قوتِ ارادی
یہ فطری تقاضا ابھر ابھر کے اسے نامساعد حالات کو بدلنے کے لیے مجبور کرتا ہے
CAPE TOWN:
انسان قدرت کا ایک ایسا سربستہ راز ہے، جو فطرت کے انمول خزانوں سے مالا مال ہے، اب اسے خود اپنی ذات کی ستم ظریفی کہا جائے یا نفس کی کمزوری کہ مخلوق میں سب سے زیادہ توانگر ہوتے ہوئے بھی مفلسی کی دھجیاں گلے میں لٹکائے پھرتا ہے۔خزانوں کی کنجیاں ہاتھ میں رکھتے ہوئے بھی در دولت کو مقفل رکھتا ہے،خود اپنے ہی خول میں بند ہوکر اپنی ذات کو پر اسرار بنالیتا ہے۔ غیر تو خیر خود اپنی نظر بھی اپنی ذات کو پہچان نہیں پاتی،انسانوں کے اس جنگل میں ہر شخص مختلف لبادہ اوڑھے ہوئے ہے، نرم ملائم لباس جسم کو آرام و فرحت بخشتا ہے اور سخت اور کھردرا لباس باعث تکلیف بن جاتا ہے، طبیعتوں اور مزاجوں کے یہ مختلف لباس بھی اس کی ذات کو کبھی راحت و سکون بخشتے ہیں اورکبھی نا امیدی اور عدم تحفظ کے جہنم میں پھینک کر بے آرام کردیتے ہیں۔ آدم زاد فطری طور پر راحت وسکون عیش وآرام کا دل دادہ ہے۔
یہ فطری تقاضا ابھر ابھر کے اسے نامساعد حالات کو بدلنے کے لیے مجبور کرتا ہے۔ در اصل ہر خیال اور ہر شے کے دو رخ ہیں اگر ایک رخ جو اس کی سطح پر ہوتا ہے، خیال روشنی ہے جس میں اطلاع ہے، یعنی ذہن کی ایک فکر ہے یہ روشنی جو اس کی سطح سے گہرائی تک اور گہرائی سے سطح تک سفرکرتی ہے اور ذہن انسانی حواس کے دائرے میں ان روشنی کی کیفیات کو محسوس کرتا ہے فکرکی روشنی کا نیگیٹو رخ جب حواس کی سطح پر آجاتا ہے تو آدمی فکر کے منفی پہلو سے متعارف ہوتا ہے، نیگیٹو تختی ہے اس رخ کے مظاہرے میں آدمی محرومی، بے سکونی، بے آرامی اور عدم تحفظ میں مبتلا ہوجاتا ہے۔
فکر کی روشنی جب اپنا پازیٹو رخ ڈسپلے کرتی ہے تو حواس تعمیری پہلو سے متعارف ہوتے ہیں اور حواس کے دائروں میں مثبت فکرکی روشنی جذب ہوجاتی ہے جس کی وجہ سے قلب وذہن توانائی محسوس کرتا ہے یہی توانائی آدمی کو فرحت و آرام بخشتی ہے۔ نیگیٹو رخ میں روشنیاں جو اس کے دائروں میں جذب ہونے کے بجائے واپس لوٹ جاتی ہیں۔ ان کے دباؤ سے دماغ کے خلیے ٹوٹ پھوٹ جاتے ہیں۔ دماغ کے خلیوں میں روشنی کی مقداروں کی کمی وبیشی کی وجہ سے انسان کے اندر یقین کی کمی ہوجاتی ہے اور وہ نا امیدی، احساس کمتری اور شک و شبہ میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ساری کائنات روشنیوں اور توانائیوں کے ایک نہایت ہی مربوط نظام سے قائم ہے۔ ہر شئے میں توانائی کی متعین مقدار میں کام کررہی ہیں ان ہی متعین مقداروں کے ساتھ شئے کا وجود قائم ہے اور توانائی کی متعین مقداریں اس کے جسمانی و روحانی نظام کو بیدار رکھتی ہیں۔
آدمی تقاضوں کا مجموعہ ہے، اس کے اندر مسلسل تقاضے ابھرتے رہتے ہیں۔ ان ہی تقاضوں کی تکمیل زندگی کی حرکت ہے۔ زمین پر آدمی وسائل کا پابند ہوکر زندگی گزار رہا ہے وہ خاندان اور گروپ میں رہ کر زندگی بسرکرتا ہے۔ اجتماعی زندگی میں معاشرتی طرز کا عمل دخل آدمی کے تقاضوں کی کامیابی کے لیے سر راہ بن جاتا ہے ایسی ہی ناکامیاں اور محرومیاں ارادے کو پست کردیتی ہے اور اس کی قوت ارادی کم ہوجاتی ہے، آدمی کا رادہ ہی وہ قوت ہے جو فکر کو عملی جامہ پہناتا ہے، یعنی ارادے کی قوت ہی ذہن کی حرکت بنتی ہے اور آدمی اپنی مطلوبہ شئے حاصل کرلیتا ہے یہی وجہ ہے کہ قوت ارادی کا فقدان آدمی کے تقاضوں کی تکمیل کے راستے میں رکاوٹ بن جاتا ہے۔
ہمیں یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ وہ کون سے عوامل ہیں جو آدمی کے اندر قوت ارادی کو گھٹاتے اور بڑھاتے ہیں۔ اس کے جواب میں یہی ایک بات سمجھ میں آتی ہے کہ تقاضوں کی زیادہ تکمیل آدمی کے اندر قوت ارادی کو بڑھاتی ہے اور تقاضوں کی ناکامی آدمی کے اندر قوتِ ارادی کو پست بنادیتی ہے، یہاں تقاضوں کی وضاحت بھی ضروری ہے، تقاضوں سے میری مراد جبلت نہیں حیوانیت ہے۔ اگرچہ جبلت بھی فطری تقاضے ہیں مگر جبلت حیوانیت کا دائرہ ہے یہاں تقاضوں سے مراد وہ بشری تقاضے ہیں جو انسانیت کے دائرے میں آتے ہیں۔ ہر نوع کی ایک خاص فطرت ہے جس پر اسے پیدا کیا گیا ہے۔ یہ فطرت اس کی ذات سے الگ نہیں کی جاسکتی۔ جیسے شیر میں درندگی کی صفت ہے ہزار اسے سدھایا جائے گا وہ بلی نہیں بن سکتا۔ اسی طرح انسان کی اندر بھی فطرت کا خاص نظام کام کررہاہے، آدمی کی ہر حرکت فطرت کے خاص اسی نظام کے دائرے میں ہے۔
فطرت کے دائرے سے ہٹ کرکوئی بھی حرکت شخصیت کو توڑ مروڑ دیتی ہے۔اگر غور کیا جائے تو ساری کائنات یقین کے اوپر چل رہی ہے۔ یقین کے بغیر ہم کوئی حرکت نہیں کرسکتے ہمارے ذہن میں موجود ہوتا ہے کہ ہمارے پاؤں زمین پر ہیں اگر یہ خیال نہ ہو اور یقین شک و شبہے میں بدل جائے تو ہم فوراً لڑکھڑا جائیں گے۔ غرض یہ کہ یقین ہی ساری کائنات کی بنیاد ہے جس کے اوپر کائنات قائم ہے۔ ہم یقین کو روشنی سے تعبیر کرتے ہیں اور شک وسوسہ و بے یقینی کو تاریکی کہتے ہیں۔ روشنی انرجی یا توانائی اور تاریکی خلا ہے یہ بات اب سائنس اور روحانی طرز پر ثبوت کو پہنچ چکی ہے کہ دنیا اورکائنات کا نظام روشنیوں سے قائم ہے۔ روشنیاں ہی کائنات کو وجود بخشتی ہیں۔ کائنات کی اشیا کی نشوونما کرتی ہیں۔
اگر کائنات کے اندر سے روشنیاں نکال دی جائیں تو کائنات کا وجود مٹ جائے گا اس حقیقت کے تحت کائنات کے ذرے ذرے کو قدرت کی جانب سے روشنی مہیا کی جارہی ہے۔ ظاہری طور پر بھی اور باطنی طور پر بھی کیوں کہ ہر شے جسم اور روح دونوں کے اشتراک کا مجموعہ ہے جسم کو حرکت دینے والی ہستی روح ہے یعنی باطن ہے۔انسان کے اندر ایک مرکز ہے اس مرکز کا نام قلب ہے اس مرکز سے روشنیاں انرجی کی صورت میں سارے جسم کو سپلائی ہوتی ہیں۔ روشنی کا یہ مرکز ظاہری حواس و نظر سے دیکھا نہیں جاسکتا۔ البتہ اس مرکز روشنی کو انسان باطن کی آنکھ سے دیکھ سکتا ہے اور قلبی حواس کے ذریعے اس کی کیفیات کو محسوس کرسکتا ہے۔
احساس کمتری دراصل اس وقت ہوتا ہے جب قلب کے اس مرکز روشنی میں روشنی کی مقدار میں نارمل مقداروں سے کم ہوجاتی ہیں۔ قلب میں روشنی کی کمی شک اور وسوسے کی وجہ سے ہوتی ہے جب آدمی کے اندر شک اور وسوسہ آنے لگتا ہے تو قلب کے اندر روشنی کے اس نقطے پر بادل کی طرح تاریکی کی تہہ جمنے لگتی ہے۔
انسان قدرت کا ایک ایسا سربستہ راز ہے، جو فطرت کے انمول خزانوں سے مالا مال ہے، اب اسے خود اپنی ذات کی ستم ظریفی کہا جائے یا نفس کی کمزوری کہ مخلوق میں سب سے زیادہ توانگر ہوتے ہوئے بھی مفلسی کی دھجیاں گلے میں لٹکائے پھرتا ہے۔خزانوں کی کنجیاں ہاتھ میں رکھتے ہوئے بھی در دولت کو مقفل رکھتا ہے،خود اپنے ہی خول میں بند ہوکر اپنی ذات کو پر اسرار بنالیتا ہے۔ غیر تو خیر خود اپنی نظر بھی اپنی ذات کو پہچان نہیں پاتی،انسانوں کے اس جنگل میں ہر شخص مختلف لبادہ اوڑھے ہوئے ہے، نرم ملائم لباس جسم کو آرام و فرحت بخشتا ہے اور سخت اور کھردرا لباس باعث تکلیف بن جاتا ہے، طبیعتوں اور مزاجوں کے یہ مختلف لباس بھی اس کی ذات کو کبھی راحت و سکون بخشتے ہیں اورکبھی نا امیدی اور عدم تحفظ کے جہنم میں پھینک کر بے آرام کردیتے ہیں۔ آدم زاد فطری طور پر راحت وسکون عیش وآرام کا دل دادہ ہے۔
یہ فطری تقاضا ابھر ابھر کے اسے نامساعد حالات کو بدلنے کے لیے مجبور کرتا ہے۔ در اصل ہر خیال اور ہر شے کے دو رخ ہیں اگر ایک رخ جو اس کی سطح پر ہوتا ہے، خیال روشنی ہے جس میں اطلاع ہے، یعنی ذہن کی ایک فکر ہے یہ روشنی جو اس کی سطح سے گہرائی تک اور گہرائی سے سطح تک سفرکرتی ہے اور ذہن انسانی حواس کے دائرے میں ان روشنی کی کیفیات کو محسوس کرتا ہے فکرکی روشنی کا نیگیٹو رخ جب حواس کی سطح پر آجاتا ہے تو آدمی فکر کے منفی پہلو سے متعارف ہوتا ہے، نیگیٹو تختی ہے اس رخ کے مظاہرے میں آدمی محرومی، بے سکونی، بے آرامی اور عدم تحفظ میں مبتلا ہوجاتا ہے۔
فکر کی روشنی جب اپنا پازیٹو رخ ڈسپلے کرتی ہے تو حواس تعمیری پہلو سے متعارف ہوتے ہیں اور حواس کے دائروں میں مثبت فکرکی روشنی جذب ہوجاتی ہے جس کی وجہ سے قلب وذہن توانائی محسوس کرتا ہے یہی توانائی آدمی کو فرحت و آرام بخشتی ہے۔ نیگیٹو رخ میں روشنیاں جو اس کے دائروں میں جذب ہونے کے بجائے واپس لوٹ جاتی ہیں۔ ان کے دباؤ سے دماغ کے خلیے ٹوٹ پھوٹ جاتے ہیں۔ دماغ کے خلیوں میں روشنی کی مقداروں کی کمی وبیشی کی وجہ سے انسان کے اندر یقین کی کمی ہوجاتی ہے اور وہ نا امیدی، احساس کمتری اور شک و شبہ میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ساری کائنات روشنیوں اور توانائیوں کے ایک نہایت ہی مربوط نظام سے قائم ہے۔ ہر شئے میں توانائی کی متعین مقدار میں کام کررہی ہیں ان ہی متعین مقداروں کے ساتھ شئے کا وجود قائم ہے اور توانائی کی متعین مقداریں اس کے جسمانی و روحانی نظام کو بیدار رکھتی ہیں۔
آدمی تقاضوں کا مجموعہ ہے، اس کے اندر مسلسل تقاضے ابھرتے رہتے ہیں۔ ان ہی تقاضوں کی تکمیل زندگی کی حرکت ہے۔ زمین پر آدمی وسائل کا پابند ہوکر زندگی گزار رہا ہے وہ خاندان اور گروپ میں رہ کر زندگی بسرکرتا ہے۔ اجتماعی زندگی میں معاشرتی طرز کا عمل دخل آدمی کے تقاضوں کی کامیابی کے لیے سر راہ بن جاتا ہے ایسی ہی ناکامیاں اور محرومیاں ارادے کو پست کردیتی ہے اور اس کی قوت ارادی کم ہوجاتی ہے، آدمی کا رادہ ہی وہ قوت ہے جو فکر کو عملی جامہ پہناتا ہے، یعنی ارادے کی قوت ہی ذہن کی حرکت بنتی ہے اور آدمی اپنی مطلوبہ شئے حاصل کرلیتا ہے یہی وجہ ہے کہ قوت ارادی کا فقدان آدمی کے تقاضوں کی تکمیل کے راستے میں رکاوٹ بن جاتا ہے۔
ہمیں یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ وہ کون سے عوامل ہیں جو آدمی کے اندر قوت ارادی کو گھٹاتے اور بڑھاتے ہیں۔ اس کے جواب میں یہی ایک بات سمجھ میں آتی ہے کہ تقاضوں کی زیادہ تکمیل آدمی کے اندر قوت ارادی کو بڑھاتی ہے اور تقاضوں کی ناکامی آدمی کے اندر قوتِ ارادی کو پست بنادیتی ہے، یہاں تقاضوں کی وضاحت بھی ضروری ہے، تقاضوں سے میری مراد جبلت نہیں حیوانیت ہے۔ اگرچہ جبلت بھی فطری تقاضے ہیں مگر جبلت حیوانیت کا دائرہ ہے یہاں تقاضوں سے مراد وہ بشری تقاضے ہیں جو انسانیت کے دائرے میں آتے ہیں۔ ہر نوع کی ایک خاص فطرت ہے جس پر اسے پیدا کیا گیا ہے۔ یہ فطرت اس کی ذات سے الگ نہیں کی جاسکتی۔ جیسے شیر میں درندگی کی صفت ہے ہزار اسے سدھایا جائے گا وہ بلی نہیں بن سکتا۔ اسی طرح انسان کی اندر بھی فطرت کا خاص نظام کام کررہاہے، آدمی کی ہر حرکت فطرت کے خاص اسی نظام کے دائرے میں ہے۔
فطرت کے دائرے سے ہٹ کرکوئی بھی حرکت شخصیت کو توڑ مروڑ دیتی ہے۔اگر غور کیا جائے تو ساری کائنات یقین کے اوپر چل رہی ہے۔ یقین کے بغیر ہم کوئی حرکت نہیں کرسکتے ہمارے ذہن میں موجود ہوتا ہے کہ ہمارے پاؤں زمین پر ہیں اگر یہ خیال نہ ہو اور یقین شک و شبہے میں بدل جائے تو ہم فوراً لڑکھڑا جائیں گے۔ غرض یہ کہ یقین ہی ساری کائنات کی بنیاد ہے جس کے اوپر کائنات قائم ہے۔ ہم یقین کو روشنی سے تعبیر کرتے ہیں اور شک وسوسہ و بے یقینی کو تاریکی کہتے ہیں۔ روشنی انرجی یا توانائی اور تاریکی خلا ہے یہ بات اب سائنس اور روحانی طرز پر ثبوت کو پہنچ چکی ہے کہ دنیا اورکائنات کا نظام روشنیوں سے قائم ہے۔ روشنیاں ہی کائنات کو وجود بخشتی ہیں۔ کائنات کی اشیا کی نشوونما کرتی ہیں۔
اگر کائنات کے اندر سے روشنیاں نکال دی جائیں تو کائنات کا وجود مٹ جائے گا اس حقیقت کے تحت کائنات کے ذرے ذرے کو قدرت کی جانب سے روشنی مہیا کی جارہی ہے۔ ظاہری طور پر بھی اور باطنی طور پر بھی کیوں کہ ہر شے جسم اور روح دونوں کے اشتراک کا مجموعہ ہے جسم کو حرکت دینے والی ہستی روح ہے یعنی باطن ہے۔انسان کے اندر ایک مرکز ہے اس مرکز کا نام قلب ہے اس مرکز سے روشنیاں انرجی کی صورت میں سارے جسم کو سپلائی ہوتی ہیں۔ روشنی کا یہ مرکز ظاہری حواس و نظر سے دیکھا نہیں جاسکتا۔ البتہ اس مرکز روشنی کو انسان باطن کی آنکھ سے دیکھ سکتا ہے اور قلبی حواس کے ذریعے اس کی کیفیات کو محسوس کرسکتا ہے۔
احساس کمتری دراصل اس وقت ہوتا ہے جب قلب کے اس مرکز روشنی میں روشنی کی مقدار میں نارمل مقداروں سے کم ہوجاتی ہیں۔ قلب میں روشنی کی کمی شک اور وسوسے کی وجہ سے ہوتی ہے جب آدمی کے اندر شک اور وسوسہ آنے لگتا ہے تو قلب کے اندر روشنی کے اس نقطے پر بادل کی طرح تاریکی کی تہہ جمنے لگتی ہے۔