بے زبانوں کی عدالت
اگرخداکی قدرت سے ان بے زبانوں نے عدالت لگالی اور انصاف کر ڈالا، تو ہماراکیاانجام ہوگا؟
انتھونی لارنس کے دووسیع کاروبارتھے۔انشورنس اور جائیدادکی خریدوفروخت۔دونوں کاروبارانتہائی مستحکم اور ٹھوس بنیادوں پرقائم تھے۔بزرگ،اسکاٹ لینڈسے ہجرت کرکے جنوبی افریقہ آئے تھے۔انتھونی، جوہانسبرگ میں ہی پیداہوا۔انتہائی امیرانگریز نے جسکے پاس بے تحاشہ دولت تھی پورے افریقہ میں اپنے کاروبارکواتنی وسعت دیدی تھی۔ انتھونی کبھی تصوربھی نہیں کرسکتاتھاکہ دنیاکے ان چندلوگوں میں شمار کیا جائے گا جنہوں نے عزت اورشہرت کی بلندی کو دولت کی وجہ سے نہیں چھوا،بلکہ اپنے ذاتی شوق کی بدولت اَمر ہوگئے۔
بچپن سے ہی انتھونی کو جانوروں، پرندوں، جنگلات اور پودوں سے عشق تھا۔یہ شوق دراصل اس کی اصل پہچان بن گیا۔1990ء میں اس نے اپنا تمام کاروبارفروخت کردیا۔ شوق کواپناکاروباراورعشق بنا ڈالا۔ پانچ ہزار ایکٹر پر مشتمل تھولاتھولاجنگل خریدکراسے جانوروں کی محفوظ ترین پناہ گاہ بنا دیا۔جنگل میں انتہائی خوبصورت اورجدید سہولیات مہیا کر دیں۔جب پرندے اور جانورمحفوظ ہوگئے،توجنگل دنیا کا سب سے بڑا، خوبصورت اورآزادچڑیاگھریاگیم ریزرو بن گیا۔ ہزاروں لوگ،پوری دنیاسے جانوروں کو دیکھنے کے لیے آناشروع ہوگئے۔
ہرجانور، قدرتی ماحول میں بے خوف زندگی گزار رہا تھا۔سائنسدانوں نے اس سہولت کا فائدہ اٹھا کرتحقیق کی نئی جہتیں تلاش کر ڈالیں۔سیکڑوں فلمیں، صرف اور صرف تھولاتھولاجنگل کے پرندوں، جانوروں اورپودوں پربنائی گئیں۔مگرابھی انتھونی نے اپنا اصل کام کرنا تھا۔ 2003ء میں امریکی افواج نے بغدادپرحملہ کردیا۔قتل وغارت اورخون ریزی کی ایک ایسی آندھی چلی جس نے اس عظیم ملک کوصدیوں پیچھے دھکیل دیا۔ گھمبیر صورتحال میں کسی کویادنہ رہاکہ بغدادمیں دنیاکاایک نایاب چڑیا گھر موجودہے۔رقبہ اورتعدادکے لحاظ سے یہ مشرق وسطیٰ کا سب سے جدیداورخوبصورت مقام تھا۔ہولناک جنگ نے چڑیا گھرکومکمل طورپربربادکرکے رکھ ڈالاتھا۔اس جگہ 650 قسم کے نایاب پرندے اورجانور تھے۔
اس میں سے صرف پینتیس زندہ رہ گئے تھے۔ڈاکوگروہ کی صورت میں، پنجروں پرحملے کرتے تھے۔قیمتی ترین پرندوں اورجانوروں کو بے ہوش کرکے اسمگلروں کے حوالے کردیا جاتا تھا۔ دنیا کے متمول لوگ،منہ مانگے داموں پر جانورخریدلیتے تھے۔ انتھونی کو جب سب کچھ پتہ چلاتوکویت میں تھا۔اس نے اپنی جیپ میں دوائیاں رکھیں اورخطرناک ترین حالات میں بغدادپہنچ گیا۔سب کویقین تھاکہ وہ کبھی زندہ واپس نہیں آئیگا۔ مگر وہ سیدھا چڑیا گھر پہنچا۔ وہاں جانوروں کی لاشیں اوراَن گنت بھنبھناتی ہوئی مکھیاں تھیں۔ بدبو اور غلاظت کے ڈھیرتھے۔
صورتحال انتھونی کے خیال سے بھی زیادہ نازک تھی۔دوشیر،ایک دو چیتے اورایک ریچھ موجود تھا۔ان جانوروں کوبھی مدت سے خوراک نہ ملی تھی ۔وہ اتنے نحیف ہوچکے تھے کہ پیروں پر کھڑے تک نہ ہوسکتے تھے۔انتھونی نے سب سے پہلے اپنی جیپ سے دوائیاں نکالیں۔بچے کھچے جانوروں کاعلاج کرنا شروع کردیا۔ جیپ میں چلتے وقت خوراک کے بندڈبے لے کر آیاتھا۔ اس نے کئی ہفتوں کے بھوکے جانوروں کو خوراک مہیا کی۔ مگریہ سب کچھ ناکافی تھا۔مگرانتھونی ہمت نہ ہارا۔ امریکی فوجیوں کے میس سے بچاکھچاگوشت اورسبزی لاکر جانوروں کوکھلاتارہا۔اسکاجذبہ دیکھ کرچندامریکی فوجی اور عراق کے درجنوں مقامی لوگوں نے اسکاہاتھ بٹاناشروع کر دیا۔دیکھتے ہی دیکھتے،ادھ موئے جانوردوبارہ زندہ سے ہوگئے۔
انتھونی چھ مہینے رات دن،کسی منافع یالالچ کے بغیر وہاں کام کرتارہا۔اس کی اَن تھک محنت سے بغداد کا چڑیا گھر دوبارہ آبادہوگیااورآج تک آبادہے۔شروع میں،کیونکہ کوئی بھی اس کی مددنہیں کرتاتھا،لہذاتمام مشکل کام خود سرانجام دیتا تھا۔جانوروں کونہلاتاتھا۔ان کے پنجروں کی صفائی کرتا تھا۔ ان کے بال اورناخن تراشتاتھا۔خوفناک سے خوفناک جانور بھی انتھونی کے سامنے آکربچہ بن جاتا تھا۔ ان سب کومعلوم تھاکہ اگرآج زندہ ہیں،توصرف اورصرف اس ایک آدمی کی خدمت کے جذبہ کی بدولت۔انتھونی کے اس کام کی نیک نامی پوری دنیامیں پھیل گئی۔بہت سے لوگوں نے اسکوپیسے دینے کی کوشش کی مگراس نے کسی سے بھی چندہ یاعطیہ قبول نہیں کیا۔سارامشکل کام،صرف اور صرف اپنے مالی وسائل سے سرانجام دیتارہا۔ٹھیک،چھ ماہ بعدوہ اپنے ذاتی تھولا تھولا جنگل میں واپس آچکاتھا۔
ایک رات،تین بجے انتھونی کوایک اجنبی شخص کافون آیا۔کہنے لگاکہ اس کے پاس نوہاتھی،ہتھنیاں اوران کے بچے ہیں۔مگراب اس کے علاقے میں قبیلوںکی جنگ ہورہی ہے۔ تمام ہاتھی مارے جائینگے اوران کے دانت مارکیٹ میں فروخت ہوجائینگے۔ انتھونی کوہاتھیوں کاکوئی تجربہ نہیں تھا۔ مگراس نے یہ مشکل کام کرنے کابیڑہ بھی اٹھالیا۔اپنے ساتھیوں کے ساتھ گیا اور نوکے نوہاتھی اپنے جنگل میں لے آیا۔گھنٹوں ان کے ساتھ گزارتاتھا۔ان کی عادات کامطالعہ کرتاتھا۔ان کے رویہ اور زبان کوسمجھنے کی کوشش کرتاتھا۔تین چارماہ میں انتھونی،ان ہاتھیوں کابہترین دوست بن چکا تھا۔
عجیب بات یہ بھی تھی کہ وہ ان کی زبان تک سمجھ چکا تھا۔ اس نے اپنے تجربات کو قلمبندکردیا۔اس کتاب کانام "The Elephant Whisper"تھا۔یہ 2009ء کی بہترین اور سب سے زیادہ فروخت ہونے والی بہترین کتاب قراردی گئی۔انتھونی نے سفیدگینڈے کی نایاب نسل کوبہت عجیب طریقے سے بچایااورمحفوظ رکھا۔کانگومیں ریاستی فوج اورباغی قبائل کے درمیان وحشت ناک جنگ ہورہی تھی۔ہزاروں لوگ اس ہولناکی کاشکارہورہے تھے۔ اس جنگ میں دس سے تیرہ برس کے بچوں کو نشے کاعادی بنا کرمعصوم لوگوں کوقتل کرنے کی مشین بنادیا جاتا تھا۔ ریاست اورباغی دونوں قبیح طریقے سے فوجی بھرتی کررہے تھے۔
انتھونی کوجنگ کرنے یاروکنے کاکوئی تجربہ نہیں تھا۔ مگر اسے علم تھاکہ کانگومیں سفیدگینڈے کوبہت مقدس اورمحترم سمجھاجاتاتھا۔وہ دونوں فریقین کے پاس گیا۔دلیل سے قائل کیاکہ اس شاندار اور طاقتورجانورکی نسل لڑائی میں معدوم ہورہی ہے۔فریقین نے اس کی بات پرصرف اس لیے یقین کرلیاکہ انتھونی کے کردار پرکوئی شک نہیں کر سکتا تھا۔
بالکل اسی طرح،2007ء میں ٹوڈ اینڈرس، کیلیفورنیا کے ساحل پرلہروں پرسرفنگ کررہاتھا۔سرفنگ ایک طرح کا کھیل ہے جس میں کھلاڑی کوطاقتورلہروں پرتوازن قائم رکھ کرساحل تک واپس آناہوتاہے۔ٹوڈبڑے آرام اور سکون میں لہروں سے کھیلنے میں مصروف تھا۔ساحل ہرطرح سے محفوظ تھا۔اس جگہ پرصرف ڈولفن موجودرہتی تھیں جو انتہائی انسان دوست اورذہین آبی جانور ہے۔
ٹوڈسوچ بھی نہیں سکتاتھاکہ موت کے بالکل سامنے کھڑاہے۔دیکھتے دیکھتے ایک سفیدشارک آئی اور ٹوڈ پرحملہ کردیا۔نوکیلے دانتوں سے ٹوڈکی ٹانگ شدیدزخمی ہوگئی۔مگراگلاواقعہ پہلے سے زیادہ خلاف توقع تھا۔چھ ڈولفن مچھلیاں آئیں اور انھوں نے ٹوڈکے اردگردحفاظتی حصاربنالیا۔شارک حصارسے گھبرا کر گہرے پانی میں واپس چلی گئی۔ ٹوڈکے بدن سے بے تحاشہ خون بہہ رہاتھا۔ڈولفن مچھلیوں نے ایساانتظام کیاکہ حفاظت سے زخمی ٹوڈکو ساحل تک لے آئیں۔ٹوڈآج بھی زندہ ہے۔اگراس وقت ڈولفن مچھلیاں،اس کی حفاظت اور مدد نہ کرتیں،تووہ کسی صورت زندہ نہیں رہ سکتاتھا۔
اب میں اپنی تحریرکے مرکزی نکتے کی طرف آتا ہوں۔انسان اورجانوروں کاایک انتہائی قریبی تعلق ہے۔ اس تعلق کومحفوظ رکھنے کے لیے لازم ہے کہ ہم تمام لوگ، جانوروں کے حقوق کوسمجھیں،انکواہمیت دیں اوران کی حفاظت کریں۔مغربی ممالک میں جانوروں کے حقوق کو انسانی حقوق کے برابرقراردیاجاچکاہے۔مگرہمارے جیسے ممالک میں زمینی حقائق بہت تلخ اورکڑوے ہیں۔
کسی شہر، گاؤں یا قصبے میں جاکرمختلف طرح کے جانوروں کی حالت ملاحظہ فرمائیے۔اکثراوقات، ان کے لیے کسی قسم کی سہولت موجود نہیں ہوگی۔میں نے ایسے زخمی گھوڑے دیکھے ہیں، جنکے زخموںپرمکھیاں جال بناکربیٹھی ہوتی ہیں مگرمالک ان گھوڑوںکے علاج پرکوئی توجہ نہیں دیتے۔نتیجہ میں، گھوڑے،انفیکشن کی وجہ سے مرجاتے ہیں یاانھیں مار دیا جاتاہے۔گھروں میں جن لوگوں نے پرندے پالے ہوئے ہیں،وہ توقدرے بہترحالات میں رہتے ہیں۔مگرکبھی آپ بڑے شہروں کی ان مارکیٹوں میں جائیے جہاں پرندوں اور جانوروں کی خریدوفروخت ہوتی ہے۔
جس ملک میں انسانوں کے عملی طورپرکوئی حقوق نہ ہوں،جہاں ظالمانہ اورکرخت نظام نے عام انسان کو جانور کی سطح پررہنے پرمجبورکردیاہو،وہاں جانوروں کے حقوق کا کیا ذکرکیاجائے۔جہاں عام انسان،دوائی نہ ملنے پر ایڑیاں رگڑرگڑکرروزمرتے ہوں،وہاں پرندوں کی حفاظت کی کیا بات کی جائے،بلکہ کیوں کی جائے۔جہاں لوگوں کوانصاف میسرنہ ہو،وہاں ان بے زبانوں کے لیے انصاف مانگناصرف اورصرف بے وقوفی ہے۔مجھے تولگتاہے کہ ہمارے جیسے مشکل ملکوں میں پرندے ،جانوراورانسان ایک ہی سطح پر زندگی گزارنے پرمجبورہیں۔اگرخداکی قدرت سے ان بے زبانوں نے عدالت لگالی اور انصاف کر ڈالا، تو ہماراکیاانجام ہوگا؟
بچپن سے ہی انتھونی کو جانوروں، پرندوں، جنگلات اور پودوں سے عشق تھا۔یہ شوق دراصل اس کی اصل پہچان بن گیا۔1990ء میں اس نے اپنا تمام کاروبارفروخت کردیا۔ شوق کواپناکاروباراورعشق بنا ڈالا۔ پانچ ہزار ایکٹر پر مشتمل تھولاتھولاجنگل خریدکراسے جانوروں کی محفوظ ترین پناہ گاہ بنا دیا۔جنگل میں انتہائی خوبصورت اورجدید سہولیات مہیا کر دیں۔جب پرندے اور جانورمحفوظ ہوگئے،توجنگل دنیا کا سب سے بڑا، خوبصورت اورآزادچڑیاگھریاگیم ریزرو بن گیا۔ ہزاروں لوگ،پوری دنیاسے جانوروں کو دیکھنے کے لیے آناشروع ہوگئے۔
ہرجانور، قدرتی ماحول میں بے خوف زندگی گزار رہا تھا۔سائنسدانوں نے اس سہولت کا فائدہ اٹھا کرتحقیق کی نئی جہتیں تلاش کر ڈالیں۔سیکڑوں فلمیں، صرف اور صرف تھولاتھولاجنگل کے پرندوں، جانوروں اورپودوں پربنائی گئیں۔مگرابھی انتھونی نے اپنا اصل کام کرنا تھا۔ 2003ء میں امریکی افواج نے بغدادپرحملہ کردیا۔قتل وغارت اورخون ریزی کی ایک ایسی آندھی چلی جس نے اس عظیم ملک کوصدیوں پیچھے دھکیل دیا۔ گھمبیر صورتحال میں کسی کویادنہ رہاکہ بغدادمیں دنیاکاایک نایاب چڑیا گھر موجودہے۔رقبہ اورتعدادکے لحاظ سے یہ مشرق وسطیٰ کا سب سے جدیداورخوبصورت مقام تھا۔ہولناک جنگ نے چڑیا گھرکومکمل طورپربربادکرکے رکھ ڈالاتھا۔اس جگہ 650 قسم کے نایاب پرندے اورجانور تھے۔
اس میں سے صرف پینتیس زندہ رہ گئے تھے۔ڈاکوگروہ کی صورت میں، پنجروں پرحملے کرتے تھے۔قیمتی ترین پرندوں اورجانوروں کو بے ہوش کرکے اسمگلروں کے حوالے کردیا جاتا تھا۔ دنیا کے متمول لوگ،منہ مانگے داموں پر جانورخریدلیتے تھے۔ انتھونی کو جب سب کچھ پتہ چلاتوکویت میں تھا۔اس نے اپنی جیپ میں دوائیاں رکھیں اورخطرناک ترین حالات میں بغدادپہنچ گیا۔سب کویقین تھاکہ وہ کبھی زندہ واپس نہیں آئیگا۔ مگر وہ سیدھا چڑیا گھر پہنچا۔ وہاں جانوروں کی لاشیں اوراَن گنت بھنبھناتی ہوئی مکھیاں تھیں۔ بدبو اور غلاظت کے ڈھیرتھے۔
صورتحال انتھونی کے خیال سے بھی زیادہ نازک تھی۔دوشیر،ایک دو چیتے اورایک ریچھ موجود تھا۔ان جانوروں کوبھی مدت سے خوراک نہ ملی تھی ۔وہ اتنے نحیف ہوچکے تھے کہ پیروں پر کھڑے تک نہ ہوسکتے تھے۔انتھونی نے سب سے پہلے اپنی جیپ سے دوائیاں نکالیں۔بچے کھچے جانوروں کاعلاج کرنا شروع کردیا۔ جیپ میں چلتے وقت خوراک کے بندڈبے لے کر آیاتھا۔ اس نے کئی ہفتوں کے بھوکے جانوروں کو خوراک مہیا کی۔ مگریہ سب کچھ ناکافی تھا۔مگرانتھونی ہمت نہ ہارا۔ امریکی فوجیوں کے میس سے بچاکھچاگوشت اورسبزی لاکر جانوروں کوکھلاتارہا۔اسکاجذبہ دیکھ کرچندامریکی فوجی اور عراق کے درجنوں مقامی لوگوں نے اسکاہاتھ بٹاناشروع کر دیا۔دیکھتے ہی دیکھتے،ادھ موئے جانوردوبارہ زندہ سے ہوگئے۔
انتھونی چھ مہینے رات دن،کسی منافع یالالچ کے بغیر وہاں کام کرتارہا۔اس کی اَن تھک محنت سے بغداد کا چڑیا گھر دوبارہ آبادہوگیااورآج تک آبادہے۔شروع میں،کیونکہ کوئی بھی اس کی مددنہیں کرتاتھا،لہذاتمام مشکل کام خود سرانجام دیتا تھا۔جانوروں کونہلاتاتھا۔ان کے پنجروں کی صفائی کرتا تھا۔ ان کے بال اورناخن تراشتاتھا۔خوفناک سے خوفناک جانور بھی انتھونی کے سامنے آکربچہ بن جاتا تھا۔ ان سب کومعلوم تھاکہ اگرآج زندہ ہیں،توصرف اورصرف اس ایک آدمی کی خدمت کے جذبہ کی بدولت۔انتھونی کے اس کام کی نیک نامی پوری دنیامیں پھیل گئی۔بہت سے لوگوں نے اسکوپیسے دینے کی کوشش کی مگراس نے کسی سے بھی چندہ یاعطیہ قبول نہیں کیا۔سارامشکل کام،صرف اور صرف اپنے مالی وسائل سے سرانجام دیتارہا۔ٹھیک،چھ ماہ بعدوہ اپنے ذاتی تھولا تھولا جنگل میں واپس آچکاتھا۔
ایک رات،تین بجے انتھونی کوایک اجنبی شخص کافون آیا۔کہنے لگاکہ اس کے پاس نوہاتھی،ہتھنیاں اوران کے بچے ہیں۔مگراب اس کے علاقے میں قبیلوںکی جنگ ہورہی ہے۔ تمام ہاتھی مارے جائینگے اوران کے دانت مارکیٹ میں فروخت ہوجائینگے۔ انتھونی کوہاتھیوں کاکوئی تجربہ نہیں تھا۔ مگراس نے یہ مشکل کام کرنے کابیڑہ بھی اٹھالیا۔اپنے ساتھیوں کے ساتھ گیا اور نوکے نوہاتھی اپنے جنگل میں لے آیا۔گھنٹوں ان کے ساتھ گزارتاتھا۔ان کی عادات کامطالعہ کرتاتھا۔ان کے رویہ اور زبان کوسمجھنے کی کوشش کرتاتھا۔تین چارماہ میں انتھونی،ان ہاتھیوں کابہترین دوست بن چکا تھا۔
عجیب بات یہ بھی تھی کہ وہ ان کی زبان تک سمجھ چکا تھا۔ اس نے اپنے تجربات کو قلمبندکردیا۔اس کتاب کانام "The Elephant Whisper"تھا۔یہ 2009ء کی بہترین اور سب سے زیادہ فروخت ہونے والی بہترین کتاب قراردی گئی۔انتھونی نے سفیدگینڈے کی نایاب نسل کوبہت عجیب طریقے سے بچایااورمحفوظ رکھا۔کانگومیں ریاستی فوج اورباغی قبائل کے درمیان وحشت ناک جنگ ہورہی تھی۔ہزاروں لوگ اس ہولناکی کاشکارہورہے تھے۔ اس جنگ میں دس سے تیرہ برس کے بچوں کو نشے کاعادی بنا کرمعصوم لوگوں کوقتل کرنے کی مشین بنادیا جاتا تھا۔ ریاست اورباغی دونوں قبیح طریقے سے فوجی بھرتی کررہے تھے۔
انتھونی کوجنگ کرنے یاروکنے کاکوئی تجربہ نہیں تھا۔ مگر اسے علم تھاکہ کانگومیں سفیدگینڈے کوبہت مقدس اورمحترم سمجھاجاتاتھا۔وہ دونوں فریقین کے پاس گیا۔دلیل سے قائل کیاکہ اس شاندار اور طاقتورجانورکی نسل لڑائی میں معدوم ہورہی ہے۔فریقین نے اس کی بات پرصرف اس لیے یقین کرلیاکہ انتھونی کے کردار پرکوئی شک نہیں کر سکتا تھا۔
بالکل اسی طرح،2007ء میں ٹوڈ اینڈرس، کیلیفورنیا کے ساحل پرلہروں پرسرفنگ کررہاتھا۔سرفنگ ایک طرح کا کھیل ہے جس میں کھلاڑی کوطاقتورلہروں پرتوازن قائم رکھ کرساحل تک واپس آناہوتاہے۔ٹوڈبڑے آرام اور سکون میں لہروں سے کھیلنے میں مصروف تھا۔ساحل ہرطرح سے محفوظ تھا۔اس جگہ پرصرف ڈولفن موجودرہتی تھیں جو انتہائی انسان دوست اورذہین آبی جانور ہے۔
ٹوڈسوچ بھی نہیں سکتاتھاکہ موت کے بالکل سامنے کھڑاہے۔دیکھتے دیکھتے ایک سفیدشارک آئی اور ٹوڈ پرحملہ کردیا۔نوکیلے دانتوں سے ٹوڈکی ٹانگ شدیدزخمی ہوگئی۔مگراگلاواقعہ پہلے سے زیادہ خلاف توقع تھا۔چھ ڈولفن مچھلیاں آئیں اور انھوں نے ٹوڈکے اردگردحفاظتی حصاربنالیا۔شارک حصارسے گھبرا کر گہرے پانی میں واپس چلی گئی۔ ٹوڈکے بدن سے بے تحاشہ خون بہہ رہاتھا۔ڈولفن مچھلیوں نے ایساانتظام کیاکہ حفاظت سے زخمی ٹوڈکو ساحل تک لے آئیں۔ٹوڈآج بھی زندہ ہے۔اگراس وقت ڈولفن مچھلیاں،اس کی حفاظت اور مدد نہ کرتیں،تووہ کسی صورت زندہ نہیں رہ سکتاتھا۔
اب میں اپنی تحریرکے مرکزی نکتے کی طرف آتا ہوں۔انسان اورجانوروں کاایک انتہائی قریبی تعلق ہے۔ اس تعلق کومحفوظ رکھنے کے لیے لازم ہے کہ ہم تمام لوگ، جانوروں کے حقوق کوسمجھیں،انکواہمیت دیں اوران کی حفاظت کریں۔مغربی ممالک میں جانوروں کے حقوق کو انسانی حقوق کے برابرقراردیاجاچکاہے۔مگرہمارے جیسے ممالک میں زمینی حقائق بہت تلخ اورکڑوے ہیں۔
کسی شہر، گاؤں یا قصبے میں جاکرمختلف طرح کے جانوروں کی حالت ملاحظہ فرمائیے۔اکثراوقات، ان کے لیے کسی قسم کی سہولت موجود نہیں ہوگی۔میں نے ایسے زخمی گھوڑے دیکھے ہیں، جنکے زخموںپرمکھیاں جال بناکربیٹھی ہوتی ہیں مگرمالک ان گھوڑوںکے علاج پرکوئی توجہ نہیں دیتے۔نتیجہ میں، گھوڑے،انفیکشن کی وجہ سے مرجاتے ہیں یاانھیں مار دیا جاتاہے۔گھروں میں جن لوگوں نے پرندے پالے ہوئے ہیں،وہ توقدرے بہترحالات میں رہتے ہیں۔مگرکبھی آپ بڑے شہروں کی ان مارکیٹوں میں جائیے جہاں پرندوں اور جانوروں کی خریدوفروخت ہوتی ہے۔
جس ملک میں انسانوں کے عملی طورپرکوئی حقوق نہ ہوں،جہاں ظالمانہ اورکرخت نظام نے عام انسان کو جانور کی سطح پررہنے پرمجبورکردیاہو،وہاں جانوروں کے حقوق کا کیا ذکرکیاجائے۔جہاں عام انسان،دوائی نہ ملنے پر ایڑیاں رگڑرگڑکرروزمرتے ہوں،وہاں پرندوں کی حفاظت کی کیا بات کی جائے،بلکہ کیوں کی جائے۔جہاں لوگوں کوانصاف میسرنہ ہو،وہاں ان بے زبانوں کے لیے انصاف مانگناصرف اورصرف بے وقوفی ہے۔مجھے تولگتاہے کہ ہمارے جیسے مشکل ملکوں میں پرندے ،جانوراورانسان ایک ہی سطح پر زندگی گزارنے پرمجبورہیں۔اگرخداکی قدرت سے ان بے زبانوں نے عدالت لگالی اور انصاف کر ڈالا، تو ہماراکیاانجام ہوگا؟