جنتی قبریں پہلا حصہ

اکثر و بیشتر قبروں پر درخت موجود ہیں پرندے بھی چہچہا رہے ہیں تو پھر تم دونوں جنتی قبر ڈھونڈنے میں کیوں ناکام رہے؟


اگر لوگوں کو جنتی اور جہنمی قبروں کا علم ہوجاتا تو کیا لوگ اپنے جنتی عزیزوں کی قبروں کے ارد گرد کسی جہنمی شخص کی قبر برداشت کر پاتے؟

وہ قبرستان میں بنے ہادی شاہ کی درگاہ کے احاطے میں لگے نیم کے درخت کی چھاؤں میں بیٹھا تھا۔ گزشتہ 12 سال سے یہی درگاہ اس کا ٹھکانہ تھا اور ابھی مزار کے احاطے میں نیم کے درخت کی چھاؤں میں بیٹھا وہ آج کی گرمی کا سوچ رہا تھا کہ اس سال جیسی گرمی پڑرہی ہے، پہلے کبھی نہیں پڑی اور اس کا اندازہ اسے یوں مزید درست ثابت ہورہا تھا کہ نیم کے گھنے درخت تلے بیٹھنے کے باوجود وہ خود کو گرم ہوا کے تھپیڑوں سے بچا نہیں پا رہا تھا، دوسری جانب سورج کی تپش کسی کنواری نار کے جوبن کی طرح سر پر چڑھے جارہی تھی۔

اُس نے حسرت زدہ سی ایک نظر اپنے قریب پڑی پانی کی دونوں خالی بوتلوں پر ڈالی، دوپہر تک جن کا پانی گرم ہی سہی مگر اس کے حلق کو تر کرنے میں مدد گار تو تھا، رہ رہ کر نگاہ تیس چالیس قدم دور بنے کنویں پر جاتی تو کبھی اپنے پیروں میں پڑی ہوئی آدھی گھسی ہوئی ربر کی چپلوں پر اور ان چپلوں کے سہارے درگاہ سے کنویں تک جانا دنیا کا دشوار ترین کام لگ رہا تھا۔ مہینوں سے اس کا ساتھ نبھاتی ان چپلوں کا تلا اب اس قدر گھس چکا تھا کہ اُس کے پیروں سے زیادہ زمین سے دوستی نبھانے لگا تھا اور اس دوستی کی قیمت اب کچھ دنوں سے اُس کے تلوؤں کو ادا کرنا پڑ رہی تھی۔

اُس کی نظر درختوں پر بیٹھے گرمی سے ہانپتے ہوئے، مُنہ کھولے پرندوں پر گئی تو اُس کے حلق میں پانی کے لئے چھبتے ہوئے کانٹوں کی شدت میں مزید اضافہ ہوگیا۔ بلا آخر اُس نے اپنے قریب پڑی دونوں بوتلیں اُٹھائیں اور کنویں کی جانب بڑھنے لگا۔ بوتلیں بھر کر ابھی وہ پلٹا ہی تھا کہ اس کی نظر ایک بار پھر اُن دو اجنبیوں پر پڑی جن کو وہ کافی دیر سے قبرستان میں دیکھ رہا تھا۔ اُس نے سوچا پتہ نہیں بیچارے کون لوگ ہیں جو اتنی دیر سے اس شدید گرمی سے بے نیاز پورے قبرستان میں ادھر سے اُدھر پھر رہے ہیں، لگتا ہے کسی قریبی عزیز کی قبر ڈھونڈ رہے ہیں۔ اُس کی بوڑھی آنکھوں میں اس کڑکتی دھوپ میں ہمدردی کے سائے اُتر آئے۔

اپنی بوتلیں بھر کر وہ ایک بار پھر درگاہ کے احاطے میں آکر نیم کے زیر سایہ دیوار کے ساتھ اپنی دری درست کرکے بیٹھ گیا۔ ابھی اُسے بیٹھے ہوئے کچھ دیر ہی گزری تھی کہ اُس نے دیکھا کہ وہ دونوں اجنبی درگاہ کی جانب چلے آرہے تھے۔ تھوڑی دیر بعد وہ دونوں بھی نیم کی چھاؤں کے نیچے بیٹھے کسی جھگڑے نما بحث میں اُلجھے ہوئے دکھائی دینے لگے اور قریب ہونے کے سبب اُن کی اس بحث کا ایک ایک لفظ اُسے سُنائی دے رہا تھا۔ تبھی اُن میں سے ایک کی آواز مزید تیز ہوگئی اور شاید اس کا سبب غصہ تھا۔ دیکھ لیا منظور! میں تو تجھ سے پہلے ہی کہہ رہا تھا کہ ہم یہاں وقت برباد کر رہے ہیں، اب تو بتا، دو گھنٹے ہوگئے ہمیں اس قبرستان میں یوں قبروں کی خاک چھانتے، کوئی ایسی قبر ملی جو جنتی دکھائی دیتی ہو؟

ان دو اجنبیوں کی گفتگو کے اس آخری جملے نے اس کی بوڑھی سماعت کی تمام تر توجہ اپنی جانب کھینچ لی، اور وہ ان کے اس جملے پر غور کر ہی رہا تھا کہ اچانک اُن دو میں سے ایک نے اس کو مخاطب کرتے ہوئے اس کے پاس دھری پانی کی بوتلوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے پوچھا، بابا پانی ملے گا؟ اُس نے ایک بوتل اُٹھا کر انہیں تھمادی۔ بوتل واپس کرتے ہوئے دوسرے اجنبی نے پتہ نہیں کس خیال کے تحت اُس سے پوچھا، بابا اس مزار پر کب سے ہو؟ اس نے مسکراتے ہوئے جواب دیا، بیٹا دن گزارنے والے بھلا سالوں کا حساب کب رکھتے ہیں؟ تم لوگ بتاؤ کافی دیر سے میں تم دونوں کو یوں قبرستان میں ادھر سے اُدھر بھٹکتے ہوئے دیکھ رہا ہوں کیا کسی عزیز کی کھوئی ہوئی قبر کی تلاش میں ہو؟

بوڑھے کے اس سوال پر اُن دونوں اجنبیوں کی آنکھوں میں کچھ بتانے یا نہ بتانے کی ایک الجھن اتر آئی پھر نجانے کس خیال کے تحت ان دونوں میں سے ایک نے اپنا تعارف کراتے ہوئے کہا۔ بابا میرا نام منظور ہے اور یہ میرا ساتھی سعید ہے، اب آپ سے کیا چھپانا ہم دونوں کا برسوں پرانا یارانہ ہے اور برسہا برس سے ہم دونوں ساتھ زندگی گزار رہے ہیں۔ سعید سے 15 سال پہلے میری دوستی ایک جیل میں ہوئی جہاں میں زنا کے جرم میں سزا کاٹ رہا تھا اور سعید ایک چوری کے جرم میں آیا تھا۔

اپنی اپنی سزائیں پوری کرکے رہا ہونے کے بعد ہماری دوستی جیل کے دنوں سے بھی زیادہ مضبوط ہوگئی اور دوستی کے اِس عرصے میں ایسا کونسا گناہ یا جرم تھا جو ہم دونوں نے مل کر ساتھ نہ کیا ہو۔ اب میری عمر 45 برس ہوچکی ہے اور تقریباً اتنی ہی عمر سعید کی بھی ہے، مگر اب جیسے جیسے زندگی بڑھاپے کی طرف بڑھ رہی ہے کچھ عرصے سے ہم دونوں پر اپنی موت کا خوف سوار ہوگیا ہے۔

منظور کی بات کو سعید نے آگے بڑھایا، میری دادی بتاتی تھیں کہ قبرستان میں بہت سی زمین جنتی ہوتی ہے اورزمین کے اُس حصے پر بننے والی قبریں بھی جنتی ہوجاتی ہیں۔ بوڑھے کے لبوں پر ایک تبسم اُبھر آیا، اُس کو یہ سمجھنے میں دشواری نہیں ہوئی کہ ابھی چند لمحے قبل منظور نامی شخص نے اپنی جس 45 برس کی عمر کا ذکر کیا تھا وہ 45 سال انہوں نے زندگی گزاری ہے زندگی جی نہیں ہے۔

بوڑھے کو ان کے ذہن میں چلتی ہوئی سوچ کو سمجھنے میں ذرا دیر نہیں لگی، تبھی اُس نے اُسی مسکراہٹ کے ساتھ پوچھا کہ اچھا تو جنتی قبروں کے حوالے سے تمہاری دادی نے اور کیا کیا نشانیاں بتائیں تھیں؟ بس اتنا ہی کہ جنتی قبروں پر کوئی نہ کوئی درخت سایہ فگن رہتا ہے اور ان پر بیٹھے پرندوں کی چہچہاہٹ جو ہم سمجھتے ہیں، درحقیقت وہ پرندے اُس صاحب قبر کے لئے فاتحہ خوانی کررہے ہوتے ہیں۔ اب بوڑھے کے ہونٹوں سے جہاں مسکراہٹ غائب ہوئی، وہیں آنکھوں میں گہری سنجیدگی نے ڈیرہ جما لیا، بوڑھے پر ان دونوں کی نفسیات واضح ہوچکی تھی۔ لہذا ان کے دماغوں میں چھائے اس موت اور مرنے کے خوف کو دور کرنے کی ضرورت تھی۔

بوڑھے نے دونوں کے چہروں کا جائزہ لیتے ہوئے کہا۔ ذرا اس قبرستان میں بنی قبروں پر نظر دوڑاؤ۔ بوڑھے کی بات پر دونوں نے قبرستان میں چاروں طرف نظریں گھما کر دیکھا اور اُن کی نگاہوں کا رخ جب واپس بوڑھے کے چہرے کی جانب ہوا تو اُس نے پھر پوچھا۔ کتنی قبروں پر درخت نظر آئے؟ منظور تیزی سے بولا۔ درخت تو کافی قبروں کے سرہانے موجود ہیں۔ بوڑھا بولا، اس کا مطلب ہے اُن درختوں پر کچھ پرندے بھی یقیناً ہونگے جو صاحب قبر کے لئے فاتحہ خوانی کررہے ہونگے۔ اس بار سعید نے جواب دیا، ظاہر سی بات ہے۔ اکثر و بیشتر قبروں پر درخت موجود ہیں پرندے بھی چہچہا رہے ہیں تو پھر تم دونوں جنتی قبر ڈھونڈنے میں کیوں ناکام رہے؟

منظور جھینپے جھیپنے لہجے میں بولا، دراصل قبروں کی حالتیں ہی ایسی ہیں کہ جو اچھی حالت میں ہیں اُن پر درخت نہیں اور جو درخت کے سائے میں ہیں کہ اُن کی حالت دیکھتے ہوئے یقین کرنے کو دل ہی نہیں مانتا کہ یہ جنتی بھی ہوسکتی ہیں۔ اب بوڑھے کی آنکھوں میں بیک وقت غصہ اور افسوس دونوں کی ملی جُلی کیفیت تھی اور وہ سوچ رہا تھا پہلے ان کی عقل پر ماتم کرے یا اُس وقت پر افسوس کرے جو یہ دونوں اپنی غفلت میں برباد کر بیٹھے ہیں۔ وہ ان دونوں کو بتانا چاہتا تھا کہ بیٹا وقت انسان کی وہ دولت ہے جس کی سرمایہ کاری لوگ اگر بے کاری کے کاروبار میں کردیں تو ماسوائے خسارے کے اور کچھ ہاتھ نہیں آتا اور تم دونوں تو اب خسارہ اُٹھانے کے بعد آ رہے ہو لیکن وہ چاہ کر بھی یہ نہ کہہ سکا، کیونکہ اس نے ان دونوں کو واپسی کی راہ دکھانے کی ٹھان لی تھی جس سے یہ دونوں بھٹک چکے تھے۔

اسی خیال سے بوڑھا بولا، بیٹا یہ انسان کے بس کی بات ہی نہیں کہ وہ کسی قبر کے جنتی یا جہنمی ہونے کا تعین کرسکے۔ اسی باعث قبر اور مردے کے حال کا پردہ رکھا گیا ہے، اور بہترین ہے کہ زمین میں سوئے ہوئے شخص کے حال کو زمین کے اوپر چلتے پھرتے لوگوں سے پوشیدہ رکھا گیا ہے ورنہ ایک لمحے کو سوچو اگر کسی انسان کی قبر کو عیاں کردیا جاتا تو قبرستانوں میں دن رات کیا تماشہ ہو رہا ہوتا۔ کیا لوگ اپنے جنتی عزیزوں کی قبروں کے ارد گرد کسی جہنمی شخص کی قبر برداشت کر پاتے؟ دن رات قبرستانوں میں لڑائی جھگڑے ہو رہے ہوتے، جو لوگ اپنے سے کمتر انسانوں کو اپنے قریب بھی برداشت نہیں کرسکتے بھلا وہاں کون چاہتا کہ اُس کے باپ یا ماں کی قبر کسی جہنمی انسان کی قبر کے برابر میں ہو؟

بوڑھے شخص نے منظور اور سعید کی آنکھوں میں مزید جاننے کی لگن دیکھتے ہوئے اپنی بات کو جاری رکھا، دیکھو جہاں بہت سی چیزوں کا حساب کتاب روز محشر پر رکھا گیا ہے، تب تک یہ قبر ہی صاحب قبر کے لئے جنت بھی ہے دوزخ بھی۔ اب اندر کا حال نہ تمہیں معلوم ہے نہ مجھے!

(جاری ہے)

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں