اثاثوں کی تحقیق
یہ بڑی اچھی بات ہے کہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار کرپشن کے خلاف اقدامات کیے جا رہے ہیں
یہ بڑی اچھی بات ہے کہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار کرپشن کے خلاف اقدامات کیے جا رہے ہیں، لیکن جن لوگوں کے خلاف اقدامات کیے جا رہے ہیں وہ بڑے مگر مچھوں کے فرنٹ مین ہیں اور اب بھی 'اصلی تے وڈے' مگر مچھ محفوظ ہیں۔ ان ادھورے نیم دلانہ اور امتیازی کارروائیوں سے صرف ایک فائدہ ہو رہا ہے، وہ یہ کہ عوام میں یہ تاثر قائم ہو رہا ہے کہ حکومت کرپٹ لوگوں کے خلاف متحرک ہو گئی ہے۔
ہم جس سرمایہ دارانہ نظام میں زندہ ہیں، اس میں پورا معاشرہ سر سے پاؤں تک کرپشن میں لت پت ہے۔ اس معاشرے میں اگر کوئی ایماندار ہے تو اس کا عموماً یہ مطلب لیا جاتا ہے کہ اسے بے ایمانی کے مواقع حاصل نہیں۔ جن لوگوں کو کرپشن کے حوالے سے گرفتار کیا گیا ہے وہ اگرچہ اشرافیہ کے کارندے ہیں لیکن ان کی کرپشن کے حوالے سے جو انکشافات سامنے آ رہے ہیں ان سے اندازہ ہو سکتا ہے کہ اصلی تے وڈے مگرمچھوں کی کرپشن کا کیا حال ہو گا۔ ڈاکٹر عاصم پر 462 ارب روپوں کی کرپشن کا الزام ہے۔
دوران تفتیش ڈاکٹر عاصم نے اصل مجرموں کی جو نشان دہی کی ہے اسے دبا دیا گیا ہے، کیونکہ ان بزرگوں کا تعلق حکمران اشرافیہ سے ہے اور ابھی تک کسی کی ہمت نہیں ہو رہی ہے کہ وہ اعلیٰ سطح کرپٹ عناصر کے خلاف کوئی ٹھوس کارروائی کرے۔
آف شور کمپنیوں کے انکشاف نے اگرچہ وقتی طور پر اشرافیہ میں ایک اضطراب پیدا کر دیا تھا لیکن بوجوہ اشرافیہ نے جلد ہی اپنے اضطراب پر نہ صرف قابو پا لیا ہے بلکہ جارحانہ انداز میں مخالفین پر جوابی حملے شروع کر دیے ہیں۔ اس حوالے سے ایک بڑی کمزوری یہ ہے کہ تقریباً تمام اہل سیاست کسی نہ کسی حوالے سے کرپشن کے حمام میں ننگے کھڑے ہیں۔ ایک فریق دوسرے پر جب کرپشن کے الزام لگاتا ہے تو دوسرا فریق ایسے جوابی الزامات عائد کرتا ہے کہ فریق اول آئیں بائیں شائیں کرنے لگ جاتا ہے۔ اس صورتحال کی وجہ سے کرپٹ عناصر دھڑلے سے اپنی پیشہ ورانہ سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں اور بے چارے عوام اس شاطرانہ کھیل کو دیکھ کر مایوسی کا شکار ہو رہے ہیں۔
کوئی گروہ آف شور کمپنیوں کے اسکینڈل میں ملوث ہے تو کوئی بھاری قرضے معاف کرانے کے جرم میں ملوث ہے اور دونوں گروہ ایک دوسرے کو بلیک میل کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ مرکزی حکومت جن لوگوں کو کرپشن کے الزامات میں گرفتار کر رہی ہے صوبائی حکومتیں مرکزی حکومت پر انتقامی کارروائیوں کے الزام لگا رہی ہیں۔ سندھ کے باشندوں کو یہ شکایت ہے کہ سندھ میں تو بھرپور طریقے سے آپریشن جاری ہے اور بلوچستان میں بھی کرپٹ عناصر کی گرفت ہو رہی ہے لیکن پنجاب میں کرپشن کے خلاف کوئی آپریشن نہیں ہو رہا ہے۔
اس کی کیا وجہ ہے؟ یہ ایسا سوال اور شکایت ہے جس کا کوئی جواب نہیں۔ پنجاب پر تسلسل کے ساتھ یہ الزام لگایا جاتا رہا ہے کہ اس نے چھوٹے صوبوں کو اپنی کالونی بنا رکھا ہے۔ سندھ، بلوچستان اور خیبرپختونخوا کی سیاسی قیادت قیام پاکستان کے بعد ہی سے پنجاب پر اسی قسم کے الزام لگا رہی ہے۔ ولی خان مرحوم تو اس حوالے سے پنجاب پر سخت ترین الزامات لگاتے رہے ہیں۔ پنجاب پر الزام کا مطلب پنجاب کے غریب عوام پر الزام نہیں بلکہ پنجاب کی اشرافیہ اور بیوروکریسی پر الزام ہے۔
یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ نیشنل ایکشن پلان سے پنجاب کیوں محفوظ ہے۔ کیا پنجاب کی اشرافیہ اور بیورو کریسی دودھ کی دھلی ہوئی ہے؟ ایسا ہو یا نہ ہو انصاف کا تقاضا یہی ہے کہ چھوٹے صوبوں کی طرح پنجاب میں بھی رینجرز کے ذریعے بھرپور آپریشن کیا جائے اور اگر اس صوبے میں کرپٹ مافیا ہے تو اسے قانون کے کٹہرے میں لایا جائے۔
اب جب کہ وزیراعظم کے خاندان پر آف شور کمپنیاں رکھنے کے الزامات کی تصدیق ہو چکی ہے تو ان کے خلاف بھی قانون کے مطابق کارروائی ہونی چاہیے، ورنہ عوام بجا طور پر یہ محسوس کرنے لگیں گے کہ ہمارے ملک میں احتساب کے دو الگ الگ معیار اور نظام ہیں اور اس تاثر کی ذمے داری براہ راست وزیراعظم پر عائد ہو سکتی ہے۔ اپوزیشن کے اصرار پر وزیراعظم پارلیمنٹ میں تو بہ صد یقین دہانیاں تشریف لائے لیکن متحدہ اپوزیشن کے 7 سوالات کے جوابات دینے کے بجائے اپنے خاندان کی تاریخ بیان کر کے چلے گئے، اس رویے سے اپوزیشن کو سخت شکایت ہے۔
ہمارے وزیراعظم بجا طور پر یہ مطالبہ کر رہے ہیں کہ اگر آف شور کمپنیوں کے خلاف کارروائی ہوتی ہے تو بینکوں سے قرض لے کر واپس نہ کرنے والوں کے خلاف بھی آپریشن ہونا چاہیے۔ اس حوالے سے ایک طویل عرصے سے بینک قرضوں کے نادہندگان کے خلاف آواز اٹھائی جا رہی ہے اور الزام لگایا جا رہا ہے کہ بااثر اشرافیہ قرض معاف کرانے والوں کے خلاف کارروائی میں روڑے اٹکا رہی ہے۔
کہا جا رہا ہے کہ ان نادہندگان کی طرف دو کھرب کے قرضے واجب الادا ہیں اور یہ کیس اعلیٰ عدالتوں میں زیر سماعت بھی ہے۔ ہماری اعلیٰ عدلیہ کو حکومتوں کی بدعنوانیوں سے عام شکایت ہے لیکن اشرافیہ کے جرائم کے خلاف عدلیہ کی خاموشی باعث حیرت ہے۔ مسئلہ خواہ آف شور کمپنیوں کا ہو یا اربوں کے قرض معاف کرانے کا، عدلیہ کو ازخود نوٹس لے کر ان ملزمان کے خلاف سخت اور بلاامتیاز کارروائی کرنا چاہیے تا کہ انصاف کی برتری ثابت ہو جائے۔ اگر عدلیہ اس حوالے سے اپنی قانونی ذمے داریاں پوری نہیں کرتی تو یہ تاثر لازمی طور پر پیدا ہو گا کہ عدلیہ دباؤ میں آ رہی ہے۔
اس قسم کے تاثر سے انصاف کی آزادی اور غیر جانبداری پر حرف آ جاتا ہے جس سے انصاف کے نظام پر عوام کا اعتماد متزلزل ہو جاتا ہے۔69 سال سے اشرافیہ سیاست اور اقتدار پر قابض ہے اور اپنے اختیارات کا غلط استعمال کر رہی ہے، اب وقت آ گیا ہے کہ اشرافیائی جرائم کے خلاف بھرپور اور بلاامتیاز سخت ترین آپریشن کیا جائے، ورنہ لوٹ مار کا یہ سلسلہ کبھی ختم نہیں ہو گا، جس کا براہ راست شکار عوام ہو رہے ہیں۔
سوئس بینکوں میں کرپشن کی بھاری رقوم رکھنے کے الزامات ایک اوپن سیکرٹ ہے، اس حوالے سے یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ پاکستانیوں کے 200 ارب ڈالر ان بینکوں میں پڑے ہوئے ہیں، اس الزام کا محاسبہ کرنا حکومت کی ذمے داری ہے۔ نواز شریف یہ مطالبہ کرنے میں حق بجانب ہیں کہ آف شور کمپنیوں کے ساتھ ساتھ قرض نادہندگان کے خلاف بھی کارروائی ہونی چاہیے بلکہ کرپشن کے خاتمے کے لیے اشرافیہ کے اثاثوں کی بلاامتیاز تحقیق ہونی چاہیے۔ یہی ایک ایسا موثر طریقہ ہے جس سے کرپشن کا خاتمہ ممکن ہے۔