میگا سٹی اور مسائل

گو کہ دنیا بھر میں ایسے بہت سے میگا سٹی ہیں، جن میں جدید سہولیات بھی عوام کو فراہم کی گئی ہیں،


Dr Naveed Iqbal Ansari June 01, 2016
[email protected]

ISLAMABAD: یہ کالم کراچی جیسے میگا سٹی کے مسائل کے حوالے سے ہے، امید ہے کہ وہ قارئین جن کا تعلق کسی بھی طرح سے شہری انتظامیہ سے بنتا ہے وہ ان گزارشات پر سنجیدگی سے غور کریں گے۔

گو کہ دنیا بھر میں ایسے بہت سے میگا سٹی ہیں، جن میں جدید سہولیات بھی عوام کو فراہم کی گئی ہیں، تاہم پاکستان سمیت دنیا میں جتنے بھی شہروں کی آبادی تیزی سے بڑھی ان کے مسائل میں بھی تیزی کے ساتھ اضافہ ہوا ہے۔ ان مسائل میں سر فہرست صحت، مناسب رہائش اور آلودگی کے علاوہ زمین کا تنگ ہونا ہے۔ کراچی شہر پر نظر ڈالیں تو ایک اچھی بات یہ نظرآتی ہے کہ یہاں زمین کی تنگی نہیں ہے۔

یعنی یہ شہرآبادی کے بڑھتے دباؤکے باعث پھیلنے کی صلاحیت رکھتا ہے جو اسے دنیا کے دیگر میگاسٹی سے ممتازکرتی ہے اور یہ خوبی کراچی کے باسیوں کے لیے خدا کی ایک بہت بڑی نعمت ہے کیونکہ جن شہروں میں یہ خوبی نہیں ہے، وہاں آبادی میں اضافے پر کثیر منزلہ عمارتیں بنا کر رہائش کی سہولیات تو لوگوں کو فراہم کر دی گئیں لیکن آبادی میں اضافے کے ساتھ شہرکے رقبے میں اضافہ ممکن نہ تھا، چنانچہ ایسے شہروں میں رہنے کے لیے کھلی اور بڑی رہائش کے بجائے چھوٹے اور تنگ یونٹ بننے لگے، لوگوں کے چلنے اور پارکنگ کے لیے جگہوں کی کمی پڑ گئی ٹریفک کے لیے سڑکیں کم پڑ گئیں اور نتیجے میں آلودگی بہت بڑھ گئی۔

غور کیا جائے تو یہ کچھ کراچی شہر میں بھی ہو رہا ہے، ایسا کیوں ہے؟ وجہ اس کی صاف ہے کہ یہ شہر آبادی کے بڑھنے پر پھیل تو رہا ہے مگر شہر کے وسط یا پرانے علاقوں میں بھی آبادی میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے اور جدید سہولیات بھی ان ہی علاقوں میں دی جا رہی ہیں، چنانچہ کراچی شہر کے نئے آباد ہونے والے علاقوں سے بھی شہریوں کی اکثریت مختلف وجوہات کی بنا پر مجبوراً شہر کے وسط میں ہی روزانہ سفرکرتی ہے کیونکہ علاج معالجے، خریداری وغیرہ کی سہولیات یہیں موجود ہیں۔ یوں لوگ روزانہ گلشن، نارتھ کراچی، لیاقت آباد اور صدر تا ٹاور کا سفر کرتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ صبح سے لے کر رات گئے تک اس پورے شہر میں چلتا ٹریفک ایسا منظر پیش کرتا ہے جیسے سڑکوں پرگاڑیوں کا سیلاب آ گیا ہو۔ لیکن شہر میں بڑے بڑے فلائی اوور اور کشادہ پل بننے کے باوجود شدید قسم کا ٹریفک جام بھی ہونے لگا ہے۔

ضیاء الحق کے وقت میں لیاری ندی کا پانی اس قدر شفاف ہوتا تھا کہ بچے یہاں سے چھوٹی چھوٹی رنگین مچھلیاں پکڑتے تھے، آج بدبو کے باعث اس ندی کے قریب سے گزرنا بھی محال ہے۔ اس شہر کے کل کے اور آج کے مسائل بالکل مختلف ہیں میگا سٹی بننے پر اس کے مسائل بھی میگا مسائل بن چکے ہیں۔ اس شہر میں (1) پانی، بجلی، آلودگی، صحت، تجاوزات اور تفریحی مقامات کی کمی جیسے مسائل اس قدر گھمبیر شکل اختیارکر چکے ہیں کہ انھیں حل کرنے کے لیے ایک بڑی منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔ ان سب سے جڑا ہوا ایک اہم ترین مسئلہ شہری اداروں کی ناقص کارکردگی اور اس شہر کے مسائل کے حل کے لیے مناسب فنڈز کی فراہمی کا نہ ہونا ہے۔ ترقیاتی فنڈز کی کمی اپنی جگہ سہی مگر شہر میں جگہ جگہ کچرے کو آگ لگا کر آلودگی پیدا کرنا، اس شہر کے لوگوں کو ہیٹ اسٹروک، سانس اور دیگر بیماریوں کی طرف دکھیلنا ہے۔

2) شہر کے گنجان اور مصروف علاقوں میں بلڈرز اپنے زیادہ منافعے کے لیے ہزار، ہزار گز کے پلاٹوں پر کثیرالمنزلہ عمارتیں بنا کر فروخت کر رہے ہیں، جن میں کار پارکنگ کی جگہ بھی نہیں ہوتی۔ نکاسی آب اور پینے کے پانی کی کمی جیسے مسائل جنم لے چکے ہیں۔ اب شہرکے گنجان علاقوں میں بورنگ کا پانی بھی دستیاب نہیں، جن علاقوں میں تیس فٹ کی گہرائی پر پانی نکل آتا تھا، اب ڈیڑھ دو سوگز پر بھی مشکل سے پانی ملتا ہے، عوام کی مشکلات میں مزید اضافہ ہو جاتا ہے۔

3) شہریوں کے لیے ٹرانسپورٹ کی سہولت گزشتہ کئی دہائیوں سے خراب ترین بلکہ نہ ہونے کے برابر ہیں، لوکل ٹرین کا منصوبہ مخالف مافیا شروع ہونے نہیں دیتی، اب نواز شریف کی جانب سے اورنج بس منصوبہ سامنے آیا ہے تاہم اگر اس میں میڈیا کے ذریعے شہریوں کی رائے لے لی جاتی تو زیادہ بہتر تھا۔ بہرکیف اس منصوبے سے فی الوقت نارتھ کراچی اور ناظم آباد والی سڑک کے ساتھ ایک بڑی چوڑی اور طویل گرین بیلٹ تھی جس کا سبزہ ماحول کو تازہ رکھتا تھا اس گرین بیلٹ کو عین اس وقت کاٹ کر ختم کر دیا گیا جب شہر میں پہلے ہی ہیٹ اسٹروک کا خطرہ ظاہر کیا جا رہا تھا اور پھر اس کو ٹھکانے لگانے کے لیے کچھ دنوں بعد اس میں آگ لگا دی گئی اور متبادل سبزہ لگانے کا کوئی بندوست نہیں کیا گیا۔

4) اسی طرح اس شہر کے چھوٹے چھوٹے پارک، کھیل کے میدان بھی ختم کر کے کمرشل بنیادوں پر عمارتیں تیزی سے بنائی جا رہی ہیں، جس سے کھیل کے میدان اور تفریح کے لیے پارکوں کی تعداد تقریباً ختم ہو چکی ہے۔ شہریوں کو کوئی تقریب کرنی ہو تو قریب میں کوئی خالی میدان بھی نہیں ملتا اور وہ مجبوراً سڑکوں کو بند کر کے تقریب کرتے ہیں۔

ان تمام مسائل کا ممکنہ حل کیا ہے؟ یہاں کچھ تجاویز دی جا رہی ہیں جن پر غور کر کے مسائل کو کافی حد تک حل کرنے میں مدد حاصل کی جا سکتی ہے۔

1۔ شہرکے پرانے، وسطی اور گنجان علاقوں میں کثیر المنزلہ عمارتوں کی اجازت نہ دی جائے، جن کو پہلے اجازت مل چکی ہے ان کو پابند کیا جائے کہ وہ اپنا گراؤنڈ فلور صرف پارکنگ کے لیے مختص کریں۔ ان علاقوں کے گلی محلوں میں اور چوری چھپے جو پانی کے فلٹر پلانٹ لگائے گئے ہیں وہ بند کرائے جائیں تا کہ گھروں میں کی ہوئی بورنگ میں بھی پانی آئے اور پانی کی سطح زمین میں مزید نیچے نہ جائے۔ ٹینکرمافیا جڑ سے ختم کیا جائے بلکہ یہ نظام ہی ختم کر دیا جائے تو بہتر کیونکہ عوام کا ہی پانی یہ مافیا ٹینکر کے ذریعے عوام کو فروخت کرتی ہے۔

2 ۔ شہر سے تمام اقسام کی تجاوزات کا خاتمہ مستقل بنیادوں پر کیا جائے، رہائشی یونٹس کے ایسے نقشے پاس نہ کیے جائیں کہ جن میں ہوا اور روشنی کا رخ یا گزر نہ ہو۔

ِ 3۔ شہر میں جو خالی پلاٹ یا میدان ہیں ان پر عمارتوں کی تعمیر ممنوع قرار دی جائے تا کہ شہر کا ماحول کھل کھلا رہے۔ مزید تعمیرات کے لیے بلند و بالا عمارتوں کے بجائے وسیع رقبے پرآبادی کو پھیلنے دیا جائے۔

4۔ آلودگی کم کرنے کے لیے میڈیا کے ذریعے لوگوں میں شعور پیدا کیا جائے اور انھیں درخت لگانے کی ترغیب دی جائے، ہر سرکاری ادارے اور بلڈرزکو پابند کیا جائے کہ وہ اپنی عمارت کے چاروں اطراف درخت لگائے۔ ائیرکنڈیشنڈ ماحول کی حوصلہ شکنی کی جائے کہ اس کے استعمال سے آلودگی اور گرمی بہت زیادہ پھیلتی ہے، اس سلسلے میں شادی ہال اب مکمل اے سی کیے جا رہے ہیں، ان پر پابندی عائدکی جائے اور سرسبز لان والے شادی ہال کے ٹیکس میں کمی کی جائے۔ نیز ایک اور چھوٹا مگر اہم مسئلہ پارکنگ فیس کا ہے، درحقیقت یہ پارکنگ فیس 'غنڈا' ٹیکس ہی کی ایک شکل ہے کیونکہ فٹ پاتھ تو پیدل چلنے والی عوام کا حق ہے مگر اس پرکار پارکنگ بنا کر فیس لینا عوام کے ساتھ کھلی بدمعاشی ہے، یہ سلسلہ ختم ہونا چاہیے۔

امید ہے کہ متعلقہ افراد، محکمے اور باشعور لوگ ان تجاویز پر سنجیدگی سے غورکریں گے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔