لفظوں کی انجمن

کون تصور کر سکتا ہے کہ سات آٹھ صدی قبل پمفلٹ کا لفظ اٹلی میں ایک چٹ پٹی کہانی کے حوالے سے وجود میں آیا ہے۔


Rafiuzzaman Zuberi November 20, 2012

لفظوں کی ایک اپنی دنیا ہے، ان کی آپ بیتی میں حیرت انگیز موڑ ہیں، عجیب عجیب اسرار ہیں، انوکھا رومان ہے، ان کی زندگی جھانک کر تو دیکھیے، ان کی داستان انسانی زندگی کی داستان سے کچھ کم دلچسپ نہیں ہے۔

ڈاکٹر سید حامد حسین نے لفظوں کی اس دنیا میں گشت لگایا ہے اور جو کچھ ان کے مشاہدے میں آیا ہے اس کا ذکر اپنی کتاب ''لفظوں کی انجمن'' میں کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں ''مجھے یاد نہیں کہ لفظوں نے مجھے اپنے رومان کا کب اسیر بنایا، لیکن ہے یہ کہانی بہت لمبی۔'' شاید وہ اس وقت سے اس سحر میں گرفتار ہیں جب سے انھیں لفظوں کے معاملات کو سمجھنے کا شعور ہوا ہے۔وہ لکھتے ہیں ''کچھ الفاظ جو اوپر سے روکھے پھیکے، کھوکھلے اور رسمی سے معلوم ہوتے ہیں، ان میں سے بعض کے پیچھے حیرت انگیز کہانیاں، رسم و رواج اور تاریخی حقیقتیں چھپی ہوتی ہیں۔

ان پس پردہ حقیقتوں کی تلاش اور ان کے بارے میں علم سے ہم کو ایک الگ ہی قسم کا لطف آتا ہے، کچھ ایسا ہی جیسے روزن دَر میں آنکھ لگا کر چوری چھپے نظارے میں آتا ہے۔ اب ''سائرن'' کے لفظ ہی کو لیجیے، یہ خشک، غیر شاعرانہ سا نام جس کے بھدے پن کو ہم بعض اوقات ''بھونپو'' کہہ کر ظاہر کرتے ہیں، آج کی صنعتی زندگی کا ایسا حصہ بن گیا ہے کہ جونہی سائرن کی آواز آتی ہے فیکٹریوں کے آہنی پھاٹک تھکے ہوئے انسانوں کی ایک بھیڑ کو اگل دیتے ہیں اور مزدوروں کی دوسری بھیڑ کو اپنے اندر بند کر لیتے ہیں۔اس غیر شاعرانہ منظر کو حرکت بخشنے والے لفظ ''سائرن'' کو صدیوں پہلے ایک شاعرانہ تخیل نے جنم دیا تھا۔

قدیم یونانی شاعروں نے ''سائرن'' کا ایک عجیب پُر اسرار مخلوق کی شکل میں تصور کیا تھا۔ ایک ایسی مخلوق کی شکل میں جس کا چہرہ، زلفیں، گردن اور سینہ حسین عورت کا سا اور باقی جسم پرندوں کی طرح کا ہوتا تھا۔ جب سائرنس گاتیں تو آس پاس کی دنیا ان کے شیریں نغمے میں محو ہو جاتی، لوگ بے قابو ہو جاتے، سمندر میں چلتے جہاز رُک جاتے، ملاح سمندر میں کُود کر سائرنس کے جزیرے کی طرف مجنونانہ انداز سے تیرنے لگتے اور کنارے پر پہنچ کر چٹانوں پر بیٹھے سائرنس کے نغمے سنتے رہتے۔

ان کو اپنے تن بدن کا، کھانے پینے کا ہوش نہیں رہتا، یہاں تک کہ وہ ان چٹانوں پر بیٹھے بیٹھے دم توڑ دیتے۔ اس جزیرے سے کوئی زندہ لوٹ کر نہیں آتا تھا، ایک بار جب یونانی ارگونائس کا جہاز بحیرہ روم میں سائرنس کے جزیرے کے پاس سے گزرا تو ان کے ساتھ دیوتاؤں کا چہیتا موسیقار آرفیس بھی تھا، آرفیس کے کان میں جیسے ہی سائرنس کی آواز پڑی اس نے اپنا رباب اُٹھایا اور اپنا بہترین نغمہ چھیڑ دیا، سائرنس کی آواز دب گئی، لیکن بدقسمتی سے ایک ملاح نے سائرنس کا نغمہ سن لیا، وہ سمندر میں کُود گیا اور واپس نہ آیا۔

پھر جب اوڈیسیس سائرنس کے جزیرے کے پاس سے گزرا تو اس نے ان کے سحر سے بچنے کے لیے اپنے تمام ساتھیوں اور ملاحوں کے کانوں کو موم سے بند کر لیا، لیکن اپنے کان کھلے رکھے کیونکہ اسے سائرنس کے نغمے سننے کا بڑا اشتیاق تھا۔ وہ جاننا چاہتا تھا کہ ان کے نغموں میں کیا بھید ہے۔ اس نے حکم دیا کہ اس کو جہاز کے مستول کے ساتھ رسیوں سے کس کر باندھ دیا جائے۔ اس نے سائرنس کا نغمہ سنا، وہ گا رہی تھیں کہ وہ کیا ہے جو انسان کو دائمی سکون دے سکتی ہے اور لافانی خوشی بخش سکتی ہے۔ وہ کیا ہے جس سے لافانی حسن کا نظارہ ہو سکتا ہے اور وہ کیا ہے جو موت سے نجات دلا سکتا ہے؟ اس کا راز ان کے پاس ہے اور اُن کے اُن نغموں میں ہے جو وہ سنانے والی ہیں۔ ان نغموں میں وہ مٹھاس، لطف اور حسرت ہے جو ابدی ہے۔

ان نغموں کو سن کر اوڈیسیس بیتاب ہو گیا اور اپنے آپ کو رسیوں سے آزاد کرانے کی کوشش کرنے لگا، یہاں تک کہ لہو لہان ہو گیا، مگر اپنی دانش مندی سے اس نے اپنے آپ کو اور اپنے ساتھیوں کو اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھنے سے بچا لیا اور وہ اس جگہ سے نکل آئے۔ کہا جاتا ہے کہ اوڈیسیس کے اس طرح بچ کر نکل جانے سے سائرنس کو ایسی جھلاہٹ ہوئی کہ انھوں نے غصے میں آ کر سمندر میں کُود کر جان دے دی۔یونانی شاعروں نے تو یہ قصہ یوں ختم کیا، لیکن انیسویں صدی میں ایک فرانسیسی موسیقار نے اسے پھر سے زندہ کیا۔ 1819میں اس موسیقار نے (کانیاردی لاتور) جس کا نام کانیار دی لاتور تھا، موسیقی کے سُر پیدا کرنے اور اُن کے ارتعاشوں کی پیمائش کے لیے ایک آلہ بنایا۔

اس آلے کا نام اس نے ''سائرن'' رکھا۔ پھر جب صنعتی انقلاب کے نتیجے میں جگہ جگہ فیکٹریاں قائم ہوئیں اور اُن میں ایک یکساں بھرائی ہوئی آواز میں اطلاع دینے والی سیٹیوں کا رواج عام ہوا تو اس کے لیے ایک لفظ کی ضرورت ہوئی، اس وقت دی لاتور کے آلے کی مناسبت سے اسے ''سائرن'' کہنے لگے۔ سوچیئے کہاں وہ دائمی حسرت کی بشارت سنانے والی سائرنس کے نغمے اور کہاں یہ فیکٹری کے بھونپو کی سامعہ خراش ناگوار آواز۔لفظ ''پمفلٹ'' کے بارے میں ڈاکٹر حامد حسین لکھتے ہیں کہ اس کا معاملہ بھی دلچسپ ہے۔ آج پمفلٹ کسی روکھے پھیکے موضوع پر نظریاتی بحث یا پروپیگنڈے کی غرض سے چھاپا گیا کتابچہ ہے۔

کون تصور کر سکتا ہے کہ سات آٹھ صدی قبل پمفلٹ کا لفظ اٹلی میں ایک چٹ پٹی کہانی کے حوالے سے وجود میں آیا ہے۔ یہ کہانی ایک نظم کی شکل میں تھی اور اس کے ہیرو کو جو ایک بوڑھا آدمی تھا، پیم فیلس کا نام دیا گیا تھا۔ پیم فیلس کے لفظی معنی ہیں دل پھینک۔ یہ نظم ایک ایسے دل پھینک بوڑھے کی رنگ رلیوں کی داستان تھی جو مطلب برآری کے لیے طرح طرح کے حیلوں سے کام لیتا تھا اور انتہائی معزز عورتوں کو سخت حفاظت کے باوجود جُل دینے میں کامیاب ہو جاتا تھا۔

یہ کہانی لوگوں میں بڑی مقبول ہوئی اور لوگ اسے چھپا چھپا کر پڑھتے تھے یہاں تک کہ اٹلی کی خانقاہوں میں راہب اسے اپنے چوغوں میں چھپا کر لے جاتے اور تکیوں میں چھپا کر رکھتے، کیونکہ اس زمانے میں چھاپے کا رواج نہیں تھا اس لیے ہاتھ سے لکھی ہوئی نقلیں ہی لوگوں میں گردش کرتیں۔ یہ نقلیں چھوٹے سائز کے کاغذوں پر کی جاتیں تا کہ چُھپانے میں آسانی ہو۔ چنانچہ چھوٹے سائز کی ہر کتاب کو لوگ ''پمفلٹ'' کہنے لگے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں