فوج کی حمایت
عدلیہ کا جس روز سے احترام کیا جارہا ہے، اسی روز سے فوج کا بھی احترام لازمی ہو جاتا ہے۔
فوج کی حمایت اسی طرح جائزہے جیسے عدلیہ کی حمایت جائز سمجھ کر کی جاتی ہے۔
عدلیہ کا جس روز سے احترام کیا جارہا ہے، اسی روز سے فوج کا بھی احترام لازمی ہو جاتا ہے، اس لیے کہ موجودہ چیف نے جنرل مشرف کے ہوتے ہوئے اعلان کر دیا تھا کہ ان کی ماتحت فوج سیاست میں منہ نہیں مارے گی، کیسے کیسے نازک مواقعے نہیں آئے جب ۔۔ لیکن فوج نے اپنے کام سے کام رکھا اور کسی انگیخت میں نہیں آئی، نہ کسی لالچ میں۔
جنرل کیانی آج کے دن تک اپنے عہد کو نبھا رہے ہیں ، ان کے ہوتے ہوئے فوج نے تھانہ چوہڑ ہڑپال راولپنڈی کے محرر سے بھی چھیڑ چھاڑ نہیں کی جب کہ عدلیہ اس ملک کے واحد متفقہ طور پر منتخب ہونے والے وزیر اعظم کو گھر بھیج چکی ہے، اس کا فیصلہ آئینی ہو گا مگر اسی کیس میں دوسرے وزیر اعظم کے ساتھ رعایت برتی گئی ہے، حکومت کو احساس ہے اور وہ اس کا برملا اظہار بھی کرتی ہے کہ عدلیہ کے سارے فیصلے اس کے خلاف آتے ہیں یا اسے ہی کٹہرے میں بلایا جاتا ہے جب کہ ن لیگ کے ساتھ نرمی برتی جاتی ہے، ارسلان کیس میں وہ سختی نہیں کی گئی اور نہ کی جانی چاہیے تھی جو وزیر حج کے ساتھ روا رکھی گئی۔
اس کے باوجود میں اس حق میں نہیں ہوں کہ عدلیہ پر انگلی اٹھائی جائے تاہم عدلیہ کو زیر بحث لایا جا رہا ہے اور اس کو روکنے کے لیے اب عدالتی احکامات بھی جاری ہو گئے ہیں، یہ احکامات اس لیے جاری ہو سکے کہ آئین میں عدلیہ کی تضحیک کی گنجائش نہیں ، شاید اسی آئین میں کسی جگہ فوج کی تضحیک کو بھی جرم قراردیا گیا ہو مگر فوج خود اپنے اوپر تنقید کو روکنے کے لیے آرڈر جاری نہیں کر سکتی ، اگر کرے گی تو اسے ایمرجنسی پلس کہا جائے گا ، آزادی اظہار پر پابندی قرار دیا جائے گا اور اس پابندی کو ہوا میں اڑا دیا جائے گا۔
عدلیہ کی تضحیک کرنے والے کو عدالت نوٹس جاری کر سکتی ہے، دفاع نہ ہونے کے سبب جیل بھی بھیج سکتی ہے، فوج کے پاس بھی آرمی ایکٹ کے اختیارات ہیں ، بعض ایسی صورتیں ہیں جب فوج کسی سول ملزم کا کورٹ مارشل کر سکتی ہے مگر ایساکرے گی تو واشنگٹن سے لے کر نئی دہلی تک، لندن سے لے کر تل ابیب تک ۔ پیرس سے لے کر کٹھمنڈو تک نہ جانے کتنے ہی حریت پسند فوج کو رگیدنے کے لیے میدان میں کود پڑیں گے۔
اصغر خان کیس کی سماعت شروع ہوئی تو میڈیا نے فوج پر چڑھائی کر دی، الزام ماضی کے چند جرنیلوں پر تھا مگر رگیدا جا رہا تھا موجودہ فوج کو۔۔۔روندی یاراں نو ں،نا ںلے کے بھراواں دا۔۔۔۔عدلیہ کے سامنے بھٹو عدالتی قتل کا کیس بھی ریویو کے لیے موجود ہے مگر میڈیا نے ماضی اور حال کے جج صاحبان کو تختہ مشق بنانے سے گریز کیا اور اچھا کیا،ماضی کے گڑے مرد اکھاڑنے سے کیا حاصل۔ آپ جسٹس منیر کے خلاف فیصلہ لے بھی آئیں تو اس سے جسٹس منیر کی روح کو کیا پشیمانی اور پریشانی لاحق ہو گی، ان کا معاملہ خدا کے سپرد ہے۔
جسٹس ایس اے رحمن اگر تلہ سازش کیس کی ڈھاکا میں سماعت کر رہے تھے کہ آرمی ایکشن ہو گیا اور بلوائیوں نے بھی جوابی چڑھائی کر دی، بعد میں جو کچھ ہوا، اس کے نتیجے میں مشرقی پاکستان الگ ہو گیا ۔ پاکستان دو لخت ہو گیا، اگر اس کی ذمے داری میں جسٹس ایس اے رحمن کو شامل کر بھی لیں تو کیا بنگلہ یش کی سوچ بدل جائے گی اور وہ واپس پاکستان کے دھارے میں شامل ہو جائے گا ، کیا کسی ٹی وی ٹاک شو کے تحت مشرقی پاکستان کی علیحدگی کو کالعدم قراردیا جاسکتا ہے۔جنرل یحیٰ خان، جنرل ضیا اور جنرل مشرف کا ساتھ کس نے نہیں دیا۔
اکثریت نے دیا مگر آج ہم ان کا کیا بگاڑ سکتے ہیں سوائے اس کے کہ خانہ جنگی شروع کر کے اپنے آپ کو لہو لہان کر لیاجائے۔ تو پھر ایسا کیوں ہے کہ ہم عدلیہ کی تو تعظیم کرتے ہیں جو کرنی چاہیے لیکن فوج کے لتے لیتے ہیںجو کہ نہیں لینے چاہئیں۔مگر کیوں لیے جاتے ہیں۔ فوج نے کیا بگاڑا ہے ۔ جب سے عدلیہ نے انصاف اور قانون کا راستہ اختیار کیا ہے، تب سے فوج بھی راہ راست پر چل رہی ہے۔اس نے ابائوٹ ٹرن نہیں لیا۔اس کا ٹرپل ون بریگیڈ حرکت میں نہیں آیا،اس نے آئین اور قانون کے دائرے سے باہر قدم نہیں رکھا۔
اور ایسا کوئی امکان بھی نظر نہیں آتا کہ وہ غیر آئینی اقدام کی جرات کرے۔مگر وہ جو مشہور ہے کہ ۔۔۔توں مینوں چھیڑیں گا۔۔۔ ہمارا میڈیا اور سول سوسائٹی کا ایک حصہ اسی عادت بد کا مظاہرہ کر رہا ہے۔اب جنرل کیانی کے ایک بیان پر لوگ سیخ پا ہو رہے ہیں ، بھائی، ایسا ہی ایک بیان چیف جسٹس نے بھی دیا، دونوں مقتدر اصحاب نے تقریریں کیں ، یہ جوابی تقریریں تھیں یا نہیں مگر لگتا ایسا ہی ہے۔چیف جسٹس صاحب نے جو کچھ فرمایا ، وہی اگر ان کے کسی فیصلے کا حصہ ہوتا تو ظاہر ہے جنرل کیانی اپنا بیان جاری کرنے سے پہلے سو بار سوچتے۔عدالتی فیصلے کاا حترام ہر کسی پر واجب ہے۔
جنرل کیانی بھی اس احترام میں خاموش رہتے مگر بیان تو بیان ہوتا ہے فیصلہ نہیں ہوتا، فیصلے کی طرح مقدس اور محترم نہیں ہوتا ، یہ تو ایک مشاعرہ کہہ لیجیے، جواب آن غزل سمجھ لیجیے۔ جو ہونا تھا ہو چکا ، تیر کمان سے نکل چکے۔اب اس مسئلے کو الجھانے کے بجائے سلجھانے کی فکر کرنی چاہیے ، میڈیاا پنی طاقت نہ دکھائے، سول سوسائٹی غیظ و غضب کے اظہار سے گریز کرے ورنہ عالم عرب میں تو بہارکے پر فضامنظرسے ہمارے دل سرشار ہو رہے ہیں ،خدا نخواستہ یہاںخزاں کی نحوستیں منڈلانے لگیں گی۔ہم پہلے ہی حالت جنگ میں ہیں، دہشت گرد پہلے ہماری جانیں لے رہے ہیں ، کوئی کسر باقی ہے تو ہم خانہ جنگی سے پوری کر لیں گے۔
کسی کے ہاتھ میں کچھ نہ آئے گا تو کیوں نہ حساب سودو زیاں کر کے اپنی زبانوں پر قابو پائیں۔مغربی سرحدوں پر امریکی اور نیٹو کی فوج مورچہ زن ہے اور مشرقی سرحدوں پر بھارت کی فوج بزن کے اشارے کی منتظر ہے۔ان خطرات سے ہماری فوج نے ہی نبٹنا ہے تو ہم اس کو کمزور کیوں کر رہے ہیں ،سوچیں کسی دشمن کے ہاتھ میں تو نہیں کھیل رہے، سوچیں، فوج کو کمزور کرنا کس کا مقصد ہے۔ہم سوچیں، ان کے مقصد میں کیوں شریک ہو ر ہے ہیں۔سوچیں، جب ملک پر فوج کی حکومت بھی تھی ، مارشل کا اندھیرا بھی مسلط تھا تو فوج نے کیا کیا کارنامے انجام نہیں دیے، یہ کبھی بوسنیا والوں سے پوچھیں کہ یوگو سلاویہ کی فورتھ آرمی کا بھرکس انھوں نے کس کی مدد سے نکالا۔
آج آپ سری لنکا والوں کو بلا بلا کر ڈینگی مچھر سے نجات کی تدبیریں سیکھ رہے ہیں مگر سری لنکا والوں سے بھی پوچھیں کہ انھوں نے اپنے ہاں دہشت گردی کے خاتمے میں کس کی مدد لی۔ اب تو ہر ایک کو آئی ایس آئی کے ایس ونگ کی فکر لاحق ہے لیکن ذرا بھارت سے پوچھیں اور امریکا کے دل کو ٹٹولیں کہ وہ آئی ایس آئی سے کیوں خائف ہے۔
جنرل حمید گل کے آئی جے آئی بنوانے پر اعتراض کرنے والے سابق سوویت روس جیسی سپر پاور کے لاشے پر بھی نظر ڈالیں کہ اسی جنرل کی سربراہی میں آئی ایس آئی نے توڑے دار بندوقوں سے سوویت روس کی فوج سے کیسے ٹکر لی تھی، ایسا کردار ماضی میں کوئی اور ادارہ انجام نہیں دے سکا تو جس ادارے کا ماضی تابناک ہو اور حال قابل فخر ہو ، اس کے خلاف زبان درازی کرنے کے بجائے اس کی حمائت میں سامنے آیئے، آئین، قانون اور ضمیر کی آواز پر لبیک کہئے۔