بجٹ میں ٹیکس نادہندگان کے خلاف گھیرا تنگ کرنے کا فیصلہ
پاکستان میں بلیک اور غیر رسمی معیشت کا حجم 94 کھرب کے لگ بھگ ہے جو ملکی جی ڈی پی کے91.44 فیصد کے برابر ہے،ذرائع
وفاقی حکومت کی جانب سے آئندہ مالی سال کے وفاقی بجٹ میں بلیک و غیر رسمی اکانومی کو قومی دھارے میں لانے کے لیے ترکی کی طرز پر ایکشن پلان متعارف کرائے جانے کا امکان ہے جس کے تحت ٹیکس نیٹ سے باہر نان فائلرز کے لیے گھیرا تنگ کرکے ان کی زندگی اجیرن بنا دی جائے گی تاکہ وہ ٹیکس نیٹ میں آئیں۔
اس ضمن میں ذرائع نے بتایا کہ فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے سینئر افسر نے بتایا کہ ایف بی آر کی جانب سے ترکی کی طرف سے متعارف کرائے جانے والے ایکشن پلان کا تفصیلی جائزہ لیا گیا ہے اور اسی طرز پر پاکستان میں ایکشن پلان لانے کے لیے ورکنگ کی گئی ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ پاکستان میں بلیک اور غیر رسمی معیشت کا حجم 94 کھرب کے لگ بھگ ہے جو ملکی جی ڈی پی کے91.44 فیصد کے برابر ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ ملک میں غیر رسمی اکانومی کا حجم زیادہ ہونے کی وجہ سے ٹیکس وصولیاں بھی متاثر ہورہی ہیں، اس ایکشن پلان کے تحت ملک میں مستقل بنیادوں پر ورکنگ گروپس قائم کیے جائیں گے جو مستقل بنیادوں پر اس ایکشن پلان کی مانیٹرنگ کریں گے، اس ایکشن پلان کے ذریعے ملک کے غیردستاویزی شعبے کو دستاویزی بنانے کی کوشش کی جائے گی۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ وفاقی حکومت کی جانب سے متعارف کرائی جانے والی رضاکارانہ ٹیکس کمپلائنس اسکیم کی میعاد ختم ہونے جارہی ہے، اس کے بعد آئندہ بجٹ میں بلیک اکانومی اور غیر رسمی اکانومی کو قومی دھارے میں لانے کے لیے ایکشن پلان متعارف کرانے کا امکان ہے جس کی تیاری جاری ہے اور اس کے لیے ترک ماڈل کا جائزہ لیا گیا ہے جس کے ذریعے ترکی نے ملک کی غیررسمی اکانومی کو قومی دھارے میں لاکر نہ صرف قانونی و رسمی جی ڈی پی کے حجم کو بڑھایا بلکہ ٹیکس نیٹ اور ٹیکس ٹو جی ڈی پی کی شرح میں بھی اضافہ کیا۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ رضاکارانہ ٹیکس کمپلائنس اسکیم متعارف کرانے کا بنیادی مقصد بھی یہی تھی، اس پلان کے تحت آڈٹ کی صلاحیتوں کو بھی بڑھایا جائے گا اور آڈٹ کے نظام کو مضبوط بنایا جائے گا، اس کے علاوہ اداروں کے درمیان رابطوں کو فروغ دیا جائے گا، ملک میں بڑے پیمانے پر آگہی مہم شروع کی جائے گی۔
ذرائع کے مطابق بلیک اکانومی اور غیر رسمی اکانومی کو قومی دھارے میں لانے کے لیے ترکی کی طرز پر ایکشن پلان کے تحت وزارت خزانہ، ایف بی آر، اسٹیٹ بینک آف پاکستان، وزارت سائنس و ٹیکنالوجی، وزارت محنت و افرادی قوت، وزارت تجارت، وزارت صنعت و پیداوار، وزارت ماحولیات و موسمی تبدیلی، وزارت قومی صحت خدمات، وزارت پانی و بجلی، ایس ای سی پی اور وزارت نیشنل فوڈ سیکیورٹی وتحقیق سمیت دیگر متعلقہ وزارتوں اور اداروں کے درمیان باہمی رابطہ سازی کو فروغ دیا جائے گا، اس کے علاوہ مانیٹرنگ و اسیسمنٹ کو بھی بڑھایا جائے گا۔
اس ضمن میں ذرائع نے بتایا کہ فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے سینئر افسر نے بتایا کہ ایف بی آر کی جانب سے ترکی کی طرف سے متعارف کرائے جانے والے ایکشن پلان کا تفصیلی جائزہ لیا گیا ہے اور اسی طرز پر پاکستان میں ایکشن پلان لانے کے لیے ورکنگ کی گئی ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ پاکستان میں بلیک اور غیر رسمی معیشت کا حجم 94 کھرب کے لگ بھگ ہے جو ملکی جی ڈی پی کے91.44 فیصد کے برابر ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ ملک میں غیر رسمی اکانومی کا حجم زیادہ ہونے کی وجہ سے ٹیکس وصولیاں بھی متاثر ہورہی ہیں، اس ایکشن پلان کے تحت ملک میں مستقل بنیادوں پر ورکنگ گروپس قائم کیے جائیں گے جو مستقل بنیادوں پر اس ایکشن پلان کی مانیٹرنگ کریں گے، اس ایکشن پلان کے ذریعے ملک کے غیردستاویزی شعبے کو دستاویزی بنانے کی کوشش کی جائے گی۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ وفاقی حکومت کی جانب سے متعارف کرائی جانے والی رضاکارانہ ٹیکس کمپلائنس اسکیم کی میعاد ختم ہونے جارہی ہے، اس کے بعد آئندہ بجٹ میں بلیک اکانومی اور غیر رسمی اکانومی کو قومی دھارے میں لانے کے لیے ایکشن پلان متعارف کرانے کا امکان ہے جس کی تیاری جاری ہے اور اس کے لیے ترک ماڈل کا جائزہ لیا گیا ہے جس کے ذریعے ترکی نے ملک کی غیررسمی اکانومی کو قومی دھارے میں لاکر نہ صرف قانونی و رسمی جی ڈی پی کے حجم کو بڑھایا بلکہ ٹیکس نیٹ اور ٹیکس ٹو جی ڈی پی کی شرح میں بھی اضافہ کیا۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ رضاکارانہ ٹیکس کمپلائنس اسکیم متعارف کرانے کا بنیادی مقصد بھی یہی تھی، اس پلان کے تحت آڈٹ کی صلاحیتوں کو بھی بڑھایا جائے گا اور آڈٹ کے نظام کو مضبوط بنایا جائے گا، اس کے علاوہ اداروں کے درمیان رابطوں کو فروغ دیا جائے گا، ملک میں بڑے پیمانے پر آگہی مہم شروع کی جائے گی۔
ذرائع کے مطابق بلیک اکانومی اور غیر رسمی اکانومی کو قومی دھارے میں لانے کے لیے ترکی کی طرز پر ایکشن پلان کے تحت وزارت خزانہ، ایف بی آر، اسٹیٹ بینک آف پاکستان، وزارت سائنس و ٹیکنالوجی، وزارت محنت و افرادی قوت، وزارت تجارت، وزارت صنعت و پیداوار، وزارت ماحولیات و موسمی تبدیلی، وزارت قومی صحت خدمات، وزارت پانی و بجلی، ایس ای سی پی اور وزارت نیشنل فوڈ سیکیورٹی وتحقیق سمیت دیگر متعلقہ وزارتوں اور اداروں کے درمیان باہمی رابطہ سازی کو فروغ دیا جائے گا، اس کے علاوہ مانیٹرنگ و اسیسمنٹ کو بھی بڑھایا جائے گا۔