بالکل گرمی کا توڑ انسان کے ’بس‘ میں ہے
سائنسی نقطہ نگاہ سےدیکھا جائے تو موسم میں تبدیلی قدرتی عمل ہے، لیکن کبھی کبھی قدرت سےچھیڑ چھاڑ انسان کومہنگی پڑجاتی ہے
گرمی سے بچنے کیلئے اسکول، کالج، جامعات کے طلبہ کو اپنے سیمسٹر یا سالانہ امتحانات کے بعد ایک درخت لگانے کی تلقین کی جائے اور سال بھر اس درخت کی دیکھ بھال پر اضافی نمبرز بھی دیے جائیں۔
KARACHI:
یہ سچ ہے کہ دنیا گرم سے گرم ترین ہوتی جا رہی ہے، خواہ وہ رویوں کی گرمی ہو یا سورج کی۔ بہرکیف ماحول میں گرمی بڑھتی جا رہی ہے، اور ایسا ہرگز نہیں ہے کہ صرف پاکستان میں ہی سورج اپنی گرمی دکھا رہا ہے بلکہ دنیا بھر میں گرمی کی شدت میں اضافہ ہورہا ہے۔ اس کی مثال حال ہی میں بھارت میں پڑنے والی گرمی سے لگایا جاسکتا ہے۔
اگر سائنسی نقطہ نگاہ سے دیکھا جائے تو موسم میں تبدیلی ایک قدرتی عمل ہے، لیکن کبھی کبھی قدرت سے چھیڑ چھاڑ انسان کو بہت مہنگی پڑجاتی ہے اور مہنگی بھی ہر صورت میں پڑتی ہے یعنی محاورتاً بھی اور جیب پر بھی، اور افسوس تو یہ ہے کہ اس شدید موسم میں سکون کا احساس بخشنے والے درخت ہم نے کمائی کے چکر میں یوں کاٹ ڈالے کہ اب سایہ تلاش کرنے پر بھی سایہ نہیں ملتا۔
رہی بات ''اوزون'' (دنیا کے گرد حفاظی جھلی) کی تو ہماری صنعتوں نے زہریلی گیس اور کیمیائی فضلے سے اس میں اتنے چھید کر ڈالے ہیں کہ اوزون کو بھی سمجھ نہیں آتا کہ سورج کی شعاؤں کو کیسے روکوں اور خود کو ختم ہونے سے کیسے بچاؤں؟ سوال یہاں یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ان سب باتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے ہم ترقی کا سفر روک دیں؟ صنعتیں نا لگائیں؟ فرنیچر، کاغذ، پینسل اور دیگر لکڑی سے بننے والی مصنوعات بنانا چھوڑ دیں؟ کاروبار ختم کرکے بیٹھ جائیں؟ کیا دنیا بھر میں یہی ہو رہا ہے؟ دنیا بھی تو پاکستان کی طرح ماحولیاتی تبدیلی کا شکار ہے، تو کیا پوری دنیا میں بھی ماحول دوستی کی خاطر اور اوزون تہہ کو بچانے کی خاطر صنعتوں کو بند کر دیا گیا ہے؟
یہ وہ سوالات ہیں جو تقریباً ہر انسان کے دماغ میں آتے ہیں اور آنے بھی چاہیئں کیونکہ انسان کی ایک خاص بات ہے کہ وہ کبھی بھی ہار نہیں مانتا۔ وہ ہر مشکل کا حل تلاش کر ہی لیتا ہے۔ اب ہم سورج کو تو پانی ڈال کر ٹھنڈا کر نہیں سکتے، نا ہی ملک پر کوئی اتنی بڑی چھتری تان سکتے ہیں کہ گرمی اور دھوپ سے بچ سکیں۔ اِس لیے اب ہمیں یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ دنیا کے دیگر ترقی یافتہ ممالک نے گرمی سے بچنے کے لئے کیا کیا طریقے اختیار کئے ہیں۔
سب سے پہلے ہم معلوم کرتے ہیں کہ گرمی کی شدت میں اضافے کی اصل میں کیا وجہ ہے؟ تو اس کی ایک بہت عام فہم وجہ قدرتی ماحول کو نقصان پہنچانا ہے۔ مثلاً
اِن عوامل کی وجہ سے نہ صرف زمینی بلکہ آبی مخلوق بھی پریشانی سے دوچار ہے۔ یہاں یہ بیان کرتا چلوں کہ ایک روز فشریز کے ڈائریکٹر سے ملاقات ہوئی تو ان سے منگروز کے درختوں کو بیدردی سے کاٹے جانے کی وجہ پوچھی تو جواب میں انہوں نے بہت افسوس کے ساتھ بتایا کہ کے پی ٹی، محکمہ جنگلات اور دیگر متعلقہ اداروں کی ناک کے نیچے مینگروز کے درختوں کی خطرناک تعداد میں اسمگلنگ ہو رہی ہے جس میں اداروں کے اعلیٰ افسران بھی ملوث ہیں۔ اب اس پر کیا کہا جائے کہ آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے۔
اب ہم دنیا بھر میں رائج چند کارآمد طریقے آپ کو بتاتے چلیں جس سے ہم ماحولیات کو تباہی سے بچانے کی کوشش کرسکتے ہیں۔ اس شدید گرمی میں دنیا بھر میں ایسے کیا اقدامات کئے جاتے ہیں جس سے اس گلوبل وارمنگ سے بچا جاسکے؟
یہ تو ایسے عوامل تھے جو حکموتی سر پرستی کے بغیر بھی ذاتی کاوشوں سے انجام دئیے جاسکتے ہیں لیکن اس کے ساتھ ایک کام حکومت کو سختی کے ساتھ ہنگامی بنیادوں پر کرنا ہوگا، وہ یہ کہ
کچھ لوگ یہ پڑھ کر میری ذہنی حالت پر شک کریں گے۔ تو ایسے افراد کے لئے بتاتا چلوں کہ اگر آپ گوگل پر Seed Pencil لکھیں تو آپ کو بڑی حیران کن معلومات ملے گی۔ ایک پینسل بنانے والی کمپنی نے اپنی پینسل میں ایک بیج ڈال دیا ہے، آپ پینسل کا استعمال کریں اور جب پینسل ختم ہونے لگے گی تو آپ اس پینسل کو زمین میں دبا دیں، کچھ عرصے بعد آپ کو اس جگہ ایک پودا دکھائی دے گا، جو کہ مکمل درخت بننے کے بعد سیکڑوں پینسل بنانے کا اہل ہوگا۔
یہ وہ طریقے ہیں جو دنیا میں موسم کی شدت کو کم کرنے اور ماحول کا توازن برقرار رکھنے کیلئے رائج ہیں۔ ساتھ ہی اسکول، کالج، جامعات کے طلبہ پر اس بات کو لازم کردیا جائے کہ وہ اپنے سیمسٹر یا سالانہ امتحانات کے بعد ایک درخت لازمی لگائیں اور سال بھر اس درخت کی دیکھ بھال کی جائے جس کے اضافی نمبر دئیے جائیں۔
ان تمام کاموں پرعمل کیلئے ایک خاص مدت درکار ہے۔ اس کے علاوہ اب کچھ ایسے اور فوری طریقے جن پر عمل کرکے ہیٹ اسٹروک سے ممکنہ طور پر محفوظ رہا جاسکے۔
[poll id="1128"]
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
یہ سچ ہے کہ دنیا گرم سے گرم ترین ہوتی جا رہی ہے، خواہ وہ رویوں کی گرمی ہو یا سورج کی۔ بہرکیف ماحول میں گرمی بڑھتی جا رہی ہے، اور ایسا ہرگز نہیں ہے کہ صرف پاکستان میں ہی سورج اپنی گرمی دکھا رہا ہے بلکہ دنیا بھر میں گرمی کی شدت میں اضافہ ہورہا ہے۔ اس کی مثال حال ہی میں بھارت میں پڑنے والی گرمی سے لگایا جاسکتا ہے۔
اگر سائنسی نقطہ نگاہ سے دیکھا جائے تو موسم میں تبدیلی ایک قدرتی عمل ہے، لیکن کبھی کبھی قدرت سے چھیڑ چھاڑ انسان کو بہت مہنگی پڑجاتی ہے اور مہنگی بھی ہر صورت میں پڑتی ہے یعنی محاورتاً بھی اور جیب پر بھی، اور افسوس تو یہ ہے کہ اس شدید موسم میں سکون کا احساس بخشنے والے درخت ہم نے کمائی کے چکر میں یوں کاٹ ڈالے کہ اب سایہ تلاش کرنے پر بھی سایہ نہیں ملتا۔
رہی بات ''اوزون'' (دنیا کے گرد حفاظی جھلی) کی تو ہماری صنعتوں نے زہریلی گیس اور کیمیائی فضلے سے اس میں اتنے چھید کر ڈالے ہیں کہ اوزون کو بھی سمجھ نہیں آتا کہ سورج کی شعاؤں کو کیسے روکوں اور خود کو ختم ہونے سے کیسے بچاؤں؟ سوال یہاں یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ان سب باتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے ہم ترقی کا سفر روک دیں؟ صنعتیں نا لگائیں؟ فرنیچر، کاغذ، پینسل اور دیگر لکڑی سے بننے والی مصنوعات بنانا چھوڑ دیں؟ کاروبار ختم کرکے بیٹھ جائیں؟ کیا دنیا بھر میں یہی ہو رہا ہے؟ دنیا بھی تو پاکستان کی طرح ماحولیاتی تبدیلی کا شکار ہے، تو کیا پوری دنیا میں بھی ماحول دوستی کی خاطر اور اوزون تہہ کو بچانے کی خاطر صنعتوں کو بند کر دیا گیا ہے؟
یہ وہ سوالات ہیں جو تقریباً ہر انسان کے دماغ میں آتے ہیں اور آنے بھی چاہیئں کیونکہ انسان کی ایک خاص بات ہے کہ وہ کبھی بھی ہار نہیں مانتا۔ وہ ہر مشکل کا حل تلاش کر ہی لیتا ہے۔ اب ہم سورج کو تو پانی ڈال کر ٹھنڈا کر نہیں سکتے، نا ہی ملک پر کوئی اتنی بڑی چھتری تان سکتے ہیں کہ گرمی اور دھوپ سے بچ سکیں۔ اِس لیے اب ہمیں یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ دنیا کے دیگر ترقی یافتہ ممالک نے گرمی سے بچنے کے لئے کیا کیا طریقے اختیار کئے ہیں۔
سب سے پہلے ہم معلوم کرتے ہیں کہ گرمی کی شدت میں اضافے کی اصل میں کیا وجہ ہے؟ تو اس کی ایک بہت عام فہم وجہ قدرتی ماحول کو نقصان پہنچانا ہے۔ مثلاً
- درختوں کی کٹائی
- معدنیات کا بے دریغ استعمال
- صنعتوں کی بہتات
- اور ماحول دشمن فضلے کا سمندر اور دریاؤں میں بہا دینا۔
اِن عوامل کی وجہ سے نہ صرف زمینی بلکہ آبی مخلوق بھی پریشانی سے دوچار ہے۔ یہاں یہ بیان کرتا چلوں کہ ایک روز فشریز کے ڈائریکٹر سے ملاقات ہوئی تو ان سے منگروز کے درختوں کو بیدردی سے کاٹے جانے کی وجہ پوچھی تو جواب میں انہوں نے بہت افسوس کے ساتھ بتایا کہ کے پی ٹی، محکمہ جنگلات اور دیگر متعلقہ اداروں کی ناک کے نیچے مینگروز کے درختوں کی خطرناک تعداد میں اسمگلنگ ہو رہی ہے جس میں اداروں کے اعلیٰ افسران بھی ملوث ہیں۔ اب اس پر کیا کہا جائے کہ آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے۔
اب ہم دنیا بھر میں رائج چند کارآمد طریقے آپ کو بتاتے چلیں جس سے ہم ماحولیات کو تباہی سے بچانے کی کوشش کرسکتے ہیں۔ اس شدید گرمی میں دنیا بھر میں ایسے کیا اقدامات کئے جاتے ہیں جس سے اس گلوبل وارمنگ سے بچا جاسکے؟
- یونان کا قدیم شہر بابل (Babylon) جس کی اگر تاریخ پڑھی جائے تو اس شہرکی بہت سی خصوصیات میں سے ہمیں ایک خاصیت بہت نمایاں نظر آتی ہے، اور وہ خاصیت اس شہر کا (Hanging Garden)۔ اگر ہم بھی اس فارمولے پر عمل کریں تو ہیٹ ویو سے بچنا مشکل نہیں ہوگا۔ اس میں ہم نے اپنی تمام عمارتوں کی بالکونی پر پودے لگانے ہونگے اور ان کی مکمل دیکھ بھال کرنا ہوگی۔ یہ تصور بہت قدیم ہے جس کی افادیت کا اندازہ ہم بابل شہر کی تاریخ پڑھ کر اس کی خوشحالی سے لگا سکتے ہیں۔
- اس کے علاوہ پینسلوینیا کے شہر فیلی ڈیلفیا کے لوگ گرمی کے موسم میں اپنے چھت پر(وہ حصہ جہاں دھوپ پڑتی ہے) سفید رنگ کرلیتے ہیں، جس کی وجہ سے پورے شہر کا درجہ حرارت موجودہ درجہ حرارت سے 4 سے 6 ڈگری کم ہوجاتا ہے اور گھروں میں مقیم لوگوں کے گھر کے درجہ حرارت میں 6 سے 8 ڈگری درجہ حرارت میں کمی واقع ہوتی ہے، جبکہ نیو یارک میں بھی حکومت نے Cool Roof کے نام سے اس پراجیکٹ پرعمل شروع کردیا ہے۔
یہ تو ایسے عوامل تھے جو حکموتی سر پرستی کے بغیر بھی ذاتی کاوشوں سے انجام دئیے جاسکتے ہیں لیکن اس کے ساتھ ایک کام حکومت کو سختی کے ساتھ ہنگامی بنیادوں پر کرنا ہوگا، وہ یہ کہ
- سب سے پہلے جنگلات کے کٹاؤ کو فوری طور پر روکنا ہوگا اور درخت کاٹنے کا ایک قانون وضع کرنا ہوگا جس کے تحت ایک محدود رقبے تک درخت کاٹنے کی اجازت دی جائے اور پھر ایک لمبے مخصوص عرصے تک اس جگہ درختوں کو کاٹنا ممنوع ہو
- ساتھ ہی حکومت لکڑی سے جڑے ہر کارخانے اور تاجر پر اس شرط کو لازم کردے کہ لکڑی کے ہر سامان کے ساتھ اس کیلئے استعمال ہونے والی لکڑی کی تفصیلات میں اس بات کو لازمی شامل کریں کہ اس لکڑی کے حصول کی خاطر کاٹے گئے درخت کو واپس کس طرح اگایا جائے؟ اور جو درخت بیج سے اگنے والے ہوں ان پر لازمی قرار دیا جائے کہ وہ لکڑی کے سامان کے ساتھ اس درخت کے بیج بھی ساتھ دیں اور اس کو اگانے کے طریقے سے آگاہی بھی۔
کچھ لوگ یہ پڑھ کر میری ذہنی حالت پر شک کریں گے۔ تو ایسے افراد کے لئے بتاتا چلوں کہ اگر آپ گوگل پر Seed Pencil لکھیں تو آپ کو بڑی حیران کن معلومات ملے گی۔ ایک پینسل بنانے والی کمپنی نے اپنی پینسل میں ایک بیج ڈال دیا ہے، آپ پینسل کا استعمال کریں اور جب پینسل ختم ہونے لگے گی تو آپ اس پینسل کو زمین میں دبا دیں، کچھ عرصے بعد آپ کو اس جگہ ایک پودا دکھائی دے گا، جو کہ مکمل درخت بننے کے بعد سیکڑوں پینسل بنانے کا اہل ہوگا۔
یہ وہ طریقے ہیں جو دنیا میں موسم کی شدت کو کم کرنے اور ماحول کا توازن برقرار رکھنے کیلئے رائج ہیں۔ ساتھ ہی اسکول، کالج، جامعات کے طلبہ پر اس بات کو لازم کردیا جائے کہ وہ اپنے سیمسٹر یا سالانہ امتحانات کے بعد ایک درخت لازمی لگائیں اور سال بھر اس درخت کی دیکھ بھال کی جائے جس کے اضافی نمبر دئیے جائیں۔
ان تمام کاموں پرعمل کیلئے ایک خاص مدت درکار ہے۔ اس کے علاوہ اب کچھ ایسے اور فوری طریقے جن پر عمل کرکے ہیٹ اسٹروک سے ممکنہ طور پر محفوظ رہا جاسکے۔
- گرم موسم میں آپ پانی کا استعمال زیادہ سے زیادہ کریں۔
- بلا ضرورت گھر سے باہر نہیں نکلیں۔
- ٹھنڈے مشروبات کا استعمال رکھیں۔
- سفر پر نکلنا ہو تو پانی اپنے ساتھ رکھیں۔
- اضافی پانی بھی ساتھ رکھیں اور راہ گیروں کو پانی پلائیں۔
- دن میں لازمی کم از کم ایک بار نہائیں۔
- ہیٹ اسٹروک کی صورت میں ڈاکٹر سے رجوع کریں۔
[poll id="1128"]
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔