شور شہرت آف شور
معلوم ہوتا ہے مسلسل ناکامیوں کے باوجود حکمرانوں نے تاریخ سے کوئی سبق نہیں سیکھا
کچھ عرصہ قبل چیف جسٹس سپریم کورٹ جناب انور ظہیر جمالی نے ملک کے نظام عدل کا جائزہ لیتے ہوئے مقدمات کے فیصلوں میں غیر ضروری تاخیر پر رسمی تشویش ہی کا اظہار نہ کیا بلکہ مقدمات کے تمام متعلقین کو اس کا ذمے دار ٹھہراتے ہوئے حکومت کو کئی تجاویز بھی دیں جن میں متبادل نظام کے قیام پر بھی توجہ دلائی۔ برصغیر کے انگریز حکمرانوں نے پنچایتی نظام سے مثبت نتائج حاصل کیے تھے۔
تھانہ کچہری معاشرے کو لاقانونیت سے بچانے کے لیے ایک اہم اسٹیٹ آرگن ہیں جن کی ضرورت اور اہمیت سے کسی بھی ملک اور معاشرے میں منفی رائے نہیں ہو گی لیکن اب ہمارا مشاہدہ بتاتا ہے کہ رشوت اور سفارشی کلچر نے ان پر لوگوں کا اعتماد ریزہ ریزہ کر دیا ہے۔ تب چیف جسٹس صاحب نے حکومت سے تقاضا کیا تھا کہ ''عدالتوں پر مقدمات کا بوجھ کم کرنے کے لیے انصاف کے متبادل ذرایع کا قیام ازحد ضروری ہو گیا ہے۔
معلوم ہوتا ہے مسلسل ناکامیوں کے باوجود حکمرانوں نے تاریخ سے کوئی سبق نہیں سیکھا۔'' معلوم نہیں حکومت کے متعدد شعبوں میں چیف جسٹس کے پبلک ریمارکس پر نوٹس لے کر ان کو پالیسی سازی میں ڈھالنے کا کوئی میکنزم موجود ہے یا اسے بھی کسی اپوزیشن لیڈر کی بڑ سمجھ کر ہوا میں اڑا دینے کی روایت دہرانے جیسا ردعمل ہو گا۔
گزشتہ روز چیف صاحب پھر آزاد کشمیر جوڈیشل کانفرنس کی تقریب میں بحیثیت مہمان خصوصی خطاب کر رہے تھے۔ ان کے فرمودات اتنے مدلل اور پاکستان کے موجودہ حالات کے پیش نظر اتنے مبنی برحقیقت تھے کہ کبڈی کبڈی کھیلنے میں مصروف حکمرانوں کے چاپلوس جو ہر وقت انھی کی ہاں میں ہاں ملانا اور نوکریاں پکی کرنا ملکی خدمت اور فرض منصبی سمجھتے ہیں کہ چیف صاحب کے ریمارکس پر غور و فکر کر کے عملدرآمد کا سوچ رہے ہوں گے۔
چیف جسٹس نے تسلیم کیا کہ علیحدہ کی کارکردگی کا بھی وہ معیار نہیں جو ہونا چاہیے لیکن عدالتوں میں زیر التوا ساٹھ فیصد مقدمات سرکاری اداروں کی نااہلی، بے حسی اور بری گورننس کا نتیجہ ہیں۔ جب کہ بیس فیصد مقدمات لوگوں کی انا کا مسئلہ، مقدمہ بازی کا شوق اور بدنیتی پر مبنی ہوتے ہیں۔ کشمیر کانفرنس میں یہ بھی کہا گیا ملک میں جمہوریت کی بساط لپیٹنے، نظریۂ پاکستان، قائد و اقبال کے افکار کے خلاف باتیں ہوتی رہتی ہیں، بنیاد پرستی اور انتہا پسندی کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔ فرقہ واریت کی آگ کو بھڑکایا جاتا ہے اور جو افراد و عناصر اس ایجنڈے پر کام کر رہے ہوتے ہیں ہر قسم کی گرفت سے آزاد پھرتے پائے جاتے ہیں۔ کیا یہ سمجھا جائے کہ ایسے عناصر کو اسٹیٹ کی سرپرستی حاصل ہے۔
یا اسٹیٹ ڈرپوک اور کمزور ہے۔ وجہ کچھ بھی ہو بات عدلیہ کی اعلیٰ ہستیوں کی فرمودات سے شروع ہوئی ہے تو انھی کے گرجدار الفاظ ہیں کہ ''کرپشن اور نااہلی ملک کو کھا رہے ہیں'' اور اگر واقفان حال کی محفل میں بیٹھ کر ان کی باتیں سنیں تو وہ کرپٹ مافیا کے نام ہی نہیں زر اور زمین کی تفصیل بتا کر دعوے سے گنوا دیں گے کہ کس نے کس طرح اور کتنی لوٹ مچا کر ملکی دولت ہضم کی ہے اور پھر انھی کی زبانی یہ دعویٰ بھی سنا جائے گا کہ حرام مال کبھی ہضم نہیں ہو سکتا کیونکہ یہ قانون فطرت کے خلاف ہے۔
اعلیٰ عدلیہ کے محترم باخبر اہل علم و دانش حضرات کچھ عرصہ سے بڑے واضح الفاظ میں ملک کے صاحبان اقتدار کو بغیر نام لیے اور ہم سب جانتے ہیں کہ وہ کن سے مخاطب ہیں، کھلے الفاظ میں متنبہ کرتے چلے آ رہے ہیں کہ ''بس بھئی بس بہت ہو گئی کرپشن اور نااہلی کو لگام دو ورنہ ہم موجود اور خبردار ہیں جب کہ خدا کی بے آواز لاٹھی تم پر گرنے کو تیار ہے''۔
حکومتی کارکردگی کے مختلف کمزور پہلوؤں پر اتنا کھل کر اس تواتر سے عدلیہ کی طرف سے اس سے پہلے تنقیدی ریمارکس دیکھنے میں نہیں آئے جن معاملات پر عدلیہ نے اظہار رائے کیا اور جن موضوعات پر سوال اٹھائے پہلی ہی سے صاحب الرائے دانشوروں کی محفلوں میں زیر بحث تھے۔ اسی دوران ملک میں دہشت گردی کی حد درجہ دگرگوں صورت حال کنٹرول کرنے کے لیے راحیل شریف نے بحیثیت آرمی چیف ذمے داری اٹھا لی اور اس پر کافی حد تک قابو پا کر ملک میں ایک انتہائی ہر دلعزیز اور قابل احترام فوجی جرنیل کے طور پر لوہا منوا لیا۔ جنرل صاحب نے بلاشبہ ملک کے ہر شہری کے دل میں گویا گھر کر لیا ہے۔
ایسی محبت اور احترام کا مستحق شاید کوئی پاکستانی فوجی جرنیل اس سے پہلے نہیں دیکھا۔ راحیل شریف بھی کام سے کام رکھتے ہیں یعنی نہ ستائش کی تمنا نہ صلے کی پروا۔ اسی لیے تو انھوں جائز ملنے والا سرکاری پلاٹ تک Donate کر دیا۔ وہ ان دنوں غیر ملکی سفیروں سے ملاقاتیں کر کے ملک کی فارن پالیسی کی وضاحت کرتے بھی دیکھے جا رہے ہیں۔ اخبارات میں ان کی امریکی، جمہوریہ چیک، چین، افغان مندوبین کے ساتھ تصاویر پہلے صفحے پر دیکھ کر ان کی فارن افیئرز میں مصروفیات کا پتہ چلتا ہے۔ ان کے غیر ملکی دورے بھی ظاہر کرتے ہیں کہ حکومت ان سے سول حکومت سے متعلق معاملات پر کتنا اعتماد کرتی ہے۔ حکومت کی پڑوسی ممالک کے ساتھ ناکام سفارت کاری میں شاید جنرل راحیل ہی خوشگوار رابطے کا ذریعہ بنیں۔
آرمی چیف اپنے افسروں اور جوانوں کو متحرک رکھنے اور ان کی قربانیوں کو خراج عقیدت پیش کرنے میں خطرناک محاذوں اور دور دراز علاقوں میں جانے کے لیے موسم اور وقت کی پرواہ نہیں کرتے جس کی وجہ سے فوجی جوان جوش و جذبے سے سرشار رہتے ہیں ان کا کہنا ہے کہ پاک فوج دنیا کی بہادر اور بہترین فورس ہے۔ لوگ انھیں صبح اسٹاف کالج میں اور شام کو اگلے مورچوں پر دیکھ کر خود بھی چوکس اور متحرک رہتے ہیں۔ سب سے اہم بات یہ کہ آرمی چیف راحیل شریف ایک غیر متنازعہ شخصیت ہیں۔
چیف جسٹس صاحب کے ملفوظات اور آرمی چیف کی ملکی و غیر ملکی معاملات میں متحرک خدمات کا ذکر تو ہوا کہ ہر پاکستان کو ان پر فخر کرنے کی وجوہات ہیں۔ اب اس قابل تقلید خبر کا ذکر بھی ضروری ہو گیا جو دو دن قبل نظر سے گزری۔ روس کے کھرب پتی بزنس مین میخائل فرومین نے جس کی دولت کا اندازہ 13.3 بلین امریکی ڈالر ہے اپنی تمام دولت خیرات کرنے کا اعلان کیا ہے۔ اس نے اپنی وصیت میں اپنی اولاد کے نام بھی کچھ نہیں چھوڑا۔ ان دنوں پاکستان میں پانامہ لیک اور آف شور کمپنیوں والے دولت مندوں کا کھوج لگانے کا بڑا چرچا ہے۔ کیا انھیں بل گیٹس شہزادہ ولید بن طلال اور مارک زکربرگ جیسے لوگوں کی وجہ شہرت معلوم ہے۔
تھانہ کچہری معاشرے کو لاقانونیت سے بچانے کے لیے ایک اہم اسٹیٹ آرگن ہیں جن کی ضرورت اور اہمیت سے کسی بھی ملک اور معاشرے میں منفی رائے نہیں ہو گی لیکن اب ہمارا مشاہدہ بتاتا ہے کہ رشوت اور سفارشی کلچر نے ان پر لوگوں کا اعتماد ریزہ ریزہ کر دیا ہے۔ تب چیف جسٹس صاحب نے حکومت سے تقاضا کیا تھا کہ ''عدالتوں پر مقدمات کا بوجھ کم کرنے کے لیے انصاف کے متبادل ذرایع کا قیام ازحد ضروری ہو گیا ہے۔
معلوم ہوتا ہے مسلسل ناکامیوں کے باوجود حکمرانوں نے تاریخ سے کوئی سبق نہیں سیکھا۔'' معلوم نہیں حکومت کے متعدد شعبوں میں چیف جسٹس کے پبلک ریمارکس پر نوٹس لے کر ان کو پالیسی سازی میں ڈھالنے کا کوئی میکنزم موجود ہے یا اسے بھی کسی اپوزیشن لیڈر کی بڑ سمجھ کر ہوا میں اڑا دینے کی روایت دہرانے جیسا ردعمل ہو گا۔
گزشتہ روز چیف صاحب پھر آزاد کشمیر جوڈیشل کانفرنس کی تقریب میں بحیثیت مہمان خصوصی خطاب کر رہے تھے۔ ان کے فرمودات اتنے مدلل اور پاکستان کے موجودہ حالات کے پیش نظر اتنے مبنی برحقیقت تھے کہ کبڈی کبڈی کھیلنے میں مصروف حکمرانوں کے چاپلوس جو ہر وقت انھی کی ہاں میں ہاں ملانا اور نوکریاں پکی کرنا ملکی خدمت اور فرض منصبی سمجھتے ہیں کہ چیف صاحب کے ریمارکس پر غور و فکر کر کے عملدرآمد کا سوچ رہے ہوں گے۔
چیف جسٹس نے تسلیم کیا کہ علیحدہ کی کارکردگی کا بھی وہ معیار نہیں جو ہونا چاہیے لیکن عدالتوں میں زیر التوا ساٹھ فیصد مقدمات سرکاری اداروں کی نااہلی، بے حسی اور بری گورننس کا نتیجہ ہیں۔ جب کہ بیس فیصد مقدمات لوگوں کی انا کا مسئلہ، مقدمہ بازی کا شوق اور بدنیتی پر مبنی ہوتے ہیں۔ کشمیر کانفرنس میں یہ بھی کہا گیا ملک میں جمہوریت کی بساط لپیٹنے، نظریۂ پاکستان، قائد و اقبال کے افکار کے خلاف باتیں ہوتی رہتی ہیں، بنیاد پرستی اور انتہا پسندی کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔ فرقہ واریت کی آگ کو بھڑکایا جاتا ہے اور جو افراد و عناصر اس ایجنڈے پر کام کر رہے ہوتے ہیں ہر قسم کی گرفت سے آزاد پھرتے پائے جاتے ہیں۔ کیا یہ سمجھا جائے کہ ایسے عناصر کو اسٹیٹ کی سرپرستی حاصل ہے۔
یا اسٹیٹ ڈرپوک اور کمزور ہے۔ وجہ کچھ بھی ہو بات عدلیہ کی اعلیٰ ہستیوں کی فرمودات سے شروع ہوئی ہے تو انھی کے گرجدار الفاظ ہیں کہ ''کرپشن اور نااہلی ملک کو کھا رہے ہیں'' اور اگر واقفان حال کی محفل میں بیٹھ کر ان کی باتیں سنیں تو وہ کرپٹ مافیا کے نام ہی نہیں زر اور زمین کی تفصیل بتا کر دعوے سے گنوا دیں گے کہ کس نے کس طرح اور کتنی لوٹ مچا کر ملکی دولت ہضم کی ہے اور پھر انھی کی زبانی یہ دعویٰ بھی سنا جائے گا کہ حرام مال کبھی ہضم نہیں ہو سکتا کیونکہ یہ قانون فطرت کے خلاف ہے۔
اعلیٰ عدلیہ کے محترم باخبر اہل علم و دانش حضرات کچھ عرصہ سے بڑے واضح الفاظ میں ملک کے صاحبان اقتدار کو بغیر نام لیے اور ہم سب جانتے ہیں کہ وہ کن سے مخاطب ہیں، کھلے الفاظ میں متنبہ کرتے چلے آ رہے ہیں کہ ''بس بھئی بس بہت ہو گئی کرپشن اور نااہلی کو لگام دو ورنہ ہم موجود اور خبردار ہیں جب کہ خدا کی بے آواز لاٹھی تم پر گرنے کو تیار ہے''۔
حکومتی کارکردگی کے مختلف کمزور پہلوؤں پر اتنا کھل کر اس تواتر سے عدلیہ کی طرف سے اس سے پہلے تنقیدی ریمارکس دیکھنے میں نہیں آئے جن معاملات پر عدلیہ نے اظہار رائے کیا اور جن موضوعات پر سوال اٹھائے پہلی ہی سے صاحب الرائے دانشوروں کی محفلوں میں زیر بحث تھے۔ اسی دوران ملک میں دہشت گردی کی حد درجہ دگرگوں صورت حال کنٹرول کرنے کے لیے راحیل شریف نے بحیثیت آرمی چیف ذمے داری اٹھا لی اور اس پر کافی حد تک قابو پا کر ملک میں ایک انتہائی ہر دلعزیز اور قابل احترام فوجی جرنیل کے طور پر لوہا منوا لیا۔ جنرل صاحب نے بلاشبہ ملک کے ہر شہری کے دل میں گویا گھر کر لیا ہے۔
ایسی محبت اور احترام کا مستحق شاید کوئی پاکستانی فوجی جرنیل اس سے پہلے نہیں دیکھا۔ راحیل شریف بھی کام سے کام رکھتے ہیں یعنی نہ ستائش کی تمنا نہ صلے کی پروا۔ اسی لیے تو انھوں جائز ملنے والا سرکاری پلاٹ تک Donate کر دیا۔ وہ ان دنوں غیر ملکی سفیروں سے ملاقاتیں کر کے ملک کی فارن پالیسی کی وضاحت کرتے بھی دیکھے جا رہے ہیں۔ اخبارات میں ان کی امریکی، جمہوریہ چیک، چین، افغان مندوبین کے ساتھ تصاویر پہلے صفحے پر دیکھ کر ان کی فارن افیئرز میں مصروفیات کا پتہ چلتا ہے۔ ان کے غیر ملکی دورے بھی ظاہر کرتے ہیں کہ حکومت ان سے سول حکومت سے متعلق معاملات پر کتنا اعتماد کرتی ہے۔ حکومت کی پڑوسی ممالک کے ساتھ ناکام سفارت کاری میں شاید جنرل راحیل ہی خوشگوار رابطے کا ذریعہ بنیں۔
آرمی چیف اپنے افسروں اور جوانوں کو متحرک رکھنے اور ان کی قربانیوں کو خراج عقیدت پیش کرنے میں خطرناک محاذوں اور دور دراز علاقوں میں جانے کے لیے موسم اور وقت کی پرواہ نہیں کرتے جس کی وجہ سے فوجی جوان جوش و جذبے سے سرشار رہتے ہیں ان کا کہنا ہے کہ پاک فوج دنیا کی بہادر اور بہترین فورس ہے۔ لوگ انھیں صبح اسٹاف کالج میں اور شام کو اگلے مورچوں پر دیکھ کر خود بھی چوکس اور متحرک رہتے ہیں۔ سب سے اہم بات یہ کہ آرمی چیف راحیل شریف ایک غیر متنازعہ شخصیت ہیں۔
چیف جسٹس صاحب کے ملفوظات اور آرمی چیف کی ملکی و غیر ملکی معاملات میں متحرک خدمات کا ذکر تو ہوا کہ ہر پاکستان کو ان پر فخر کرنے کی وجوہات ہیں۔ اب اس قابل تقلید خبر کا ذکر بھی ضروری ہو گیا جو دو دن قبل نظر سے گزری۔ روس کے کھرب پتی بزنس مین میخائل فرومین نے جس کی دولت کا اندازہ 13.3 بلین امریکی ڈالر ہے اپنی تمام دولت خیرات کرنے کا اعلان کیا ہے۔ اس نے اپنی وصیت میں اپنی اولاد کے نام بھی کچھ نہیں چھوڑا۔ ان دنوں پاکستان میں پانامہ لیک اور آف شور کمپنیوں والے دولت مندوں کا کھوج لگانے کا بڑا چرچا ہے۔ کیا انھیں بل گیٹس شہزادہ ولید بن طلال اور مارک زکربرگ جیسے لوگوں کی وجہ شہرت معلوم ہے۔