پیپلز لوکل آرڈیننس پر سندھ اسمبلی میں شدید ہنگامہ آرائی

نئے بلدیاتی نظام کے خلاف حکومت سندھ کو ایسی مزاحمت کا سامنا ہے ، جس کا اندازہ پیپلز پارٹی کی قیادت نے نہیں لگایا تھا۔

بعض بیرونی قوتیں اور ان کے مقامی ایجنٹ ایک سازش کے تحت حالات خراب کر رہے ہیں، وزیر اعلیٰ سندھ فوٹو: فائل

سندھ اسمبلی میں گزشتہ ہفتے ہونے والی بدترین ہنگامہ آرائی پر صرف سیاسی حلقے ہی نہیں بلکہ عام لوگ بھی تشویش میں مبتلا ہیں کیونکہ اسمبلی میں جو زبان استعمال کی گئی، اسے خود ارکان اسمبلی بھی غیر پارلیمانی اور غیر مہذب قرار دے رہے ہیں ۔

یہ ہنگامہ آرئی ایک ایسے وقت پر ہوئی ، جب سندھ بدامنی کی آگ میں جل رہا ہے اور مختلف اطراف سے کراچی میں ہنگامی حالت نافذ کرنے اور فوج بلانے کے مطالبات ہو رہے ہیں اور یہ کہا جا رہا ہے کہ جمہوری حکومت امن و امان کو کنٹرول کرنے میں ناکام ہوگئی ہے ۔

ہنگامہ آرائی کا آغاز فنکشنل مسلم لیگ سے تعلق رکھنے والے اراکین نے اپوزیشن نشستیں الاٹ نہ کرنے کے خلاف کیا ،جب یہ معاملہ حل ہوگیا تو ہنگامہ آرائی میں شدت اس وقت آئی جب اسپیکر سندھ اسمبلی نے یہ اعلان کیا کہ گورنر سندھ نے ''سندھ پیپلز لوکل گورنمنٹ آرڈیننس (ایس پی ایل جی او) 2012ء'' کی توثیق کردی ہے اور یہ قانون ایکٹ بن گیا ہے ۔ سندھ اسمبلی میں پہلی مرتبہ وجود میں آنے والی اپوزیشن کے ارکان نے یہ اعلان سنتے ہی شیم شیم کے نعرے لگانے شروع کردیئے ۔ اپوزیشن ارکان اپنی نشستوں سے اٹھ کر اسپیکر کے ڈائس کے سامنے آگئے ۔

انہوں نے نہ صرف اسمبلی اجلاس کی کارروائی کے ایجنڈے کی کاپیاں پھاڑ کر پھینک دیں بلکہ وزراء اور سرکاری ارکان کی ڈیسکوں پر رکھی فائلیں بھی اٹھا کر پھاڑ دیں ۔ اسی شور شرابے میں اپوزیشن ارکان ایوان سے احتجاجاً واک آئوٹ کرگئے ۔ پیپلز پارٹی کے وزراء شرجیل انعام میمن ، آغا سراج درانی اور پیر مظہرالحق نے اپوزیشن کے رویے پر تنقید کی اور کہا کہ کسی کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ ہم پر خوامخواہ الزام لگائے۔ ہم نے سندھ کے لیے بڑی قربانیاں دی ہیں ۔

وزیر خزانہ سید مراد علی شاہ بھی اس حوالے سے بات کر رہے تھے کہ اپوزیشن ارکان ایوان میں واپس آئے اور نصرت سحر عباسی نے وزیر خزانہ کو ٹوک کر کوئی بات کہی جس پر وزیر خزانہ نے انہیں ''شٹ اپ'' کہہ دیا ۔ یہ فیصلہ کرنا مشکل ہے کہ کس نے کتنی غیر پارلیمانی زبان استعمال کی لیکن عوام الناس کو سندھ اسمبلی کی طرف سے کوئی اچھا پیغام نہیں دیا گیا۔ وہ قوتیں جو کراچی میں حالات خراب کرکے جمہوریت کے خلاف سازشوں میں مصروف ہیں ، وہ سندھ اسمبلی میں پیدا ہونے والی صورت حال سے یقیناً خوش ہوئی ہوں گی ۔


نئے بلدیاتی نظام کے خلاف حکومت سندھ کو صوبہ بھر میں ایک ایسی مزاحمت کا سامنا ہے ، جس کا اندازہ پیپلز پارٹی کی قیادت نے صحیح معنوں میں نہیں لگایا تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ اسے کراچی میں بڑھتی ہوئی خونریزی اور بدامنی کا بھی ایک ایسا چیلنج درپیش ہے جس سے نبرد آزما ہونے میں حکومت اب تک کامیاب نہیں ہوسکی ہے ۔ خونریزی کا سلسلہ جاری تھا کہ عشرہ محرم بھی آگیا ۔ محرم الحرام کے لیے تمام سیکورٹی اور انٹیلی جنس اداروں کی طویل مشاورت کے بعد ایک ''سکیورٹی پلان'' تشکیل دیا گیا۔

اس کے باوجود کراچی کے علاقے عباس ٹائون میں امام بارگاہ کے قریب موٹر سائیکل بم دھماکے نے تباہی مچادی جس سے 4 افراد جاں بحق اور 15 سے زائد زخمی ہوگئے ۔ بم دھماکوں کے بعد مشتعل افراد کی ہنگامہ آرائی نے انتظامیہ کے لیے اعصاب شکن صورت حال پیدا کردی تھی کیونکہ انتظامیہ کو اس بات کا خدشہ ہے کہ کہیں عزاداری کے جلوس احتجاجاً رک نہ جائیں یا فرقہ وارانہ کشیدگی میں اضافہ نہ ہوجائے ۔ یہ اعصاب شکن صورت حال 13 محرم الحرام تک رہے گی ۔ حکومت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو اب اس بات کا یقین ہوگیا ہے کہ بعض بیرونی طاقتیں حالات خراب کر رہی ہیں ۔

وزیراعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ نے گزشتہ ہفتے اسمبلی کے اجلاس میں ہنگامہ آرائی سے قبل کراچی میں امن و امان کی صورت حال پر ایک طویل بیان دیا ، جس میں انہوں نے واضح الفاظ میں کہا کہ بعض بیرونی قوتیں اور ان کے مقامی ایجنٹ ایک سازش کے تحت حالات خراب کر رہے ہیں اور حکومت ان عناصر سے نمٹنے کے لیے اقدامات کر رہی ہے ۔ وزیراعلیٰ نے ان مسائل کا بھی ذکر کیا ، جو حکومت کو درپیش ہیں اور اس تذکرے میں انہوں نے بین السطور عدلیہ کے کردار پر بھی بات کی ۔

وزیراعلیٰ کی ان باتوں کے بعد وفاقی وزیر داخلہ عبدالرحمان ملک نے کراچی اور کوئٹہ میں یکم محرم کو موٹر سائیکل چلانے پر پابندی عائد کردی لیکن چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ نے اس پابندی کو اسی رات منسوخ کردیا ۔ 3 محرم الحرام کو کراچی کے علاقے عباس ٹائون میں موٹر سائیکل میں نصب بم سے دھماکہ ہوا ، جس کے نتیجے میں 4 افراد جاں بحق اور 15 سے زائد افراد زخمی ہوگئے ۔ حکومت نے اس واقعہ کے بعد سندھ ہائی کورٹ میں عاشورہ تک موٹر سائیکل چلانے پر پابندی کی درخواست دائر کردی ۔ عدلیہ اور انتظامیہ کی امن و امان سے متعلق مختلف سوچ سے حالات کیا رخ اختیار کریں گے ؟ یہ سوال لوگوں نے ایک دوسرے سے پوچھنا شروع کردیا ہے ۔ دوسری طرف وفاقی وزیر سید خورشید احمد شاہ نے کہا ہے کہ کراچی میں دہشت گردوں کے خلاف ایسا آپریشن کیا جائے ، جو صدیوں یاد رہے لیکن یہ آپریشن کون کرے گا ؟ اس سوال کا جواب اب کسی کے پاس نہیں ۔

امن و امان کی خراب ہوتی ہوئی صورت حال کے ساتھ ساتھ حکومت کو اپوزیشن کی احتجاجی تحریک کا بھی سامنا ہے ، جو محرم کے بعد زیادہ شدت اختیار کرسکتی ہے ۔ حروں کے روحانی پیشوا اور مسلم لیگ (فنکشنل) کے سربراہ پیر پگارا نے اگلے روز اپنی رہائش گاہ پر سندھ بچائو کمیٹی میں شامل سیاسی اور قوم پرست جماعتوں کے رہنمائوں کو دعوت دی اور ان کا اجلاس منعقد کرکے سب کو حیرت زدہ کردیا ۔ اجلاس کے بعد انہوں نے سندھ میں نئے بلدیاتی نظام اور سندھ اسمبلی میں حکومتی رویے کے خلاف 30 نومبر کو سندھ بھر میں یوم سیاہ منانے اور 14 دسمبر کو حیدرآباد میں جلسہ عام منعقد کرنے کا اعلان کیا۔
Load Next Story