پڑھائی۔۔۔ پیا گھر جانے کے بعد

نئی زندگی کی مصروفیات میں ادھوری تعلیم کیسے مکمل کریں


Munira Adil May 30, 2016
نئی زندگی کی مصروفیات میں ادھوری تعلیم کیسے مکمل کریں ۔ فوٹو : فائل

ہمارے ہاں اکثر بچیوں کے میٹرک تک پہنچتے پہنچتے رشتے طے ہو جاتے ہیں، اور پھر منگنی کے ایک یا دو سال کے بعد وہ رشتہ ازدواج سے منسلک بھی ہو جاتی ہیں۔ بہت سی بچیاں یہ مراحل انٹر، گریجویشن اور ماسٹرز کے دوران بھی طے کرتی ہیں۔ دوران تعلیم نئی زندگی کا آغاز کرنے والی لڑکیوں کی خاصی بڑی تعداد ایسی ہوتی ہے، جو اپنے آخری امتحانات نہیں دے پاتی، ان کی آخری شش ماہی (سیمسٹر) چھوٹ جاتی ہے، یا پھر کوئی چھوٹا سا زبانی یا عملی امتحان رہ جاتا ہے، جس کی بنا پر ان کی ڈگری ادھوری رہ جاتی ہے۔ شادی کے وقت بعض ساسیں یہ کہہ تو دیتی ہیں کہ وہ شادی کے بعد اپنی بہو کی تعلیم مکمل کرالیں گی، مگر عملاً ایسا نہیں ہوتا۔ کہیں ساس خود پس وپیش سے کام لینے لگتی ہیں، تو کہیں زندگی کی مصروفیات ہی اجازت نہیں دے پاتیں کہ تعلیم کا سوچا بھی جائے۔

تعلیمی میدان میں کام یابی کے لیے یک سوئی ازحد ضروری ہے اور عموماً شادی کے بعد فرائض کی انجام دہی اور نئے رشتوں اور نئے ماحول میں مطابقت پیدا کرتے ہوئے پڑھائی کے دوران یک سوئی برقرار نہیں رہ پاتی، جس کے باعث تعلیمی مدارج میں کام یابی مشکل تر محسوس ہونے لگتی ہے اور پھر جب کم عمر ساتھی طلبہ تعلیمی سلسلے کو کام یابی سے مکمل کر لیتے ہیں، تو لاشعوری طور پر ایک خفگی و شرمندگی کا احساس شخصیت میں خود اعتمادی کو ختم کر دیتا ہے۔ ایسی صورت حال میں ان خواتین کو احساس کم تری کا شکار ہونے کے بہ جائے یہ سمجھنا چاہیے کہ وہ ان سے زیادہ سمجھ دار ہیں اور اپنی کام یابی کے حصول کے لیے سنجیدگی سے کوشاں ہیں، لیکن ذمہ داریوں میں اضافے کے باعث اس میں کچھ تاخیر ہو رہی ہے اور وہ اپنے حوصلے لگن اور ہمت سے جلد کام یابی حاصل کرلیں گی۔

شادی کے بعد سلسلۂ تعلیم جاری رکھنے والی خواتین کو پہلے مرحلے میں اپنی زندگی میں نظم و ضبط قائم کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ یہ مشکل ضرور محسوس ہوتا ہے، مگر ناممکن نہیں ہے۔ ہمیشہ یہ سوچ مدنظر رکھنی چاہیے کہ بے شمار خواتین نے شادی کے بعد سلسلۂ تعلیم جاری رکھا اور بچوں کی پرورش کے ساتھ اپنی تعلیم کو بھی کام یابی سے مکمل کیا۔

پڑھائی یا امتحانات کے دوران یک سوئی اور سکون درکار ہوتا ہے، کچھ وقت کے لیے پرسکون ہو کر کی جانے والی پڑھائی کئی دنوں کی غیر منظم پڑھائی سے بہتر ہے۔ اگر آپ کے بچے بڑے ہیں، تو ان کو سمجھایا جا سکتا ہے کہ وہ کچھ وقت کے لیے آپ کو پڑھنے دیں۔ جب آپ پڑھ رہی ہوں یا پھر جن اوقات میں بچے پڑھنے گئے ہوئے ہوں، اس دوران مکمل یک سوئی سے پڑھا جا سکتا ہے۔ اگر بچے چھوٹے ہوں، تو ان کو نانی یا دادی کے پاس چھوڑ دیں، تاکہ کچھ وقت آپ پرسکون ہو کر پڑھ سکیں یا پھر کسی قابل بھروسا آیا کا انتظام کیا جا سکتا ہے۔

اپنے روزمرہ معمولات کے لیے اوقات کار کا مخصوص کر دینا بھی ازحد ضروری ہوتا ہے۔ وقت مقرر کرلیں، کہ کتنا وقت روزانہ پڑھائی کرنی ہے۔ بچوں کی مصروفیات کو مدنظر رکھتے ہوئے وقت مقرر کریں یا چھوٹے بچے ہوں، تو دھیان کیجیے کہ نانی یا دادی کس وقت فارغ ہوں گی یا آیا کس وقت آئے گی۔ جب اوقات کار کا تعین کر لیں، تو اس کی پابندی کریں اور پوری یک سوئی سے پڑھائی کریں۔ مخصوص کردہ اوقات کار کے دوران غیر ضروری سرگرمیوں، بالخصوص موبائل فون کے استعمال سے خاص طور پر دور رہیں۔

گھر میں ایک کمرہ یا کوئی ایک گوشہ پڑھائی کے لیے مخصوص کر دیں۔ ایسی جگہ، جہاں بچوں کی پہنچ نہ ہو یا جہاں سے بچوں کو دور رکھنا ممکن ہو۔ اس طرح آپ کی کتابیں اور نوٹس بچوں کی پہنچ سے محفوظ رہیں گے اور آپ پڑھائی کے دوران بھی اطمینان سے اپنا کام چھوڑ کر اٹھ سکیں گی۔ آپ کو یہ فکر نہیں ہو گی کہ اگر آپ ایک لمحے کے لیے بھی یہاں سے ادھر ادھر ہوئیں، تو یہ چیزیں بچوں کے ہاتھ لگ جائیں گی۔

اس کے علاوہ اپنی پڑھائی کے لیے پہلے چھوٹے اہداف مقرر کریں کہ کس دن کیا پڑھنا ہے، پھر انہیں ضرورت کے حساب سے بڑھائیں۔ اپنے اہداف کے حصول کے لیے حتی الامکان کوشش کریں، یہ آپ کی کام یابی کی ایک سیڑھی ثابت ہوگا۔ پڑھائی کے دورانیے کے حساب سے اس میں وقفہ بھی کیا جا سکتا ہے۔ خصوصاً اگر بچے آیا کے حوالے کیے ہوں تو وقفے وقفے سے ان کو بھی دیکھتی رہیں۔

اپنے روزمرہ کے کاموں اور پڑھائی کے وقت کا ایک شیڈول بنالیں، تاکہ فرائض کی انجام دہی بھی متاثر نہ ہو اور اہل خانہ کو بھی شکایت کا موقع نہ ملے، کیوں کہ شادی کے بعد تعلیم کا سلسلہ بحال ہو تو سب سے پہلا مسئلہ گھر کے نظر انداز ہونے کا ہوتا ہے۔ یہیں سے شوہر یا ساس وغیرہ کو اعتراض ہوتا ہے، اس لیے خصوصی احتیاط کیجیے اور کوشش کیجیے ایسی نوبت نہ آئے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں