آف شورکم بختیاں اور سوالات کا جمعہ بازار
میری سمجھ میں یہ نہیں آتا کہ اگرآف شور کمپنیاں ایسی ہی کرشماتی واشنگ مشینوں کی حامل ہیں،
میری سمجھ میں یہ نہیں آتا کہ اگرآف شور کمپنیاں ایسی ہی کرشماتی واشنگ مشینوں کی حامل ہیں، جن میں ایک مرتبہ بلیک منی ڈال کر گھما دیا جائے تو وائٹ منی نکل آتی ہے، لیکن اس میں قباحت یہ ہے کہ جب تک رشوت خور، ٹیکس چور، حکمران زندہ ہیں کرشماتی واشنگ مشین گھماتے ہی رہنا پڑتا ہے۔ اس کے برخلاف کیا یہ بہتر علاج نہیں ہے کہ ایک مرتبہ خود رشوت خور، ٹیکس چور حکمران کو ہی کرشماتی واشنگ مشین میں ڈال کر اس وقت تک گھمایا جائے کہ مشین کے اندر سے ''میرے باپ کی توبہ'' کی چیخیں باہر تک سنائی دینے لگیں۔ اس کے بعد سفید براق سیاسی حکمران کو مشین سے نکال کر اچھی طرح نچوڑ لیا جائے۔ (خدارا! گنے کی مشین میں ڈال کر نہیں) پھر دھوپ میں سکھانے کے لیے اس کو الگنی پر اُلٹا ٹانگ دیا جائے۔ اس میں حکمت یہ ہے کہ کونے کھانچے میں پھنسی ہوئی کک بیک منی بھی قطرہ قطرہ کر کے ٹپک جاتی ہے۔ اور شکل سے فرعون صورت، عمل سے ہلاکو صفت نظر آنے والا سیاسی حکمران بندے دا پتر بن جاتا ہے۔
پہلے آف شور کمپنیوں کے تعلق سے سوالات کے جمعہ بازار کا ایک چکر۔
(1)۔ کیا وجہ ہے ہر بزرگوار پرکرپشن کے الزامات کی بارش ہو رہی ہے تو دوسری طرف پدران فرمانبردار کی آف شورکمپنیاں دن رات منی لانڈرنگ میں مصروف ہیں، سر کھجانے کی فرصت نہیں۔ (2)۔ اگرآف شور کمپنیاں قانوناً جائز ہیں تو پھر ان کو ناجائز اولاد کی طرح چھپایا کیوں جاتا ہے؟ (3)۔ بے شک اربوں ڈالر بجری کے ٹرک میں لوڈ ہو کر پانامہ نہیں جا سکتے لیکن سوال یہ ہے کہ اگر گئے نہیں تو آئے کیسے؟ (4)۔ جب پراپرٹی کا کاروبار چل رہا تھا تو آف شورکمپنیوں کی بھی ضرورت کیوں پیش آئی؟ کہیں معاملہ وہ تو نہیں ہے جیسا کہ میں سمجھ رہا ہوں۔ مثلاً ایک باپ نے اپنا ایک کروڑ ڈالرکا فلیٹ اپنے بیٹے کو گفٹ کر دیا۔
بیٹے نے وہ فلیٹ اپنے چھوٹے بھائی کو ایک کروڑ ڈالر میں بیچ دیا۔ چھوٹے بھائی نے اپنی پراپرٹی رہن رکھوا کر ایک کروڑ ڈالر کی ادائیگی کر دی۔ جس کو بڑے بھائی نے بطور وائٹ منی فیملی اکاؤنٹ میں جمع کروا دیا۔ اس کے بعد اپنے پاس رکھی بلیک منی میں سے ایک کروڑ ڈالر چھوٹے بھائی کو دے دیے۔ چھوٹے بھائی نے بینک کا قرضہ بمع سود واپس کر کے اپنی پراپرٹی کے کاغذات واپس لے لیے اور باپ کا گفٹ کیا ہوا فلیٹ واپس اپنے پدر بزرگوارکو گفٹ کر دیا، اگر یہ صحیح نہیں ہے تو حقیقت کیا ہے؟ کوئی بتائے تو سہی!
دراصل مستقبل قریب میں آف شورکمپنیاں ہی اپنے مالکان کے لیے آف شورکم بختیاں ثابت ہوں گی، کیونکہ ان کی موجودگی ہی اس بات کا ثبوت ہے کہ بلیک منی کی آمد کی رفتار اتنی تیز ہے کہ منی لانڈرنگ کے لیے گھر کی آف شورکمپنیاں ضروری نہیں۔ تا کہ گھرکی بات گھر میں رہے۔ ویسے بھی عوام ٹیکس چوروں کا تخمینہ یوں لگانے لگے ہیں۔
پہلا: کیوں بھئی! یہ اپنے حلقے کا رشوت خور، ٹیکس چور، بلیکی، کتنی آف شورکمپنیوں کے برابر کا کرپٹ ہو گا؟
دوسرا: کم از کم دو۔
پہلا: خدا کا خوف کرو یار! دو کے برابر تو اس وقت تھا جب وہ سوکھا وزیر تھا۔ اس وقت وہ پانچ آف شورکمپنیوں سے کم کرپٹ ہو ہی نہیں سکتا۔
مغربی معاشرہ تہذیب یافتہ تو ہے ہی لیکن مشرقی معیارکے مطابق اخلاق باختہ بھی ہے لیکنخود چاہے جتنے بھی اخلاق باختہ ہوں مگر اپنا حکمران وہ پوری سفاکی کے ساتھ دودھ کا دھلا چنتے ہیں۔ ان کے نزدیک حکمران کا سب سے زیادہ گھناؤنا اور ناقابل معافی جرم ''جھوٹ'' ہے جب کہ رشوت خور، ٹیکس چور ہو کہ سیب چور، بولتا ہی جھوٹ ہے۔ جھوٹ کے علاوہ کچھ نہیں بولتا مثلاً۔
ایک شخص سیب کے باغ میں گھسا، سیب توڑ کر انھیں جیب میں ڈال رہا تھا۔ مالی نے پکڑ کر باغ کے مالک کے روبرو پیش کر دیا۔ مالک نے سوال کیا ''تو باغ میں کیسے داخل ہوا؟'' سیب چور نے جواب دیا۔
''اس میں میراکوئی قصور نہیں۔ میں باغ کے سامنے سے گزر رہا تھا زورکی آندھی آئی اور مجھے اڑا کر باغ میں پھینک دیا'' باغ کے مالی نے اس کی جیبوں سے سیب نکال کر مالک کے آگے رکھ دیے، مالک نے پوچھا ''یہ کہاں سے آئے؟''
''سرکار! اس سوال پر تو میں خود نہ صرف حیران ہوں بلکہ پریشان ہوں کہ یہ سیب میری جیب میں کہاں سے آ گئے؟''
مغربی معاشرے نے قانون کے مطابق کرپشن کی سزا دینے کی ذمے داری عدالتوں پر چھوڑ دی ہے کیونکہ وہاں قانون کی حکمرانی ہے اور عدلیہ آزاد۔ لیکن کک بیک لینے والے جھوٹے حکمرانوں کو ان کے عہدے سے کک آؤٹ کرکے ان کوگھر تک پہنچانے کی ذمے داری عوام خود پوری کرتے ہیں۔ نتیجتاً وہاں عوامی شخصیات کی کوئی ذاتی زندگی نہیں ہوتی۔ عوام ان کے مستقبل کے فیصلے کرنے کا اختیار رکھتے ہیں۔پاکستان کا المیہ یہ ہے کہ جو قانون شکن ہیں وہی قانون ساز بھی ہیں۔ جمہوریت کے دیگر دو ستون عدلیہ اور انتظامیہ ان کی تابعدار ہے، کیونکہ ان کے سربراہوں کے ہائر اور فائر کے اختیارات بھی ان ہی کے پاس ہیں۔ 68 سالہ Status Quo کے تسلسل سے یہ اتنے طاقتور ہو گئے ہیں کہ اب یہ ماہر قانون باز بھی ہیں۔
مقننہ، عدلیہ، انتظامیہ کے تعلق سے تین مختصر خبریں بلاتبصرہ۔
مقننہ: جس رفتار سے عوام خط افلاس سے نیچے جا رہے ہیں، یہ اسی رفتار سے اپنی تنخواہیں اور مراعات میں اپنی خواہش کے مطابق اضافہ کر لیتے ہیں، بلکہ پرانی تاریخ سے دوسال کے بقایا جاتا بھی وصول کر لیتے ہیں۔
عدلیہ: ایوان عدل سے ایک احتجاجی صدا کی آواز بلند ہوئی تھی، کیا دو تہائی اکثریت سے چیف آف آرمی اسٹاف کو چیف جسٹس پاکستان اور چیف جسٹس پاکستان کو چیف آف آرمی اسٹاف بنانے کا بل پاس کر دیں تو اس پر عمل کریں؟
انتظامیہ: صوبہ بلوچستان میں بلدیات کے لیے مختص 1.5 بلین فنڈز محکمہ بلدیات کے بجائے سیکریٹری خزانہ کو دیے گئے۔ جب ان کے گھر پر نیب نے چھاپہ مارا درج ذیل دولت برآمد ہوئی۔ 65 کروڑ 8 لاکھ روپے،24 ہزار ڈالر، 15 ہزار پونڈ، 5 کروڑ کے بانڈز، جن کو ہنڈی کے ذریعے باہر بھیجنا تھا۔ نوٹ گننے کی مشین گرم ہو گئی۔ (ایکسپریس نیوز 7-8 مئی 2016)
ایک قدردان نے مجھ سے سوال کیا ''آپ کی نظر میں محب وطن پاکستانی کون ہے؟''
میں نے بے ساختہ جواب دیا ''جو اپنے ذمے واجب الادا ٹیکس پورا پورا ادا کرتا ہے۔''
''اس کے بعد...؟''
''بیرون ملک مقیم پاکستانی محنت کش جو اپنی خون پسینے کی کمائی اربوں ڈالرکا زرمبادلہ پاکستان کو ڈوبنے سے بچانے کے لیے بھیجتے ہیں۔''
''اس کے بعد...؟''
''وہ محصور پاکستانی جو اپنی دو نسلیں کیمپوں میں گاڑنے کے بعد بھی پاکستان کا پرچم تھامے ہوئے ہیں''
''اس کے بعد...؟''
''آپ اور میں۔''
''کیسے؟''
''ہم محب وطن پاکستانیوں کے چاہنے والے جو ہیں''
پہلے آف شور کمپنیوں کے تعلق سے سوالات کے جمعہ بازار کا ایک چکر۔
(1)۔ کیا وجہ ہے ہر بزرگوار پرکرپشن کے الزامات کی بارش ہو رہی ہے تو دوسری طرف پدران فرمانبردار کی آف شورکمپنیاں دن رات منی لانڈرنگ میں مصروف ہیں، سر کھجانے کی فرصت نہیں۔ (2)۔ اگرآف شور کمپنیاں قانوناً جائز ہیں تو پھر ان کو ناجائز اولاد کی طرح چھپایا کیوں جاتا ہے؟ (3)۔ بے شک اربوں ڈالر بجری کے ٹرک میں لوڈ ہو کر پانامہ نہیں جا سکتے لیکن سوال یہ ہے کہ اگر گئے نہیں تو آئے کیسے؟ (4)۔ جب پراپرٹی کا کاروبار چل رہا تھا تو آف شورکمپنیوں کی بھی ضرورت کیوں پیش آئی؟ کہیں معاملہ وہ تو نہیں ہے جیسا کہ میں سمجھ رہا ہوں۔ مثلاً ایک باپ نے اپنا ایک کروڑ ڈالرکا فلیٹ اپنے بیٹے کو گفٹ کر دیا۔
بیٹے نے وہ فلیٹ اپنے چھوٹے بھائی کو ایک کروڑ ڈالر میں بیچ دیا۔ چھوٹے بھائی نے اپنی پراپرٹی رہن رکھوا کر ایک کروڑ ڈالر کی ادائیگی کر دی۔ جس کو بڑے بھائی نے بطور وائٹ منی فیملی اکاؤنٹ میں جمع کروا دیا۔ اس کے بعد اپنے پاس رکھی بلیک منی میں سے ایک کروڑ ڈالر چھوٹے بھائی کو دے دیے۔ چھوٹے بھائی نے بینک کا قرضہ بمع سود واپس کر کے اپنی پراپرٹی کے کاغذات واپس لے لیے اور باپ کا گفٹ کیا ہوا فلیٹ واپس اپنے پدر بزرگوارکو گفٹ کر دیا، اگر یہ صحیح نہیں ہے تو حقیقت کیا ہے؟ کوئی بتائے تو سہی!
دراصل مستقبل قریب میں آف شورکمپنیاں ہی اپنے مالکان کے لیے آف شورکم بختیاں ثابت ہوں گی، کیونکہ ان کی موجودگی ہی اس بات کا ثبوت ہے کہ بلیک منی کی آمد کی رفتار اتنی تیز ہے کہ منی لانڈرنگ کے لیے گھر کی آف شورکمپنیاں ضروری نہیں۔ تا کہ گھرکی بات گھر میں رہے۔ ویسے بھی عوام ٹیکس چوروں کا تخمینہ یوں لگانے لگے ہیں۔
پہلا: کیوں بھئی! یہ اپنے حلقے کا رشوت خور، ٹیکس چور، بلیکی، کتنی آف شورکمپنیوں کے برابر کا کرپٹ ہو گا؟
دوسرا: کم از کم دو۔
پہلا: خدا کا خوف کرو یار! دو کے برابر تو اس وقت تھا جب وہ سوکھا وزیر تھا۔ اس وقت وہ پانچ آف شورکمپنیوں سے کم کرپٹ ہو ہی نہیں سکتا۔
مغربی معاشرہ تہذیب یافتہ تو ہے ہی لیکن مشرقی معیارکے مطابق اخلاق باختہ بھی ہے لیکنخود چاہے جتنے بھی اخلاق باختہ ہوں مگر اپنا حکمران وہ پوری سفاکی کے ساتھ دودھ کا دھلا چنتے ہیں۔ ان کے نزدیک حکمران کا سب سے زیادہ گھناؤنا اور ناقابل معافی جرم ''جھوٹ'' ہے جب کہ رشوت خور، ٹیکس چور ہو کہ سیب چور، بولتا ہی جھوٹ ہے۔ جھوٹ کے علاوہ کچھ نہیں بولتا مثلاً۔
ایک شخص سیب کے باغ میں گھسا، سیب توڑ کر انھیں جیب میں ڈال رہا تھا۔ مالی نے پکڑ کر باغ کے مالک کے روبرو پیش کر دیا۔ مالک نے سوال کیا ''تو باغ میں کیسے داخل ہوا؟'' سیب چور نے جواب دیا۔
''اس میں میراکوئی قصور نہیں۔ میں باغ کے سامنے سے گزر رہا تھا زورکی آندھی آئی اور مجھے اڑا کر باغ میں پھینک دیا'' باغ کے مالی نے اس کی جیبوں سے سیب نکال کر مالک کے آگے رکھ دیے، مالک نے پوچھا ''یہ کہاں سے آئے؟''
''سرکار! اس سوال پر تو میں خود نہ صرف حیران ہوں بلکہ پریشان ہوں کہ یہ سیب میری جیب میں کہاں سے آ گئے؟''
مغربی معاشرے نے قانون کے مطابق کرپشن کی سزا دینے کی ذمے داری عدالتوں پر چھوڑ دی ہے کیونکہ وہاں قانون کی حکمرانی ہے اور عدلیہ آزاد۔ لیکن کک بیک لینے والے جھوٹے حکمرانوں کو ان کے عہدے سے کک آؤٹ کرکے ان کوگھر تک پہنچانے کی ذمے داری عوام خود پوری کرتے ہیں۔ نتیجتاً وہاں عوامی شخصیات کی کوئی ذاتی زندگی نہیں ہوتی۔ عوام ان کے مستقبل کے فیصلے کرنے کا اختیار رکھتے ہیں۔پاکستان کا المیہ یہ ہے کہ جو قانون شکن ہیں وہی قانون ساز بھی ہیں۔ جمہوریت کے دیگر دو ستون عدلیہ اور انتظامیہ ان کی تابعدار ہے، کیونکہ ان کے سربراہوں کے ہائر اور فائر کے اختیارات بھی ان ہی کے پاس ہیں۔ 68 سالہ Status Quo کے تسلسل سے یہ اتنے طاقتور ہو گئے ہیں کہ اب یہ ماہر قانون باز بھی ہیں۔
مقننہ، عدلیہ، انتظامیہ کے تعلق سے تین مختصر خبریں بلاتبصرہ۔
مقننہ: جس رفتار سے عوام خط افلاس سے نیچے جا رہے ہیں، یہ اسی رفتار سے اپنی تنخواہیں اور مراعات میں اپنی خواہش کے مطابق اضافہ کر لیتے ہیں، بلکہ پرانی تاریخ سے دوسال کے بقایا جاتا بھی وصول کر لیتے ہیں۔
عدلیہ: ایوان عدل سے ایک احتجاجی صدا کی آواز بلند ہوئی تھی، کیا دو تہائی اکثریت سے چیف آف آرمی اسٹاف کو چیف جسٹس پاکستان اور چیف جسٹس پاکستان کو چیف آف آرمی اسٹاف بنانے کا بل پاس کر دیں تو اس پر عمل کریں؟
انتظامیہ: صوبہ بلوچستان میں بلدیات کے لیے مختص 1.5 بلین فنڈز محکمہ بلدیات کے بجائے سیکریٹری خزانہ کو دیے گئے۔ جب ان کے گھر پر نیب نے چھاپہ مارا درج ذیل دولت برآمد ہوئی۔ 65 کروڑ 8 لاکھ روپے،24 ہزار ڈالر، 15 ہزار پونڈ، 5 کروڑ کے بانڈز، جن کو ہنڈی کے ذریعے باہر بھیجنا تھا۔ نوٹ گننے کی مشین گرم ہو گئی۔ (ایکسپریس نیوز 7-8 مئی 2016)
ایک قدردان نے مجھ سے سوال کیا ''آپ کی نظر میں محب وطن پاکستانی کون ہے؟''
میں نے بے ساختہ جواب دیا ''جو اپنے ذمے واجب الادا ٹیکس پورا پورا ادا کرتا ہے۔''
''اس کے بعد...؟''
''بیرون ملک مقیم پاکستانی محنت کش جو اپنی خون پسینے کی کمائی اربوں ڈالرکا زرمبادلہ پاکستان کو ڈوبنے سے بچانے کے لیے بھیجتے ہیں۔''
''اس کے بعد...؟''
''وہ محصور پاکستانی جو اپنی دو نسلیں کیمپوں میں گاڑنے کے بعد بھی پاکستان کا پرچم تھامے ہوئے ہیں''
''اس کے بعد...؟''
''آپ اور میں۔''
''کیسے؟''
''ہم محب وطن پاکستانیوں کے چاہنے والے جو ہیں''