ٹیکس کھیل اورتعلیم

حالانکہ ایک طویل عرصے سے نہ تو یہاں کوئی بین الاقوامی کرکٹ میچ منعقد ہوا ہے

گذشتہ ہفتے دو مختصر لیکن انتہائی اہم خبریں نظروں سے گذریں۔پہلی یہ کہ خیبر پختونخوا کے محکمہ ایکسائز و ٹیکسیشن نے ، پشاورمیں قائم ارباب نیازکرکٹ سٹیدیم کی انتظامیہ یعنی صوبائی محکمہ کھیل و ثقافت کو ایک کروڑ بیس لاکھ روپے ٹیکس بقایا جات کی ادائیگی کا نوٹس دیا ہے۔پورے صوبے میں معیار ، گنجائش اور دستیاب سہولیات کے حوالے سے یہ واحد بین الاقوامی کرکٹ اسٹیڈیم ہے اور اب بھی اس کے ہم پلہ کوئی سہولت دستیاب نہیں۔اس اسٹیڈیم کو 1984میں بین الاقوامی معیار کی حامل کرکٹ کی سہولت قرار دیا گیا تھااور یہی بات اس ٹیکس کے لاگو کرنے کی بنیادی وجہ بھی بنی۔

حالانکہ ایک طویل عرصے سے نہ تو یہاں کوئی بین الاقوامی کرکٹ میچ منعقد ہوا ہے اورنہ ہی اس کی حالت زار دیکھ کر یہ اندازہ کرنا مشکل ہے کہ حالیہ برسوں کے دوران اس کی دیکھ بھال اور تزئین و آرائش پر کو ئی توجہ نہیں دی گئی۔ بس شائقین کے لیے سیمنٹ و کنکریٹ سے بنی سیڑھی نما نشستیں ہیں، کھلاڑیوں، پریس اور چیدہ چیدہ شخصیات کے لیے مختصر گنجائش کی حامل چند ایک گیلریاں ضرور موجود ہیں۔

عمارت کی مرمت و تزئین و آرائش کے لیے درکار فنڈز کا اہتمام کرنا بھی شاید متعلقہ محکمہ کے لیے کافی جان جوکھوں کا کام ہوگا، چہ جائیکہ، ایک کروڑ بیس لاکھ روپے مالیت کے ٹیکس کی ادائیگی کا بندوبست کرنا وہ تو لامحالہ بڑی دور کی کوڑی لانے کے مترادف ہو گا، یہ الگ بات کہ ہر سال کروڑوں روپے کے فنڈ اس اسٹیڈیم کی تزئین و آرائش کے لیے رکھے جاتے ہیں جو شاید جن بھوت لے اڑتے ہیں۔دوسری خبر صوبائی دارالحکومت میں قائم ایک نجی اعلی تعلیمی ادارے کو بھیجے گئے ٹیکس بقایاجات کی ادائیگی کی مد میں 83لاکھ روپے جمع کرنے کے نوٹس کے حوالے سے تھی۔ بلاشبہ ملک کی تعمیر و ترقی کے حوالے سے ٹیکسوں کی اہمیت سے انکار کسی طور بھی نہیں کیا جا سکتا۔

املاک نجی ہوں یا سرکاری ، ریاست کے اثاثوں میں شمار ہوتی ہیں اور ان کی آمدن، ترقی کی رفتار اور اہمیت کی بنیاد پر ٹیکسوں اور ان کی شرحوں کا تعین کیا جاتا ہے جن کی ادائیگی ریاست کے وسائل میں اضافے اور قوت کا وسیلہ بنتی ہے۔ارباب نیاز کرکٹ اسٹیڈیم کے حوالے سے یہ امر تو خوش آیند قرار دیا جا سکتا ہے کہ متعلقہ محکمے کو 32برس بعد ہی سہی آخر کار ٹیکس وصولی کا خیال تو آ ہی گیا۔ درحقیقت ریاستی اداروں کا خود اپنے معاملات میں سنجیدہ یا غیر سنجیدہ رویہ شہریوں کی سوچ و فکر پر گہرے اثرات مرتب کرتا ہے۔


پہلے تو کھیلوں اور تعلیمی سہولیات پر ٹیکسوں کا نفاذ ہی ذہنوں میں ارتعاش کا باعث بنتا ہے لیکن اگر ایسا کرنا ضروری ہی تھا تو اتنے عرصے تک التوا میں رکھنے سے بے اعتناعی و لاپرواہی کا پیغام ملتا ہے۔ یقینا دہشت گردی وانتہاپسندی کے واقعات کی بنا پر نہ صرف ارباب نیاز کرکٹ اسٹیڈیم بلکہ اس نوع کی دیگر سہولیات کو بھی ایک ہی طرح کے مسائل و مشکلات کا سامنا رہا اور اسی بنا پر ان کے ذمے واجب الادا ٹیکسوں کا حجم بھی بڑھتا چلا گیا۔ لیکن حکومت اگر ازخود فیصلہ کرتے ہو ئے سال بہ سال رعایت و فراخدلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک مقررہ مدت کے بعد صاف سلیٹ سے ، نئی ٹرم کا آغاز کرے تو اس سے ریاست، اداروں اور افراد کے درمیان تعلق مستحکم بنیادوں پر استوار کرنے کے امکانات پیدا ہوتے ہیں۔

افراد کے ذہنوں میں ریاست کی عملداری کا احساس اجاگر ہوتا ہے اور ساتھ ہی احساس ذمے داری کو بھی تقویت ملتی ہے۔ یہی افراد اور ریاست کے مابین تعلق کو مضبوط بنانے کا بہتر انداز بھی ہو سکتا ہے۔آج کے دور میں جب کوئی شہری اے۔ٹی۔ایم مشین یا چیک کے ذریعے اپنے بینک اکاؤنٹ سے رقم نکالتا ہے، تو ساتھ ہی اس کے موبائل فون پر جمع تفریق کی اطلاع اورتفصیل بھی آ جاتی ہے ۔یقیناً ٹیکس نظام کے حوالے سے بھی اس نوع کی اصلاحات وقت کا تقاضا ہیں۔ اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ سماجی و معاشی اعتبار سے ہمارا وطن ہمیشہ سے ہی ناپائیدار صورتحال سے دوچار رہا ہے اور یہی صورتحال عام شہریوں کی زندگیوں میں بھی دیکھی جا سکتی ہے۔

آئے روز ٹیکسوں کی شرحوں میں رد و بدل بھی اچھے پیغام و احساس کا حامل نہیں ہوتا۔ ٹیکس گوشوارے جمع کرنے کا طریقہ کار گو کہ کافی حد تک سہل بنا دیا گیا ہے لیکن پھر بھی ریاست و عوام کے درمیان باہمی رشتے اس حد تک شاید با اعتماد نہیں کہ وہ آگے بڑھ کر ایک دوسرے کا ساتھ دے سکیں۔ بہر طور پراپرٹی وغیرہ کے حوالے سے ٹیکسوںکی شرح کا تعین کرنا گو بڑی گہری سوچ و فکر کا متقاضی پہلو ہے لیکن ان پر لاگو ٹیکس کے بارے میں اطلاعات کی ترسیل اور رابطے کے نظام کو خود کار طریقہ کار کے تابع کردینے سے بہتر نتائج اخذ ہو سکتے ہیں۔بہر طور بات تعلیمی اداروں اور ارباب نیاز اسٹیڈیم جیسی کھیلوں کی سہولیات پر ٹیکس لاگو کرنے کی ہو رہی تھی۔ ٹیکس کی ادائیگی کا بوجھ بہرطور عوام پر ہی پڑتا ہے اور احسن انداز تو یہی ہو سکتا ہے کہ اس نوع کے ٹیکسوں کی شرح انتہائی کم سے کم رکھی جائے۔

ضروری نہیں کہ کوئی فرد ، دو سے پانچ ہزار روپے ماہانہ اپنے کسی ایک بچے یا اس حساب سے زیادہ بچوںکی فیس ادا کر رہا ہو تو وہ اس کی استطاعت بھی رکھتا ہو۔ بہت سے لوگ ، گھر،زیور اور اس نوع کی دیگر جمع پونجی خرچ کر کے یا پھر اپنے اور اپنے بچوں کے پیٹ کاٹ کر اور کئی ایسے بھی ہیں جو اپنے اور اپنی آیندہ نسلوں کا مستقبل لا امتناعی قرضوں کے عوض گروی رکھ کر ،ان کے بہتر مستقبل کے لیے اس جدوجہد میں سرگرم ہوتے ہیں۔نہ صرف شہری بلکہ اب دور دراز علاقوں میں بھی اراضی کی عدم دستیابی کی بنا پر سرکاری کی بجائے نجی تعلیمی اداروں پر انحصار اس حد تک بڑھ چکا ہے کہ رفتہ رفتہ سرکاری تعلیمی اداروں کی شرح تناسب کم ہو جا ئے گی۔

اس نوع کی صورتحال اکثر ریاست کے شہریوں کے پدرانہ و مشفقانہ کردار کو بتدریج مفقود کرنے کا باعث بنتی ہے۔عالمی سطح پر اعلی تعلیمی اداروں کے مابین معیار کے حوالے سے ایک جنگ کی سی کیفیت ہے۔ مادی اعتبار سے مستحکم ممالک اور ادارے دنیا پر ایک ان دیکھی حکمرانی کر رہے ہیں۔ اس اعتبار سے بھی عالمی سطح پر مرتب ہونے والی فہرست میںہمارے تعلیمی اداروں کا وجود بھی محدب عدسے کے ذریعے ہی دیکھنے کو ملتا ہے۔ لہذا صحت مند معاشروںکو مشفقانہ خطوط پر پروان چڑھانے کے لیے تعلیم و تربیت اور کھیل و صحت کے اداروں کی ناگزیر اہمیت بھرپورتوجہ کی متقاضی ہے ۔
Load Next Story