کمزور جمہوریت‘ آمریت سے بہتر …
جب بھی جمہوری طاقتوں کے درمیان تصادم کی فضا قائم ہوئی تو’’تیسری قوت‘‘ کو مداخلت کا جواز مل گیا۔
کہا جاتا ہے کہ ''لنگڑی لولی جمہوریت، آمریت سے بہترین انتقام ہے'' اور غالباً موجودہ جمہوریت بردار حکومت اسی نظریے کے تحت وجود میں آئی تھی اور ماشاء اللہ اسی نظریے کو مد نظر رکھتے ہوئے اپنی پانچ سالہ مدت پوری کرنے کے قریب پہنچ گئی ہے یعنی ابھی چار پانچ یا زیادہ سے زیادہ چھ، سات مہینے رہ گئے ہیں۔
یوں تو حکومتی ارکان یہی کہہ رہے ہیں کہ عام انتخابات مارچ یا اپریل 2013 تک متوقع ہیں اور کوئی وزیر یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ عام انتخابات 2013تک ہو سکتے ہیں۔ لیکن ابھی تو عبوری حکومت (یعنی نگران حکومت) کا قیام باقی ہے۔ اس کے 90 دن کے اندر انتخابات ہوں گے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اگر 18؍ مارچ 2013 کے بعد نگراں حکومت قائم ہوتی ہے تو مئی 2013میں وہ نوے دن کی معیاد ختم ہو گی۔ خدشات یہ بھی ظاہر کیے جا رہے ہیں کہ اگر مئی 2013 میں انتخابات ہوتے ہیں تو نئی حکومت کو بجٹ بنانے میں مشکلات ہوں گی۔
کیونکہ نیا سیٹ اپ منظم ہونے تک بجٹ کا مہینہ (جون 2013) آ جائے گا۔ اس صورتحال کے پیش نظر ضروری ہو گا کہ کم ازکم مارچ یا اپریل 2013 تک عام انتخابات کرانا ضروری ہو جائے گا۔ دوسری جانب جب عبوری حکومت مارچ 2013 میں وجود میں آ جاتی ہے تو کیا اس نئی حکومت کے لیے مارچ یا اپریل 2013میں انتخابات کرانا ممکن ہو سکے گا؟
ظاہر بات ہے ایسا ممکن نہیں ہو گا، اُدھر الیکشن کمیشن بھی علی الاعلان کہہ رہا ہے کہ انتخابات کی تیاریاں مکمل ہیں، حکومت جس وقت کہے گی انتخابات کرا دیے جائیں گے۔ مگر الیکشن کمیشن یہ واضح طور پر نہیں بتا رہا ہے کہ کس وقت تک اور کس تاریخ تک انتخابات کرائے جا سکتے ہیں؟ کیونکہ ان کے مطابق یہ حکومت کا کام ہے۔ وہ تاریخ اور وقت بتائے ہم انتخابات کرا دیں گے۔ یہ صرف حکومت یا الیکشن کمیشن کے درمیان کا معاملہ نہیں۔ درمیان میں ''حزب اختلاف'' بھی ہے۔
جو اس تذبذباتی صورتحال کا فائدہ اُٹھانے کی کوشش میں آواز اٹھا رہی ہے کہ حکومت انتخابات کے التوا کے لیے جواز تلاش کر رہی ہے، مگر ہم (حزب اختلاف) کسی صورت انتخابات ملتوی نہیں کرنے دیں گے۔ ہم ہر فورم پر آواز اٹھائیں گے اور ہر حکومتی حربے کو ناکام بنادیں گے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ حزب اختلاف اس ایشو پر تصادم کی فضا پیدا کرنا چاہتی ہے۔ جو کہ موجودہ ملکی حالات کی بناء پر صحت مند نہیں ہو سکتا۔ بلکہ جلتی پر تیل چھڑکنے کے مترادف ہو گا۔
بہتر یہی ہو گا کہ حزب اختلاف صرف اختلاف کی راہ پر نہ چلے بلکہ مفاہمت کی راہ اختیار کرے اور اس نازک مسئلہ کا قومی مفادات کو مد نظر رکھتے ہوئے بہتر حل تلاش کرے، ورنہ پھر کیا ہو گا، یہ سب کو معلوم ہے، وہی ہو گا جو پہلے ہوتا رہا ہے، یعنی بقول پیر پگارا (مرحوم) کے ''مجھے بوٹوں کی آواز آ رہی ہے، یا سنائی دے رہی ہے'' اور یہ حقیقت ہے کہ ماضی میں بھی ہم یہی دیکھتے آ رہے ہیں کہ جب بھی جمہوری طاقتوں کے درمیان تصادم کی فضا قائم ہوئی اور وہ آپس میں لڑتے جھگڑتے رہے تو حالات میں اتنا بگاڑ پیدا ہوا کہ بالآخر ''تیسری قوت'' کو مداخلت کا جواز مل گیا۔
ہمیشہ یہی ہوتا آیا ہے اور یہ حقیقت ہے کہ جب بھی جمہوری حکومتیں ناکام ہوئیں یا سیاستدان ناکام ہوئے تیسری قوت نے اپنی طاقت کا مظاہرہ کیا جسکی وجہ سے مملکت کے 65 سالہ دور میں (34) سال فوجی حکومتوں کا راج رہا ہے۔ پھر بعد میں سیاسی قوتیں واویلا کرتی ہیں کہ آمروں نے مملکت کا بیڑا غرق کر دیا۔ تو بھائی! اس صورتحال کے آپ لوگ ہی تو ذمے دار ہوتے ہیں۔ فوج اپنی خوشی سے تو نہیں آ جاتی، اُن کو دعوت دی جاتی ہے تو وہ آتے ہیں۔
بہرحال بات ہو رہی تھی موجودہ جمہوریت کی۔ ایک طرف یہ کہا جاتا ہے کہ موجودہ جمہوریت کا قیام سیاستدانوں اور عوام کی جدوجہد و قربانیوں کے باعث ممکن ہوا۔ دوسری طرف یہ دعویٰ ہو رہا ہے کہ جمہوریت کی بحالی وکلاء تحریک کا نتیجہ ہے۔ بہرکیف جمہوریت سیاستدانوں کی جدوجہد کی وجہ سے بحال ہوئی ہو یا وکلاء تحریک کے نتیجے میں ، جمہوریت تو بحال ہو گئی۔ جمہوری حکومت اور آزاد عدلیہ کا قیام بھی ہو گیا، لیکن موجودہ جمہوری حکومت کو ابتدا ہی سے مشکل حالات کا سامنا کرنا پڑا، اس لیے کہ حکومت وقت کے سامنے بے حساب مسائل کھڑے تھے۔ جن سے نمٹنے کے لیے عمدہ پلاننگ اور کارکردگی کی ضرورت تھی، لیکن ایسا نہ ہو سکا۔
جس کی وجہ ایک طرف حزب اختلاف کی طرف سے عدم تعاون اور ''پٹیشنز'' کی سیاست کا آغاز ہو گیا۔ ہر مسئلے کو نمٹانے کے لیے عدالت عظمیٰ پر ذمے داری ڈالنے کی کوشش شروع کر دی گئی۔ دوسری طرف عدالت عظمیٰ بھی کئی معاملات (بدعنوانی، کرپشن، اسکینڈلز وغیرہ وغیرہ) پر ''ازخود نوٹس'' لینے کا سلسلہ شروع کر دیا۔ جس سے یہ تاثر پیدا ہوا کہ حکومت اور عدلیہ کے درمیان تصادم ہونے جا رہا ہے جو کسی صورت جمہوری نظام کو مستحکم کرنے اور تسلسل کے ساتھ مسائل کے حل کی طرف توجہ مرکوز نہ کرنے کا باعث بنا۔ اس طرح حکومت کو اس صورتحال پر قابو پانے میں کافی دشواریاں پیش آئیں۔
جس کی وجہ سے دیرینہ اور پیچیدہ مسائل تو حل کرنا درکنار، حکومتی نااہلی اور حکومت کے خاتمے کی تاریخیں دینے کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ مگر اس لنگڑی لُولی جمہوریت کو اپنے پیروں پر کھڑا کرنے کی بجائے اسے دو ڈھائی سال کے عرصے میں ہی رخصت کرنے کے ڈھنگ نظر آنے لگے۔ بات دراصل اتنی آسان نہیں جیسے کہ دیکھا اور سنا جا رہا ہے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ حکومت نے خود ہی اپنی نمایاں کارکردگی نہ دکھا کر اپنے لیے خود ہی سامانِ بربادی پیدا کیے۔ عوام کو سہولیات تو کیا پہنچاتے اُس کے برعکس عوام کو مہنگائی، بے روزگاری، غربت اور معاشی بدحالی کی طرف دھکیل دیا گیا۔
انھیں فاقہ کشی، خودکشی، چوریوں، ڈکیتیوں، لوٹ مار، قتل و غارت گری، اغواء کاری جیسے حالات میں مبتلا کر دیا گیا۔ امن و امان کی حالت تو کیا سدھرتی بلکہ قابو سے باہر ہو گئی۔ حکومت کی رِٹ کہیں نظر نہیں آ رہی۔ بقول عدالتِ عظمیٰ کے جج صاحبان کے مطابق ''ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہاں حکومت نہیں ہے بلکہ اندھیر نگری چوپٹ راج'' قائم ہے۔ ایسے حالات میں یہ کہنا کہ ''جمہوریت، آمریت سے بہترین انتقام'' ہے کہاں تک درست ثابت ہوا ہے۔
کیا عوام کو معلوم نہیں کہ پچھلے ادوارِ جمہوریت میں کیا کام ہوئے اور فوجی حکومتوں کے دور میں کتنے کام ہوئے؟ میں سمجھتا ہوں کہ فوجی حکومتوں کو موردِ الزام ٹھہرانا کسی صورت خوش آیند نہیں ہے اور فوجی حکومتوں کو ذمے دار ٹھہرا کر خود بری الذمہ ہو جانے کی روش بھی ٹھیک نہیں ہے۔ اگر ایسا ہے تو جمہوری حکومت کو ان ساڑھے چار یا پونے پانچ سالوں میں کچھ کارکردگی تو دکھانی چاہیے تھی۔
اسی طرح ایک دوسرے پر الزام تراشیوں اور گالم گلوچ، بیان بازیوں میں حکومتی مدت پوری ہونے کو آتی ہے تو کہتے ہیں کہ ہمیں کام کرنے نہیں دیا، دوسری طرف حزب اختلاف کہتی ہے کہ حکومت عوامی مسائل حل کرنے میں نا اہل ثابت ہوئی اور یہ حکومت ایک ناکام حکومت ثابت ہوئی۔ ان کو اقتدار چھوڑ دینا چاہیے اور استعفیٰ دے کر گھر چلے جانا چاہیے۔