جعلی شناختی کارڈز کی روک تھام لازم ہے

پاکستان کےعام شہریوں کےلیےتوشناختی کارڈ اور پاسپورٹ بنوانا پہلے ہی مشکل کام ہے انھیں گھنٹوں لائنوں میں لگنا پڑتا ہے


Editorial May 29, 2016
جعلی شناختی کارڈز بنوانے والوں، ان کی تصدیق کرنے والوں کی سرکوبی وقت کا اہم ترین تقاضا ہے فوٹو؛ فائل

لاہور: گزشتہ دنوں بلوچستان میں امریکی ڈرون حملے میں افغان طالبان کے سربراہ ملا منصور اختر کی ہلاکت اور ان کے پاس سے پاکستانی شناختی کارڈ کی برآمدگی سے حکومتی حلقوں میں تشویش کی لہر دوڑ گئی اور وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کو گزشتہ روز ایک ہنگامی پریس کانفرنس میں تفصیلی وضاحت پیش کرنا پڑی۔

اسلام آباد کے نادرا ہیڈ کوارٹرز میں خطاب کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ جعلی شناختی کارڈز اور جعلی پاسپورٹس کا مسئلہ پاکستان کی سالمیت کا معاملہ ہے، اس گھمبیر مسئلے کو ٹھیک کرنے کے لیے ہنگامی اقدامات کر رہے ہیں۔ گو اس سوال پر مختلف حلقوں کی طرف سے شدید حیرت کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ جب امریکی ڈرون سے چلائے جانے والے ''ہیل فائر'' میزائل سے ٹیکسی کار مکمل طور پر جل گئی اور انسانی لاشیں کوئلہ بن گئیں تو ملا منصور کا پاکستانی شناختی کارڈ کس طرح بغیر کوئی خراش آئے بچ گیا جو نام بدل کر بنوایا گیا تھا۔

بہرحال وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے آئندہ چھ ماہ میں تمام شناختی کارڈز کی تصدیق کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ جعلی شناختی کارڈ یا پاسپورٹ کے حامل شخص کو 7 سال اور ایسے شناختی کارڈ اور پاسپورٹ کے حصول کے لیے مدد دینے والے سرکاری ملازمین کو 14 سال قید کی سزا دی جائے گی تاہم اگر جعلی شناختی کارڈ یا پاسپورٹ بنانے والے دو ماہ کے اندر از خود اپنا شناختی کارڈ اور پاسپورٹ جمع کرا دیں یا وہ سرکاری اہلکار جنھوں نے جعلی شناختی کارڈز یا پاسپورٹ بنوانے میں مدد کی وہ ان لوگوں کی نشاندہی کر دیں تو ان کے خلاف کارروائی نہیں ہو گی۔

وزیر داخلہ نے بتایا کہ ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ تمام شناختی کارڈز کے بجائے ڈھائی کروڑ خاندانوں کے سربراہوں کی چھان بین کی جائے جن کا آگے فیملی ٹری چل رہا ہے اور اس مقصد کے لیے ڈائریکٹوریٹ بنا دیے ہیں، اس سلسلے میں تین ماہ تک اشتہار چلانے کا فیصلہ بھی کیا گیا ہے۔ وزیر داخلہ کی طرف سے کروڑوں شناختی کارڈوں کی تصدیق کا اعلان بہت صائب ہے لیکن شناختی کارڈ بنانے والے ادارے نادرا کی موجودہ کارکردگی کا جائزہ لیا جائے اور نادرہ کے مختلف دفاتر کے باہر لگی ہوئی طویل قطاروں پر ایک نظر ڈالی جائے تو ڈھائی تین کروڑ شناختی کارڈوں کی از سر نو تصدیق کا معاملہ ''ایں خیال است و محال است و جنوں'' جیسا دکھائی دیتا ہے۔

حکمرانوں کی طرف سے اس قسم کے اعلان کرنے میں تو کچھ خرچ نہیں ہوتا لیکن آیا اس قسم کے سادہ سے اعلان پر عملدرآمد بھی ہو سکے گا اس کا عمومی طور پر حکمرانوں کو اندازہ نہیں ہوتا۔ وزیر داخلہ چوہدری نثار کی اس بات میں کوئی شک نہیں کہ ملک کی عزت اور شہریت کو بیچنے والوں کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے جانا چاہیے جس کے لیے انھوں نے یقین دہانی کرائی کہ ان تمام معاملات کی خود نگرانی کریں گے جس میں کسی کو نہیں بخشا جائے گا، کسی کی بھی سفارش نہیں چلے گی۔ چوہدری نثار کا کہنا تھا کہ ''مجھ سے بار بار کہا گیا کہ اس پر بہت پیسہ لگے گا لیکن میں انھیں یہی کہتا ہوں کہ آپ کے پاس ہار خریدنے کے لیے تو پیسے ہیں پاکستان کی سیکیورٹی کے لیے پیسے نہیں ہیں۔

انھوں نے یہ بھی بتایا کہ نادرا کے 26 ڈائریکٹر جنرلز میں سے 16 ہٹا دیے گئے ہیں، اب صرف 10 ڈائریکٹر جنرلز کام کریں گے۔ اس حوالے سے بعض اہل دانش یہ مشورہ دیتے ہیں کہ نادرہ کے عملے میں کئی گنا اضافہ کیا جانا چاہیے تا کہ ان دفاتر کے باہر چلچلاتی دھوپ یا ٹھٹھرتی سردی میں لگنے والی عوام الناس کی قطاروں میں مناسب کمی آ سکے۔ وزیر داخلہ کا کہنا ہے کہ ولی محمد نام کا شناختی کارڈ تو صرف ایک کیس ہے جب کہ گزشتہ 12 سالوں میں ایسے کئی کیس ہیں جن کے بارے میں اگر بتا دیا جائے تو سب حیران اور پریشان ہو جائیں گے۔

وزیر داخلہ نے بتایا کہ وہ ایک اسکیم شروع کر رہے ہیں جس کے تحت پاکستانی کارڈ رکھنے والے غیر ملکیوں کی نشاندہی پر اطلاع دینے والے کو انعام دیا جائے گا۔ وزیر داخلہ نے یہ حیرت انگیز انکشاف بھی کیا کہ سب سے زیادہ جعلی شناختی کارڈ اور پاسپورٹ مشرف دور میں بنے۔ بہرحال کرنے کا اصل کام یہ ہے کہ شناختی کارڈز اور پاسپورٹس کی تصدیق کے لیے ایسا میکنزم بنایا جائے جس سے عوام کے مصائب اور مشکلات میں اضافہ نہ ہو۔

پاکستان کے عام شہریوں کے لیے تو شناختی کارڈ اور پاسپورٹ بنوانا پہلے ہی مشکل کام ہے، انھیں گھنٹوں لائنوں میں لگنا پڑتا ہے جب کہ جعلساز تو یہ کام آسانی سے کرلیتے ہیں۔ اس لیے شناختی کارڈزاور پاسپورٹس کی تصدیق کا عمل جتنا آسان بنایا جاسکے عوام کے لیے اتنا ہی بہتر ہے۔ جعلی شناختی کارڈز بنوانے والوں، ان کی تصدیق کرنے والوں کی سرکوبی وقت کا اہم ترین تقاضا ہے اور اس معاملے میں کسی قسم کی کوتاہی نہیں برتی جانی چاہیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں