صدر کا خیبر پختونخوا اسمبلی سے خطاب

صدر مملکت خیبرپختونخوا کے عوام کو جو پیغام دینے آئے تھے اس سے کہیں زیادہ مثبت پیغام وہ یہاں سے لے کر گئے۔

خیبرپختونخوا میں امن کے سوا سب کچھ موجود ہے،صدر زرداری ۔ فوٹو : آن لائن

صدر مملکت آصف علی زرداری کا ملکی پارلیمانی تاریخ میں پہلی بار کسی صوبائی اسمبلی سے خصوصی خطاب اپنی نوعیت کا ایک اہم واقعہ ہے۔

خیبرپختونخوا اسمبلی سے اپنے خطاب میں صدر مملکت نے کہا کہ خیبرپختونخوا میں امن کے سوا سب کچھ موجود ہے۔صدر جب اس حقیقت کااظہار کررہے تو اسی روز مہمند ایجنسی میں سابق امیر جماعت اسلامی قاضی حسین احمد ایک خاتون کے خودکش حملے میں بال بال بچ گئے۔یوں دہشت گردوں نے ایک قابل احترام اور محب الوطن شخصیت پر حملہ کرکے ثابت کیا کہ وہ واقعی اس ملک کے دشمن ہیں۔ صدر آصف علی زرداری نے خیبر پختونخوا اسمبلی میں خطاب کے دوران ایک بار پھر واضح کیا کہ جس سوچ نے ہم سے بے نظیر بھٹو کو چھینا وہی سوچ ملک پر قابض ہونا چاہتی ہے۔

صدر نے کہا کہ قاضی حسین احمد کے حوالے سے کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ وہ مسلمان نہیں ہیں یا وہ نماز نہیں پڑھتے۔ صدر کا اشارہ دہشت گردوں کی اس سوچ کی جانب تھا جس کا شکار مذہب کی تفریق کے بغیر ہر شہری ہے۔ صدر نے کہا کہ ملک کی بقاء صرف اور صرف جمہوریت میں ہے اور اگر کسی کی توقع یہ ہے کہ جمہوریت سے ہٹ کر کسی دوسرے نظام میں ملک کی بقاء ہے تو یہ اس کی غلطی ہے کیونکہ اگر کسی دوسرے نظام کی جانب دیکھا گیا تو اس کا نتیجہ عرب ممالک میں ہونے والی تبدیلی جیسا ہی برآمد ہوگا۔

صدر نے اپنی تقریر میں بڑے واضح انداز میں ان سازشوں کی جانب بھی اشارہ کیا جو ایک عرصے سے جاری ہیں اور جن کا مقصد ملک کے ٹکڑے کرتے ہوئے اسے تقسیم کرنا ہے اور انھوںنے ان سازشوں کا جس طریقہ سے راستہ روکا اس بارے میں انھوں نے واضح کردیا کہ صوبوں کو اختیارات دینے ہی سے ان سازشوں کو ناکام کیاجاسکتا تھا اور اس کا ادراک کرتے ہوئے ہی صوبوں کو اختیارات دیے گئے ہیں۔انھوں نے کہا کہ خیبرپختونخوا اپنی پولیس اور اداروں کو ذمے داریاں سنبھالنے کے لیے تیار کرے کیونکہ فوج کب تک یہاں رہے گی؟ یہ ذمے داری بالآخر سول ایڈمنسٹریشن نے ہی سنبھالنی ہے۔یہ بالکل درست بات ہے۔

خیبر پختونخوا حکومت کو انتظامی معاملات پر خصوصی توجہ دینی چاہیے۔ صدر نے انتہاپسندانہ سوچ کا تذکرہ کرکے شاید یہ اشارہ دیا ہے کہ مختلف علاقوں میں انتہا پسندوں کے خلاف کارروائی جاری رکھی جائے گی کیونکہ امن و امان کے قیام کے لیے یہ بہت ضروری ہے۔ سوات میں آپریشن کی کامیابی کے باوجود وہاں فوج موجود ہے، اس حوالے سے پہلے کبھی اتنا واضح انداز میں نہیں کہا گیا مگر صدر مملکت نے واضح الفاظ میں صوبائی حکومت کو اپنی ذمے داریاں ادا کرنے کی ہدایت دی ہے۔


امید رکھی جاسکتی ہے کہ اب اس حوالے سے کوئی پیش قدمی ہوگی اور شاید الیکشن سے پہلے پہلے سوات میں تمام ذمے داریاں سول انتظامیہ کے حوالے کردی جائیں، جہاں تک قبائلی علاقوں یا نیم قبائلی علاقوں کی بات ہے تو وہاں کے حالات کا تقاضا یہی ہے کہ فی الحال وہاں فوج کو موجود رہنا چاہیے۔

اس کے ساتھ ساتھ ان علاقوں میں آئینی تبدیلی لائی جائے تاکہ یہاں سماجی تبدیلی کا آغاز ہوجائے۔ صدر کے خطاب سے قبل اسپیکر صوبائی اسمبلی کرامت اللہ کا صدر سے ایسے مطالبات کرنا جو ان کے شایان شان نہیں تھے، پھر صوبائی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر اکرم درانی کی جانب سے مطالبات اور آخر میں وزیراعلیٰ امیرحیدر خان ہوتی کا یہ کہنا کہ ہم صدر سے کچھ بھی نہیں مانگیں گے، ثابت کرتا ہے کہ صدر مملکت کی پشاور آمد کے حوالے سے صوبے کی دو حکمران اتحادی جماعتوں اور اپوزیشن نے کوئی حکمت عملی نہیں بنائی تھی، نہ ہی اس حوالے سے کوئی ہوم ورک کیا گیا تھا جس کے نتیجے میں صوبائی اسمبلی میں عجیب صورتحال دیکھنے کو ملی۔

ویسے عوام کو بلاشبہ صدر کے دورے سے امیدیں وابستہ تھیں تاہم صدر مملکت خیبرپختونخوا کے عوام کو جو پیغام دینے آئے تھے اس سے کہیں زیادہ مثبت پیغام وہ یہاں سے لے کر گئے۔ پختون روایات کی جو جھلک خیبرپختونخوا اسمبلی میں دیکھی گئی وہ دوسری اسمبلیوں کے لیے بھی مثال ہے۔ حزب اقتدار اور حزب اختلاف دونوں بنچوں کی جانب سے صدر کا خیرمقدم اور صدر کے خطاب سے قبل اور خطاب کے دوران کسی قسم کا ناخوشگوار واقعہ نہ ہونا اس امر کی غمازی کرتا ہے کہ خیبرپختونخوا کی روایات ابھی زندہ ہیں۔

شدید ترین سیاسی اختلافات کے باوجود صدر کا خیبرپختونخوا اسمبلی سے ''پرامن'' خطاب یہ بھی واضح کرتا ہے کہ ایوان سے باہر امن ہو نہ ہو ایوان کے اندر امن ضرور قائم ہے۔ صدر نے اپنے دورے کے دوران سات کروڑ ڈالر کی لاگت سے امریکی تعاون سے شروع ہونے والے پشاور طورخم شاہراہ کے منصوبے کا آغاز بھی کیا جو دوسال میں تکمیل تک پہنچے گا، یقیناً اس منصوبے کی تکمیل سے پشاور سے طورخم تک سفری سہولتوں میں اضافہ ہوگا اور نیٹو کنٹینرز کی وجہ سے اس شاہراہ کو جو نقصان پہنچا تھا اس کا بھی ازالہ ممکن ہوسکے گا۔ امید ہے شاہراہ کی تعمیر کے وقت نیٹو سپلائی کا اضافی بوجھ ضرور پیش نظر رکھا جائے گا۔

خیبرپختونخوا کے بعد صدر مملکت نے سندھ اور بلوچستان اسمبلیوں سے بھی خطاب کا پروگرام بنایا ہے، پنجاب اسمبلی سے وہ خطاب کریں گے یا نہیں؟ یہ ابھی واضح نہیں تاہم ان کے خطاب کے حوالے سے جو مثال خیبرپختونخوا اسمبلی نے قائم کی ہے، دوسری اسمبلیوں کو اس کی ضرور تقلید کرنی چاہیے۔ صدر نے صوبائی اسمبلی سے خطاب کرکے اچھی روایت قائم کی ہے اب اپنی اپنی روایات کا مظاہرہ دوسری اسمبلیوں کو بھی کرنا ہے کہ یہ پاکستان میں جمہوریت کے تسلسل کے لیے ازحد ضروری ہے۔
Load Next Story