تنگ آمد

حکمرانی کا مسلمہ اصول ہے کہ ریاست کے ہر شخص کو انصاف اس کی دہلیز پر پہنچایا جائے۔


Nasir Rizwan Advocate November 20, 2012

حضرت عمر بن عبد العزیزؒ کی زوجہ نے آپ سے کہا عید آ رہی ہے اور بچوں کے پاس نئے کپڑے نہیں ہیں آپ کو جو بیت المال سے وظیفہ ملتا ہے۔

اس میں نئے کپڑے نہیں بن سکتے آپ ایک ماہ کا وظیفہ ایڈوانس لے لیں جس میں بچوں کے کپڑے بن جائیں گے باقی میں کچھ مزدوری کر لوں گی جس سے مہینے کا گزارہ ہو جائے گا۔ حضرت نے بیت المال کے انچارج سے ایڈوانس وظیفے کے لیے کہا اس نے جواب دیا حضرت ایڈوانس وظیفہ آپ لے لیں اور ایک کاغذ پر تحریر لکھ دیں کہ آپ اگلے ماہ تک زندہ رہیں گے اور خلیفہ کی خدمات انجام دیں گے حضرت خاموش ہو گئے، عید کے دن بچوں نے پرانے دھلے ہوئے کپڑے پہنے آپ نے بچوں سے کہا کہ آج خاندان کے دوسرے بچوں کے سامنے تمہیں نئے کپڑے نہ پہننے پر شرمندگی ہوئی ہو گی۔

بچوں نے کہا نہیں بلکہ ہمیں فخر ہے کہ آپ نے ہمارے لیے کوئی بددیانتی نہیں کی، سلام ایسے انصاف پسند حکمرانوں پر اور ان کے گھر والوں پر۔ یاد رہے آپ کی زوجہ کے دنیاوی درجے پر آج تک دنیا کی کوئی عورت نہیں پہنچی اور نہ قیامت تک پہنچ سکتی ہے کیونکہ تقریباً 6 نسبتوں سے بنو امیہ کی حکمرانی آپ کے گھر میں تھی محترمہ کے والد، شوہر اور چار بھائی حکمران تھے اور صبر و استقامت کی اس سے بڑی کیا مثال ہو گی، لیکن افسوس ہے آج پوری مسلم امہ کا ہر حکمران میاں بیوی بچوں سمیت بدعنوانی میں ملوث ہے، وطن عزیز پاکستان میں ہی حالیہ مثال طبقہ اشرافیہ کی اور بہت سے با اثر لوگوں کی ہے ایک اور بڑی وجہ عدل و انصاف کا ناپید ہونا ہے۔

یہ حکمرانی کا مسلمہ اصول ہے کہ ریاست کے ہر شخص کو انصاف اس کی دہلیز پر پہنچایا جائے لیکن یہ تمام کام اپنے کندھوں سے اُتار کر چیف جسٹس آف پاکستان اور سپریم کورٹ کے حصے میں دے دیا گیا ہے، یہی وجہ ہے کہ عوام کی امیدوں کا آخری سہارا اب یہی ہیں کیونکہ ہمارے حکمران اور بیشتر سیاستدان ہر قسم کی اخلاقی قدروں اور صحت مند روایات سے محروم ہو چکے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی تقریریں اور بیانات قوم کے رستے ہوئے زخموں پر نمک چھڑکنے کے لیے کافی ہیں۔ قوم کا ہر شخص اندر سے زخمی ہے اگر کہیں خوشحالی ہے تو حکمرانوں کے اتحادیوں اور حواریوں کے یہاں جن کی اولاد اور جائیدادیں دونوں ملک سے باہر ہیں اور ان کی نگاہ میں خدا کی مخلوق اندھی ہے۔

اس کے جذبات احساسات اور آنسو نہیں ہیں یہ جو بھی ظلم کر رہے ہیں اس پر شادیانے بج رہے ہیں، تمام تر حکومتی کارروائی بیوروکریٹس کے مشوروں پر چل رہی ہے جو صرف اپنے تبادلے کی حد تک تبدیلی کے قائل ہیں اور وہ انھیں سب اچھا ہے کی روایتی رپورٹ دیتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ کراچی اور بلوچستان جل رہا ہے جہاں انسانی زندگی اور خدمت کی تذلیل ہو رہی ہے اس پر اگر کوئی فکر مند ہے اور عملی اقدامات کر رہی ہے تو وہ صرف چیف جسٹس اور سپریم کورٹ ہے ۔ ملک کا سنجیدہ طبقہ ایسے حالات پر خون کے آنسو رو رہا ہے جو پورے اضطراب کو محسوس کر رہا ہے، لیکن حکمران اور ان کے حواری آپس میں پھر گٹھ جوڑ اور اگلے الیکشن میں پھر کامیاب ہونے کے دعوؤں تک محدود ہیں۔

کیونکہ ان میں ہر ایک اپنے وقت کا ارسطو بھی اور فرعون بھی ہے ہر ایک اپنے آپ کو انقلابی قیادت کے طور پر پیش کر رہا ہے جو اس بات کا ثبوت ہے کہ ان کے دل عوام کے ساتھ نہیں دھڑکتے اور ان کا یہ تضاد ان کا بھرم تو کھو چکا ہے اور اب جمہوریت اور عوامی حکمرانی کے نعرہ کا بھرم بھی کھو چکا ہے ۔ چنانچہ ستم ظریفی دیکھیے مشرف جیسے شخص کو جس کے پیدا کردہ مسائل کو حل کرنے کے لیے عمر نوح (علیہ السلام) اور صبرِ ایوب (علیہ السلام) کی ضرورت ہے کو قوم کے سامنے ایک کامیاب حکمران کی حیثیت سے پیش کیا جا رہا ہے جو اپنے طور اور دور حکمرانی کو آج کی جمہوری حکمرانی سے بہتر کہہ رہا ہے حالانکہ موجودہ حکمرانوں اور سیاستدانوں میں اچھی خاصی تعداد اس ڈکٹیٹر کی آمریت میں اپنا حصہ بڑھ چڑھ کر لیتی رہی ہے اور موجودہ ڈپٹی وزیراعظم تو اُسے 10 مرتبہ وردی میں منتخب کروانے کا اعلان کر چکے تھے۔

آج ان کی اور دوسرے اتحادیوں کی ترقی صرف وردی سے شیروانی تک ہوئی ہے حالانکہ سلطنتوں کی امارت اور غربت کا پیمانہ یہ ہوتا ہے کہ جس کے حکمران غریب ہوتے ہیں وہ ملک امیر ہوتے ہیں اور اسی طرح اس کے برعکس ہوتا ہے یہاں حکمرانوں اور سیاستدانوں کو عیش و عشرت کی ہر سہولت میسر ہے اور عوام کے چولہے ٹھنڈے ہیں ملک کے سرکاری اسپتالوں میں ڈسپرین اور دفتروں میں کاغذ تک میسر نہیں ہے جس پر کہا جاتا ہے کہ جمہوری حکومت کے ثمرات عوام تک پہنچنا شروع ہو گئے ہیں۔

افسوس اس بے حسی اور بے شرمی میں یہ اپنے آپ کو قوم کا رہنما کہلواتے ہیں اگر یہ واقعی قوم کا درد رکھنے والے ہوتے تو قوم کا یہ حشر نہیں ہوتا اور ہر کام کی ذمے داری اور چیف جسٹس اور سپریم کورٹ کے کھاتے میں نہ ڈالی جاتی اور پوری دنیا اس سوچ میں ہے کہ یہ کس مرض کی دوا ہیں اور کیا پاکستان اتنی عظیم قربانیوں کے بعد ایسے ہی حکمرانوں کی حکمرانی کے لیے بنا تھا جو عدل تو دور کی بات ہے خود عدل کے فیصلوں پر عملدرآمد کرانے میں راہِ فرار اختیار کرتے ہیں ۔

حالیہ CNG کا فیصلہ اس کی ایک چھوٹی مثال ہے کہ حکومت وقت کو گزشتہ چار سالوں سے علم ہی نہیں تھا کہ اس مد میں کس طرح عوام کے خون پسینے کی کمائی کھائی جا رہی ہے اور جب عدالت عظمیٰ نے فیصلہ صادر کیا تو CNG اسٹیشنز پر لمبی لمبی گاڑیوں کی قطاریں حکومتی بے حسی اور عوامی مسائل سے غفلت کا واضح ثبوت ہے اور وہ اس بات سے بھی غافل ہیں کہ غریب عوام کو سپریم کورٹ جو ریلیف فراہم کر رہی ہے وہ دراصل ان کی ذمے داری ہے اور ان فیصلوں پر عمل نہ کرا کے وہ عوام کو تنگ آمد بہ جنگ آمد پر اُکسا رہے ہیں نہ کہ جمہوریت کی فروغ کے کھوکھلے دعوے عوام کے غصے کو کم کر سکیں گے۔ بقول عبدالحق قریشی: ؎

الٹ کر رہے گی بساطِ قیادت
گریبان جیبوں سے اُلجھے ہوئے ہیں
وطن میرا آتش فشاں بن نہ جائے
بغاوت کے آثار سُلگے ہوئے ہیں

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں