غلط حکمت عملیوں کا آسیب
مئی کا تیسرا ہفتہ خاصا ہنگامہ خیز، ہیجان انگیز اور پرآشوب رہا۔ اس دوران کئی ایسے واقعات رونما ہوئے
مئی کا تیسرا ہفتہ خاصا ہنگامہ خیز، ہیجان انگیز اور پرآشوب رہا۔ اس دوران کئی ایسے واقعات رونما ہوئے، جن کے دوررس نتائج برآمد ہونے کے قوی امکانات ہیں۔ اتوار کو افغان طالبان رہنما ملااختر منصور بلوچستان کے ضلع نوشکی کے مضافات میں اس وقت ڈرون حملے کا شکار ہوا، جب وہ تفتان کے راستے ایران سے پاکستان میں داخل ہوا۔ گزشتہ روز بھارت کے وزیراعظم نریندرمودی ایران کے دو روزہ دورے پر پہنچے، جہاں انھوں نے چابہار کی بندرگاہ کے توسیعی منصوبے کے حوالے سے کئی معاہدوں پر دستخط کیے۔
اسی دوران پاکستانی وزیراعظم پانچ روزہ نجی دورے پر انگلستان چلے گئے، جب کہ آف شور کمپنیوں کے قضیے پر ToR کمیٹی تشکیل کے بعد گفتند، نشستند، برخاستند کے مرحلے میں ہے۔ ملا اختر منصور کی ڈرون حملے میں ہلاکت پر وفاقی دارالحکومت کی غلام گردشوں میں 48 گھنٹے تک چھائے رہنے والے سناٹے کو بالآخر وفاقی وزیرداخلہ نے اپنے تئیں توڑنے کی کوشش کی، لیکن اس مسئلے پر سوا گھنٹے تک انھوں نے جس قسم کی مبہم گفتگو کی، اس نے معاملات کو سلجھانے کے بجائے مزید الجھا دیا، بلکہ پاکستان کے کیس کو مزید کمزور کر دیا، جب کہ وزارت خارجہ کے ترجمان کی زبان اس وقت سے اس اظہاریے کی تکمیل تک گنگ ہے۔
وہ اسمارٹ فونز اور لیپ ٹاپس بھی مسلسل پاورڈ آف ہیں، جو ہر چھوٹی بڑی بات پر کچھ نہ کچھ ٹوئٹ کرتے رہتے ہیں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان کے حکمران حلقے اس حملے کے بعد اس قدر کنفیوژن اور ذہنی انتشار کا شکار ہیں کہ ان کی سمجھ میں نہیں آ رہا کہ ان نئی پیش رفتوں (Developments) پر کیا موقف اختیار کریں۔
اب جہاں تک ToR کمیٹی کا تعلق ہے، تو اس پر گفتگو وقت کا زیاں ہے، کیونکہ کرپشن پاکستان کے سیاسی اور انتظامی نظام میں کلچر کی شکل اختیار کر چکی ہے۔ اس حمام میں مسٹر اور مولانا دونوں ایک ہی حالت میں نظر آتے ہیں۔ چونکہ ہر جماعت کے اپنے اندر مختلف نوعیت کی کمزوریاں پائی جاتی ہیں، اس لیے کوئی بھی سیاسی جماعت اس مسئلے کو مستقل بنیادوں پر حل کرنے میں سنجیدہ نظر نہیں آ رہی۔ لہٰذا یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ اس مسئلے کا ٹھوس اور پائیدار حل اس وقت تک ممکن نہیں جب تک کہ سول سوسائٹی خود کو Assert کرنے کے قابل نہیں ہو جاتی۔
اب جہاں تک پاکستانی علاقے میں امریکی ڈرون حملوں کا تعلق ہے، تو اس پر گفتگو کرتے ہوئے ہمیں دو باتوں کا خیال رکھنا ہو گا۔ اول، ہماری ریاستی مقتدرہ نے 1951ء سے امریکا کے بارے میں ''جی حضوری'' کی جو روش اختیار کی ہے، وہ ہر قسم کی ٹھوس پالیسی کی تشکیل کی راہ میں حائل ہے۔ دوئم، مذہبی شدت پسندی کے بارے میں ریاستی بیانیہ (Narrative) میں بھی کوئی خاطر خواہ تبدیلی نظر نہیں آ رہی۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہمارے منصوبہ سازوں کا ایک بڑا حلقہ آج بھی افغانستان میں موجود مذہبی عناصر کو تزویراتی اہمیت کا حامل سمجھتا ہے۔
جس کا سب سے بڑا ثبوت وفاقی وزیرداخلہ کی منگل کو کی جانے والی پریس کانفرنس ہے، جس میں انھوں نے باربار ملا منصور کی موت پر اسی طرح نوحہ پڑھا جیسا کہ چند برس قبل حکیم اﷲ محسود کے مارے جانے پر پڑھا تھا۔ اس کے علاوہ ملک کے مختلف حصوں میں مذہبی شدت کی بنیاد پر ہونے والی دہشت گردی کے خاتمے کی کوئی سنجیدہ کوشش بھی سامنے نہیں آ رہی ہے۔
اب دوسری طرف آتے ہیں۔ ملااختر منصور کے ڈرون حملے میں مارے جانے کے گزشتہ روز بھارت، افغانستان اور ایران کے درمیان چابہار بندرگاہ کے توسیعی معاہدے پر دستخط ہوئے۔ اس معاہدے کے پہلے مرحلے میں بھارت 50 کروڑ ڈالر کی سرمایہ کاری کے علاوہ تکنیکی مہارت بھی فراہم کرے گا۔ معاہدے کے تحت بھارت چابہار سے افغانستان کے شہر زرنج تک ایک شاہراہ بھی تعمیر کرے گا۔ اس طرح افغانستان کا تجارت کے لیے پاکستان پر جو انحصار تھا، وہ تقریباً ختم ہو جائے گا۔
بعض باخبر حلقے اس تجارتی راہدری کو پاک چین اقتصادی راہداری کا جواب بھی قرار دے رہے ہیں، لیکن ماہرین اقتصادیات کا کہنا ہے کہ خطے کا ہر ملک اپنی معیشت کے استحکام کے لیے اقدامات کر رہا ہے۔ چین بھی کاشغر سے گوادر تک کی اقتصادی راہداری کے علاوہ اپنی معیشت کے پھیلاؤ کے لیے مزید دو راہداریوں پر بھی کام کر رہا ہے۔ ان میں سے ایک وسط ایشیائی ممالک سے ہوتی ہوئی افغانستان کے راستے ایران تک پہنچے گی، جب کہ تیسری راہداری وسط ایشیائی ممالک کے راستے بحیرہ کیسپین تک پہنچے گی۔ اس لیے ہمیں دوسروں کی کوششوں سے پریشان ہونے کے بجائے اپنے لیے بھی ایک سے زائد راستے تلاش کرنے پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
مگر ہماری حکمران اشرافیہ اتنا وژن اور بصیرت نہیں رکھتی کہ وہ معیشت کے استحکام اور فروغ کے لیے دیگر راستے بھی تلاش کر سکے۔ شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم نے آج تک کوئی بھی کام اپنے مفادات کو مرتکز رکھتے ہوئے نہیں کیا۔ بلکہ جو بھی کیا وہ دوسروں کے مفاد یا ان کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے کیا۔ اس طرز عمل کی کئی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔ قارئین کو یاد ہو گا کہ ایوب دور (1964) میں علاقائی تعاون برائے ترقی (RCD) قائم ہوئی تھی، جس میں پاکستان، ایران اور ترکی شامل تھے۔ کراچی سے ایک سڑک ایران کے راستے ترکی کے دارالحکومت انقرہ تک تعمیر ہو رہی تھی۔
تینوں ممالک کو ریل کے ذریعے ایک دوسرے سے منسلک کیے جانے کا منصوبہ بھی زیر غور تھا۔ یہ تنظیم 1979ء میں ایران میں انقلاب کے بعد تحلیل کر دی گئی۔ اگر یہ تحلیل نہ ہوتی تو قوی امکان تھاکہ یورپی یونین کی طرز پر اقتصادی، سماجی اور ثقافتی اتحاد کی شکل اختیار کر سکتی تھی۔ حالانکہ اس کے بعد اقتصادی تعاون کی تنظیم (ECO) قائم کی گئی جس میں سات وسط ایشیائی ممالک کو بھی شامل کیا گیا، لیکن افغانستان میں عدم استحکام کی وجہ سے یہ تنظیم مسلسل غیر فعال ہے۔
اس وقت صورتحال یہ ہے کہ حکمران کتنے ہی معصوم بن کر اپنے حق میں تاویلات پیش کریں، لیکن غلط حکمت عملیوں اور بے ہنگم منصوبہ بندیوں کی وجہ سے تمام قابل اعتماد دوست یکے بعد دیگرے دور ہوتے جا رہے ہیں۔ وہ بھارت جس سے ہماری کئی جائز شکایات ہیں، ہمارے ہی دوستوں کے حلقے میں گھستا چلا جا رہا ہے، جو اس کی عیارانہ سیاست سے بڑھ کر ہماری ناکام پالیسیوں کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
سعودی عرب جس پر ہم آنکھ بند کر کے اعتماد کرتے ہیں، جس نے ہمیشہ کشمیر سمیت بھارت کے ساتھ دیگر تنازعات پر کھل کر ہمارے موقف کی تائید کی۔ قابل غور بات یہ ہے کہ آج اس کا جھکاؤ بھی بھارت کی طرف ہو چکا ہے۔ چند ہفتے قبل سعودی حکمرانوں نے یہ جانتے ہوئے کہ نریندر مودی کے ہاتھ گجرات کے مسلمانوں کے خون میں رنگے ہوئے ہیں، اسے اعلیٰ ترین سعودی ایوارڈ سے نوزا۔ مگر اس صورتحال کے مضمرات پر سوائے چند بیانات کے کوئی سنجیدہ کوشش ابھی تک سامنے نہیں آ سکی ہے۔
جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا ہے، ایران کے ساتھ بھی ہمارے تعلقات مثالی ہوا کرتے تھے۔ ایران وہ پہلا ملک تھا، جس نے اقوام متحدہ میں ہماری رکنیت کے لیے ووٹ دیا تھا۔ 1965ء کی جنگ کے دوران ایران نے ہماری فضائیہ اور قومی ائیرلائن کو یہ سہولت فراہم کی تھی وہ مسافر اور غیرجنگی جہاز ان کے ہوائی اڈوں پر کھڑے کریں، مگر انقلاب کے بعد چونکہ امریکا ایرانی حکمرانوں سے ناراض تھا، اس لیے ہم نے بھی تمام احسانات بھلا کر اس سے آنکھیں چرانے کی پالیسی اختیار کر لی۔
یمن اور عراق کے معاملے میں گو کہ ہمارے حکمرانوں نے غیرجانبداری کا تاثر دیا، لیکن غیر ذمے دارانہ اور غیر سنجیدہ روش کی وجہ سے صرف ایران ہی نہیں مشرق وسطیٰ کے دیگر دوست ممالک بھی یکے بعد دیگرے دور ہوتے چلے گئے۔ بھٹو مرحوم اس سلسلے میں قابل ستائش تھے کہ انھوں نے امریکی ناراضگی کی پرواہ کیے بغیر سعودی عرب کے شاہ فیصل، لیبیا کے کرنل معمر قذافی، ابوظہبی کے حکمران شیخ زاید بن سلطان النہیان اور شام کے حافظ الاسد کے ساتھ مضبوط تعلقات قائم کیے۔ جنھیں ان کے بعد آنے والی حکومتوں نے اپنی کوتاہ بینی اور نااہلی کے باعث ضایع کر دیا۔
ہم پرویز مشرف پر بحیثیت ایک آمر چاہے جتنی تنقید کریں، ان کے اقدامات پر چاہے جتنی نکتہ چینی کریں، لیکن ان کا دیا ہوا یہ سلوگن بہرحال اپنے اندر وزن رکھتا ہے کہ ''سب سے پہلے پاکستان''۔ ہمیں یہ بات ذہن میں بٹھانا ہو گی کہ نہ امریکا ہمارا ہمدرد ہے اور نہ چین ہماری خاطر اپنے مفادات کی حدود پار کرے گا، نہ بھارتی اقدامات کو دیکھتے ہوئے پالیسیاں بنانے کی حکمت عملی کو دانشمندانہ کہا جا سکتا ہے۔ لہٰذا اب یہ تسلیم کر لینا چاہیے کہ ہماری غلط حکمت عملیاں ہی ہمارے پاؤں کی زنجیر ہیں۔ اس لیے یہ طے ہے کہ صرف اور صرف پاکستان مرتکز پالیسییاں ہی ہماری ترقی اور بقا کی ضامن ہوں گی۔
اسی دوران پاکستانی وزیراعظم پانچ روزہ نجی دورے پر انگلستان چلے گئے، جب کہ آف شور کمپنیوں کے قضیے پر ToR کمیٹی تشکیل کے بعد گفتند، نشستند، برخاستند کے مرحلے میں ہے۔ ملا اختر منصور کی ڈرون حملے میں ہلاکت پر وفاقی دارالحکومت کی غلام گردشوں میں 48 گھنٹے تک چھائے رہنے والے سناٹے کو بالآخر وفاقی وزیرداخلہ نے اپنے تئیں توڑنے کی کوشش کی، لیکن اس مسئلے پر سوا گھنٹے تک انھوں نے جس قسم کی مبہم گفتگو کی، اس نے معاملات کو سلجھانے کے بجائے مزید الجھا دیا، بلکہ پاکستان کے کیس کو مزید کمزور کر دیا، جب کہ وزارت خارجہ کے ترجمان کی زبان اس وقت سے اس اظہاریے کی تکمیل تک گنگ ہے۔
وہ اسمارٹ فونز اور لیپ ٹاپس بھی مسلسل پاورڈ آف ہیں، جو ہر چھوٹی بڑی بات پر کچھ نہ کچھ ٹوئٹ کرتے رہتے ہیں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان کے حکمران حلقے اس حملے کے بعد اس قدر کنفیوژن اور ذہنی انتشار کا شکار ہیں کہ ان کی سمجھ میں نہیں آ رہا کہ ان نئی پیش رفتوں (Developments) پر کیا موقف اختیار کریں۔
اب جہاں تک ToR کمیٹی کا تعلق ہے، تو اس پر گفتگو وقت کا زیاں ہے، کیونکہ کرپشن پاکستان کے سیاسی اور انتظامی نظام میں کلچر کی شکل اختیار کر چکی ہے۔ اس حمام میں مسٹر اور مولانا دونوں ایک ہی حالت میں نظر آتے ہیں۔ چونکہ ہر جماعت کے اپنے اندر مختلف نوعیت کی کمزوریاں پائی جاتی ہیں، اس لیے کوئی بھی سیاسی جماعت اس مسئلے کو مستقل بنیادوں پر حل کرنے میں سنجیدہ نظر نہیں آ رہی۔ لہٰذا یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ اس مسئلے کا ٹھوس اور پائیدار حل اس وقت تک ممکن نہیں جب تک کہ سول سوسائٹی خود کو Assert کرنے کے قابل نہیں ہو جاتی۔
اب جہاں تک پاکستانی علاقے میں امریکی ڈرون حملوں کا تعلق ہے، تو اس پر گفتگو کرتے ہوئے ہمیں دو باتوں کا خیال رکھنا ہو گا۔ اول، ہماری ریاستی مقتدرہ نے 1951ء سے امریکا کے بارے میں ''جی حضوری'' کی جو روش اختیار کی ہے، وہ ہر قسم کی ٹھوس پالیسی کی تشکیل کی راہ میں حائل ہے۔ دوئم، مذہبی شدت پسندی کے بارے میں ریاستی بیانیہ (Narrative) میں بھی کوئی خاطر خواہ تبدیلی نظر نہیں آ رہی۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہمارے منصوبہ سازوں کا ایک بڑا حلقہ آج بھی افغانستان میں موجود مذہبی عناصر کو تزویراتی اہمیت کا حامل سمجھتا ہے۔
جس کا سب سے بڑا ثبوت وفاقی وزیرداخلہ کی منگل کو کی جانے والی پریس کانفرنس ہے، جس میں انھوں نے باربار ملا منصور کی موت پر اسی طرح نوحہ پڑھا جیسا کہ چند برس قبل حکیم اﷲ محسود کے مارے جانے پر پڑھا تھا۔ اس کے علاوہ ملک کے مختلف حصوں میں مذہبی شدت کی بنیاد پر ہونے والی دہشت گردی کے خاتمے کی کوئی سنجیدہ کوشش بھی سامنے نہیں آ رہی ہے۔
اب دوسری طرف آتے ہیں۔ ملااختر منصور کے ڈرون حملے میں مارے جانے کے گزشتہ روز بھارت، افغانستان اور ایران کے درمیان چابہار بندرگاہ کے توسیعی معاہدے پر دستخط ہوئے۔ اس معاہدے کے پہلے مرحلے میں بھارت 50 کروڑ ڈالر کی سرمایہ کاری کے علاوہ تکنیکی مہارت بھی فراہم کرے گا۔ معاہدے کے تحت بھارت چابہار سے افغانستان کے شہر زرنج تک ایک شاہراہ بھی تعمیر کرے گا۔ اس طرح افغانستان کا تجارت کے لیے پاکستان پر جو انحصار تھا، وہ تقریباً ختم ہو جائے گا۔
بعض باخبر حلقے اس تجارتی راہدری کو پاک چین اقتصادی راہداری کا جواب بھی قرار دے رہے ہیں، لیکن ماہرین اقتصادیات کا کہنا ہے کہ خطے کا ہر ملک اپنی معیشت کے استحکام کے لیے اقدامات کر رہا ہے۔ چین بھی کاشغر سے گوادر تک کی اقتصادی راہداری کے علاوہ اپنی معیشت کے پھیلاؤ کے لیے مزید دو راہداریوں پر بھی کام کر رہا ہے۔ ان میں سے ایک وسط ایشیائی ممالک سے ہوتی ہوئی افغانستان کے راستے ایران تک پہنچے گی، جب کہ تیسری راہداری وسط ایشیائی ممالک کے راستے بحیرہ کیسپین تک پہنچے گی۔ اس لیے ہمیں دوسروں کی کوششوں سے پریشان ہونے کے بجائے اپنے لیے بھی ایک سے زائد راستے تلاش کرنے پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
مگر ہماری حکمران اشرافیہ اتنا وژن اور بصیرت نہیں رکھتی کہ وہ معیشت کے استحکام اور فروغ کے لیے دیگر راستے بھی تلاش کر سکے۔ شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم نے آج تک کوئی بھی کام اپنے مفادات کو مرتکز رکھتے ہوئے نہیں کیا۔ بلکہ جو بھی کیا وہ دوسروں کے مفاد یا ان کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے کیا۔ اس طرز عمل کی کئی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔ قارئین کو یاد ہو گا کہ ایوب دور (1964) میں علاقائی تعاون برائے ترقی (RCD) قائم ہوئی تھی، جس میں پاکستان، ایران اور ترکی شامل تھے۔ کراچی سے ایک سڑک ایران کے راستے ترکی کے دارالحکومت انقرہ تک تعمیر ہو رہی تھی۔
تینوں ممالک کو ریل کے ذریعے ایک دوسرے سے منسلک کیے جانے کا منصوبہ بھی زیر غور تھا۔ یہ تنظیم 1979ء میں ایران میں انقلاب کے بعد تحلیل کر دی گئی۔ اگر یہ تحلیل نہ ہوتی تو قوی امکان تھاکہ یورپی یونین کی طرز پر اقتصادی، سماجی اور ثقافتی اتحاد کی شکل اختیار کر سکتی تھی۔ حالانکہ اس کے بعد اقتصادی تعاون کی تنظیم (ECO) قائم کی گئی جس میں سات وسط ایشیائی ممالک کو بھی شامل کیا گیا، لیکن افغانستان میں عدم استحکام کی وجہ سے یہ تنظیم مسلسل غیر فعال ہے۔
اس وقت صورتحال یہ ہے کہ حکمران کتنے ہی معصوم بن کر اپنے حق میں تاویلات پیش کریں، لیکن غلط حکمت عملیوں اور بے ہنگم منصوبہ بندیوں کی وجہ سے تمام قابل اعتماد دوست یکے بعد دیگرے دور ہوتے جا رہے ہیں۔ وہ بھارت جس سے ہماری کئی جائز شکایات ہیں، ہمارے ہی دوستوں کے حلقے میں گھستا چلا جا رہا ہے، جو اس کی عیارانہ سیاست سے بڑھ کر ہماری ناکام پالیسیوں کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
سعودی عرب جس پر ہم آنکھ بند کر کے اعتماد کرتے ہیں، جس نے ہمیشہ کشمیر سمیت بھارت کے ساتھ دیگر تنازعات پر کھل کر ہمارے موقف کی تائید کی۔ قابل غور بات یہ ہے کہ آج اس کا جھکاؤ بھی بھارت کی طرف ہو چکا ہے۔ چند ہفتے قبل سعودی حکمرانوں نے یہ جانتے ہوئے کہ نریندر مودی کے ہاتھ گجرات کے مسلمانوں کے خون میں رنگے ہوئے ہیں، اسے اعلیٰ ترین سعودی ایوارڈ سے نوزا۔ مگر اس صورتحال کے مضمرات پر سوائے چند بیانات کے کوئی سنجیدہ کوشش ابھی تک سامنے نہیں آ سکی ہے۔
جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا ہے، ایران کے ساتھ بھی ہمارے تعلقات مثالی ہوا کرتے تھے۔ ایران وہ پہلا ملک تھا، جس نے اقوام متحدہ میں ہماری رکنیت کے لیے ووٹ دیا تھا۔ 1965ء کی جنگ کے دوران ایران نے ہماری فضائیہ اور قومی ائیرلائن کو یہ سہولت فراہم کی تھی وہ مسافر اور غیرجنگی جہاز ان کے ہوائی اڈوں پر کھڑے کریں، مگر انقلاب کے بعد چونکہ امریکا ایرانی حکمرانوں سے ناراض تھا، اس لیے ہم نے بھی تمام احسانات بھلا کر اس سے آنکھیں چرانے کی پالیسی اختیار کر لی۔
یمن اور عراق کے معاملے میں گو کہ ہمارے حکمرانوں نے غیرجانبداری کا تاثر دیا، لیکن غیر ذمے دارانہ اور غیر سنجیدہ روش کی وجہ سے صرف ایران ہی نہیں مشرق وسطیٰ کے دیگر دوست ممالک بھی یکے بعد دیگرے دور ہوتے چلے گئے۔ بھٹو مرحوم اس سلسلے میں قابل ستائش تھے کہ انھوں نے امریکی ناراضگی کی پرواہ کیے بغیر سعودی عرب کے شاہ فیصل، لیبیا کے کرنل معمر قذافی، ابوظہبی کے حکمران شیخ زاید بن سلطان النہیان اور شام کے حافظ الاسد کے ساتھ مضبوط تعلقات قائم کیے۔ جنھیں ان کے بعد آنے والی حکومتوں نے اپنی کوتاہ بینی اور نااہلی کے باعث ضایع کر دیا۔
ہم پرویز مشرف پر بحیثیت ایک آمر چاہے جتنی تنقید کریں، ان کے اقدامات پر چاہے جتنی نکتہ چینی کریں، لیکن ان کا دیا ہوا یہ سلوگن بہرحال اپنے اندر وزن رکھتا ہے کہ ''سب سے پہلے پاکستان''۔ ہمیں یہ بات ذہن میں بٹھانا ہو گی کہ نہ امریکا ہمارا ہمدرد ہے اور نہ چین ہماری خاطر اپنے مفادات کی حدود پار کرے گا، نہ بھارتی اقدامات کو دیکھتے ہوئے پالیسیاں بنانے کی حکمت عملی کو دانشمندانہ کہا جا سکتا ہے۔ لہٰذا اب یہ تسلیم کر لینا چاہیے کہ ہماری غلط حکمت عملیاں ہی ہمارے پاؤں کی زنجیر ہیں۔ اس لیے یہ طے ہے کہ صرف اور صرف پاکستان مرتکز پالیسییاں ہی ہماری ترقی اور بقا کی ضامن ہوں گی۔