بے بے جی کی کنگھی
’’اور ہم نے انسان کو اپنے ماں باپ کے ساتھ نیکی کرنے کی تاکید کی ہے
KARACHI:
وہاں اکیلے بیٹھے ہوئے میری نظر ایک کونے میں رکھے ایک فریم پر پڑی، عام فریموں کی نسبت اس میں کچھ عجیب سا لگا، کیونکہ اس میں کوئی تصویر تھی نہ کوئی سینری بلکہ ایک لکڑی کی کنگھی اور اس کے نیچے چھوٹا سا کتبہ۔ اس پر تفصیل سے کچھ باریک سا لکھا ہوا تھا، اوپرنسبتاً موٹے لفظوں میں لکھا ، ''بے بے جی کی کنگھی'' اور اس سے نیچے، '' بے بے جی کے ہاتھ میں، میں نے اس کنگھی کو ہر روز دیکھا ، وہ باقاعدگی سے اسے استعمال کرتیں اور انھیں قطعی پسند نہ تھا کہ اسے کوئی اور استعمال کرے، کبھی کبھار لگتا کہ بے بے جی کو یہ کنگھی اپنے بچوں سے بڑھ کر عزیز ہے، میں نے بے بے جی کو ناراض کیا، انھیں کھو دیا، مگر ان کی اس نشانی کو اپنے پاس رکھ لیا ہے، اسے دیکھ کر مجھے اس کی یاد آتی ہے، اس میں الجھ کر رہ جانے والے چاندی جیسے سفید بالوں سے مجھے ان کے وجود کی مہک آتی ہے، ان بالوں کو چھوتا ہوں تو لگتا ہے کہ بے بے جی کے بالوں میں ہاتھ پھیر رہا ہوں !''
''اور ہم نے انسان کو اپنے ماں باپ کے ساتھ نیکی کرنے کی تاکید کی ہے اس کی ماں نے بڑی تکلیف اٹھا کر اسے پیٹ میں رکھا اور بڑی تکلیف اٹھا کر اسے جنم دیااور بچے کا پیٹ میں رکھنا اور دودھ پلانا تیس مہینے کا ہے یہاں تک کہ وہ پوری جوانی تک پہنچا اور چالیس برس کی عمر تک پہنچا تو کہا اے میرے پروردگار مجھے ہمت دے کہ میں تیری اس نعمت کا شکر ادا کروں جس سے تو نے مجھے نوازا اور میرے والدین کو بھی اور یہ کہ میں کوئی ایسا اچھا کام کر لوں جس پر تو راضی ہو جائے اور میرے لیے درستی احوال عطا فرما جو میری اولاد میں جائے بے شک میں نے تیری ہی جانب توجہ کی ہے اور بے شک میںمسلمانوں میں سے ہوں ۔ (سورۃ الاحقاف، آیت۔15)
اس لکھنے والے کے غم کو محسوس کر کے میری آنکھیں نم ہو گئیں۔ اتنی دیر میں رباب واپس آ گئی، میں چھٹی والے دن ذرا دیر سے ہی آئی تھی مگر میری دیر بھی ان کے ہاں سویر تھی، وہ ابھی تک ایک ٹی شرٹ اور پاجامے میں تھی، مجھے مل کر شرمندہ ہوئی، حالانکہ میں اطلاع کر کے آئی تھی... '' آپ بیٹھیں آنٹی، میں ذرا لباس تبدیل کر کے آ جاتی ہوں !! '' مجھے بٹھا کر وہ چلی گئی، دس منٹ میں واپس لوٹی۔
'' عمر کہاں ہے بیٹا؟ '' میں نے اس سے سوال کیا۔
'' میرا خیال ہے کہ گاڑی کی سروس کروانے گیا ہے!! ''
'' تمہارا خیال ہے ؟ یقین کیوں نہیں؟ '' میں نے اس سے سوال کیا۔'' بس آنٹی ایسا ہی چل رہا ہے '' اس کے لہجے میں شکستگی تھی۔ '' کتنی دیر میں آ جائے گا وہ؟ میں اسی لیے چھٹی کے دن آئی ہوں کہ وہ بھی گھر پر ہو گا!'' تنزیلہ کی بیٹی نے محبت کی شادی کی تھی اور و ہ محبت جو گرمی کے بخار کی طرح دونوں فریقین کے وجود میں چڑھی تھی، شادی کا ٹھنڈا مشروب پیتے ہی ٹھنڈی پڑنے لگی اور آئے دن دونوں کو اپنی غلطی ( محبت ) کا احساس ہونے لگا اور تنزیلہ نے ہی مجھے بتایا کہ اس کی بیٹی چار ماہ میں آٹھ دفعہ ناراض ہو کر میکے آ چکی تھی، جہاں سے وہ اپنے ماں باپ کی عزت کو قدموں تلے روند کر... انھیں دھمکیاں دے کر وداع ہوئی تھی کہ اگر اس کی مرضی کے مطابق شادی نہ ہوئی تو وہ خود کو کچھ کر لے گی! یہی حال لڑکے نے اپنے گھر والوں کا کر رکھا تھا، سو ہمارے جیسے ''ہمدردوں'' کے کہنے پر ہی تنزیلہ اور اس کا شوہر راضی ہوئے تھے،اس سے قبل کہ ان کی بیٹی انھیں کہیں منہ دکھانے جوگا نہ چھوڑے۔
''اب کیا ہوا تمہاری اس منہ زور محبت کو کہ جس کی دھند میں تمہیں اپنے ماں باپ کے اترے ہوئے چہرے بھی نظر نہ آئے تھے؟؟ '' میں نے رباب سے سوال کیا، تنزیلہ نے ہی مجھے کہا تھا کہ میں اس سے بات کر کے سمجھاؤں ، کیونکہ آج کل اپنے ماں باپ کی بات کوئی بچہ نہیں مانتا۔ آج کل کے بچوں کو اپنے ماں باپ دنیا کے سب سے گھامڑ لگتے ہیں اور انھیں اپنے دوستوں اور سہیلیوں کے ماں باپ پسند ہوتے ہیں... یہی ان کے دوستوں کا بھی خیال ہوتا ہے۔ آج کل وہ ماں باپ ''ان '' ہیں جو اپنے بچوں کو بالکل آزاد چھوڑ دیں اور ان کے مطالبات کو آنکھیں بند کر کے تسلیم کریں ، انھیں کوئی روک ٹوک نہ کریں اور ان کی غلط حرکتوں پر بھی اپنے لب سی کر رکھیں۔ خود تو وہ لفظ فرمانبرداری اور تابعداری کے مطالب بھی نہ سمجھتے ہوں مگر ماں باپ ان کے فرمانبردار ہونے چاہئیں۔
'' اور یا رسول اللہ ﷺ ! آپ کے پروردگار نے فیصلہ کر رکھا ہے کہ تم اس کے سوا کسی کی بندگی نہ کرو اور ماں باپ کے ساتھ نیکی کرتے رہا کروجب بھی وہ تیرے سامنے بڑھاپے کو پہنچیں ان میں سے کوئی ایک یا دونوں ہی تو انھیں اف تک نہ کہنا اور انھیں ڈانٹنا مت ا ور ان سے جب بھی بات کرنی ہو تو بڑے ہی عزت والے اور شائستہ طریقے سے بات کرنا اور ان کے لیے عجز کے بازو ادائے نیاز کے ساتھ جھکائے رکھنااور یوں کہنا پروردگار تو ان پر اسی طرح رحم فرما جس طرح انھوں نے بچپن میں میری پرورش کی تھی۔ تمہارے من میں جو کچھ ہے تمہارا پروردگار اسے خوب جانتا ہے اگر تم نیک رہے تو وہ جھک جانے والے کو بخش دیا کرتا ہے۔ ( سورہء بنی اسرائیل، آیات نمبر 23-24-25 )
رباب کو سمجھانا بالکل بھینس کے سامنے بین بجانے کے مترادف تھا، تاہم میں بین بجانے کے لیے گئی تھی تو وہی کام کر رہی تھی... '' میں آپ کے لیے چائے بنا کرلاتی ہوں آنٹی!! '' کہہ کر وہ اپنے باورچی خانے میں گئی، میں سوچ رہی تھی کہ کیا دلائل دوں کہ وہ اپنے علیحدگی کے فیصلے سے باز آ جائے اور اس شادی کو نبھانے کی کوشش کرے جو اس کے اور اس کے شوہر کے والدین کی لاکھ ناپسندیدگی کے باوجود ہو چکی تھی۔ کون سے ماں باپ ہیں جو اپنی اولاد کا برا سوچتے ہیں، یہ اولاد ہی ہے جو اپنے والدین کی نیت اور خلوص کو سمجھ نہیں سکتی اور ان کے فیصلوں سے انحراف کر کے عمر بھر کے لیے اپنے گلے میںایسے ایسے طوق ڈال لیتی ہے۔
رباب چائے لے کر لوٹی تو میں نے اپنے دل میں اٹکا ہوا سوال اس سے کیا، '' رباب بیٹا، عمر کے والدین کا اس پر کیا موقف ہے؟ '' ... '' اس کے ابا کا تو بہت پہلے انتقال ہو گیا تھا، اس کی بے بے جی کا انتقال ہماری شادی کے بعد ہوا ہے اوراس کے لیے عمر خود کو قصور وار سمجھتا ہے '' اس نے وضاحت کی۔...'' کیوں ؟ اور یہ آج کل کے بچے کب بھلا ماؤں کو بے بے جی کہتے ہیں؟ '' مجھے ماں کے لیے یہ طرز تخاطب کچھ عجیب سا لگا تھا۔...'' عمر کو شاہ رخ خان بہت پسند ہے اور وہ کسی فلم میں اپنی ماں کو بے بے کہتا ہے توعمر نے بھی انھیں بے بے جی کہنا شروع کر دیا '' اس نے ہنس کر کہا، ''اور ہاں عمر سمجھتا ہے کہ اس کی ماں نے ان کی مرضی کے خلاف اس کی شادی کا صدمہ لیا ہے، کیونکہ وہ کہیں اور اس کی شادی کرنا چاہتی تھیں مگر اس نے اس سے انکار کر کے ان کی مرضی کے خلاف مجھ سے شادی کی تو... ''
'' اور ہم نے انسان کو اس کے والدین کے بارے میں تاکید کر دی ہے کہ اس کی ماں تکلیفوں پر تکلیفیں جھیل کر اسے پیٹ میں رکھتی ہے پھر دو سال میں اس کا دودھ چھڑاتی ہے اور یہ کہ میرا شکر ادا کیا کر اور اپنے ماں باپ کا بھی کہ آخر لوٹ کر میرے ہاں ہی آنا ہے ۔ اور اگر تیرے ماں باپ تجھ سے جھگڑیں کہ تو میرے ساتھ اسے شریک کر لے جس کا تجھے کوئی علم نہیں تو اس معاملے میں ان کی اطاعت نہ کر ہاں والدین سے دنیا میں بہترین شائستہ سلوک رکھ اور راستہ اس کا چل جو مجھ سے لو لگائے ہوئے ہے پھر تجھے میری جانب لوٹنا ہے تو میں تمہیں بتاؤں گا جو کچھ تم عمل کرتے رہے ہو۔''( سورۃ لقمن، آیت ۔ 15 )
'' تو کیا وہ شادی میں شریک نہیں ہوئیں؟ '' میں نے اگلا سوال کیا۔...'' ہوئی تھیں کیونکہ عمر نے ان سے بہت معذرت کر لی تھی، مگر وہ شادی میں بھی اوپری دل سے شریک ہوئی تھیں... اور مجھ سے بھی ان کا سلوک اچھا نہیں ہے!'' اس نے منہ لٹکا کر کہا۔'' ان چاہی بہوؤں سے یا بیٹوں کی اس طریقے سے کی گئی شادیوں سے بہوؤں کو سسرال میں اس سے بہتر سلوک کی توقع نہیں کرنا چاہیے کہ وہ اس شادی میں شریک ہو گئیں!!'' میں نے کہا۔'' ہاں اسی سے سمجھ میں آتا ہے کہ یہ کنگھی غالباً عمر کی بے بے جی کی ہے، اس پرجو کچھ لکھا ہے وہ بھی غالباً عمر نے ہی لکھوایا ہو گا؟ '' میں نے اس سے پوچھا۔'' ہاں عمر کو اپنی بے بے جی سے بہت پیار تھا، اسی لیے ان کی وفات کے بعد عمر نے ان کی اس نشانی کو فریم کر کے یہاں لگا لیا ہے، جب بھی وہ اسے دیکھتے ہیں ، انھیں اپنی بے بے جی کی یاد آتی ہے، ان کے لمبے سفید بال اور لکڑی کی یہ کنگھی جو ان کی پسندیدہ کنگھی تھی۔ انھوں نے اپنی بے بے جی کے جوتے بھی اپنے کمرے میں اپنے سامنے اس طرح رکھے ہوئے ہیں جیسے بے بے جی ابھی انھیں اتار کر گئی ہوں ، انھیں ہر روز صبح دفتر جانے سے پہلے چھو کر جاتے ہیں،جیسے اپنی بے بے جی کے قدموں کو ہاتھ لگا رہے ہوں!!''