عالمی چیلنجز سے نمٹنے کیلئے ڈی ایٹ ممالک معاشی اتحاد قائم کریں ڈپٹی گورنر اسٹیٹ بینک
تعاون میں اضافے اور قریبی معاشی اتحاد سے ڈی ایٹ ممالک کو عالمی چیلنجوں کا مؤثر طور پر مقابلہ کرنے میں مدد ملے گی۔
اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے ڈپٹی گورنر قاضی عبدالمقتدر نے ڈی ایٹ کے مرکزی بینکوں کے تعاون کے حوالے سے ڈی ایٹ ممالک میں جامع معاشی نمو کو فروغ دینے کے لیے چار اہم پہلوؤں کا خاکہ بیان کیا ہے جن میں پائیدار ترقیاتی حکمت عملی، جدیدمالیاتی ربط، اسلامی مالیات اور معلومات کا تبادلہ شامل ہیں۔
وہ گزشتہ روز اسلام آباد کے مقامی ہوٹل میں ''سینٹرل بینکس مانیٹری اینڈ فنانشل کوآپریشن فار پروموٹنگ انکلوسو اکنامک گروتھ ان ڈی ایٹ کنٹریز'' کے موضوع پر ورکشاپ سے افتتاحی خطاب کر رہے تھے۔ یہ ''سینٹرل بینکس مانیٹری اینڈ فنانشل کوآپریشن فار پروموٹنگ انکلوسو اکنامک گروتھ ان ڈی ایٹ کنٹریز'' کے حوالے سے دوسری میٹنگ ہے جس میں ڈی ایٹ ممالک کے مرکزی بینک کے سربراہان شرکت کررہے ہیں، پہلی میٹنگ ابوجا میں ہوئی تھی، دوسری میٹنگ کا مقصد عالمی معیشت میں رکن ملکوں کی پوزیشن بہتربنانا، تنوع و نئے تجارتی مواقع کی تلاش، عالمی سطح پرپالیسی سازی میں تعاون کا فروغ اور معیار زندگی بہتربنانا ہے۔
ڈپٹی گورنر ایس بی پی نے اپنے افتتاحی کلمات میں کہا کہ ہمیں ڈی ایٹ ممالک کے اندر نئے معاشی نظام میں نمو کو پائیدار بنانے اور تجارت اور سرمائے کے بہاؤ کے ذریعے تعاون میں اضافہ کرنے پر غوروخوض کرنا ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ عالمی معیشت کی سست بحالی کے باوجود ڈی ایٹ کی معیشتوں میں نمایاں نمو دیکھی گئی ہے، ڈی ایٹ کی معیشتیں تیز رفتاری سے نئے مرحلے میں داخل ہو رہی ہیں اس لیے مرکزی بینکوں کے لیے یہ ضروری ہے کہ درست مانیٹری پالیسیوں اور معاشی انتظام کے ذریعے ایک دوسرے کے ساتھ زیادہ قریبی اقتصادی اور مالی اتحاد قائم کرنے کیلیے کام کریں تاہم خطے کا معاشی اور مالی اتحاد ایکسچینج ریٹ میں لچک، سرمائے کے آزادانہ بہاؤ اور شفاف قواعد و ضوابط پر مبنی ہونا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ معاشی نمو کی پائیداری کو جدت پسندی اور ٹیکنالوجی میں سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کی ترغیبات اور نئے کاروبار کے فروغ کے ذریعے یقینی بنایا جاسکتا ہے۔ ڈپٹی گورنر اسٹیٹ بینک کا کہنا تھا کہ تعاون میں اضافے اور قریبی معاشی اتحاد سے ڈی ایٹ ممالک کو عالمی چیلنجوں کا مؤثر طور پر مقابلہ کرنے میں مدد ملے گی۔ ڈی ایٹ ملکوں میں مالی شمولیت کی جدت پسندانہ پالیسیوں کے فروغ کی غرض سے باہمی تعاون کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ خطرے کے انتظام کے لیے متحرک فریم ورک اور جدت پسندانہ مالی ڈھانچہ تشکیل دینے سے بینکاری صنعت کو مائیکرو، اسمال اور میڈیم کاروباری اداروں کے وسیع امکانات استعمال کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔
اسٹیٹ بینک کے ڈپٹی گورنر نے کہا کہ مالی شمولیت کے ضمن میں پالیسی اور تشکیلی اقدامات کے حوالے سے اپنے اپنے تجربات بیان کرنے کے ساتھ ساتھ ہمیں برانچ لیس بینکاری جیسی جدت پسندانہ مالی خدمات پر اپنی پیشرفت سے بھی دوسروں کو آگاہ کرنا چاہیے۔ عبدالمقتدر نے کہا کہ اسلامی مالی نظام کی حقیقی روح ہی وہ راستہ ہے جسے اپنانے سے عالمی مالی نظام کی بحالی اور اسٹیک ہولڈرز کے کھوئے ہوئے اعتماد کو بحال کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔ انہوں نے توقع ظاہر کی کہ معقول نمو کے ساتھ اسلامی بینکاری انڈسٹری کسی بھی ملک میں اقتصادی نمو کے لیے اپنا اہم کردار ادا کرے گی، عالمی سطح پر اسلامی مالی انڈسٹری 1.1 ٹریلین ڈالر کی مالک ہے اور حالیہ اطلاعات ہیں کہ عالمی اسلامی مالی مارکیٹ میں نمو ہوتی رہے گی جو 2011 اور 2015 کے درمیان سالانہ 20 فیصد کی شرح سے بڑھ سکتی ہے چنانچہ یہ دگنی ہوکر 2 ٹریلین ڈالر تک پہنچ سکتی ہے۔
انہوں نے ڈی ایٹ ممالک کے مرکزی بینکوں کے درمیان معلومات کے تبادلے اور ایک دوسرے سے سیکھنے کے عمل کے فروغ کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ڈی ایٹ ممالک کی ایک ارب سے زائد آبادی کے باعث اس میں دنیا کی ایک مضبوط اقتصادی قوت بننے کے امکانات موجود ہیں۔انہوں نے کہا کہ پائیدار ترقی کو یقینی بنانے کے لیے مستحکم بینکاری نظام کو فروغ دینا اہم ہے تاہم عالمی مالیاتی اور یورو بحرانوں سے واضح ہوتا ہے کہ عالمی دھچکوں سے محفوظ رکھنے کے لیے مرکزی بینکوں خصوصاً ابھرتی ہوئی معیشتوں اور ترقی پذیر ملکوں کے مرکزی بینکوں کے درمیان تعاون اور شراکت کو متنوع بنانا ضروری ہے جبکہ ایک دوسرے کے تجربات سے استفادہ کرنے سے انہیں اپنے معاشی مقاصد کو حاصل کرنے میں مدد ملے گی۔
اسٹیٹ بینک کے ڈپٹی گورنر نے کہا کہ 2008 میں ترقی یافتہ ملکوں میں مالی تباہی نے ایک عالمی بحران کو جنم دیا جس کے بعد عظیم کساد بازاری کا دور شروع ہو گی، اسی لیے عالمی بحران کے اثرات کو کم کرنے کے لیے دنیا کے مرکزی بینکوں نے روایتی اور غیر روایتی پالیسی ٹولز کو استعمال کیا ہے۔
ورکشاپ میں ماہرین نے ڈیٹ ممالک کو درپیش اقتصادی چیلنجز و ایشوزاور ہر رکن ملک کی اقتصادی رکاوٹوں پر غور کیا، انھوں نے ادائیگیوں کے توازن سمیت بیرونی خطرات،بیرونی سرمائے پر انحصار اور ڈی ایٹ ممالک کے عالمی معیشت کے لیے ایکسپوژر پر بھی تبادلہ خیال کیا جبکہ جدیدمالیاتی شمولیت کے حوالے سے توجہ سے محروم شعبوں بشمول مائیکروفنانس، ایس ایم ایز، ہائوسنگ، انفرااسٹرکچر، دیہی وزرعی فنانسنگ پر روشنی ڈالی گئی، اس کے علاوہ اسلامی مالیات کو فروغ دینے کیلیے بھی خاص طور پر سفارشات مرتب کی گئیں ۔ واضح رہے کہ اجلاس کے اختتام پر بدھ کو ڈی ایٹ سینٹرل بینک مشترکہ اعلامیہ جاری کریں گے جس سے مستقبل مں قریبی تعاون کو فروغ ملے گا۔
وہ گزشتہ روز اسلام آباد کے مقامی ہوٹل میں ''سینٹرل بینکس مانیٹری اینڈ فنانشل کوآپریشن فار پروموٹنگ انکلوسو اکنامک گروتھ ان ڈی ایٹ کنٹریز'' کے موضوع پر ورکشاپ سے افتتاحی خطاب کر رہے تھے۔ یہ ''سینٹرل بینکس مانیٹری اینڈ فنانشل کوآپریشن فار پروموٹنگ انکلوسو اکنامک گروتھ ان ڈی ایٹ کنٹریز'' کے حوالے سے دوسری میٹنگ ہے جس میں ڈی ایٹ ممالک کے مرکزی بینک کے سربراہان شرکت کررہے ہیں، پہلی میٹنگ ابوجا میں ہوئی تھی، دوسری میٹنگ کا مقصد عالمی معیشت میں رکن ملکوں کی پوزیشن بہتربنانا، تنوع و نئے تجارتی مواقع کی تلاش، عالمی سطح پرپالیسی سازی میں تعاون کا فروغ اور معیار زندگی بہتربنانا ہے۔
ڈپٹی گورنر ایس بی پی نے اپنے افتتاحی کلمات میں کہا کہ ہمیں ڈی ایٹ ممالک کے اندر نئے معاشی نظام میں نمو کو پائیدار بنانے اور تجارت اور سرمائے کے بہاؤ کے ذریعے تعاون میں اضافہ کرنے پر غوروخوض کرنا ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ عالمی معیشت کی سست بحالی کے باوجود ڈی ایٹ کی معیشتوں میں نمایاں نمو دیکھی گئی ہے، ڈی ایٹ کی معیشتیں تیز رفتاری سے نئے مرحلے میں داخل ہو رہی ہیں اس لیے مرکزی بینکوں کے لیے یہ ضروری ہے کہ درست مانیٹری پالیسیوں اور معاشی انتظام کے ذریعے ایک دوسرے کے ساتھ زیادہ قریبی اقتصادی اور مالی اتحاد قائم کرنے کیلیے کام کریں تاہم خطے کا معاشی اور مالی اتحاد ایکسچینج ریٹ میں لچک، سرمائے کے آزادانہ بہاؤ اور شفاف قواعد و ضوابط پر مبنی ہونا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ معاشی نمو کی پائیداری کو جدت پسندی اور ٹیکنالوجی میں سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کی ترغیبات اور نئے کاروبار کے فروغ کے ذریعے یقینی بنایا جاسکتا ہے۔ ڈپٹی گورنر اسٹیٹ بینک کا کہنا تھا کہ تعاون میں اضافے اور قریبی معاشی اتحاد سے ڈی ایٹ ممالک کو عالمی چیلنجوں کا مؤثر طور پر مقابلہ کرنے میں مدد ملے گی۔ ڈی ایٹ ملکوں میں مالی شمولیت کی جدت پسندانہ پالیسیوں کے فروغ کی غرض سے باہمی تعاون کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ خطرے کے انتظام کے لیے متحرک فریم ورک اور جدت پسندانہ مالی ڈھانچہ تشکیل دینے سے بینکاری صنعت کو مائیکرو، اسمال اور میڈیم کاروباری اداروں کے وسیع امکانات استعمال کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔
اسٹیٹ بینک کے ڈپٹی گورنر نے کہا کہ مالی شمولیت کے ضمن میں پالیسی اور تشکیلی اقدامات کے حوالے سے اپنے اپنے تجربات بیان کرنے کے ساتھ ساتھ ہمیں برانچ لیس بینکاری جیسی جدت پسندانہ مالی خدمات پر اپنی پیشرفت سے بھی دوسروں کو آگاہ کرنا چاہیے۔ عبدالمقتدر نے کہا کہ اسلامی مالی نظام کی حقیقی روح ہی وہ راستہ ہے جسے اپنانے سے عالمی مالی نظام کی بحالی اور اسٹیک ہولڈرز کے کھوئے ہوئے اعتماد کو بحال کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔ انہوں نے توقع ظاہر کی کہ معقول نمو کے ساتھ اسلامی بینکاری انڈسٹری کسی بھی ملک میں اقتصادی نمو کے لیے اپنا اہم کردار ادا کرے گی، عالمی سطح پر اسلامی مالی انڈسٹری 1.1 ٹریلین ڈالر کی مالک ہے اور حالیہ اطلاعات ہیں کہ عالمی اسلامی مالی مارکیٹ میں نمو ہوتی رہے گی جو 2011 اور 2015 کے درمیان سالانہ 20 فیصد کی شرح سے بڑھ سکتی ہے چنانچہ یہ دگنی ہوکر 2 ٹریلین ڈالر تک پہنچ سکتی ہے۔
انہوں نے ڈی ایٹ ممالک کے مرکزی بینکوں کے درمیان معلومات کے تبادلے اور ایک دوسرے سے سیکھنے کے عمل کے فروغ کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ڈی ایٹ ممالک کی ایک ارب سے زائد آبادی کے باعث اس میں دنیا کی ایک مضبوط اقتصادی قوت بننے کے امکانات موجود ہیں۔انہوں نے کہا کہ پائیدار ترقی کو یقینی بنانے کے لیے مستحکم بینکاری نظام کو فروغ دینا اہم ہے تاہم عالمی مالیاتی اور یورو بحرانوں سے واضح ہوتا ہے کہ عالمی دھچکوں سے محفوظ رکھنے کے لیے مرکزی بینکوں خصوصاً ابھرتی ہوئی معیشتوں اور ترقی پذیر ملکوں کے مرکزی بینکوں کے درمیان تعاون اور شراکت کو متنوع بنانا ضروری ہے جبکہ ایک دوسرے کے تجربات سے استفادہ کرنے سے انہیں اپنے معاشی مقاصد کو حاصل کرنے میں مدد ملے گی۔
اسٹیٹ بینک کے ڈپٹی گورنر نے کہا کہ 2008 میں ترقی یافتہ ملکوں میں مالی تباہی نے ایک عالمی بحران کو جنم دیا جس کے بعد عظیم کساد بازاری کا دور شروع ہو گی، اسی لیے عالمی بحران کے اثرات کو کم کرنے کے لیے دنیا کے مرکزی بینکوں نے روایتی اور غیر روایتی پالیسی ٹولز کو استعمال کیا ہے۔
ورکشاپ میں ماہرین نے ڈیٹ ممالک کو درپیش اقتصادی چیلنجز و ایشوزاور ہر رکن ملک کی اقتصادی رکاوٹوں پر غور کیا، انھوں نے ادائیگیوں کے توازن سمیت بیرونی خطرات،بیرونی سرمائے پر انحصار اور ڈی ایٹ ممالک کے عالمی معیشت کے لیے ایکسپوژر پر بھی تبادلہ خیال کیا جبکہ جدیدمالیاتی شمولیت کے حوالے سے توجہ سے محروم شعبوں بشمول مائیکروفنانس، ایس ایم ایز، ہائوسنگ، انفرااسٹرکچر، دیہی وزرعی فنانسنگ پر روشنی ڈالی گئی، اس کے علاوہ اسلامی مالیات کو فروغ دینے کیلیے بھی خاص طور پر سفارشات مرتب کی گئیں ۔ واضح رہے کہ اجلاس کے اختتام پر بدھ کو ڈی ایٹ سینٹرل بینک مشترکہ اعلامیہ جاری کریں گے جس سے مستقبل مں قریبی تعاون کو فروغ ملے گا۔