ہم کیسی سیاسی قیادت کے متمنی ہیں

پاکستانی قوم ایک بڑے عرصے سے بظاہر کسی ایسی سیاسی قیادت کی تلاش میں سرگرداں ہے


Dr Mansoor Norani June 01, 2016
[email protected]

ISLAMABAD: پاکستانی قوم ایک بڑے عرصے سے بظاہر کسی ایسی سیاسی قیادت کی تلاش میں سرگرداں ہے، جو صرف صالح، ایماندار اور صاف ستھری ہی نہ ہو بلکہ قوم کو آگے لے جانے والی بے شمار ہمہ گیر خصوصیات سے بھی مالا مال ہو۔

جو نہ خود کرپٹ ہو بلکہ اپنے ارد گرد بھی کسی چور اور لٹیرے کو پھٹکنے نہ دے، جو قائدانہ صلاحیتوں میں دنیا کے اُن بڑے لیڈروں کی مانند ہو جنہوں نے بہت ہی کم عرصے میں اپنے ملک و اپنی قوم کو ترقی یافتہ قوموں کی صف میں لا کھڑا کیا۔ ہمارے سامنے سنگاپور، ملائشیا، رونڈا اور چائنا کی مثالیں موجود ہیں، جنھیں کبھی ناکام ریاستوں کے نام سے یاد کیا جاتا تھا اور جو پسماندگی اور زوال کی انتہائی حدوں کو چھو رہی تھیں، لیکن جب اُنہیں صحیح وژنری قیادت نصیب ہو گئی تو وہ عروج کی بلندیوں کو چھونے لگیں۔ سنگاپور کے 'لی کو آن یو، ملائشیا کے 'مہاتیر محمد اور چائنا کے' ماؤزے تنگ' نے بہت ہی کم عرصے میں اپنی ذہانت اور دانش کی بدولت اپنے ملک و قوم کو تاریکی سے نکال کر عروج و کمال کے مرتبے پر فائز کر دیا۔ وہ قوم جو کچھ سال پہلے کاسہ لیسی کی ذلت و رسوائی والی زندگی گزار رہی تھی دیکھتے ہی دیکھتے دنیا کی دس کامیاب اور مستحکم معیشت میں شمار ہونے لگی۔

ہماری قوم کو بھی کسی ایسے ہی صاحبِ فکر و دانش رہنما کی تلاش ہے، لیکن عملاً جب اُنہیں منتخب کرنے کا انتخابی موقعہ میسر آتا ہے تو ہم صرف اُن ہی لوگوں کو اپنا رہنما مقرر کرتے ہیں جو نمود و نمائش کے اعتبار سے جاذبِ نظر اور پُرکشش دکھائی دیتے ہوں، جنہوں نے چور بازاری اور دھوکا دہی سے خوب مال جمع کیا ہو۔ جنہوں نے قومی خزانے سے دولت سمیٹ کر قوم کی امانت میں خیانت کی ہو اور پھر اِن ہی پیسوں سے بڑے بڑے جلسے جلوس منعقد کر کے انتخابی مہم چلائی ہو۔

ہم اُن کی شان و شوکت دیکھ کر اُن سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتے اور پھر اُنہیں خود پر حکمرانی کا اختیار تفویض کر بیٹھتے ہیں۔ ہم گزشتہ 69 برسوں سے ایک مستحکم سیاسی نظام اور ترقی و خوشحالی کی آرزو لیے ہر اُس شخص سے توقع اور اُمید لگائے بیٹھتے ہیں جو ہمیں اپنی چرب زبانی سے کھلی آنکھوں کے خواب دکھاتا رہے۔ ہماری پوری تاریخ اِن ہی دم توڑتی حسرتوں اور آرزوؤں کا المیہ اور تشنہ تعبیر رہ جانے والے سپنوں کا نوحہ بن چکی ہے۔ کرپٹ مافیا اور بدعنوان سیاسی رہنماؤں کے احتساب کی خواہش میں کبھی باوردی رہنما کی آمد پر حلوے اور مٹھائیاں تقسیم کرتے ہیں تو کبھی اُسی ڈکٹیٹر کے خلاف سڑکوں اور چوراہوں پر مظاہرے کر کے جمہوریت کی حمایت میں اپنی زخمی انا کی تسکین کر رہے ہوتے ہیں۔

کبھی قومی وسائل کی لوٹ مار کرنے والوں کو عبرتناک سزا دینے کا مطالبہ کر تے ہیں تو کبھی اِنہی لوگوں کو اپنا رہبر و رہنما مان کر اُن کی رہائی کے لیے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر رہے ہوتے ہیں۔ ہم آج کل بھی ایسی ہی کشمکش سے دوچار ہیں۔ کبھی باوردی جنرل کو اپنا نجات دہندہ سمجھ کر اُسے جمہوری نظام کو تلپٹ کر دینے پر اُکسا رہے ہوتے ہیں تو کبھی کسی پرکشش طلسماتی اور سحر انگیز شخصیت کو اپنا مسیحا سمجھ کر اُس سے انقلابی تبدیلیوں کی آس و اُمید لگا رہے ہوتے ہیں۔ ہمیں یہ فیصلہ کرنا ہو گا کہ ہم اپنے لیے کیسی قیادت کے متمنی ہیں۔

ہم ظاہری جاہ و جلال اور شان و شوکت اور حسن و خوبصورتی کے عاشق اور دلدادہ ہیں یا حقیقی معنوں میں کسی باکردار اور باصلاحیت شخص کی رہبری کے لیے سرگرداں ہیں۔ ہمیں صرف وہی رہنما اچھا لگتا ہے جو روزانہ کی بنیاد پر ہمیں اپنی تقاریر اور بیانوں سے سبز باغ دکھاتا رہے یا پھر واقعی ایسا لیڈر چاہتے ہیں جو ترقی و خوشحالی کا حقیقی وژن لیے اولوالعزم اور بلند جہتی فکر کا حامل شخص ہو۔ جو اعلیٰ و ارفع صلاحیتوں کا بھی مالک ہو۔ جس کے ارد گرد ڈیرہ جمائے لوگوں میں بھی کوئی بے کردار اور بے ایمان شخص نہ ہو۔

جس کے سینے میں اِس ملک و قوم کا حقیقی درد بھرا ہوا ہو۔ جو اِس قوم کو پستی اور زوال کے دلدل سے نکال کر آسمان کی بلندیوں تک پہنچانے کی عزم اور ولولہ رکھتا ہو۔ جس کے دامن میں علم، سیرت و کردار اور خیر کا سرمایہ ہو۔ جو مصلحت کوشی اور مصالحت پسندی جیسے عوامل سے مبرا ہو۔ جو عالمی سامراجیت اور استعماری قوتوںکی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کر سکے۔

جو اُن کی چیرہ دستیوں اور سازشوں کے آگے بند باندھ سکے جو اِس قوم کو ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کی کاسہ لیسی اور غلامی سے نجات دلا سکے، جو ہمارے اپنے وسائل اور معدنی ذخائر کے بل بوتے پر ملک و قوم کو ترقی و خوشحالی کی راہ پر گامزن کر سکے۔ خود کفالت اور خود انحصاری کی منزلوں کو پا سکے۔ جو دنیا کے افق پر پاکستان کا درست اور صحیح تشخص اُجاگر کر سکے۔ اُس کے تحفظ اور سالمیت کا ضامن بن سکے۔ جو بلاوجہ کی الزام تراشی اور بے مقصد محاذ آرائی میں الجھ کر اپنی توانائیاں ضایع نہ کرتا پھرے، بلکہ یکسو اور یک ذہن ہو کر روشن خیالی اور دور اندیشی سے ملکی مسائل کا حل اورعلاج تلاش کرے۔

لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ہمارے موجودہ سیاسی منظر نامے میں کوئی بھی سیاست داں ایسا ہے جس کے گودے میں کرپشن کے زہر نہ اُترا ہو۔ وہ خود اگر کسی بڑے مالی اسکینڈل میں ملوث نہیں ہے تو کیا وہ اپنے ساتھیوں کی مبینہ کرپشن سے باخبر نہیں ہے۔ کیا اُسے نہیں معلوم کہ جو لوگ اُس کے جلسے جلوسوں کے تمام اخراجات اُٹھا رہے ہیں اُنہوں نے یہ ساری کمائی دیانتداری سے حاصل کی ہے اور کیا وہ اُن کی ناجائز سرپرستی، حمایت اور وکالت نہیں کر رہا۔ اور جو لوگ آج اُس پر بے حساب پیسہ خرچ کر رہے ہیں کل اقتدار مل جانے پر بمع سود واپس وصول نہیں کریں گے۔

جھوٹ، بے ایمانی، منافقت، ضمیر فروشی اور طوطا چشمی ہمارے سیاسی طبقے کی شناخت اور پہچان بن چکی ہے۔ ہم من حیث القوم احساسِ زیاں اور احساسِ ذمے داری سے بے نیاز ہو کر اجتماعی خودسوزی اور خودکشی میں مصروف ہو چکے ہیں۔ ہمیں دیانتدار اور ایماندار لوگ اچھے ضرور لگتے ہیں لیکن خود اپنے لیے ہمیں شرافت اور ایمانداری اچھی نہیں لگتی۔ ہمیں یہ نہیں معلوم کہ ہمارے لیے کون سا رہنما درست اور مفید رہے گا۔ صالح، نیک اور ایماندار یا چالاک، مکار اور عیار شخص۔ اگر ہمارا پیمانہ صرف نیکی اور ایمانداری ہوتا ہے تو پھر ہمارے لیے شاید ستار ایدھی سے بہتر کوئی اور شخص ہو ہی نہیں سکتا تھا، لیکن کیا ہماری قوم اُس جیسے کسی سیدھے سادے نیک او ر صالح شخص کو اسلام آباد کی ایوانوں میں مسند نشیں دیکھنا چاہے گی۔

نہیں ہرگز نہیں، اگر ایسا ہوتا تو ہماری مذہبی اور اسلامی جماعتیں انتخابی معرکوں میں یوں ناکام و نامراد نہیں قرار پاتیں۔ ہم مجموعی طور پر آج بھی شخصیت پرستی کے سحر میں گرفتار ہیں۔ ہمیں سیدھے سادے اور معصوم لوگ بیوقوف اور احمق دکھائی دیتے ہیں۔ جہاں دیدہ، سمجھدار اور صاحبِ بصیرت لوگ ہمیں ایک آنکھ نہیں بھاتے۔ جھوٹ، مکرو فریب اور ضمیر فروشی ہماری قومی شناخت بن چکی ہے۔ اور ہم اِس ماحول سے باہر بھی نکلنا نہیں چاہتے۔ ہماری ذاتی حماقتوں اور اجتماعی غلط کاریوں نے ہمارے معاشرے کو ایسا بانجھ بنا ڈالا ہے جہاں بڑے بڑے چور اور ڈاکو تو پیدا ہو سکتے ہیں لیکن کوئی مہاتیر محمد پیدا نہیں ہو سکتا اور اگر ہو بھی جائے تو وہ حکمران نہیں بن سکتا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں