ایک خط
دوست اسی کو کہتے ہیں کہ سختی نرمی یا کسی بھی طرح دوست کو نقصان سے بچائے۔
میں انتہائی ممنونیت اور مشکوریت کے جذبے سے مجبور ہو کر یہ خط لکھ رہا ہوں۔
خیبر پختونخوا کی ایک اہم اور قابل احترام شخصیت کو۔ خدا آپ کو جزائے خیر دے کیوں کہ آپ نے مجھ پر اتنا بڑا احسان کیا ہے جس کا صلہ تو میں نہیں چکا سکتا لیکن ممنونیت کا اظہار الفاظ میں تو کر سکتا ہوں۔ اپنی زندگی میں پہلی مرتبہ میں ایک ''گناہ کبیرہ'' کرنے جا رہا تھا، ہمیشہ اور ہر سطح پر ''سرکاریات'' سے دور دور رہنے والا ایک شخص اپنی کتاب کی سرکاری رونمائی کرا رہا تھا۔
حیرت ہوتی ہے کہ آخر مجھے کیا ہو گیا تھا، شاید عمر کے اس مرحلے میں قویٰ کچھ مضمحل ہو گئے تھے یا چاروں اطراف میں نمک کی ایک بہت بڑی کان پھیل رہی تھی کہ مجھ پر بھی نمک چڑھنے لگا، دراصل ایک اور چیز نے بھی اس پر مائل کیا۔ میں نے سوچا ،بھلے ہی سرکار دربار میں ہوں لیکن میرے انتہائی محترم ہیں ۔ احمد فرازکاشعر ہے
ڈھونڈ اجڑے ہوئے لوگوں میں وفا کے موتی
یہ خزانے تجھے ممکن ہے خرابوں میں ملیں
اور پھر میں نے اپنے ایک مرحوم دوست سے یہ بھی سنا تھا کہ کالج کے دور میں آپ اچھے خاصے ادب پسند تھے۔ اس زمانے کے ایک مشہور پشتو رائٹرکے آپ نہایت ہی عقیدت مند تھے بلکہ ان کی کتابوں اور اقوال زریں کا حوالہ بھی اکثر آپ کالج مباحثوں میں دیا کرتے تھے حالانکہ وہ کوئی مشہور لکھاری نہیں تھے بلکہ کہا جاتا ہے کہ وہ کردار دراصل آپ ہی کی تخلیق تھے اور وہ حوالے اور اقوال خود آپ ہی کے ہوتے تھے، مطلب کہنے کا یہ ہے کہ یہ سمجھنے کے لیے خاصے جواز موجود تھے کہ بہرحال آپ ادب، شعر اور علم کا اچھا ذوق رکھتے ہیں۔
چنانچہ ایک ایسے آدمی سے کتاب کی رونمائی کرانا سعادت کی بات تھی، آپ نے بڑی خوشی سے حامی بھری لیکن شاید آپ کو اس وقت پتہ نہیں تھا کہ یہ چیز میرے لیے اچھی ہے یا بری ۔۔۔ میں جو ہمیشہ سرکاریات سے دور رہا تھا نہ کبھی کوئی سرکاری اعزاز قبول کیا تھا نہ کوئی کتاب سرکاری خرچے سے چھپوائی تھی نہ کسی سرکاری ادارے کے انعامات کے لیے کوئی کتاب پیش کی تھی، اب ایک ایسا داغ اپنے دامن پر لگانے جا رہا تھا جو اگر آپ بر وقت سوچ کر مجھے بچا نہ لیتے تو زندگی بھر کے لیے میرے ماتھے کا کلنک بن جاتا، لوگ بڑے الزامی انداز میں تبصرہ کرتے کہ دیکھا بڑا ہی طرم خان بنتا تھا، اپنی ساری جمع پونجی ایک ہی داؤ میں ہار گیا، عمر بھر جو کچھ کمایا تھا، اسے ایک تقریب ستائش کے بدلے ہار گیا۔
بہت شور سنتے تھے پہلو میں دل کا
جو چیرا تو اک قطرہء خوں نہ نکلا
سوچتا ہوں اگر آپ جیسے اہل تدبر کو بروقت میری بھلائی کا احساس نہ ہو جاتا اور میرے کالے لباس پر یہ سفید دھبہ لگ جاتا تو میرا تو سب کچھ لٹ جاتا، وہ خود داری کے دعوے، بے نیازی کے مظاہرے، قلندری کا بھرم کچھ بھی نہ رہتا، کیونکہ عموماً ایسے مواقعے پر سرکار کی طرف سے عنایات خسروانہ کے طور پر ''کچھ ٹکے'' بھی عنایت کیے جاتے ہیں جو خرچ تو بہت جلدی ہو جاتے ہیں لیکن خمیازہ صدیوں تک بھگتنا پڑتا ہے۔
دشمنوں کا کیا ہے، میرے ایسے بہت سارے دوست اور قدر دان مجھ سے متنفر ہو جاتے جن کو صرف میری قلندری اور بے نیازی سے پیار ہے اور دل کی گہرائیوں سے میری قدر و منزلت کرتے ہیں اور یہ لوگ ہی تو میری ساری عمر کی کمائی ہے۔ میرا اثاثہ ہیں ،میرا سرمایہ ہیں اور میرے فخر کی بنیادیں ہیں اور میری ایسی مت ماری گئی تھی کہ میں ایک سرکاری نظر کے لیے ان سب کو ہارنے جا رہا تھا، بیر کے بدلے باغ لٹا رہا تھا اور کانٹوں کے تاج کے لیے ایک گلستان اجاڑ رہا تھا، لیکن آپ نے مجھے بچا لیا اسے کہتے ہیں صحیح اور مخلصانہ دوستی
دوست آں باشد کہ گیرد دستِ دوست
در پریشاں حالی و درماندگی
یوں کہیے کہ میں خودکشی کر رہا تھا اور آپ نے میرے ہاتھ سے پستول چھین لیا، ایسے مواقعے پر کچھ دیر کے لیے تھوڑا سا دکھ ہوتا ہے، مجھے بھی ہوا کیوں کہ تقریب کے سارے انتظامات ہو چکے تھے، دعوت نامے پہنچ چکے تھے بلکہ لاہور، اسلام آباد، مانسہرہ، سوات اور بنوں ڈیرہ اسماعیل سے میرے مقالہ نگار دوست بھی اپنے مقالہ جات پڑھنے کے لیے تشریف لا چکے تھے ، ان میں ایسے لوگ بھی تھے جن کو ایک لمحے کی فرصت بھی نہیں ہوتی لیکن میری خاطر آ گئے تھے اور پہنچ چکے تھے کیوں کہ دس بجے تقریب ہونا تھی۔
لگ بھگ بارہ بجے فون کر کے پوچھا تو بتایا گیا کہ کل کی تقریب ملتوی ہو چکی ہے، دکھ بھی ہوا غصہ بھی آیا، دوستوں اور مدعوئین کو اطلاع دیتے ہوئے شرمندگی بھی اٹھانا پڑی لیکن یہ تو پہلا ردعمل تھا، بعد میں جب میں نے ذرا ٹھنڈے دماغ سے غور کیا تو پتہ چلا کہ آپ مجھے کتنی بڑی غلطی بلکہ تاریخی جرم سے بچا چکے ہیں۔ دوست اسی کو کہتے ہیں کہ سختی نرمی یا کسی بھی طرح دوست کو نقصان سے بچائے، چاہے اس کے لیے اسے تلخ اور سخت اقدامات کیوں نہ اٹھانا پڑیں اور آپ نے وہی کیا میرے دور رس مفادات کے بارے میں سوچا اور عارضی تکلیف کو نظر انداز کر کے مجھے بچا لیا
کس منہ سے شکر کیجیے اس لطف خاص کا
پرسش ہے اور پائے سخن درمیاں نہیں
آپ سے کیا پردہ میں تو نادان ہوں، یہ ایک دانا دوست نے سمجھایا کہ بڑے صاحب نے تو تیرے اوپر عظیم احسان فرما دیا ہے، تمہیں ایک خاص لیبل اور ٹھپہ لگنے سے بچا لیا، اگر یہ ٹھپہ تم پر لگ جاتا تو کبھی نہ مٹتا ایک سچا اور مخلص دوست ہی ایسا کر سکتا ہے۔
جز قیس اور کوئی نہ آیا بروئے کار
صحرا مگر بہ تنگئی چشم حسود تھا
میں اور تو کچھ نہیں کر سکتا صرف چند الفاظ ہی کے ذریعے ممنونیت کا اظہار کر سکتا ہوں سو کر لیا اور کرتا رہوں گا
تحفہ درویش برگ سبز است