لازمی تعلیم کا قانون

سرسید احمد پہلے شخص تھے جنہوں نے مسلمانوں میں جدید انگریزی تعلیم حاصل کرنے کی مہم چلائی۔

tauceeph@gmail.com

پارلیمنٹ نے تعلیم کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہوئے پیپلز پارٹی کی رکن اسمبلی یاسمین رحمن کے لازمی تعلیم کے بل کو منظورکرلیا۔

یوں آئین میں کی گئی 18ویں ترمیم میں شامل آرٹیکل 25A کے تحت ہر شہری کے تعلیمی حق کو قانونی جواز مل گیا۔ اس قانون کے تحت والدین کو اپنے بچوں کو لازمی طور پر اسکول میں داخل کرانا ہوگا۔ورنہ عدالت 50 ہزار روپے جرمانہ یا 6ماہ قید بامشقت کی سزا دے سکے گی۔ پرائیوٹ اسکولوں کو 10 فیصد نشستیں غریبوں کے لیے مختص کرنی ہوںگی۔ ورنہ رجسٹریشن منسوخ ہوگی اور 2 لاکھ روپے جرمانہ ہوگا۔ اس قانون کا اطلاق صدر پاکستان کی منظوری کے بعد دارالحکومت اسلام آباد کے علاقے میں ہوگا۔

اب صوبائی حکومتوں کو اس قانون پر عملدرآمد کے لیے اس قانون کو اپنی اسمبلیوں میں منظور کراکے اپنے اپنے صوبے میں نافذ کرنا ہوگا۔ جدید ممالک میں لازمی تعلیم قانون ایک صدی قبل سے نافذ ہے۔ پاکستان کے تعلیم کے شعبے میں پسماندگی کی بنیادی وجوہات میں ایک بڑی وجہ ریاست کی اولین ترجیح نہ ہونا ہے۔ پاکستان دنیا کے ان چند ممالک میں ہے جس کے قیام میں تعلیمی اداروں نے اہم کردار ادا کیا تھا۔ جب 1857 کی جنگ آزادی ناکام ہوئی اور انگریزوں نے بہادر شاہ ظفر کو معذول کیا تو اس کے ساتھ ساتھ نظام حکومت تبدیل کردیا گیا۔ مسلمان کیونکہ جدید نظام تعلیم سے دور تھے اس لیے وہ نئے نظام میں داخل نہ ہوسکے۔

سرسید احمد پہلے شخص تھے جنہوں نے اس کمزوری کو محسوس کیا۔ انھوں نے مسلمانوں میں جدید انگریزی تعلیم حاصل کرنے کی مہم چلائی۔ انھوں نے سائنسی علوم سے مسلمانوں کو آشنا کرنے کے لیے دو رسائل اخبار سائنٹیفک سوسائٹی اور تہذیب الاخلاق جاری کیے۔ یوں علیگڑھ میں پہلا کالج قائم ہوا۔ محمڈن کالج علی گڑھ میں مسلم لیگ کی تحریک پروان چڑھی۔ ہندوستان کے مختلف شہروں کے جدید تعلیمی اداروں سے فارغ التحصیل ہونے والے طلباء نے تحریک پاکستان میں اہم کردار ادا کیا۔ مسلم لیگ نے نئے ملک کے لیے تعلیمی نظام کے لیے ابتدائی کام کیا تھا۔

مسلم لیگ کی سنٹرل کمیٹی نے 40 کی دھائی میں ایک کمیشن قائم کیا تھا جس نے پاکستان کے تعلیمی نظام کے خدوخال تیار کیے تھے مگر پاکستان کے قیام کے بعد مسلم لیگی قیادت تعلیم کے معاملے کو بھول گئی۔ گورنر جنرل محمد علی جنا ح کی نگرانی میں تیار ہونے والے اپنے بجٹ میں کثیر رقم دفا ع کے لیے خرچ کردی گئی۔ تعلیم اور صحت آخری درجے پر رکھے گئے۔ مسلم لیگ حکومت نے بھارت کی طرح تعلیم کو ریاست کی اولین ترجیح قرار نہیں دیا۔

یوں تعلیم نجی شعبے کے سپرد کردی گئی۔ اگرچہ برصغیر میں رفاعی تعلیمی اداروں کی ایک روایت تھی اور پاکستان میں بھی مختلف سماجی ادارے تعلیمی ادارے چلاتے تھے مگر اب نجی شعبے نے منافعے کے اصول کے تحت تعلیمی ادارے قائم کیے۔ یہ ادارے بڑے شہروں میں قائم ہوئے، کیونکہ امراء اور متوسط طبقہ ہی ان اداروں میں اپنے بچوں کو تعلیم سے آراستہ کراسکتا تھا۔ مگر نچلے متوسط طبقے اور نچلے طبقے کو مکمل طور پر فراموش کردیا گیا۔ پھر یہ ادارے دیہی علاقوں میں قائم نہیں ہوئے۔ ملک کے دیہی علاقوں میں برسر اقتدار حکومتوں نے تعلیمی ادارے قائم کیے۔ ان تعلیمی اداروں کی تعداد انتہائی محدود رہی۔ اگر 1972 کی صورتحال کا جائزہ لیا جائے تو صوبہ سندھ میں صرف دو یونیورسٹیاں، دو میڈیکل اور انجنیئرنگ کالج اور ایک ایگری کلچرل کالج تھا۔

بلوچستان میں نہ کوئی یونیورسٹی تھی نہ تعلیمی بورڈ تھا۔ سابق صوبہ سرحد میں صرف ایک یونیورسٹی اور ایک تعلیمی بورڈ قائم تھا۔ پیپلز پارٹی کی پہلی حکومت نے تعلیم کو ریاست کی پہلی ترجیح قرار دیا تو ملک بھر میں یونیورسٹیوںاور تعلیمی بورڈ کی تعداد میں اضافہ ہوا۔ مگر بھٹو حکومت نے تعلیم کے بجٹ میں عالمی معیار کے مطابق اضافہ نہیں کیا اور تعلیمی شعبے کو بیوروکریسی اور سیاستدانوں کی چیرہ دستیوں کے لیے کھلا چھوڑ دینے سے دیہی علاقوں میں آبادی کی ضرورت کے مطابق تعلیمی ادارے قائم نہیں ہوئے اور سیاسی مداخلت کی روایت تقویت پاگئی، یوں تعلیمی معیار پر برے اثرات پڑنے شروع ہوئے۔ امراء اور متوسط طبقے کو بھٹو حکومت کی تعلیمی پالیسی کے خلاف مہم چلانے کا موقع ملا۔


جنرل ضیاء الحق نے غیر ملکی اداروں کے قیام کی اجازت دے کر امراء اور متوسط طبقے کو مطمئن کیا۔ اس کے ساتھ ہی نجی شعبے نے تعلیم میں سرمایہ کاری کرنی شروع کی۔ مگر ضیاء حکومت نے سرکاری شعبے کے حالات کو بہتر بنانے پر توجہ نہیں دی۔ تعلیمی نصاب میں مذہبی جنونی مواد شامل کر کے نئی نسل کے ذہنوں کو پراگندہ کرنا شروع ہوا۔ جنرل ضیاء الحق کے دور میں بڑے شہروں کی غریب بستیوں او ردیہی علاقوں میں تعلیم کو عام کرنے کا معاملہ کو مکمل طور پر نظرانداز کیا گیا۔ جب 1988 میں منتخب حکومتوں کا دور شروع ہوا تو یہ توقع تھی کہ بے نظیر بھٹو اور نواز شریف حکومتیں تعلیم کو عام کرنے کے لیے انقلابی اقدامات کریں گی اور پاکستان کم از کم پڑوسی ممالک کے قریب پہنچ جائے گا۔

پیپلز پارٹی کی شریک چیئرپرسن بے نظیر بھٹو نے یہ وعدہ کیا تھا کہ تعلیم کا بجٹ عالمی معیار کے قریب کردیا جائے گا اور یہ بجٹ جی ڈی پی کا 4فیصد ہوگا۔ مگر بے نظیر بھٹو اس وعدے کو پورا نہیں کرپائیں۔ ان کے دور میں اساتذہ کی ملازمتیں فروخت ہوئیں، ان کے قریبی معاونین نے تعلیمی اداروں کی نشستوں کو بازار میں فروخت کیا۔ جب خورشید شاہ نے بے نظیر حکومت کے دور میں وزیر تعلیم کا عہدہ سنبھالا تو کراچی کے معروف داؤد انجینئرنگ کالج میں تھرڈ ڈویژن طلباء کو داخلے دینے کی بناء پر این ای ڈی یونیورسٹی نے اس کالج کا الحاق منسوخ کردیا۔ نواز شریف حکومت نے ایٹمی دھماکا کیا تو صرف تعلیم اور صحت کا بجٹ کم ہوا۔ پرویز مشرف حکومت نے بھی تعلیم میں نجی شعبے کی سرپرستی جاری رکھی۔

مگر ان کے دور میں ملک بھر میں یونیورسٹیوں کا جال بچھ گیا۔ یونیورسٹی میں فرائض انجام دینے والے اساتذہ کی تنخواہوں اور مراعات کے حوالے سے امراء طبقے کے نچلے حصے تک پہنچ گئے مگر شہروں میں غریب بستیوں اور دیہی علاقوں میں تعلیم عام کرنے کے لیے انقلابی اقدامات نہیں کیے گئے۔ مگر نائن الیون کی دہشت گردی کے بعد بڑھتی ہوئی انتہاپسندی کا نشانہ خواتین کے تعلیمی ادارے بنے۔خیبر پختون خواہ اور قبائلی علاقوں میں خواتین کے اسکولوں کو منظم طریقے سے تباہ کرنے کا سلسلہ شروع ہوا۔ سوات سمیت جن علاقوں میں طالبان نے غلبہ حاصل کیا وہاں خواتین پر تعلیم کے دروازے بند کردیے گئے۔

سوات کی ملالہ تعلیم کے حق کے حصول کے لیے دہشت گردی کا شکار ہوئی۔ موجودہ حکومت کے اقتدار میں آنے کے بعد آئین میں کی گئی 18ویں ترمیم کے تحت تعلیم کا شعبہ صوبوں کے حوالے ہوا اور آرٹیکل 25A کے تحت ہر شہری کے تعلیم کے حق کو تسلیم کیا گیا لہذا اب صوبوں کی تعلیم عام کرنے کی ذمے داری ہوگی۔ اس کے ساتھ ہی قومی مالیاتی ایوارڈ (NFC) کی تشکیل نو کے ساتھ صوبوں کی آمدنی میں کئی سو گنا اضافہ ہوا۔ یوں نصاب کی تشکیل کا فریضہ بھی صوبوں کے سپرد ہوا۔ اب صوبوں کے پاس نصاب سے جنونی مواد نکالنے کے اور تعلیم عام کرنے کے فریضے کو پورا کرنے کے علاوہ کوئی اور راستہ نہیں رہا۔

یاسمین رحمنٰ نے قومی اسمبلی اور سینیٹر سعیدہ اقبال نے سینیٹ میں یہ بل پیش کر کے اپنا فرض ادا کیا۔ انھوں نے رجعت پسندوں کے اس پروپیگنڈے کا پردہ چاک کردیا کہ خواتین پارلیمنٹ میں محض ''شوپیس'' کی حیثیت رکھتی ہیں۔ مگر اس بل کو جب تک تمام صوبے نافذ نہیں کریں گے اس کے خاطرخواہ نتائج برآمد نہیں ہونگے۔ سماجی ماہرین کا کہنا ہے کہ گزشتہ 65 برسوں کے دوران تعلیم عام کرنے کی کوششوں کا یہ نتیجہ نکلا کہ امراء اور متوسط طبقے میں خواندگی کا تناسب صد فیصد ہوگیا مگر نچلے متوسط اور نچلے طبقے میں تعلیم کی شرح انتہائی کم رہی۔ اب تعلیم عام کرنے کا بنیادی نکتہ نچلے طبقات پر مرکوز ہونا چاہیے۔

یہ پسماندہ طبقات اپنی رجعت پسند سوچ کے علاوہ غربت و افلاس کی بناء پر بھی اپنے بچوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ نہیں کراپاتے۔ اس لیے اس قانون میں اسکول نہ بھیجنے والے والدین کو سزا کے علاوہ اسکول جانے والے بچوں کے والدین کے لیے مراعات کا اعلان بھی ہونا چاہیے۔ دنیا بھر میں اسکول جانے والے بچوں کو ناشتہ، کھانا، یونیفارم، کتابیں اور کاپیاں بھی فراہم کی جاتی ہیں۔ غریب طلباء کو وظائف علیحدہ دیے جاتے ہیں۔ بھارت کی مختلف ریاستوں خاص طور پر اتر پردیش میں گریجویشن کی سطح پر طالبات کو وظائف دینے کی اسکیم سے خواتین میں خواندگی کی شرح بڑھانے کا تجربہ کیا جاچکا ہے۔ یہ تجربہ پاکستان میں بھی ہونا ضروری ہے۔ پھر سرکاری تعلیمی اداروں کے معیار کو بلند کرنے، غیر حاضر اساتذہ کے ادارے کو ختم کرنے اور گھوسٹ اسکول دریافت ہونے پر متعلقہ افسران کو فوجداری سزائیں بھی اس قانون کا حصہ ہونا چاہیے۔

اس کے ساتھ نجی تعلیمی اداروں کو 10 فیصد نشستیں غریبوں کے لیے مختص کرنے کے لیے جامع قانون بنانے اور اس پر عملدرآمد کو یقینی بنانے کے لیے بھی طریقہ کار وضع کر کے اس قانون کو جامع بنایا جاسکتا ہے۔ ماہر تعلیم ڈاکٹر نیر کی یہ بات ایک حقیقت ہے کہ جب تک تعلیم کا بجٹ جی ڈ ی پی کا 6 فیصد نہیں ہوگا اور بجٹ جی ڈی پی کا 1.7 فیصد رہے گا اس بل کے نفاذ سے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ پھر سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ منتخب حکومتیں واقعی تعلیم کے شعبے میں میرٹ اور شفافیت پر عمل پیرا ہونگی۔
Load Next Story