کہتی ہے تجھ کو خلقِ خدا غائبانہ کیا

ڈاکٹر صاحب کے خدشات، دلائل اور موقف میں کافی وزن ہے، لیکن آدھا پاؤ کم ہے۔


S Nayyer November 20, 2012
[email protected]

RAWALPINDI: وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف نے متحدہ قومی مومنٹ کے وفد کو ایک مرتبہ پھر یقین دہانی کروا دی ہے کہ کراچی کے حالات چند روز میں بہتر ہو جائیں گے۔

یہاں تک تو معاملات ٹھیک ٹھاک ہی سمجھو۔ لیکن اُنھوں نے متحدہ کے وفد کو یہ بھی بتایا ہے کہ کراچی میں قیام امن کے لیے ہر ممکن اقدام کر رہے ہیں۔ یقیناً کر رہے ہوں گے، لیکن مسئلہ یہ ہے کہ دہشت گرد بھی تو جوابی طور پر شہر کا امن تباہ کرنے کے لیے ہر ممکن اقدامات مسلسل کیے جا رہے ہیں۔ سیاست اگر ممکنات کا کھیل ہے اور فی الحال تو اِس کھیل میں دہشت گردوں کا پلہ ہی بھاری نظر آتا ہے۔ کراچی کے عوام جہاں اتنے برسوں سے حکومتی یقین دہانیوں کے سہارے خوف و دہشت کے سائے تلے مر مر کر جیتے چلے آ رہے ہیں، چند دِن اور سہی۔

اِس کے علاوہ راجہ صاحب نے متحدہ کے وفد کو جو سب سے '' تگڑی'' یقین دہانی کروائی ہے، وہ بڑی دلچسپ ہے، اُنھوں نے فرمایا کہ ''کسی کو حالات خراب کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔'' اور یہی وہ اصل یقین دہانی تھی جسے سُن کر یقیناً متحدہ کا وفد آبدیدہ ہو گیا ہو گا۔ اور اُن کی سمجھ میں یہ باریک نُکتہ بھی آ گیا ہوگا کہ کراچی کا امن تباہ کرنے والے تمام فریق، امن و امان کی صورتحال خراب کرنے کی یہ کارروائی دراصل بلا اجازت ہی کر رہے ہیں۔

راجہ صاحب نے کم سے کم یہ بڑا اچھا کام کیا کہ متحدہ کا یہ شک دو ٹوک الفاظ میں دور کر دیا کہ شہر کے امن و امان میں خرابی کی جو بھی وجوہات ہوں، وہ اپنی جگہ، لیکن اِس کی اجازت راجہ صاحب نے نہ کسی کو دی ہے اور نہ ہی وہ دینے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ پھر شہر کے حالات چند روز میں کس طرح دُرست ہو جائیں گے؟ میرا خیال ہے کہ راجہ صاحب نے متحدہ کے وفد کو یہ سوال کرنے کی اجازت ہی نہ دی ہو گی۔ ورنہ متحدہ والے ضرور بتا دیتے۔ کیونکہ متحدہ کو تو چند ماہ بعد اِسی شہر سے ووٹ لینے ہیں، راجہ صاحب نے تھوڑی لینے ہیں۔

مُشیر پیٹرولیم ڈاکٹر عاصم صاحب نے عوام کو اور حکومت کو متنّبہ کیا ہے کہ اگر سی این جی کو دوبارہ مہنگا نہ کیا گیا تو عوام کے گھروں کے چولہے جلد ہی بُجھ جائیں گے۔ اُنھوں نے گیس سستی کرنے کے نقصانات یا سی این جی مہنگی کرنے کے فوائد گنواتے ہوئے یہ خوفناک انکشاف کیا کہ سی این جی سستی ہونے سے، اِس کا استعمال اتنا زیادہ بڑھ گیا ہے کہ عوام کے چولہے ٹھنڈے ہونے کی نوبت آ سکتی ہے۔ ڈاکٹر صاحب کے خدشات، دلائل اور موقف میں کافی وزن ہے، لیکن آدھا پاؤ کم ہے۔ اُنھوں نے آج تک یہ نہیں بتایا اور نہ ہی اِس سلسلے میں کوئی انکوائری کروائی کہ مشرف دور میں وہ کون صاحب تھے جو سی این جی اسٹیشنز کے لائسنس سی این جی کے طلبگاروں میں اِس طرح بانٹ کر چلے گئے جیسے اندھا ریوڑیاں بانٹتا ہے۔

یہ جانے بغیر کہ ملک میں سی این جی کی پیداوار کتنی ہے اور کتنے لائسنس جاری کیے جانے چاہیں؟ اُنھوں نے تو یہ بھی نہیں بتایا کہ موجودہ دور میں پابندی کے باوجود کتنے لائسنس جاری کیے گئے اور کس اتھارٹی نے کیے؟ چلیں اِسے بھی چھوڑیں یہ تو پچھلے '' دور آمریت'' کے قصّے ہیں۔ کے ای ایس سی اور پی ٹی سی ایل کی نجکاری معاہدے بھی کون سے عوام کے سامنے آ گئے ہیں۔ جو ہم سی این جی اسٹیشنز کے حساب کا رونا لے کر بیٹھ جائیں۔

ڈاکٹر صاحب نے تو بڑی معصومیت سے پچھلے کیے دھرے پر چوہدری شجاعت صاحب کے فارمولے کے مطابق '' مٹی پانے'' کے بعد جو حل نکالا ہے اُس کو ہم آسان زبان میں یوں کہہ سکتے ہیں کہ '' ہُن کی کرئیے'' تو اِس کا واحد حل یہی ہے کہ سی این جی کو مہنگا کر کے پیٹرول کی قیمت کے برابر کر دیا جائے تو عوام خود سی این جی پر لعنت بھیج کر پیٹرول خریدنا شروع کر دیں گے۔ اِس عمل سے عوام کو یہ فائدہ حاصل ہو گا کہ اُن کے گھروں کے چولہے روشن رہیں گے۔ اور اُنہیں پھل اور کیک خرید کر نہیں کھانا پڑیں گے۔ ڈاکٹر صاحب کو یہ فائدہ ہو گا کہ تیل کا در آمدی بل بڑھ جائے گا اور زر ِمبادلہ کے ذخائر جب کم ہونا شروع ہوں گے تو یہ وزارتِ پیٹرولیم کی بجائے وزارتِ خزانہ کا دردِ سر ہو گا۔

لیکن خوشی کی خبر یہ ہے کہ ابھی زرِمبادلہ کے ذخائر اتنے ہیں کہ مارچ 2013 تک کام چل جائے گا۔ اِس کے بعد یہ آنے والی حکومت کا دردِ سر ہو گا۔ جب تک ڈاکٹر صاحب شاید اپنے اصل وطن امریکا لوٹ چکے ہوں گے۔ جس وطن کی خاطر اُنھوں نے سینیٹ کی سیٹ قربان کر دی لیکن وہاں کی شہریت نہیں چھوڑی۔ یہی وجہ ہے کہ وہ کبھی وزیر تو کبھی مُشیر کہلاتے ہیں۔ جس طرح کوئی گاڑی کبھی پیٹرول اور کبھی سی این جی پر با آسانی ''کنورٹ'' ہو جاتی ہے، یہی حال ڈاکٹر صاحب کی وزارت اور مشاورت کا ہے۔ وہ وزیر رہیں یا مُشیر، گاڑی کی طرح پیٹرولیم کی وزارت اُن ہی کے پاس رہتی ہے۔ مختصر یہ کہ پچھلے دورِ آمریت کا کیا دھرا ہو یا موجودہ دورِ جمہوریت کا۔

قیمت عوام کو ہی ادا کرنی ہے اور یہی ہمارے ملک کے ہر مسلیے آسان ترین حل ہے۔ اور ہونا بھی چاہیے، عوام ہی تو بڑے چاؤ سے اِن حکمرانوں کو اپنے ووٹوں سے منتخب کر کے حکومت میں لائے ہیں اور بقول حکمرانوں کے عوام نے یہ پکّا ارادہ کر رکھا ہے کہ اگلے الیکشن میں وہ اِنہیں ایک اور موقع دینے والے ہیں۔ بالکل دیں جی! ہم کون ہوتے ہیں دونوں فریقوں کے بیچ میں بولنے والے؟ اچھا خاصا سی این جی کا منافع چند لوگوں کی جیبوں میں جا رہا تھا عوام بھی مطمعن تھے۔ عدلیہ نے خوامخواہ بیج میں ''بھانجی'' مار کر بلا وجہ کا بُحران پیدا کر دیا اور بُحران بھی کوئی ایسا ویسا نہیں بلکہ اتنا سنگین کہ گھروں کے چولہے بجھنے کی نوبت آ گئی ہے۔

مُشیر داخلہ رحمٰن ملک صاحب نے یکم محرم الحرام کو جب اچانک کراچی اور کوئٹہ میں موٹر سائیکل چلانے پر پابندی عائد کی تو عوام اُنکا یہ حکم نامہ سُن کر دم بخود رہ گئے۔ واضح رہے کہ موٹر سائیکل پر ڈبل سواری کی پابندی اور موبائل فون کی بندش پہلے بھی ہوتی رہی ہے۔ لیکن موٹر سائیکل پر سوار ہو کر اُسے چلانے پر پابندی کا حکم نامہ کراچی اور کوئٹہ کے عوام کے لیے بالکل ایک نئی چیز تھی۔ حالانکہ اِس حکم نامے میں عوام کو یہ چھوٹ دی گئی تھی کہ اگر وہ چاہیں تو موٹر سائیکل کا ہینڈل پکڑ کر پیدل سفر کر سکتے ہیں، ہیلمٹ پہننے کی اضافی سہولت اِس کے علاوہ تھی۔

لیکن ملک صاحب نے جب یہ حکم جاری کیا تو عوام ''غم و غصے''کی جس کیفیت میں مبتلا ہو چکے تھے اِس کیفیت میں یہ ممکن ہی نہیں تھا کہ وہ اِس سہولت کے بارے میں سوچنے کی بھی زحمت گوارہ کرتے کہ چلو 13 گھنٹے موٹر سائیکل پر سوار ہونے کے بجائے موٹر سائیکل کے ہمراہ چہل قدمی کر لی جائے تو کیا مضائقہ ہے؟ سب حیران تھے سوائے ہمارے دیرینہ دوست حبیب اللہ زلف تراش کے۔ ہم نے حیران ہو کر اُن سے اُن کے حیران نہ ہونے کا سبب پوچھا تو مسکرا کر بولے '' یہ کوئی نیا حکم نامہ یا نیا طرز حکومت تھوڑی ہے یہ تو بہت ہی قدیم طریقہ حکمرانی ہے۔''

میں نے پوچھا '' وہ کیسے؟ ''فرمایا ''اِسی لیے میں آپکو اکثر تلقین کرتا رہتا ہوں کہ تاریخ کا مطالعہ ضرور کیا کیجیے، پتہ نہیں تاریخ سے نا واقفیت کے باوجود تم کالم کیسے لکھ لیتے ہو؟ بھائی یہ اُسی حکم نامے کی فوٹو کاپی ہے، جو ہزاروں سال قبل قدیم مصر کے فراعین میں سے ایک فرعون نے اُس وقت جاری کیا تھا۔ جب اُس کے شاہی جوتشیوں نے اُسے خبر دار کرتے ہوئے بتایا تھا کہ فلاں دِن، فلاں تاریخ کو ایک ایسا بچہ جنم لینے والا ہے، جو بڑا ہو کر اُسکی خدائی کو چیلنج کرے گا اور اُسکے زوال کا باعث بن جائے گا۔ لہذا فرعون نے بجائے اُس بچے کو تلاش کرنے کے آسان راستہ یہ نکالا کہ اُس رات پیدا ہونے والے تمام بچوں کو قتل کرنے کا حکم نامہ جاری کر دیا۔ یہ الگ بات کہ وہ بچہ یعنی حضرت موسیٰ ؑ نہ صرف بچ گئے بلکہ اُنکی پرورش بھی اُسی فرعون کے محل میں ہوئی۔''

ایک لمحے تو قف کے بعد بولے '' کیا اب بھی آپ یہی کہو گے کہ یہ کوئی نیا حکم نامہ تھا؟ بات سمجھ میں آئی یا مزید تشریح کروں؟'' میرے خیال میں سمجھ تو آپ بھی گئے ہوں گے؟ دونوں حکم ناموں میں فرق صرف ایک تھا۔ فرعون کے زمانے میں ہائی کورٹ نہیں تھا اور ایس ایم ایس سروس بھی نہیں تھی۔ اگر ایس ایم ایس سروس یا موبائل فون اُس زمانے میں موجود ہوتا تو عوام نے رات دس بجے تک جس گرمجوشی کے ساتھ ملک صاحب کو بذریعہ ایس ایم ایس دل کی گہرائیوں سے جس طرح کا ''خراجِ تحسین'' پیش کیا شائد فرعون اِسکی تاب نہ لا سکتا؟ واقعی ملک صاحب لوہے کا جگرا رکھتے ہیں ۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں