بجٹ 17 2016 ۔ ۔ ۔ ۔ بجٹ عوام دوست ۔ ۔ ۔ ۔ ٹیکس نیٹ بڑھایا جائے گا سینیٹر اسحاق ڈار

ایکسپریس میڈیا گروپ کے زیر اہتمام منعقدہ ’’پری بجٹ سیمینار‘‘ کی رپورٹ


ایکسپریس میڈیا گروپ کے زیر اہتمام منعقدہ ’’پری بجٹ سیمینار‘‘ کی رپورٹ ۔ فوٹو : مدثر راجہ/ وسیم نذیر

بجٹ کی آمد آمد ہے۔ موجودہ حکومت آئندہ چند دنوں میں چوتھا وفاقی بجٹ ایوان میں پیش کرنے جارہی ہے اور ہر سو اسی کے تذکرے ہورہے ہیں۔ آنے والا بجٹ کیا ہوگا؟ یہ سوچ ہر شہری کو پریشان کیے جارہی ہے۔

بلاشبہ آنے والا بجٹ حکومت کی اقتصادی ٹیم کے لیے بہت بڑا چیلنج ہے مگر اب دیکھنا یہ ہے کہ حکومت اس امتحان میں کیسے سرخرو ہوتی ہے اور کس طرح اس بجٹ کو عوام دوست بنایا جاتا ہے؟ ایکسپریس میڈیا گروپ نے اپنی روایت کو برقرا رکھتے ہوئے اس سال بھی ''پری بجٹ سیمینار'' کا انعقاد اسلام آباد کے ایک ہوٹل میںکیا۔ سیمینار کے مہمان خصوصی وفاقی وزیر خزانہ سینیٹر محمد اسحاق ڈار تھے جبکہ دیگر مہمانان گرامی میں ملک کے نامور سیاسی لیڈران اور ماہرین اقتصادات شامل تھے۔ سیمینار میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔

سینیٹر محمد اسحاق ڈار
(وفاقی وزیر خزانہ)
پاکستان مسلم لیگ (ن) جب برسراقتدار آئی تو اس وقت ملک کی معاشی حالت بہت خراب تھی اور پاکستان دیوالیہ ہونے کے قریب تھا جبکہ عالمی ماہرین کہتے تھے کہ پاکستان کی حالت درست ہونے میں 4سے 5سال کا عرصہ لگے گا۔

ملکی معیشت کو دوبارہ اپنے پاؤں پرکھڑا کرنا ایک مشکل چیلنج تھا مگر ہم نے روڈ میپ تیار کرکے ایک نئے سفر کا آغاز کیا اور محض تین سال کے مختصر عرصے میں پاکستان کی معیشت کو درست سمت پر لے آئے ہیں۔ ہم نے ان مشکلات سے نبردآزما ہونے کیلئے کوششیں شروع کر دیں اور مالیاتی نظم و ضبط کے تحت اپنے اخرجات میں کمی کی۔ وزیر اعظم کے صوابدیدی فنڈز جو 42ارب روپے تھے کو صفر کر دیا اور اس کے ساتھ ساتھ 32کے قریب اداروں کے سیکرٹ فنڈ ز ختم کر دیے تاکہ خزانے پر بوجھ کم کیا جاسکے۔ 18ویں ترمیم کے بعد ملک کے زیادہ تر وسائل صوبوں کے پاس چلے گئے ہیں مگر بدقسمتی سے صوبے زراعت کی جانب پوری توجہ نہیں دے رہے جس کی وجہ سے آج زراعت مسائل سے دوچار ہے۔

موجودہ حالات کے پیش نظر وفاق صوبوں کے ساتھ زراعت کی بہتری کے لئے مکمل تعا ون کرے گا۔ ملک کو توانائی بحران کے بعد پانی کے بحران کا بھی سامنا ہے اور حکومت اس سے باخبر ہے۔ اگرکالا باغ ڈیم کی تعمیر پر صوبے متفق نہیں ہو رہے تو ہمیں دیگر ذرائع کے جانب دیکھنا ہوگا۔ ہم دیامر بھاشا ڈیم اور داسو ڈیم پرکام کررہے ہیں، بھاشا ڈیم کے لیے زمین بھی حاصل کرلی گئی ہے اور اس طرح کے دیگر منصوبے بھی زیر غور ہیں تاکہ ملک میں پانی کے ذخائر کو محفوظ بنایا جاسکے۔ پانی سے بجلی بنانا سستا ترین منصوبہ ہے تا ہم اس میں کئی سال لگ سکتے ہیں۔

جس کی وجہ سے ہم نے توانائی بحران سے نمٹنے کے لئے گیس اور کوئلے سے بجلی بنانے کی جانب توجہ دی ہے۔بجلی کے کل 25 ہزار میگا واٹ کے منصوبے ہیں مگر ہم ان منصوبوں سے 2018ء تک 10ہزار میگا واٹ بجلی سسٹم میں داخل کرنے کے قابل ہوجائیں گے اور ہماری اس کارکردگی کو دیکھتے ہوئے عوام ہمیں اگلی حکومت کے لیے منتخب کریں گے جبکہ 15ہزار میگاواٹ 2018ء کے بعد سسٹم میں شامل ہوجائیں گے ۔ مسلم لیگ (ن) نے ملک کی معیشت کو مضبوط بنانے کیلئے طویل المدتی منصوبے تیار کئے ہیں جو کہ آئندہ آنے والی حکومت کے دور میں بھی جاری رہیں گے ۔

اقتصادی راہداری کا منصوبہ پاکستان کی معاشی ترقی کا آغاز ہے جبکہ سعودی عرب، جاپان، قطر، مشرق وسطیٰ و دنیا کے دیگر ممالک پاکستان میں سرمایہ کاری کی جانب راغب ہو رہے ہیں اور ایک وقت ایسا آئے گا جب پاکستان میں لوگ روزگار کی تلاش میں آئیں گے۔ عالمی ادارے پاکستان کو منفی سے مثبت قرار دے چکے ہیں، اس کے علاوہ پاکستان کی عالمی ریٹنگ ''C'' سے ''B'' ہوچکی ہے۔ چاپانی ادارے کے مطابق آنے والے وقت میں پاکستان بیرونی سرمایہ کاری کے لیے دوسرا بڑا انتخاب ہوگا جو حوصلہ افزا بات ہے۔

ایک عالمی رپورٹ کے مطابق 2050ء تک پاکستان کی معیشت دنیا کی 18ویں کامیاب معیشت ہوگی۔ ہماری کوشش ہے کہ ہم اس سے آدھی مدت میں بہتر پوزیشن حاصل کریں اور میں تمام سیاسی جماعتوں کو دعوت دیتا ہوں کہ آئیں ملکر کام کریں اور 2030ء تک پاکستان کو اس صف میں بہتر پوزیشن پر لائیں۔ حکومت بجٹ کو عوام دوست بنانے کی کوشش کررہی ہے،اگلے بجٹ میں ٹیکس گزاروں پر مزید بوجھ نہیں ڈالا جائے گا بلکہ ٹیکس نہ دینے والوں کی زندگی اجیرن بنا دیں گے۔ود ہولڈنگ ٹیکس سے 20بلین روپے قومی خزانے میں آرہے ہیں ہم کوشش کریں گے کہ مزید لوگوں کو ٹیکس نیٹ میں لایا جائے۔ اس کے علاوہ ہم آئندہ بجٹ میں خام مال پر عائد ڈیوٹی پر نظر ثانی کریں گے۔

آئندہ بجٹ میں ترقیاتی بجٹ اور دفاعی بجٹ میں اضافہ کیا جائے گا اور حکومتی اخراجات کم کیے جائیں گے ۔ حکومت ممبران پارلیمنٹ اور بزنس کمیونٹی کی جانب سے ہمیشہ بجٹ تجاویز کا خیر مقدم کرتی ہے۔ میرے نزدیک تمام سیاسی جماعتوں میں چارٹر آف اکانومی ہونا چاہیے تاکہ ملک ترقی کی منازل جلد طے کرسکے۔

شاہ محمود قریشی
(مرکزی رہنماپاکستان تحریک انصاف )
موجودہ حکومت کا یہ چوتھا بجٹ ہے جوآئی ایم ایف کی زیر نگرانی پیش کیا جا رہاہے، چونکہ ہم غریب ملک ہیں اور ہمارے پاس کچھ نہیں ہے اس لیے ہمیں آئی ایم ایف سے ڈکٹیشن لینا پڑتی ہے۔ میں جب بھی بجٹ کی بات کرتا ہوں تو مجھے وزیرخزانہ بننے کے بعد اسحاق ڈار کی پہلی تقریر یاد آجاتی ہے جس میں انہوں نے ملکی معیشت کی بہتری کے لیے ایک روڈ میپ دیا تھا اور اس وقت ان میںایک اعتماد بھی نظر آیا تھا ۔

اس کے علاوہ انہوں نے میڈیم ٹرم فریم ورک کا بھی ذکر کیاتھا اور معاشی پالیسی پیش کی تھی مگر ہمیں نہ تو تنظیم نو نظر آرہی ہے اور نہ ہی اداروں میں کوئی اصلاحات ہوئی ہیں بلکہ حکومت تو نجکاری ہیں نہیں کرسکی۔ ہم نے تو اپنا قابل بھائی زبیر عمر کی شکل میں حکومت کو پیش کیا ہوا ہے مگر حیرت ہے کہ پھر بھی نجکاری نہیں ہو سکی ۔ حکومت کہہ رہی تھی کہ سرکلر ڈیٹ بڑھ گیا ہے اور پھر سرکلر ڈیٹ کی مد میں یک مشت رقم بھی ادا کردی گئی مگر اس کے باوجود سرکلر ڈیٹ کا خاتمہ نہیں ہو سکا ۔ حقیقت یہ ہے کہ حکومت اپنے چار سالوں میں اہداف کے حصول میں ناکام ہو گئی ہے۔

ٹیکس چھوٹ کی سکیم بھی متعارف کروائی گئی مگر اس کاکوئی فائدہ نظر نہیں آیا بلکہ ملک کا انحصا ر آج بھی ان ڈائریکٹ ٹیکس ، سیلز ٹیکس اور ود ہولڈنگ ٹیکس پر ہے ۔ میرے نزدیک یہ صحت مند معیشت کے لئے بہتر نہیںہے ۔ ملک سے غربت کے خاتمے اور روزگارکے نئے مواقع پید ا کرنے کا تعلق گروتھ سے ہے۔ مگر افسوس ہے کہ ہم اس سال بھی گروتھ کا حدف حاصل نہیں کر سکیں گے ۔

کسان سراپا احتجاج ہیں،ان کی معاشی حالت اتنی بگڑ چکی ہے کہ وہ احتجاج کرنے پر مجبور ہیں۔ ہماری کپاس کی پیداوار بھارت کے مقابلے میں بہت زیادہ تھی مگر آج ہم کپاس کی پیداوار میں بھارت سے پیچھے ہیں۔ اٹھارویں ترمیم کے بعد صوبوں کو اختیارات تو منتقل ہوگئے مگر صوبے اپنی ذمہ داری پوری طرح اٹھانے میں ناکام ہوئے ہیں ۔ خیبر پختونخوا میں بھی زراعت پر وہ توجہ نہیں دی گئی جو دی جانی چاہیے تھی ۔

حکومت کی جانب سے کسان پیکیج دکھاوے کے لئے تھا اور اس سے کسی کو کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ زراعت سے متعلق آلات پر سیلز ٹیکس کا حکومتی فیصلہ درست نہیں، میں نے ہمیشہ اس کی مخالفت کی ہے۔ ملک کو توانائی بحران کا سامنا ہے جس کے خاتمے کے لیے سولر انرجی پلانٹ و دیگر نئے منصوبے لگائے جارہے ہیں۔ اگر اس کی آؤٹ پٹ دیکھی جائے تو اندازہ ہو گاکہ اس پر کتنا پیسہ ضائع ہو اہے اور بجلی کتنی حاصل کی جا رہی ہے۔ اسی طرح کوئلے سے بجلی پیدا کرنے کے منصوبے پر مجھے حیرت ہے کہ وہ ساہیوال میں کیو ں لگایا جا رہاہے۔

یہ حکمت عملی غلط ہے ، میرے نزدیک یہ منصوبہ تھرپاکر میں لگنا چاہیے تھا ۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں پن بجلی کا جو قدرتی وسیلہ دیا ہے ہم اس کو استعمال نہیں کر پا رہے۔ اگر حکومت نے دریا کے بہاؤ پر بجلی پیدا کرنے کے منصوبے شروع کئے ہوتے تو آج ملک میں بجلی پیدا ہو رہی ہوتی۔ توانائی کے بحران سے بڑا ایک بحران آرہا ہے جس کی طرف حکومت کی توجہ نہیں ہے ۔ یہ بحران پانی کا بحران ہے اور ابھی تک ہم پانی کا کوئی نیا ذخیرہ نہیں بنا سکے ہیں ۔ پانی کے بحران کی وجہ سے نہ صرف صوبے آپس میں لڑیں گے بلکہ میں پانی کے مسئلے پر پاک ،بھارت تناؤبڑھتا ہو ا دیکھ رہا ہوں جس کے نتیجے میں لوگ کشمیر کے مسئلے کو بھی بھول جائیں گے۔

سینیٹر عثمان سیف اللہ خان
(رہنماپاکستان پیپلزپارٹی)
بجٹ سازی میں ارکان پارلیمنٹ کی کوئی خاص شمولیت نہیں ہے۔ حکومت اگر بجٹ سازی کے عمل میں انہیں شامل کرے تو بہتر تجاویز سامنے آ سکتی ہیں۔ ہر سال بیس سے تیس لاکھ لوگ لیبر فورس میں شامل ہوتے ہیں تاہم ہمارے پاس اتنے وسائل نہیں ہیں کہ انہیںروز گار کے مواقع دے سکیں ۔ بے روز گاری ایک بہت بڑا خطرہ بنتی جا رہی ہے لہٰذا ہمیں اس طرف نہ صرف توجہ دینی چاہیے بلکہ موثر اقدامات بھی کرنے چاہئیں۔ ملک میںایکسپورٹ کی کارکردگی مایوس کن ہے جس میں عالمی حالات کے علاوہ ملک کی اندرونی کمزوریاں بھی اس کی وجوہات میں شامل ہیں ۔

بینکنگ سیکٹرکا ملک میںاہم کردارہے مگر وہ اس طرح اپنا کردارا دا نہیں کر رہا ۔ سمال اینڈ میڈیم انٹرپرائزز ،بینکنگ سیکٹر کی سپورٹ سے بہتری کی جانب گامزن ہو تاہے مگر یہاں بینکنگ سیکٹر انہیں سپورٹ نہیں کرتا بلکہ حقیقت یہ ہے کہ ملک میں تین سو بیس ارب روپے نجی سیکٹر اور نوسوپچاس ارب کے قرضے حکومت نے لئے ہیں لہٰذا حکومت کو اس طرف بھی توجہ دینی چاہیے ۔ معاشرے کے مختلف طبقات میں وسائل کی تقسیم منصفانہ نہیں ہے ۔ وسائل دولت مندوں کو منتقل ہو رہے ہیں اور اس میں ان کا قصور نہیں ہے بلکہ وہ تو صرف قانون سے فائدہ اٹھا رہے ہیں مگر اس کا نقصان ملک کو ہو رہاہے ۔

ان سیکٹرز میں پالیسی تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ ملک کا چالیس فیصدروز گار زراعت سے وابستہ ہے مگر حکومتی پالیسیوں کے باعث اس سیکٹر کابرا حال ہے اور ہر سال اس میں بحران پیدا ہوجاتا ہے ۔ بجٹ ہر سال ایک ہوتا ہے مگر پاکستان دو ہوتے ہیں :ایک پاکستان وہ جہاں زندگی رواں دواں ہے اور دوسرا پاکستان وہ جو جنوبی پنجاب، اندرون سندھ ، خیبر پختونخوا اور پسماندہ علاقے ہیں۔ ہم ہر سال بھول جاتے ہیں کہ یہ بھی پاکستان ہے اور انہیں بھی ان کا حق ملنا چاہیے ۔



عبدالرؤف عالم
(صدر ایف پی سی سی آئی)
ہم نے ایف بی آر کو بجٹ تجاویز دے دی ہیں، میں امید کرتا ہوں کہ کافی حد تک ان تجاویز کو بجٹ میں شامل کیا جائے گا۔ ہمارا کسی سیاسی جماعت سے کوئی تعلق نہیں، ہم بزنس کمیونٹی کے نمائندے ہیں اور اس کمیونٹی کے مسائل کو لے کر چلتے ہیں۔

ابھی بات ہورہی تھی کہ ڈاکیومنٹڈ اکانومی ہونی چاہیے۔ ملک کی آبادی بیس کروڑ ہے لیکن بہت کم لوگ ٹیکس دیتے ہیں ۔ سوال یہ ہے کہ ہم کس طرح ترقی کریں گے اور کیسے دنیا کا مقابلہ کر سکتے ہیں جب اتنے کم لوگ ٹیکس دیتے ہو ں۔ سی پیک منصوبہ آرہا ہے، یہ خطے کے لیے گیم چینجر ثابت ہو گا مگر صنعتکاروں کو اپنے آپ کو عالمی معیار کے لئے تیار کرنا ہوگا۔ آج ہماری ٹیکسٹائل انڈسٹری بحران کا شکار ہے، میرے نزدیک ہماری ٹیکسٹائل انڈسٹری نے اس طرح خود کو بہتر نہیں کیا جس طرح دنیا کی صنعت نے کیا۔فیڈریشن نے سی پیک کے حوالے سے کمیٹی بنائی ہے۔

اس منصوبے سے کئی نئی آبادیاں بنیں گی اور نئی صنعتیں لگیں گی۔ میری حکومت سے درخواست ہے کہ نجی سیکٹر کو ساتھ رکھا جائے، ایف ٹی اے میںان کی رائے لی جائے۔ حکومت کو نجی سیکٹر کو آن بورڈ رکھنا چاہیے کیونکہ ملک جن حالات سے گزر رہاہے اس میں اگر کوئی حادثہ ہوا ہے تو ہم بہت پیچھے چلے جائیں گے ۔حکومت جس طرح کے ٹیکس نجی سیکٹر سے لینا چاہتی ہے اسی طرح کی سہولیات بھی ہمیں دی جائیں۔ کاروباری کمیونٹی کی ذمہ داری ہے کہ وہ ٹیکس دے، اپنے قدم بڑھائے اور ایمانداری سے ملکی ترقی میں اپنا کردار ادا کرے۔

افتخار علی ملک
( نائب صدر سارک چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری)
ہم نے حکومت کو بجٹ تجاویز دی ہیں اور اس حوالے سے وزارت خزانہ کے ساتھ کئی اجلاس بھی ہو چکے ہیں ۔صنعتکاروں کو ٹیکس کا مسئلہ درپیش ہے، حکومت ان لوگوں کو ٹیکس نیٹ میں لائے جو ٹیکس نہیں دیتے۔پاک چین اقتصادی راہداری ایک اہم منصوبہ ہے، اس سے ملک کی معاشی ترقی ہوگی اوراگر اس کے ارد گرد زرعی فارمنگ اور فی ایکڑ پیدوار پر کام کریں تو بہت بہتر ہو گا۔ ٹیکس کے نظام کو بہتر کرنے کے لیے فیڈرل بورڈ آف ریونیو میں فاسٹ ٹریک انفارمیشن ہونی چاہیے ۔ اس کے علاوہ پلاننگ ڈویژن اور فیڈریشن آف چیمبرزکو مل کر کام کرنا چاہیے۔

ہماری ایکسپورٹ کم ہو رہی ہے کیونکہ عالمی سطح پر بحرا ن ہے ۔ ایکسپورٹ کو بہتر کرنے کے لیے اصلاحات لانی چاہئیں۔ جب سرمایہ ملک میں آرہا ہے تو اس پر کیوں ٹیکس لیا جاتا ہے، اسے صفر کیا جائے اور اس کے ساتھ ساتھ جی ایس ٹی ٹیکس کی شرح بھی کم کی جائے۔ سمال اینڈ میڈیم انڈسٹری ، ٹرانسپورٹ اور ووکیشنل ٹریننگ سینٹرز پر کوئی توجہ نہیں دی جا رہی ہے، لوگوں کو تعلیم کے ساتھ ساتھ روزگار بھی فراہم کرنا چاہیے۔ پاکستان میں زراعت کے شعبے سے منسلک لوگوں کو مسائل کا سامنا ہے، لہٰذا حکومت کو کاشتکاروں کے مسائل حل کرنے کی طرف توجہ دینی چاہیے ۔

عارف حبیب
(سابق چیئرمین کراچی سٹاک ایکسچینج )
ملک کا سب سے بڑا مسئلہ بیروزگاری ہے،جس کی وجہ سے خطے میں سب سے کم سرمایہ کاری ہمارے ملک میںہو رہی ہے۔ بھارت میں تیس فیصد سرمایہ کاری ہو رہی ہے جبکہ پاکستان میں یہ شرح صرف دس فیصد ہے۔ پاکستان کو درپیش مسائل میں سے دوسرا بڑا مسئلہ سیکورٹی جبکہ تیسرا مسئلہ توانائی کا بحران ہے۔ اس وقت ملک میں ساڑھے تین لاکھ سرمایہ کار موجود ہیں۔

سٹاک ایکسچینج مکمل ڈاکیومنٹ ہے،اس کی ساری ٹرانزیکشن ''ایس ای سی پی'' مانیٹر کر رہا ہے اور ان میں شفافیت ہے۔ ملک میں بارہ، تیرہ ارب ڈالر کا بجٹ خسارہ ہر سال بڑھ رہا ہے لہٰذا ہمیں معیشت کا دائرہ کار بڑھانا چاہیے کیونکہ اس سے روزگار کے مواقع بڑھیں گے۔ اگر میں وزیر خزانہ ہوتا تو سرمایہ کاری کو فروغ دیتا۔ ہمیں سمجھنا چاہیے کہ ٹیکسوں کے ریٹ ہائی کرنے سے ریونیو نہیں بڑھتا بلکہ معاشی سرگرمیوں میں اضافے سے ریونیو بڑھتا ہے اور اس طرح نہ صرف مہنگائی پر قابو رہتا ہے بلکہ اشیاء کی پیداوار میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔ پاکستان کا جی ڈی پی 4.2فیصد ہے جبکہ بنگلہ دیش ، بھارت اور سری لنکا میں ساڑھے 6فیصد اور چین میں 9 فیصد کے قریب ہے۔

ملک میں سرمایہ کاری بڑھانے سے جی ڈی پی بڑھے گی لہٰذا حکومت کو اس طرف توجہ دینی چاہیے۔ افسوس ہے کہ ملک میں کاسٹ آف بزنس زیادہ ہے جس کی وجہ سے برآمدات نہیں بڑھتی لہٰذا اس میں کمی کی ضرورت ہے۔ ملکی حالات کے پیش نظر زراعت ، کنسٹریکشن، ہاؤسنگ، ایس ایم ای پر توجہ دی جائے۔ اس کے علاوہ کاشتکاروں کوبھی ریلیف دیا جائے۔ پانچ کروڑ کا گھر خریدنے والے سے ان کا ذرائع آمد نی پوچھا جائے لیکن جب ان کو نوٹس بھیجے جاتے ہیں تو پھر مک مکا ہوجاتا ہے۔ سٹاک ایکسچینج حکومت کو فائدہ دے رہی ہے،سٹاک ایکسچینج سے 600ارب روپے رواں سال لمیٹڈ کمپنیوں نے دیا ہے۔ سی جی ٹی ٹیکس 50ارب روپے دیئے گئے ہیں۔ حکومت کو ٹیکسوں کے حوالے سے مڈ ٹرم اور لانگ ٹرم پالیسی دیں۔

ضیاالدین
(ماہر اقتصادیات)
کوئی ریاست جب تک اپنی عوام کو سستی تعلیم، صحت کی سہولیات، ٹرانسپورٹ اور گھر نہ دے سکے وہ سلطنت کہلانے کے لائق نہیں ہے۔ اس وقت پاکستان میں حالات یہ ہیں کہ امیر امیر تر اور غریب غریب تر ہوتا جا رہا ہے اور یہاں امیر کی حکومت امیر کے لیے ہیں۔ ویسے تو چند ممالک کو چھوڑ کر یہ سسٹم پوری دنیا میں چل رہا ہے۔ گزشتہ سال ملک کی گروتھ 4.7ہوئی ہے اور حکومت اس پر خوش ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ دولت چند ہاتھوں میں چلی گئی ہے جو المیہ ہے۔ مجھے اسحاق ڈار سے ہمدردی ہے، وہ گزشتہ 3سالوں سے بلائنڈ کھیل رہے ہیں اور آئی ایم ایف کی سفارشات پر بجٹ بنا رہے ہیں۔ انہیں یہ بھی علم نہیں ہے کہ اس ملک کی آبادی کتنی ہے،کتنے لوگوں ریلیف دینا ہے کیونکہ ابھی تک تو مردم شماری ہی نہیں ہوئی۔

ہمارے ملک کی بلیک اکانومی، فارمل اکانومی سے تین، چار گنا زیادہ ہے لہٰذا جب ڈاکیومنٹڈ اکانومی ہی نہیں ہے تو یہ کیسے پتہ چلے گا کہ کتنے لوگ ٹیکس دیتے ہیں۔ میرے نزدیک جب تک مردم شماری نہیں ہوگی تب تک بجٹ میں معاشرتی انصاف نہیں ہوسکتا۔اہم بات یہ ہے کہ ہمارا ملک گزشتہ38سال سے حالت جنگ میں ہے، جس ملک میں امن نہیں ہے وہ بجٹ کیسے بنائے گا ؟ ہمارے ملک میں جو بجٹ بنتا ہے اس میں ایسا لگتا ہے کہ کسی پر امن ملک کا بجٹ ہے۔ ایک طریقہ تو یہ ہے کہ ہم جنگوں کے لیے بجٹ بنائیں جبکہ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ جن کے ساتھ ہماری جنگ ہے ان کے ساتھ دوستی کریں۔ اسحاق ڈار نے کہا تھا کہ حکومت اور اپوزیشن میں چارٹر آف اکانومی ہونا چاہیے لیکن میرے نزدیک اس کی ضرورت نہیں ہے بلکہ آرمی اور سول حکومت میں چارٹر آف اکانونی ہونا چاہیے ۔

عارف یوسف جیوا
(سینئر نائب صدر آباد)
آباد نے ایف بی آر کو پراپرٹی ٹیکس و دیگر حوالے سے تجاویز دی ہیںجن کا 90فیصد ایف بی آر نے مان لیا ہے جبکہ باقی کے 10 فیصد پر ہمارے ساتھ مشاورت جاری ہے۔بجٹ کے حوالے سے ہماری کچھ تجاویز ہیں جس سے نہ صرف ملکی معیشت کو فائدہ ہوگا بلکہ ملک میں بیرونی سرمایہ کاری بھی آئے گی۔ سٹاک ایکسچینج میں 2012ء اور 2014ء میں ایک سکیم لا ئی گئی تھی جس کے تحت سٹاک ایکسچینج میں دو سال کے لیے جو بھی سرمایہ کاری ہوگی اس کا ذریعہ نہیں پوچھا جائے گا۔

جب یہ سکیم دی گئی تو مارکیٹ انڈیکس 8ہزار پوائنٹس پر تھا جو 25ہزار تک پہنچ گیا۔ دوبئی میں معیشت متاثر ہوئی ہے،اب پاکستان کے سرمایہ کار واپس سرمایہ لانا چاہتے ہیں اگر ایسے حالات میں ایمنیسٹی سکیم لائی جائے تو ملک کو فائدہ ہوگا۔اس کے علاوہ پراپرٹی کی خرید و فروخت پر عائد ٹیکس کم کئے جائیںاور رجسٹریشن فیس ایک سے دو فیصد لی جائے۔ اس وقت پانچ کروڑ روپے کو ودہولڈنگ ایجنٹ کے طور پرلیا جاتا ہے، اسے بڑھا کر 150ملین پر لے جایا جائے۔

عاطف اکرم
(صدر اسلام آباد چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری)
پاکستانی روپے کی قدر میں کافی کمی ہوچکی ہے،اس لئے انکم ٹیکس کی حد چار لاکھ سے بڑھا کر ڈبل کی جائے۔اس کے علاوہ رینٹل انکم ٹیکس کے نفاذکی حد کو بھی بڑھا کر چار لاکھ کرنے پر غور کیا جائے۔ حکومت نے سیکشن 155کے تحت کمپنیوں کے لیے رینٹ کی گراس رقم پر 15فیصد ٹیکس عائد کیا ہوا ہے، نئی کمپنیوں کے لیے اسے کم کرکے سنگل ڈیجٹ میں لایا جائے۔ پاکستان میں سیلز ٹیکس کی شرح خطے کے دیگر ممالک سے بہت زیادہ ہے، جس کی وجہ سے نہ صرف کاروبار کی لاگت میں اضافہ ہوا ہے بلکہ مہنگائی بھی زیادہ ہوئی ہے۔

پورے ملک کی تاجر برادری حکومت سے مطالبہ کرتی ہے کہ سیلز ٹیکس کم کرکے سنگل ڈیجٹ میں لایا جائے۔ ملک کا موجودہ ٹیکس نظام پیچیدہ اور مشکل ہے جس کی وجہ سے نئے لوگ ٹیکس نیٹ میں آنے سے ڈرتے ہیں، ہماری تجویز ہے کہ حکومت ٹیکس نیٹ کو آسان کرے، ٹیکس ریٹ میں کمی جائے اور رضاکارانہ ٹیکس سکیم شروع کی جائے۔ ہمارا حکومت سے مطالبہ ہے کہ منصفانہ ٹیکس نظام تشکیل دیا جائے تاکہ ہر قابل ٹیکس آمدنی والا شخص ٹیکس قومی خزانے میں جمع کروائے۔ ہم امید کرتے ہیں کہ نیا بجٹ عوام اور تاجر دوست ہوگا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں