے کہ اس کے پاس صدر زرداری کے سوا کوئی ایسی شخصیت نہیں جوآئندہ الیکشن میں ہنگامہ خیز اور طوفانی انتخابی مہم چلاسکے۔کچھ حلقوں کا خیال ہے کہ دو عہدوں کے کیس میں صدر فارغ ہوجائیں گے ، حالانکہ ایسا نہیں ہے، صدر کو صرف پارلیمنٹ مواخذے کے ذریعے ہی ہٹا سکتی ہے، اس کے سواکسی اور طریقے سے صدر کو نہیں نکالا جاسکتا ۔
پیپلزپارٹی کا مؤقف ہے کہ اس وقت پیپلزپارٹی پارلیمنٹیرین حکومت میں ہے اور صدر زرداری پیپلزپارٹی پارلیمنیٹیرین کے سربراہ نہیں بلکہ مخدوم امین فہیم صدر اور راجہ پرویز اشرف جنرل سیکریٹری ہیں۔ جس پیپلز پارٹی کے شریک چیرمین صدر آصف علی زرداری ہیں ، وہ الیکشن کمیشن میں رجسٹر ہی نہیں ہے۔ایک اور نکتہ یہ بھی ہے کہ آئین میں کہیں نہیں لکھا کہ صدر سیاسی سرگرمیوں میں حصہ نہیں لے سکتا۔ برطانیہ کی مثال دی جارہی ہے لیکن وہاں تو بادشاہ یا ملکہ ہے جبکہ پاکستان کا منتخب صدر سیاسی ہوتا ہے اور وہ انتخانی عمل کے ذریعے منتخب ہوتا ہے، لہذا جو صدر سیاسی عمل سے گزر کر عہدہ حاصل کرتا ہے وہ سیاسی ہی ہوگا ۔
رفیق تارڑ اور چوہدری فضل الٰہی بھی غیر سیاسی صدر نہیں تھے۔ صدر زرداری نے کبھی پارٹی عہدہ چھوڑنے کا عندیہ نہیں دیا تاہم پیپلزپارٹی نے الیکشن مہم کیلئے متبادل حکمت عملی بھی تیار کرلی ہے جس کے مطابق شمالی پنجاب میں وزیراعظم راجہ پرویز اشرف جنوبی پنجاب میں سابق وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی اور وسطی پنجاب میں میاں منظور احمد وٹو انتخابی مہم کے انچارج ہوں گے۔ پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو اور بختاور سندھ میں انتخابی مہم چلائیں گے جبکہ انور سیف اﷲ خیبر پختونخواہ میں پیپلزپارٹی کی انتخابی مہم کے انچارج ہوں گے۔
پنجاب میں 25سال سے پیپلزپارٹی کی حکومت نہیں بن سکی۔ ماضی میں اس کی ایک وجہ میاں منظور احمد وٹو بھی تھے، وہ مسلم لیگ(جونیجو گروپ ) کے 18ارکان سے وزیراعلیٰ بن گئے تھے۔اب وہ پنجاب میں چوہدری برادران سے مل کر شریف برادران کا مقابلہ کریں گے۔ میاں منظور وٹو ٹھنڈے مزاج کے ہیں جبکہ پیپلزپارٹی ، جیالا پن، نعرے اور شور شرابے والے کلچر کی پارٹی ہے، انہیں ایسی سرگرمیاں کرنی چاہئیں جس سے یہ تاثر ملے کہ وہ پیپلزپارٹی کے کلچر میں رچ بس گئے ہیں۔ انہیں پارٹی کارکنوں اور قیادت میں فاصلے ختم کرنے کیلئے رہنماکردار ادا کرنا ہوگا۔ اب الیکشن میں زیادہ وقت نہیں ہے، اس لئے وہ انتظار کرنے کے بجائے پارٹی کے پرانے سینئر افراد سے ملنے کے پروگرام ضرور بنائیں۔
پنجاب کے اس اہم سیاسی گھرانے کے چار افراد قومی و صوبائی اسمبلی کے ممبران ہیں۔ ان میں وفاقی وزیر نذر محمد گوندل، پنجاب اسمبلی میں پیپلزپارٹی کے پارلیمانی لیڈر میجر (ر) ذوالفقار گوندل، قومی اسمبلی کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے چیئرمین ندیم افضل چن اور رکن صوبائی اسمبلی وسیم افضل چن شامل ہیں۔
ان کا دعویٰ ہے کہ منڈی بہاؤالدین صدر زرداری کے جلسے میں تقریباً ایک لاکھ افراد شریک تھے اور یہ صرف قومی اسمبلی کے دو حلقوں کا جلسہ تھا۔ میجر(ر) ذوالفقار گوندل کے مطابق مسلم لیگ(ن) کے صدر نواز شریف اور نائب وزیراعظم چوہدری پرویز الٰہی سمیت دیگر اہم سیاسی شخصیات اور مقامی قیادت کو بھی اس عید ملن جلسے میں مدعو کیا گیا تھا۔ چوہدری پرویز الٰہی وہاڑی میں پارٹی مصروفیات کے باعث شریک نہیں ہوسکے۔ میاں نواز شریف کیوں نہیں آئے، اس کی وجہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے۔ ملکوال میں جلسے سے خطاب کرکے صدر زرداری نے پنجاب میں طبل جنگ بجا دیا ہے اور مدمقابل سیاسی قوتوں کو احساس دلایا ہے کہ پیپلز پارٹی پنجاب میں پوری آب وتاب سے زندہ ہے ۔
پنجاب کے دیگرشہروں میں بھی ایسے ہی جاندار جلسوں کے پروگرام بنائے جارہے ہیں ۔ صدر آصف زرداری کے منڈی بہاؤالدین جلسے سے خطاب کے بعد ان کے دو عہدوں کے بارے بحث میں بھی کافی گرمی پیدا ہوگئی ہے۔ سپریم کورٹ ، اسلام آباد اور لاہور ہائیکورٹ میں اس حوالے سے پٹیشنز بھی دائر ہیں۔ سپریم کورٹ نے اصغر خان کیس میں جو فیصلہ دیا ہے، اس میں 50سے زائد صفحات صدر کے سیاسی کردار پر ہیں۔ اب وفاق نے اصغر خان کیس کے فیصلے پر نظر ثانی کی اپیل دائر کردی ہے۔ اس کیس میں اصغر خان نے پٹیشن اس وقت کے صدر غلام اسحٰق خان کے خلاف دائر کی مگر فیصلہ پاکستان کے موجودہ صدر آصف زرداری کے خلاف دیا گیا۔
صدر زرداری کو اس کیس میں فریق نہیں بنایا گیا اور انہیں سنا بھی نہیں گیا جس پر پیپلزپارٹی کے تحفظات ہیں۔ پیپلزپارٹی سمجھ رہی کہ عدالت عظمیٰ کے فیصلے میں صدر زرداری کو اس لیے لپیٹا جارہا ہے کہ کسی طریقے سے انہیں انتخابی مہم سے الگ کیا جائے۔ ادھر پیپلزپارٹی کی مجبوری یہ ہے کہ اس کے پاس صدر زرداری کے سوا کوئی ایسی شخصیت نہیں جوآئندہ الیکشن میں ہنگامہ خیز اور طوفانی انتخابی مہم چلاسکے۔کچھ حلقوں کا خیال ہے کہ دو عہدوں کے کیس میں صدر فارغ ہوجائیں گے ، حالانکہ ایسا نہیں ہے، صدر کو صرف پارلیمنٹ مواخذے کے ذریعے ہی ہٹا سکتی ہے، اس کے سواکسی اور طریقے سے صدر کو نہیں نکالا جاسکتا ۔
پیپلزپارٹی کا مؤقف ہے کہ اس وقت پیپلزپارٹی پارلیمنٹیرین حکومت میں ہے اور صدر زرداری پیپلزپارٹی پارلیمنیٹیرین کے سربراہ نہیں بلکہ مخدوم امین فہیم صدر اور راجہ پرویز اشرف جنرل سیکریٹری ہیں۔ جس پیپلز پارٹی کے شریک چیرمین صدر آصف علی زرداری ہیں ، وہ الیکشن کمیشن میں رجسٹر ہی نہیں ہے۔ایک اور نکتہ یہ بھی ہے کہ آئین میں کہیں نہیں لکھا کہ صدر سیاسی سرگرمیوں میں حصہ نہیں لے سکتا۔ برطانیہ کی مثال دی جارہی ہے لیکن وہاں تو بادشاہ یا ملکہ ہے جبکہ پاکستان کا منتخب صدر سیاسی ہوتا ہے اور وہ انتخانی عمل کے ذریعے منتخب ہوتا ہے، لہذا جو صدر سیاسی عمل سے گزر کر عہدہ حاصل کرتا ہے وہ سیاسی ہی ہوگا ۔
رفیق تارڑ اور چوہدری فضل الٰہی بھی غیر سیاسی صدر نہیں تھے۔ صدر زرداری نے کبھی پارٹی عہدہ چھوڑنے کا عندیہ نہیں دیا تاہم پیپلزپارٹی نے الیکشن مہم کیلئے متبادل حکمت عملی بھی تیار کرلی ہے جس کے مطابق شمالی پنجاب میں وزیراعظم راجہ پرویز اشرف جنوبی پنجاب میں سابق وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی اور وسطی پنجاب میں میاں منظور احمد وٹو انتخابی مہم کے انچارج ہوں گے۔ پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو اور بختاور سندھ میں انتخابی مہم چلائیں گے جبکہ انور سیف اﷲ خیبر پختونخواہ میں پیپلزپارٹی کی انتخابی مہم کے انچارج ہوں گے۔
پنجاب میں 25سال سے پیپلزپارٹی کی حکومت نہیں بن سکی۔ ماضی میں اس کی ایک وجہ میاں منظور احمد وٹو بھی تھے، وہ مسلم لیگ(جونیجو گروپ ) کے 18ارکان سے وزیراعلیٰ بن گئے تھے۔اب وہ پنجاب میں چوہدری برادران سے مل کر شریف برادران کا مقابلہ کریں گے۔ میاں منظور وٹو ٹھنڈے مزاج کے ہیں جبکہ پیپلزپارٹی ، جیالا پن، نعرے اور شور شرابے والے کلچر کی پارٹی ہے، انہیں ایسی سرگرمیاں کرنی چاہئیں جس سے یہ تاثر ملے کہ وہ پیپلزپارٹی کے کلچر میں رچ بس گئے ہیں۔ انہیں پارٹی کارکنوں اور قیادت میں فاصلے ختم کرنے کیلئے رہنماکردار ادا کرنا ہوگا۔ اب الیکشن میں زیادہ وقت نہیں ہے، اس لئے وہ انتظار کرنے کے بجائے پارٹی کے پرانے سینئر افراد سے ملنے کے پروگرام ضرور بنائیں۔