فلاحی ریاست…
سلامی فلاحی ریاست کی بنیادتوحید پر قائم ہے اور رسالت و ختم نبوت اور یومِ آخرت پر یقین کامل بھی انتہائی لازمی ہے۔
ISLAMABAD:
اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے، اس لیے وہ دیگر اداروں کی طرح ریاست کے قیام کے لیے بھی مکمل ہدایات اور اُصول فراہم کرتا ہے۔
ان ہدایات کی روشنی میں جو ریاست قائم ہوتی ہے اس کی متعدد خصوصیات ہوتی ہیں، جن میں سے اہم خصوصیت یہ ہے کہ اسلامی ریاست ایک فلاحی ریاست ہوتی ہے اور اسلامی فلاحی ریاست کے فرائض سے مراد شہریوں کے وہ حقوق ہیں جن کی ادائیگی ریاست پر لازم ہے۔
ایک اسلامی فلاحی ریاست اسی وقت قائم رہ سکتی ہے جب اس ریاست میں آباد ہر شہری میں ایمان پختہ، عمل صالح اور باہمی بھائی چارہ اور خلوص بہ درجۂ اُتم موجود ہو۔ ایسی روح پرور فضا اسی وقت قائم اور موجود رہ سکتی ہے جب اقتدارِ اعلیٰ کے صحیح اسلامی تصور پر عمل کیا جائے۔ لہٰذا اسلامی فلاحی ریاست کا پہلا فرض یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے احکامات نافذ کرے اور اپنی زندگی کے معمولات کو احکامِ الٰہیہ کے مطابق بنائے۔ اسلامی ریاست کے سربراہ کا فرض ہے کہ اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کا نائب سمجھے، اپنے اختیارات اور ریاستی املاک کو بطورِ امانت استعمال کرے۔
اسلامی فلاحی ریاست کی بنیاد تو توحید پر قائم ہے اور رسالت و ختم نبوت اور یومِ آخرت پر یقین کامل بھی انتہائی لازمی ہے۔ اسلام دینِ کامل ہے۔ فلاحی مملکت دراصل اسلام ہی کا نظریہ ہے۔ سب سے پہلے اسلام نے ایسی مملکت کا تصور پیش کیا۔ دنیا کی سب سے پہلی فلاحی ریاست مدینہ منورہ میں قائم ہوئی اور اللہ کے آخری نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دنیا میں فلاحی ریاست کا نمونہ پیش کیا۔ مدینہ منورہ کی مثالی اسلامی ریاست نے ایک فلاحی اور منصفانہ اور بنیادی حقوق کے یکساں محافظ معاشرے کا تجربہ پوری دنیا کو کامیاب کر کے دکھایا۔
سیرتِ طیبہ کا مطالعہ کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ اسلامی فلاحی ریاست کا تصور یہ ہے کہ یہ فلاحی مملکت ہو اور خادم مخلوق ہو۔ یعنی اپنے شہریوں کی خدمت کرنے والی ہو اور ان کی فلاح اور بہبود چاہتی ہو۔ ایک ریاست میں آباد لوگوں اور شہریوں کو دنیاوی اور اخروی دونوں اطراف فلاح و رفاہ میسر ہو۔ یہ ایسی حکومت ہو جو ایک جانب علمِ دین کی ترویج کرے تو دوسری طرف امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا خاکہ پیش کرے۔ امن و انصاف، معاشرتی عدل، معاشی ذمے داریاں نبھانے اور وسائل مہیا کرنے کا طریقہ آسان تر بنایا جائے۔ ریاست شہریوں کو تمام بنیادی سہولیات فراہم کرے، یہ ریاست کی بنیادی ذمے داری اور شہریوں کا حق ہے۔
ارشادِ نبوی ہے: ''مخلوق خدا کا کنبہ ہے اور بہترین شخص وہ ہے جو خدا کے کنبے کے ساتھ احسان کرے۔''
پورا عہدِ رسالت اس وعدۂ خداوندی کا آئینہ دار ہے کہ خالق کو اپنی تمام مخلوق محبوب ہے، کسی کو قتل کرنا، ایذا پہنچانا، حق تلفی کرنا، عصبیت اختیار کر کے ظلم کرنا، اللہ تعالیٰ کے نزدیک پسندیدہ فعل نہیں البتہ ایک دوسرے کی مدد کرنا اور رہنمائی کرنا پسندیدہ بات ہے۔ کتب میں مرقوم ہے کہ ایک مرتبہ مخزوم قبیلے کی ایک عورت نے چوری کی، بعض لوگوں نے اس عورت کو شرعی واجب سزا سے بچانے کے لیے ایک روایت کے مطابق حضور اکرم کے نہایت عزیز حضرت اسامہ بن زیدؓ سے فرمائش کر کے معافی کی درخواست پیش کی۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس سفارش پر ناراض ہوکر فرمایا: ''بنی اسرائیل اسی سبب سے تباہ ہوئے کہ وہ غریبوں پر حد جاری کرتے اور امیروں سے درگزر کرتے تھے۔''
مدینہ منورہ میں جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سربراہی میں پہلی اسلامی ریاست کا قیام عمل میں آیا تو آپؐ نے ریاست کے تمام اختیارات سے دعوتِ حق کی اشاعت کا کام لیا۔ زندگی بھر مساوات کا نظام قائم رکھا، عدل و انصاف کی فراہمی کو ممکن بنایا اور امن و امان کی صورتحال برقرار رکھی۔ ساتھ ہی خود بھی اپنے مرتب کردہ قانون پر عمل پیرا رہے۔ جو اسلامی ریاست کی بنیادی حدود کو استوار کرنے میں ممد و معاون ثابت ہوئے۔ پھر میدانِ تجارت میں وعدے کی پاسداری، سچائی، امانت داری اور عدل و انصاف کی اعلیٰ ترین مثالیں پیش کیں اور اسلامی فلاحی ریاست میں اسی راہ پر گامزن رہنے کی نصیحت اور تلقین فرمائی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عدل کی بار بار تاکید فرمائی۔
اُسوۂ نبویؐ کی روشنی میں اسلامی فلاحی ریاست وہ ہے جس میں اللہ تبارک و تعالیٰ کی حاکمیت کے سوا کسی دوسری حاکمیت کا شائبہ تک نہ ہو۔ ریاست کی ذمے داری ہو کہ زندگی کے ہر شعبے میں حقیقی اور فطری عدل و مساوات قائم کرے۔ کوئی بھی معاشرہ عدل و انصاف اور مساوات کے بغیر قائم نہیں رہ سکتا۔ اسلامی ریاست میں مذہبی، اخلاقی اور قانونی اعتبار سے تمام لوگ برابر ہوتے ہیں اور اس میں امیر و غریب اور حاکم و محکوم کی کوئی تمیز نہیں ہوتی۔ قانون اور آئین سب پر یکساں لاگو ہوتا ہے جس کا احترام سب پر لازم ہے۔ قانون سے کوئی شخص بالاتر نہیں ہوتا۔
اسلامی فلاحی ریاست میں تمام شہری حقوق و فرائض میں برابر کے شریک ہیں۔ دینِ اسلام چونکہ عدل و انصاف اور مساوات کا دین ہے، اس لیے اسلامی ریاست میں تمام شہریوں کی عزتِ نفس کا بھی خیال رکھا جاتا ہے اور سب کا احترام بھی کیا جاتا ہے۔ اس میں تمام شہریوں کو سماجی، معاشی اور اقتصادی حقوق برابری کی بنیاد پر حاصل ہوتے ہیں۔ اسلامی فلاحی ریاست ملک سے جرائم کا خاتمہ کر کے شہریوں کو عدل و انصاف فراہم کرتی ہے اور ہر فرد کی جان و مال کی حفاظت کرنا بھی ریاست کا فرض ہوتا ہے۔ اسلام نے صدیوں پہلے فلاح و بہبود کو حکومت کے فرائض میں شامل کیا اور شہریوں کی رفاہ کے لیے مجلسِ شوریٰ، زکوٰۃ، مفت تعلیم، بیت المال، امن و امان، صحت کی سہولیات، خوراک کی فراہمی، عدل و انصاف، اخوت، مساوات، صلہ رحمی جیسے بہترین اور عمدہ اصول دیے، تا کہ ایک بہترین اسلامی فلاحی ریاست قائم ہو۔
تاریخ گواہ ہے کہ مدینہ منورہ میں اتنی آسودگی اور نان نفقہ کی خوشحالی تھی کہ صاحب نصاب کو ڈھونڈنے سے بھی مستحقِ زکوٰۃ نہیں ملتا تھا۔ عوام کی تعلیم، نوجوانوں کی تربیت، قرآنی تعلیم، بیماروں کا علاج، لباس اور خوراک، جانی و مالی تحفظ، عزت اور ناموس، خواتین کی حفاظت، حجاب، موجودہ امیر المومنین اور عمالِ حکومت کی ذمے داری تھی۔ سود خور یہود و نصاریٰ سے معاشرہ مکمل طور پر پاک و صاف تھا، بیت المال فلاحی ریاست کی امانت تھا جہاں آمد و خرچ کا صحیح حساب موجود تھا، خلیفہ خود نگران اور محافظ ہوتے تھے۔
پھر برصغیر میں ایک اسلامی ریاست کا نعرہ بلند ہوا تو اس سے بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح کی مراد ایک صحیح اسلامی فلاحی ریاست کا قیام تھا۔ قائد اعظم پاکستان میں ایسا نظامِ حکومت قائم کرنا چاہتے تھے جو حضرت عمر فاروقؓ کے دور کی یاد تازہ کر دے۔ آپ نے فرمایا: ''میری آرزو ہے کہ پاکستان صحیح معنوں میں ایک ایسی مملکت بن جائے کہ ایک بار پھر دنیا کے سامنے فاروق اعظمؓ کے سنہری دور کی تصویر عملی طور پر کھنچ جائے، خدا میری اس آرزو کو پورا کرے۔''
آج 64 برس گزر جانے کے باوجود پاکستان صحیح معنوں میں ایک اسلامی فلاحی ریاست نہ بن سکا اور اس وقت تک نہیں بن سکتا جب تک حاکم قوم کے خادم نہ بنیں گے، بیت المال کو عوام کی امانت نہیں سمجھا جائے گا اور زکوٰۃ کے نظام کو مستحکم نہ بنایا جائے گا، اسلامی فلاحی ریاست کا قیام خواب ہی رہے گا۔