کراچی…جمہوری قوتوں کے تدبر کا امتحان

کاروباری طبقہ تحفظ کے لیے ریاستی اداروں سے تعاون کرے یاسیاسی و مذہبی جماعتوں کے ہتھیار بند کارکنوں کو نجات دہندہ سمجھے

بعض ریاستی قوتیں ایک بار پھر ایم کیو ایم کے خلاف آپریشن کی منصوبہ بندی کر رہی ہیں،الطاف حسین۔ فوٹو: فائل

SWAT:
کراچی کے حالات کس قدر گھمبیر ہو چکے ہیں، اس کا اندازہ قتل و غارت گری سے بخوبی کیا جا سکتا ہے۔

اب یہ تو نہیں کہا جا سکتا کہ ارباب اختیار حقائق سے لا علم ہیں۔ سندھ اسمبلی ہو' پنجاب کا ایوان ہو' خیبر پختونخوا اور بلوچستان اسمبلی ہو' قومی اسمبلی ہو یا سینیٹ ہر جگہ کراچی کے حالات پر بحث ہو رہی ہے۔ پیپلز پارٹی' مسلم لیگ ن' متحدہ قومی موومنٹ' اے این پی' جماعت اسلامی' جے یو آئی اور تحریک انصاف کی قیادت کو بھی حقائق کا علم ہے لیکن کیا کیا جائے' ہر ایک کی اپنی اپنی مصلحتیں' مفادات اور مجبوریاں ہیں' اس لیے چیخ و پکار تو ہو رہی ہے لیکن حالات سدھارنے اور امن قائم کرنے کے لیے کچھ نہیں ہو رہا۔

پیر کو سینیٹ میں کراچی کو اسلحے سے پاک کرنے کی قرار داد کثرت رائے سے منظور کر لی گئی۔ یہ قرار داد اے این پی نے پیش کی تھی۔ ایم کیو ایم نے اس کی مخالفت کی۔ ایم کیو ایم کا موقف ہے کہ صرف کراچی نہیں بلکہ پورے ملک کو اسلحے سے پاک کیا جائے' اسی روز لاہور میں مسلم لیگ ن کے قائد میاں نواز شریف نے سینئر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ سندھ میں جو سیاسی جماعتیں برسراقتدار ہیں' ان کے عسکری ونگز ہیں' ان عسکری ونگز کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے' ان کا خاتمہ کر دیا جائے تو 80 فیصد جرائم خود بخود ختم ہو جائیں گے۔

ابھی اس صورتحال پر بحث و مباحثہ ہو رہا تھا کہ ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین کا بیان آ گیا کہ بعض ریاستی قوتیں ایک بار پھر خود ساختہ الزامات لگا کر ایم کیو ایم کے خلاف 1992 کے طرز کا آپریشن کرنے کی منصوبہ بندی کر رہی ہیں۔ یہ ملک کے منتخب نمایندوں اور سیاسی جماعتوں کی سرگرمیاں اور قائدین کے بیانات ہیں۔ سینیٹ اور قومی اسمبلی کے منتخب ارکان کا طرز' عمل ''آپ ٹھیک کہتے ہیں اور غلط وہ بھی نہیں ہیں''کی عمدہ مثال ہے جب کہ سیاستدان اپنے اپنے دھڑوں کی سیاست کو سامنے رکھ کر کراچی کے حالات سدھارنے کی تجاویز پیش کر رہے ہیں۔


اس سارے معاملے پر سنجیدگی سے غور کیا جائے تو یہی نتیجہ نکلے گا کہ کراچی کی صورتحال پر کوئی ٹھوس لائحہ عمل تیار نہیں ہوا لہٰذا آنے والے دنوں میں کشت و خون جاری رہے گا۔کراچی میں اس وقت سب سے زیادہ نقصان عام شہریوں اور پرامن کاروباری طبقے کا ہو رہا ہے۔ انھیں سمجھ نہیں آ رہی کہ وہ اپنے تحفظ کے لیے ریاستی اداروں سے تعاون کریں یا سیاسی و مذہبی جماعتوں کے ہتھیار بند کارکنوں کو نجات دہندہ سمجھ لیں۔یہ مسئلہ بھی ہے کہ کسی عسکری ونگ کے پاس کراچی کو کنٹرول کرنے کی کامل قوت نہیں ہے' وہ آپس میں لڑ رہے ہیں اور عوام مر رہے ہیں۔ریاستی ادارے اس لیے غیر فعال ہیں کہ انھیں احکام جاری کرنے والے اپنی اپنی مصلحتوں اور مجبوریوں کا شکار ہیں۔میڈیا بھی اپنی توپوں کا رخ ریاستی اداروں کی طرف رکھتا ہے۔

یوں کراچی کے عوام بندوق برداروں اور ریاستی اداروں کے درمیان سینڈوچ بنے ہوئے ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا جیسے اب سیاسی جماعتیں بھی بے بس ہوگئی ہیں۔ عوام اور کاروباری حضرات بھتہ مافیا' مذہبی اور سیاسی مسلح گروہوں کے ہاتھوں یرغمال ہیں۔کراچی میں لسانی ، نسلی اور مسلکی عصبیتیں ایک دوسرے میں یوں پیوست ہوگئی ہیں کہ انھیں ایک دوسرے سے الگ کرنا انتہائی مشکل کام ہے۔ فرقہ واریت کا بھوت بھی بلا خوف و خطر دھمال ڈال رہا ہے۔ کراچی میں تمام مسالک کے لوگ ملک بھر سے آکر جمع ہیں۔

تمام مسالک کے بڑے مدارس بھی اسی شہر میں ہیں۔اگر غور کیا جائے تو مذہبی تنظیموں کا اثرورسوخ ملک کے دیگر شہروں کی نسبت کراچی میں زیادہ لگتا ہے۔یہ باتیں بھی زبان زد عام ہیں کہ طالبان کو سب سے زیادہ مالی تعاون کراچی سے ہی مل رہا ہے۔ یہ بھی سننے میں آ رہا ہے کہ مذہبی عسکریت پسند تنظیمیں ایک دوسرے سے رابطے کا نیٹ ورک بنا چکی ہیں اور ان کے درمیان بہت سے معاملات پر اتفاق رائے پایا جاتا ہے' ادھر جرائم پیشہ گروہ بھی لسانی اور فرقہ پرست تنظیموں کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں' ایسا لگتا ہے کہ ان تنظیموں نے کراچی کو میدان جنگ بنا لیا ہے' یہ وہ خوفناک صورتحال ہے جس نے کراچی ہی نہیں پورے ملک کے فہمیدہ ، محب وطن اور امن پسند حلقوں کو پریشانی اور اضطراب میں مبتلا کر رکھا ہے۔سندھ میں برسراقتدار سیاسی جماعتیں ہی جب بے بسی کا رونا روتی ہوں تو پھر عام آدمی کی حالت کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے۔

اب سوال یہ ہے کہ کیا کراچی کو اسلحے سے پاک ہونا چاہیے یا نہیں؟ اس کا جواب تو ہاں میں ہی ہو گا لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ سوال بھی ہے کہ کیا اسلحہ کراچی کے اندر ہی تیار ہو رہا ہے اور اس کے بعد شرپسندوں ، قانون شکنوں اور دہشت گردوں کے ہاتھ لگ جاتا ہے یا کراچی میں اسلحہ خیبر پختونخوا' بلوچستان یا پنجاب سے آتا ہے؟ اس کا سوال جواب یہی ہے کہ کراچی میں اسلحہ باہر سے آ رہا ہے' ایسی صورت میں ایم کیو ایم کا یہ مطالبہ درست ہے کہ پورے ملک کو اسلحے سے پاک کیا جائے۔ خیبر پختونخوا کے قبائلی علاقوں سے آمدورفت کو سختی سے مانیٹر کیا جائے یا فاٹا کی آئینی پوزیشن کو تبدیل کرکے اس سیٹلڈ ایریا قراردیا جائے تاکہ وہاں قانون کی عملداری قائم ہوسکے ۔

کراچی میں داخلے کے راستوں پر ایسے افسران اور اہلکار تعینات کیے جائیںجو بلا امتیاز رنگ و نسل' زبان اور مسلک کے جانچ پڑتال کا کام سر انجام دیں تاکہ اسلحہ یا کوئی مشکوک گروہ شہر کی حدود میں داخل نہ ہوسکے ۔ یاد رکھیں اندھا دھند آپریشن کسی مسئلے کا حل نہیں ہے' اس سے مسائل زیادہ پیچیدہ ہوں گے۔ کراچی میں لاقانونیت محض مقامی مسئلہ نہیں ہے' یہ پورے ملک سے جڑا ہوا مسئلہ ہے' کراچی سے باہر کے کھلاڑی بھی یہاں کھیل رہے ہیں' کراچی ملک کی تمام سیاسی قوتوں کے تدبر' فہم و فراست اور زیرکی کا امتحان ہے' کراچی میں جمہوری قوتیں ناکام ہو گئیں تو پھر غیر جمہوری قوتوں کو آگے بڑھنے سے کوئی نہیں روک سکے گا۔
Load Next Story