ظالم حسینہ کے راج میں

بنگلہ دیش پر جو کبھی مشرقی پاکستان ہوا کرتا تھا، آج کل ظالم حسینہ کا راج ہے

S_afarooqi@yahoo.com

بنگلہ دیش پر جو کبھی مشرقی پاکستان ہوا کرتا تھا، آج کل ظالم حسینہ کا راج ہے، جس کے سر پر خون سوار ہے اور جو مشرقی پاکستان میں حب الوطنی کا مظاہرہ کرنے والے پاکستانیوں کو پھانسیاں دے دے کر اپنی خون آشامی کا رقص کررہی ہے۔

اس ظالم حسینہ کے پاس اس مذموم کارروائی کا نہ کوئی اخلاقی جواز ہے اور نہ قانونی جواز۔ یہ اس سہ فریقی معاہدے کی بھی صریحاً خلاف ورزی ہے جو حسینہ کے والد شیخ مجیب الرحمن کی رضامندی سے طے پایا تھا۔ افسوس کا مقام ہے کہ انسانی حقوق کے علم بردار اور سزائے موت پر پابندی کے عالمی حمایتی اس بربریت پر چپ سادھے بیٹھے ہیں اور تو اور حکومت پاکستان نے بھی اس معاملے میں اس سرگرمی کا مظاہرہ نہیں کیا جو اس کا فرض بنتا تھا اور جس کی اس سے توقع تھی۔ البتہ ترکی کی حکومت نے انسانیت سوز اور وحشیانہ کارروائی پر حسینہ واجد اور اس کی حکومت کے خلاف سفارتی سطح پر شدید رد عمل کا اظہارکر کے تمام پاکستانیوں کے دل جیت لیے ہیں۔

2008 میں برسر اقتدار آنے کے بعد سے ہی بنگلہ دیش کی وزیراعظم حسینہ واجد کے سر پر خون سوار ہے اور وہ بھارت کے اشاروں پر انتہا پسند پالیسیوں پر عمل پیرا ہیں۔ ہر بہانے سے پاکستان اور اس کے چاہنے والوں کی مخالفت ان کے سیاسی ایجنڈے میں سر فہرست ہے۔ ان کی کوشش ہے کہ کسی نہ کسی حیلے بہانے سے بنگلہ دیش کی جماعت اسلامی اور بنگلہ دیش نیشنل پارٹی سے تعلق رکھنے والے ارکان کو ٹھکانے لگایا جائے۔

اس کے لیے انھوں نے بہترین حربے کا انتخاب جنگی جرائم کی آڑ میں مقدمے چلا کر اور اپنی تابع فرمائی عدالتوں سے محب وطن پاکستانیوں کو پھانسی کی سزائیں دلوا کر کیا ہے جس کا تازہ ترین نشانہ جماعت اسلامی کے سینئر رہنما مطیع الرحمن نظامی کو بنایا گیا جوکہ حقیقتاً عدالتی قتل ہے۔ 1974 کے سہ فریقی معاہدے کا سراسر مذاق اڑانے کے مترادف چلائے جانے والے یہ ظالمانہ مقدمات نہ صرف بین الاقوامی قانون کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے بلکہ انصاف کے ساتھ مجرمانہ کھلواڑ ہے۔ سب سے بڑی زیادتی یہ ہے کہ عدالتی کارروائی کے دوران قانون کے تقاضوں کو نظر انداز کیا جاتا ہے اور ملزمان کو صفائی کا پورا موقع بھی نہیں دیا جاتا۔

بنگلہ دیش سے موصولہ اطلاعات کے مطابق بنگلہ دیش کی جیلوں کا بھی بہت برا حال ہے۔ اگرچہ قیدیوں کو کھانا اور ضرورت کی دوسری اشیا فراہم کرنا حکومت کی ذمے داری ہے لیکن اصل صورت حال یہ ہے کہ ڈھاکہ کی سینٹرل جیل کے ایک قیدی کو اپنے کھانے اور دوسری چیزوں کے بندوبست کے لیے ماہانہ 30 ہزار ٹکا خرچ کرنے پڑتے ہیں۔ یہ رقم 384 امریکی ڈالر کے برابر ہے۔


جیل کی سزا کاٹنے والے قیدیوں کو اچھی خاصی رقم اپنے ان ساتھیوں کو بھی ادا کرنی پڑتی ہے جو جیل حکام کے حکم پر ان کی نگرانی کرنے پر مامور کیے جاتے ہیں۔ 16 ہزار ٹکا سے زائد اس رقم کی ادائیگی کے بعد قیدی کو جیل کی کوٹھری میں اتنی جگہ فراہم کی جاتی ہے کہ وہ بہ آسانی پیر پھیلا کر سو سکے اور کروٹ بدل سکے۔ اگر کسی قیدی کو جیل کے مقررہ کھانے کے علاوہ انڈے، مچھلی یا گوشت کھانے کی خواہش ہو تو اس کے لیے اضافی 14 ہزار ٹکا ماہانہ ادا کرنے ہوں گے۔

اگر کوئی قیدی اپنے کسی اہل خانہ سے بات چیت کرنا چاہے تو اس کے لیے اسے 300 سے لے کر 1500 ٹکا تک ادا کرنے پڑیں گے، اگر کوئی فیملی اپنے قیدی کے لیے ایک ہزار ٹکا بھجوانا چاہے تو اسے جیل حکام کو اس کام کے لیے 200 ٹکا رشوت کے طور پر ادا کرنے ہوں گے۔

اسی طرح بے چارے قیدی کو ایک ہزار ٹکا میں سے درحقیقت 800 ٹکا ہی وصول ہوتے ہیں یہ صورت حال نہ صرف مرد قیدیوں کو بلکہ خواتین قیدیوں کو یکساں درپیش ہوتی ہے۔ بد قسمتی سے جو قیدی ان اخراجات کے متحمل نہیں ہوتے ان کا بس پھر خدا ہی حافظ ہوتا ہے اور محض جیل حکام کے ہی رحم و کرم پر ہوتے ہیں۔ ایسے بدنصیب قیدیوں کے لیے جیل جہنم سے بھی بد تر ہوتی ہے۔ اسی طرح کے قیدیوں کو رات بھر ایک ہی کروٹ سے لیٹے رہنا پڑتا ہے کیوں کہ انھیں ایک دوسرے کے برابر درمیان میں ذرا سی بھی گنجائش کے بغیر لٹا دیا جاتا ہے۔

قیدی کے ڈھاکہ سینٹرل جیل میں داخل ہوتے ہی یہ کاروباری سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔ اس کا آغاز جیل کی اس کوٹھری میں ہوتا ہے جہاں نئے قیدی کو کم از کم ایک رات گزارنا ہوتی ہے اور جہاں سے قیدیوں کو اس کے بعد دوسری کوٹھریوں میں منتقل کردیا جاتا ہے اس کوٹھری کا نام ''آمدنی خانہ'' ہے۔ آمدنی خانہ کا انچارج نو وارد قیدیوں سے باری باری ملاقات کرتا ہے اور انھیں باور کراتا ہے کہ اگر 3600 ٹکا کا سروس پیکیج قبول نہ کیا تو پھر وہ اس کا خمیازہ بھگتنے کے لیے تیار ہوجائیں۔ جیل کے قیدی کو اس کی فیملی کی طرف سے بھیجے جانے والے 4000 ٹکا میں سے صرف 3600 ٹکا ہے وصول ہوتے ہیں کیوں کہ اس میں سے 400 ٹکا جیل کا گیٹ اسٹاف بطور کمیشن ہڑپ کر لیتا ہے، پہلے ہفتے کی کمائی میں سے آمدنی خانہ کا انچارج اپنا حصہ اپنا حق سمجھ کر رکھ لیتا ہے۔

ڈھاکہ کی سینٹرل میں اصل گنجائش 2650 قیدیوں کی ہے لیکن عملاً اس میں موجود قیدیوں کو تعداد 7600 کے لگ بھگ ہے۔ آمدنی خانہ کا انچارج بڑا جابر ہوتا ہے۔ ہر کوئی اس کے حکم کا غلام ہوتا ہے اس سے بگاڑنا دریا میں رہ کر مگر مچھ سے بیر کے مترادف ہے۔ اس لیے عافیت اسی میں ہے کہ اس سے ''پنگا'' نہ لیا جائے اور اس کی ہاں میں ہاں ملا کر ہی رہا جائے۔ اس کی مرضی کے بغیر آب دست اور نہانے کے لیے پانی کا میسر آیا بھی ممکن نہیں۔ ایک نووارد بد قسمت قیدی کو پانی کے بغیر پورے 22 گھنٹے گزارنے پڑے جس کے بعد انچارج کی مٹھی گرم کرکے گلو خلاصی ہوئی۔

جو قیدی انچارج کو مقررہ رقم ادا کردیتے ہیں انھیں صاف ستھرے ٹوائلیٹس کی سہولت میسر آجاتی ہے اور جو ایسا نہیں کرپاتے انھیں انتہائی غلیظ بیت الخلا کی اذیت برداشت کرنا پڑتی ہے جہاں بسا اوقات رفع حاجت کے لیے پانی بھی دستیاب نہیں ہوتا۔ ایک عام اندازے کے مطابق 30 فی صد قیدی انچارج کے پیکیج کی ادائیگی کے متحمل نہیں ہوتے، نتیجتاً ان بے چاروں کو ناقابل بیان اذیت برداشت کرنا پڑتی ہے۔ ظالم حسینہ کے راج کا یہ ہے ایک مختصر اقوال۔
Load Next Story