کہاں کی خود مختاری
یار دوست مجھ سے پوچھتے ہیں کہ پاکستان پر حملے ہورہے ہیں۔ وطن عزیز کے خلاف خفیہ جنگ چھیڑ دی گئی ہے
یار دوست مجھ سے پوچھتے ہیں کہ پاکستان پر حملے ہورہے ہیں۔ وطن عزیز کے خلاف خفیہ جنگ چھیڑ دی گئی ہے۔ دنیا جہان کا کوئی بھی ''مطلوب'' لیڈر یہاں بسانا، اس کی شخصیت سازی کرنا، اسے پاکستانی شہری بنانا اور ضرورت پڑنے پر اسے مروا دینا اب کوئی مسئلہ نہیں رہا۔ آسان سی بات ہے کوئی جہاں سے بھی گرفتار ہو لیکن اسے پاکستان میں لاکر شاید اس لیے مارا جاتا ہے کہ دنیا کو پتا ہے کہ یہاں جرات مند حکمران نہیں ہیں ۔ حضرت علامہ اقبالؒ نے ایک صدی قبل الرٹ کردیا تھا کہ
وطن کی فکر کر ناداں مصیبت آنے والی ہے
تیری بربادیوں کے مشورے ہیں آسمانوں میں
ذرا دیکھ اس کو جو کچھ ہو رہا ہے ہونے والا ہے
دھرا کیا ہے بھلا عہد کہن کی داستانوں میں
2مئی 2011ء کو ایبٹ آبا د میں امر یکی ہیلی کا پٹر اور فوجی گھس کر اسا مہ بن لا دن کے خلاف آپر یشن کر کے واپس افغا نستان چلے جا تے ہیں لیکن میثا ق جمہو ریت کا تا ج سر پر سجا ئے پاکستان کا وزیراعظم یوسف رضا گیلا نی اُسے فتح مبین قر ار دیتا ہے۔ ملک کا صد ر اسے دہشتگر دی کے خلاف جنگ کا عظیم شاہکا ر قرار دیتا ہے...!!!پھر کہاں کی خود مختاری رہ جاتی ہے؟ یہاں اگر ایک علاقے میں چوری ہو جائے تو ایس ایچ او معطل کر دیا جاتا ہے جب کہ اُسامہ ، ملا منصور، بیت اللہ محسود اور حکیم اﷲ محسود جیسی قیادت کے پاکستان میں ہونے پر کسی سے سوال نہیں کیا جاتا ؟
ما رچ 2016ء کے پہلے ہفتے میں انڈین را ء کا افسر کلبھو شن یاد و گر فتا ر ہو تا ہے ۔دنیا کی انٹیلی جنس وار کی تا ر یخ میںیہ پاکستان کے لیے انتہا ئی بڑی کا میا بی تھی۔ اِس ایک کامیابی کے ذریعے پاکستان پوری دنیا کے سامنے دہشتگرد ی کے حوالے سے اپنے چہر ے پر لگے کلنک کے ٹیکے کو اتا ر کر ہند وستا ن کے مکر وہ اور عیا ر چہر ے پر آویزاں کر سکتا تھا لیکن حکومت ؟21مئی 2016ء کو پاکستان کے صوبے بلو چستا ن کے ضلع نو شکی کے گا ؤںاحمد وال کے قریب ولی محمد کے نا م سے شنا ختی کا رڈ اور پا سپو رٹ رکھنے والے فر د کو ملا اختر منصو ر قر ار دے کر امر یکی ڈرون ہلا ک کر دیتے ہیں ۔
پاکستان کی فضائی حدود کی کھلے عام خلاف ورزی کی جاتی ہے۔ سب خاموش ہیں۔ پھر کہاں کی خود مختاری رہ جاتی ہے؟پتا نہیں یہاں کیا ہو رہا ہے؟ اور کیا ہونے والا ہے ؟ اس سے ذرا پیچھے چلیں تو مشرف نے افغان جنگ کے لیے خود امریکا کو اڈے فراہم کیے اور ڈرون حملوں کی اجازت فرمائی... یہ سلسلہ نیا نہیں بلکہ بہت پرانا ہے ، جنرل ایوب خان نے امریکا کو پاکستان میں اپنا پہلا خفیہ فوجی اڈہ قائم کرنے کی اجازت دی تھی۔
پشاور میں قائم اس فوجی اڈے کے ذریعے امریکی حکام حریف ملک سوویت یونین کی دفاعی تنصیبات کی خفیہ نگرانی کرتے تھے اور اس مقصد کے لیے مشہور امریکی یو ٹو طیارے استعمال ہوتے تھے۔اور یہی وجہ تھی کہ روس ہمارے برخلاف ہوگیا۔ حقیقت یہ ہے کہ جنرل ایوب سمیت پاکستان کے تمام حکمرانوں نے امریکا کی بالادستی کو قبول کیا ۔ ہمارے ملک کے سیاستدانوں کی مثال تو یوں ہے کہ جیسے کسی دانشور کا قول ہے کہ بے صلاحیت شخص سوکھی شاخ کی طرح ہے جسے حسد کی آگ آسانی سے پکڑتی ہے جب کہ با صلاحیت سرسبز شاخ کی طرح ہے جسے حسد کی آگ مشکل سے جلاتی ہے۔
اپنے ہر بیان کے لیے کور کمیٹی اور چیئرمین کے محتاج اپنا کوئی وژن نہیں، کنوئیں کے مینڈک سمندر کی وسعت کا تصور نہیں کرسکتے، ناک سے آگے دیکھنے کی صلاحیت نہیں۔ ہم احتجاج کریں بھی تو کس سے کریں اور سب سے بڑھ کر کون احتجاج کرے؟ وزیر خارجہ؟ ارے کہاں ہیں یہ صاحب ؟ کہیں نہیں ہیں۔ طارق فاطمی اور سرتاج عزیز جیسے بیوروکریٹ کیسے کسی دوسرے ملک کے سامنے آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کر سکتے ہیں؟ بندہ سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ یہ کیسیBanana Republic ہے جس میں جو کام وزارت خارجہ کو کرنا چاہیے وہ وزیرداخلہ کر رہے ہیں
۔ پاکستان کے وزیر خارجہ اس وقت میاں نواز شریف ہیں جن کے ہاتھ میں وزارت عظمیٰ بھی ہے۔سیاسی، صحافتی اور اہل دانش کے حلقوں میں یہ سوال کثرت سے اٹھایا جا رہا ہے کہ نوازشریف کو تیسری مرتبہ وزیراعظم بنے تین سال کا عرصہ گزر چکا ہے، انھوں نے وزیر خارجہ مقرر نہیں کیا۔ وزیر خارجہ کا عہدہ جناب وزیراعظم نے اپنے پاس رکھا ہوا ہے۔ وہ تمام امور کی براہ راست نگرانی کرتے ہیں، اگرچہ پارلیمانی نظام حکومت میں یہ عجوبے کی بات نہیں۔ پنڈت جواہر لعل نہرو بھارت کے بانی وزیراعظم تھے، اُس عہد کی عالمی سیاست میں انھیں اپنا کردار بہت مرغوب تھا۔ غیر جانبدار تحریک کے بانیوں میں سے تھے۔ وزیر خارجہ کا عہدہ اپنے پاس رکھا۔
ذوالفقار علی بھٹو نے 16 دسمبر 1971ء کے بعد اقتدار سنبھالا تو وزیر خارجہ کا عہدہ اپنی جیب میں رکھا۔ پانچ سالہ مدت کے غالباً آخری ڈیڑھ سال انھوں نے یہ منصب کسی ساتھی سیاستدان کے بجائے سابق سیکریٹری خارجہ عزیز احمد کے سپرد کیا لیکن نوازشریف؟ ان کے پہلے ادوار میں وزرائے خارجہ باقاعدہ مقرر کیے گئے۔ تیسرے میں کیوں نہیں۔ کیا میاں صاحب کی جملہ مصروفیات اور صحت اس بات کی اجازت دیتی ہے کہ وہ ہمہ وقت توجہ اور کامل یکسوئی کی متقاضی یہ وزارت اپنے پاس رکھیں۔ لہٰذا حالات اور ضرورت تقاضا کرتے ہیں کہ وہ اپنی مدت کے اگلے دو سال کے لیے باقاعدہ وزیر خارجہ مقرر کریں۔
امور خارجہ مکمل طور پر تو نہیں آدھے سے زیادہ ان ریاستی عناصر کے پاس ہیں جنہوں نے اسٹرٹیجک امور کی طنابیں اپنی گرفت میں لے رکھی ہیں۔ بھارت کے ساتھ معاملات میں منتخب حکومت اور اس کے قائد کے پاس پیش قدمی (INITIATIVE) کا کوئی اختیار عملاً باقی نہیں ہے۔ افغانستان کا مسئلہ مسلسل درد سر بلکہ یوں کہیے کہ قوم کے لیے درد جگر کا باعث بنا ہوا ہے۔ اس کی بنا پر ہم پر ڈرون حملے ہوتے ہیں۔ امریکا ملک افغاناں میں اپنی تمام تر ناکامیوں کا الزام ہمارے سر باندھتا ہے۔
ان حالات میں جب نواز شریف پہلے ہی دل کے مریض بن چکے ہیں، اس لیے ہمارے وطن کے صاحبان دانش و بصیرت، پالیسی امور پرگہری نگاہ رکھنے والے ماہرین اور آزاد و بیباک صحافت کے نامی و گرامی علمبردار جہاں درست طور پر ضرورت محسوس کرتے ہیں کہ ملک کا باقاعدہ اور ہمہ وقتی وزیر خارجہ ہونا چاہیے، اگر ہم نے اپنی خود مختاری کو قائم رکھنا ہے تو قومی لیڈرز کو بولڈ فیصلے کرنا ہوں گے۔ ورنہ کہاں کی خودمختاری اور کہاں کے ہم پاکستانی!!!
وطن کی فکر کر ناداں مصیبت آنے والی ہے
تیری بربادیوں کے مشورے ہیں آسمانوں میں
ذرا دیکھ اس کو جو کچھ ہو رہا ہے ہونے والا ہے
دھرا کیا ہے بھلا عہد کہن کی داستانوں میں
2مئی 2011ء کو ایبٹ آبا د میں امر یکی ہیلی کا پٹر اور فوجی گھس کر اسا مہ بن لا دن کے خلاف آپر یشن کر کے واپس افغا نستان چلے جا تے ہیں لیکن میثا ق جمہو ریت کا تا ج سر پر سجا ئے پاکستان کا وزیراعظم یوسف رضا گیلا نی اُسے فتح مبین قر ار دیتا ہے۔ ملک کا صد ر اسے دہشتگر دی کے خلاف جنگ کا عظیم شاہکا ر قرار دیتا ہے...!!!پھر کہاں کی خود مختاری رہ جاتی ہے؟ یہاں اگر ایک علاقے میں چوری ہو جائے تو ایس ایچ او معطل کر دیا جاتا ہے جب کہ اُسامہ ، ملا منصور، بیت اللہ محسود اور حکیم اﷲ محسود جیسی قیادت کے پاکستان میں ہونے پر کسی سے سوال نہیں کیا جاتا ؟
ما رچ 2016ء کے پہلے ہفتے میں انڈین را ء کا افسر کلبھو شن یاد و گر فتا ر ہو تا ہے ۔دنیا کی انٹیلی جنس وار کی تا ر یخ میںیہ پاکستان کے لیے انتہا ئی بڑی کا میا بی تھی۔ اِس ایک کامیابی کے ذریعے پاکستان پوری دنیا کے سامنے دہشتگرد ی کے حوالے سے اپنے چہر ے پر لگے کلنک کے ٹیکے کو اتا ر کر ہند وستا ن کے مکر وہ اور عیا ر چہر ے پر آویزاں کر سکتا تھا لیکن حکومت ؟21مئی 2016ء کو پاکستان کے صوبے بلو چستا ن کے ضلع نو شکی کے گا ؤںاحمد وال کے قریب ولی محمد کے نا م سے شنا ختی کا رڈ اور پا سپو رٹ رکھنے والے فر د کو ملا اختر منصو ر قر ار دے کر امر یکی ڈرون ہلا ک کر دیتے ہیں ۔
پاکستان کی فضائی حدود کی کھلے عام خلاف ورزی کی جاتی ہے۔ سب خاموش ہیں۔ پھر کہاں کی خود مختاری رہ جاتی ہے؟پتا نہیں یہاں کیا ہو رہا ہے؟ اور کیا ہونے والا ہے ؟ اس سے ذرا پیچھے چلیں تو مشرف نے افغان جنگ کے لیے خود امریکا کو اڈے فراہم کیے اور ڈرون حملوں کی اجازت فرمائی... یہ سلسلہ نیا نہیں بلکہ بہت پرانا ہے ، جنرل ایوب خان نے امریکا کو پاکستان میں اپنا پہلا خفیہ فوجی اڈہ قائم کرنے کی اجازت دی تھی۔
پشاور میں قائم اس فوجی اڈے کے ذریعے امریکی حکام حریف ملک سوویت یونین کی دفاعی تنصیبات کی خفیہ نگرانی کرتے تھے اور اس مقصد کے لیے مشہور امریکی یو ٹو طیارے استعمال ہوتے تھے۔اور یہی وجہ تھی کہ روس ہمارے برخلاف ہوگیا۔ حقیقت یہ ہے کہ جنرل ایوب سمیت پاکستان کے تمام حکمرانوں نے امریکا کی بالادستی کو قبول کیا ۔ ہمارے ملک کے سیاستدانوں کی مثال تو یوں ہے کہ جیسے کسی دانشور کا قول ہے کہ بے صلاحیت شخص سوکھی شاخ کی طرح ہے جسے حسد کی آگ آسانی سے پکڑتی ہے جب کہ با صلاحیت سرسبز شاخ کی طرح ہے جسے حسد کی آگ مشکل سے جلاتی ہے۔
اپنے ہر بیان کے لیے کور کمیٹی اور چیئرمین کے محتاج اپنا کوئی وژن نہیں، کنوئیں کے مینڈک سمندر کی وسعت کا تصور نہیں کرسکتے، ناک سے آگے دیکھنے کی صلاحیت نہیں۔ ہم احتجاج کریں بھی تو کس سے کریں اور سب سے بڑھ کر کون احتجاج کرے؟ وزیر خارجہ؟ ارے کہاں ہیں یہ صاحب ؟ کہیں نہیں ہیں۔ طارق فاطمی اور سرتاج عزیز جیسے بیوروکریٹ کیسے کسی دوسرے ملک کے سامنے آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کر سکتے ہیں؟ بندہ سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ یہ کیسیBanana Republic ہے جس میں جو کام وزارت خارجہ کو کرنا چاہیے وہ وزیرداخلہ کر رہے ہیں
۔ پاکستان کے وزیر خارجہ اس وقت میاں نواز شریف ہیں جن کے ہاتھ میں وزارت عظمیٰ بھی ہے۔سیاسی، صحافتی اور اہل دانش کے حلقوں میں یہ سوال کثرت سے اٹھایا جا رہا ہے کہ نوازشریف کو تیسری مرتبہ وزیراعظم بنے تین سال کا عرصہ گزر چکا ہے، انھوں نے وزیر خارجہ مقرر نہیں کیا۔ وزیر خارجہ کا عہدہ جناب وزیراعظم نے اپنے پاس رکھا ہوا ہے۔ وہ تمام امور کی براہ راست نگرانی کرتے ہیں، اگرچہ پارلیمانی نظام حکومت میں یہ عجوبے کی بات نہیں۔ پنڈت جواہر لعل نہرو بھارت کے بانی وزیراعظم تھے، اُس عہد کی عالمی سیاست میں انھیں اپنا کردار بہت مرغوب تھا۔ غیر جانبدار تحریک کے بانیوں میں سے تھے۔ وزیر خارجہ کا عہدہ اپنے پاس رکھا۔
ذوالفقار علی بھٹو نے 16 دسمبر 1971ء کے بعد اقتدار سنبھالا تو وزیر خارجہ کا عہدہ اپنی جیب میں رکھا۔ پانچ سالہ مدت کے غالباً آخری ڈیڑھ سال انھوں نے یہ منصب کسی ساتھی سیاستدان کے بجائے سابق سیکریٹری خارجہ عزیز احمد کے سپرد کیا لیکن نوازشریف؟ ان کے پہلے ادوار میں وزرائے خارجہ باقاعدہ مقرر کیے گئے۔ تیسرے میں کیوں نہیں۔ کیا میاں صاحب کی جملہ مصروفیات اور صحت اس بات کی اجازت دیتی ہے کہ وہ ہمہ وقت توجہ اور کامل یکسوئی کی متقاضی یہ وزارت اپنے پاس رکھیں۔ لہٰذا حالات اور ضرورت تقاضا کرتے ہیں کہ وہ اپنی مدت کے اگلے دو سال کے لیے باقاعدہ وزیر خارجہ مقرر کریں۔
امور خارجہ مکمل طور پر تو نہیں آدھے سے زیادہ ان ریاستی عناصر کے پاس ہیں جنہوں نے اسٹرٹیجک امور کی طنابیں اپنی گرفت میں لے رکھی ہیں۔ بھارت کے ساتھ معاملات میں منتخب حکومت اور اس کے قائد کے پاس پیش قدمی (INITIATIVE) کا کوئی اختیار عملاً باقی نہیں ہے۔ افغانستان کا مسئلہ مسلسل درد سر بلکہ یوں کہیے کہ قوم کے لیے درد جگر کا باعث بنا ہوا ہے۔ اس کی بنا پر ہم پر ڈرون حملے ہوتے ہیں۔ امریکا ملک افغاناں میں اپنی تمام تر ناکامیوں کا الزام ہمارے سر باندھتا ہے۔
ان حالات میں جب نواز شریف پہلے ہی دل کے مریض بن چکے ہیں، اس لیے ہمارے وطن کے صاحبان دانش و بصیرت، پالیسی امور پرگہری نگاہ رکھنے والے ماہرین اور آزاد و بیباک صحافت کے نامی و گرامی علمبردار جہاں درست طور پر ضرورت محسوس کرتے ہیں کہ ملک کا باقاعدہ اور ہمہ وقتی وزیر خارجہ ہونا چاہیے، اگر ہم نے اپنی خود مختاری کو قائم رکھنا ہے تو قومی لیڈرز کو بولڈ فیصلے کرنا ہوں گے۔ ورنہ کہاں کی خودمختاری اور کہاں کے ہم پاکستانی!!!