روشن آنکھیں
امید ہے کہ اسی ماہ رمضان کے دوران ان کے لیے بھی مطلوبہ رقم کا انتظام ہو جائے گا
آنکھ والا تری قدرت کا تماشا دیکھے
دیدۂ کور کو کیا آئے نظر، کیا دیکھے!
اب اس بحث سے قطع نظر کہ بعض سِکس بائی سِکس کی بینائی رکھنے والے بھی اس ''چشم بینا'' سے محروم ہوتے ہیں جو چیزوں کو دیکھتی ہی نہیں ان کے اندر کے بھید بھی جان لیتی ہے اور کچھ بظاہر بصارت سے محروم ''اہل نظر'' کی تعریف پر پورا اترتے ہیں۔ یہ بات اپنی جگہ پر ایک حقیقت ہے کہ انسانی جسم میں آنکھوں کا رول باقی تمام تر اعضا سے منفرد اور انتہائی اہم ہے کہ محتاجی جیتے جی مار دیتی ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے ملک میں آنکھوں کی بیماریوں کی تشخیص، علاج اور مطلوبہ احتیاط کا وسائل ضرورت کی نسبت بہت کم، محدود اور مہنگے ہیں جس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہر سال لاکھوں لوگ ان امراض کا شکار ہو رہے ہیں اور ان کی ایک کثیر تعداد صرف علاج کے وسائل نہ ہونے کی وجہ سے اندھے پن یا سنگین نوعیت کے امراض چشم میں مبتلا ہو کر آنکھوں سمیت ہر طرح کی روشنی سے دور ہوتی جا رہی ہے۔
غریب طبقوں، بالخصوص دیہات میں رہنے والوں، کو علاج کی سہولیات کی کمی کے ساتھ ساتھ ان بیماریوں کی نوعیت، شعور اور ان کی روک تمام سے متعلق مناسب معلومات تک رہنمائی کی شدید کمی اور عطائی قسم کے معالجوں کی کرم فرمائیوں کے مسائل بھی درپیش میں جو دیسی ٹوٹکوں اور غیر سائنسی علاج کے ذریعے معمولی اور قابل علاج بیماریوں کو پیچیدہ بنا دیتے ہیں۔ میں نے خود اپنی واحد خالہ سلیمہ مرحومہ کو ساٹھ برس کی زندگی کے 58 برس ایک ایسے اندھے پن کے ساتھ گزارتے دیکھا ہے جس کی تشخیص اور صحیح علاج اگر بروقت ہو جائے تو اس کی آنکھیں بچ سکتی تھیں۔ ایسی ہی ایک کہانی عزیزی محسن نواز نے ''الاحسان ویلفیئر آئی اسپتال'' کی اس فنڈریزنگ کی تقریب میں سنائی جس کا اہتمام گزشتہ دنوں ڈیفنس کلب کے کمیونٹی سینٹر میں کیا گیا تھا۔
محسن نواز کو میں تقریباً بیس برس سے جانتا ہوں اور اس کا مداح بھی ہوں کہ بصارت سے محرومی کے باوجود وہ برادرم ڈاکٹر صداقت علی کے Willing Ways کلینک میں نہ صرف مدت سے کام کر کے رزق حلال کما رہا ہے بلکہ ایک ایف ایم چینل پر باقاعدگی سے پروگرام بھی کرتا ہے اور سچی بات ہے میں نے زندگی میں انور مسعود کی بہو مرحومہ صائمہ عمار کے علاوہ کوئی شخص ایسا نہیں دیکھا جو بصارت سے محرومی کے باوجود مختلف مشینوں کو اس مہارت اور آسانی سے آپریٹ کر سکے کہ آنکھوں والے ماہرین بھی ان کی صلاحیت پر رشک کریں۔ تقریب میں محسن نواز کو ایک رول ماڈل کے طور پر شامل کیا گیا تھا۔
آنکھوں کے ساتھ ساتھ اس کی ٹانگیں بھی کام نہیں کرتیں مگر اس کے اعتماد اور حوصلے کی مثال دینے کے لیے لفظ کم پڑ جاتے ہیں۔ اس نے بتایا کہ 1983ء میں تیرہ برس کی عمر میں اسے آنکھوں کی بیماری لاحق ہوئی اگر اس وقت ''الاحسان'' جیسا کوئی ادارہ موجود ہوتا اور اس کی رسائی اس تک ہو جاتی تو آج وہ ایک بالکل نارمل زندگی گزار رہا ہوتا سو خوش بخت ہیں وہ لوگ جن کو الاحسان یا اس کی طرح کے کچھ اور انسان دوست اداروں کا تعاون حاصل ہے کہ لوگ گزشتہ 22 برس سے اس کارخیر میں تن من دھن سے جتے ہوئے ہیں اور 1993ء میں ایک دکان نما کمرے سے شروع ہونے والا الحسان فری آئی کلینک آج ایک ایسی شاندار چھ منزلہ عمارت میں منتقل ہو چکا ہے جہاں آنکھوں کی بیماریوں کے علاج کی جدید اور مہنگی ترین مشینیں صرف موجود ہی نہیں بلکہ ان کی مدد سے روزانہ ایک ہزار سے زیادہ مریضوں کے چیک اپ، علاج اور آپریشن نہ صرف فری کیے جاتے ہیں بلکہ مریضوں اور ان کے لواحقین کو دوران علاج مفت عمدہ کھانا فراہم کیا جاتا ہے۔
معلوم ہوا کہ انتظامی کمیٹی کے صدر ثناء اللہ خان صاحب نے اپنے چند احباب کے ساتھ ایک ڈسپنسری کی سطح سے اس کام کو شروع کیا تھا اور صرف 2013-14ء کے سال میں اس اسپتال کے تمام شعبوں میں ملا کر کل تین لاکھ ساٹھ ہزار آٹھ سو ستائیس مریضوں کو مختلف طرح کی طبی سہولتیں مہیا کی گئی ہیں جن میں سے بیشتر بالکل مفت ہیں جب کہ زکوٰۃ کے مستحق مریضوں سے پرچی تک کے پیسے نہیں لیے جاتے۔
میں برادرم ڈاکٹر امجد ثاقب کا شکر گزار ہوں کہ انھوں نے نہ صرف اپنے زیر انصرام چلنے والے اداروں بالخصوص اخوت فاؤنڈیشن اور فاؤنٹین ہاؤس سے میرا تعارف کروایا بلکہ ان کی معرفت مجھے اور بھی بہت سے ایسے رفاہی اور خیراتی اداروں کے کام سے آگاہی ہوئی جو بلاشبہ بہت عظیم اور عمدہ کام کر رہے ہیں۔ ''الاحسان'' ان کے احسانات کی فہرست میں تازہ ترین اضافہ ہے۔ اس ادارے کا کام قابل رشک بھی ہے اور قابل تقلید بھی کہ اس کا مقصد خلق خدا کے رستے میں آسانیاں پیدا کرنا ہے اور رب کریم کو ایسے لوگوں سے جو خصوصی محبت ہے اس کا علم یقینا ہر بندۂ خدا کے ایمان کا حصہ ہے۔
یہاں جن ڈونرز سے میری ملاقات ہوئی وہ سب کے سب میرے لیے اجنبی تھے اور کسی ستائش کی تمنا اور صلے کی پروا سے بے نیاز ہو کر خاموشی سے اپنی اپنی استطاعت کے مطابق بلکہ شاید اس سے بھی بڑھ کر اس نیکی کے کام میں مگن تھے مثال کے طور پر میں حیران رہ گیا جب اسٹیج پر میرے ساتھ بیٹھے ہوئے سعید صاحب نے (جن کی زندگی کا بیشتر حصہ انگلینڈ میں گزرا ہے اور اب وہ ریٹائرمنٹ کے بعد کچھ عرصہ یہاں اور کچھ وہاں گزارتے ہیں) اپنی سادہ اور مختصر تقریر کے بعد بغیر رقم کا اعلان کیے خاموشی سے ایک چیک ثناء اللہ خاں صاحب کو تھما دیا بعد میں برادرم شجاعت ہاشمی نے جو تقریب کے میزبان تھے بتایا کہ وہ چیک پچاس لاکھ روپے کا تھا معلوم ہوا کہ 22 برسوں میں اس اسپتال کی تمام جدید اور مہنگی ترین مشینیں ایسے ہی اہل دل کے تعاون سے خریدی گئی ہیں۔
اس وقت دو کروڑ کی مزید مشینوں کا آرڈر دیا جا چکا ہے اور امید ہے کہ اسی ماہ رمضان کے دوران ان کے لیے بھی مطلوبہ رقم کا انتظام ہو جائے گا کہ 40% مطلوبہ رقم تو اس ایک محفل میں اکٹھی ہو گئی تھی۔ وطن عزیز میں درد دل رکھنے والوں اور اللہ کی راہ میں اس کے بندوں کی خدمت کے لیے دل کھول کر خرچ کرنیوالوں کا رویہ اب ایک روایت کی شکل اختیار کر گیا ہے۔ سنا ہے کہ رب کریم ہر قوم کو اس کے عمل کے مطابق حاکم عطا کرتا ہے ایسی محفلوں میں شرکت کے بعد سمجھ میں نہیں آتا کہ اس بات کی توضیح اور تشریح کیسے کی جائے؟