قوم کو بحران سے نکالنے کا حل
یہ تو ایک Layout ہوتا ہے کہ اس کمیشن کو ان حدود میں رہ کرکام کرنا ہے
پانامہ لیکس کا قضیہ ابھی حل طلب ہے، حکومت اور اپوزیشن کے درمیان کمیشن کے ٹی او آر بنانے پر اختلافات کے باعث معاملہ ''ڈیڈلاک'' کا شکار ہو چکا ہے، تقریبا ایک ماہ قبل حکومت نے جو خط اس معاملے پرکمیشن بنانے کے لیے لکھا تھا اس کا جو جواب سپریم کورٹ کی جانب سے آیا وہ غیر متوقع نہیں تھا کیونکہ تھوڑی بہت قانون اورآئین کی سوجھ بوجھ رکھنے والا عام آدمی بھی جانتا ہے کہ کوئی کمیشن بھی بغیر ٹی او آر کے قائم نہیں کیا جاتا اور ٹی او آر بنانا عدلیہ کا کام نہیں ہوتا۔
یہ تو ایک Layout ہوتا ہے کہ اس کمیشن کو ان حدود میں رہ کرکام کرنا ہے اور جمہوری نظام میں ٹی او آر کو غیر متنازعہ رکھنے کے لیے حزب اختلاف سے مل کر بنایا جاتا ہے یہ سب باتیں حکومت کو معلوم تھیں صرف وقتی طور پر ایک آئی بلا کو ٹالنے کے لیے حکومت نے خط لکھ دیا تھا۔ وزیراعظم کا نام جب پاناما کی آف شور کمپنیوں میں نہیں تھا، توانھیں قوم سے خطاب کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ اس سے بہتر یہ ہوتا کہ وہ پارلیمنٹ آ کر اپنی اولاد کے کاروبارکی وضاحت کر دیتے تو شاید اپوزیشن میں جو جمہوریت نواز ہیں وہ ان کی کچھ معاونت کر سکتے مگر وزیراعظم کو ایک بار پھر غلط مشورہ دیا گیا، پہلے تو وہ پارلیمنٹ میں آنے سے اجتناب برتتے رہے، پھر جب متحدہ اپوزیشن کے دباؤ پر قومی اسمبلی میں آئے اور اپنی کہانی بیان کر کے چل دیے ۔
کیا حکمرانوں کو یہ نظر نہیں آ رہا ہے کہ اپوزیشن میں ایک جماعت ایسی ہے جو انھیں کئی برسوں سے ہٹانے کی کوشش میں لگی ہوئی ہے، چاہے جمہوریت ڈی ریل ہو جب کہ دوسری جماعت کی مجبوری یہ ہے کہ وہ ڈرتی ہے کہ اگر وزیراعظم نواز شریف ہٹ گئے تواس کے بعد کا جو منظرنامہ ہو گا وہ صرف احتساب کی بات کرے گا، وہ بھی ہر ایک کا۔ اسی لیے جس پارٹی کے سربراہ آصف علی زرداری ہیں وہ میاں صاحب سے ڈیل کرنا چاہتے ہیں، جب کہ پی پی پی کے چیئرمین بلاول بھٹو وزیراعظم سے استعفیٰ کا مطالبہ کر رہے ہیں، یہ سیاست پی پی پی کے ابھرتے سورج کوگرہن لگا دے گی۔
اس بات کا ایک تازہ ثبوت پشاور پی پی8 کا حالیہ ضمنی انتخاب ہے، جو پی پی پی جیت سکتی تھی مگر واضح سیاسی پالیسی نہ ہونے کی وجہ سے بہت ہی کم مارجن سے ہار گئی، پی پی پی مفاہمت کی پالیسی پر اب بھی گامزن رہنا چاہتی ہے، حالانکہ اس مفاہمت ہی نے پی پی پی کا صفایا پنجاب میں کیا اور سندھ کے شہروں میں بھی۔ کیا اتنی گراس روٹ رکھنے والی اچھی عوامی جماعت جس کی بنیاد وفاق پر ستی اور جمہوریت کی آبیاری پر ہو وہ اب تک یہ بات نہیں سمجھ سکی کہ پنجاب میں جرات مند سیاست عوام کو متاثر کرتی ہے۔ ذوالفقارعلی بھٹو نے پنجاب میں بہت بڑے جلسہ عام میں کہا تھا کہ ''کشمیرکے لیے ہزار سال جنگ کرنا پڑی تو کریں گے'' ۔ ''گھاس کھائیں گے مگر ایٹم بم بنائیں گے''۔ صرف ان نعروں نے ذوالفقارعلی بھٹو کو پنجاب میں وہ شہرت دی جس کی مثال نہیں ملتی۔
یہ وقت کسی کو بچانے کا نہیں ہے۔ موجودہ وزیراعظم کو وقتی طور پر اپنے منصب سے علیحدہ ہو کراپنے الزامات کی صفائی پیش کرنی چاہیے۔ یہی جمہوری طریقہ ہے۔ اس بات میں کوئی دو رائے نہیں کہ وزیراعظم میاں نواز شریف نے خود کہا ہے کہ ان کے خاندان نے 1937ء سے کاروبار شروع کیا تھا اور 1972ء میں ہم سے سب کچھ چھین لیا گیا، پھر ہم نے محنت کی اور اپنے معاشی حالات بہتر کیے۔ تو کم سے کم یہ تو بتا دیں کہ 1972ء سے 1985ء تک ان کا سرمایہ جائیداد کتنی تھی، کتنا ٹیکس دیتے تھے پھر 1985ء سے لے کر 1999ء تک یہ مال و زرکتنا ہوا، کیسے ہوا اور پھر 1999ء سے 2007ء تک کتنا تھا کیونکہ اس کے بعد تو میاں نواز شریف نے اپنے اہل خانہ میں سارا مال و زر تقسیم کر کے یہ سمجھا کہ اب ان کے نام کوئی کاروبار نہیں تو وہ اب بری الذمہ ہیں۔ حالانکہ ایسا نہیں ہے کوئی کبھی اپنی ماضی سے جدا نہیں ہو سکتا۔ اس لیے اب وقت آ گیا ہے کہ احتساب ضرور ہو، جس کا آغاز حکمرانوں سے شروع ہو اور ہر ایک تک پہنچے۔ احتساب جمہوریت اور اداروں کے استحکام کی کلید ہے، اس سے صرف نظر کرنے کی بڑی بھیانک سزا قوم و ملک کو ملے گی، اس کا سیاست دان جلد ادراک کریں ۔
موجودہ اپوزیشن کو بھی ایک عوام دوست پالیسی بنانا ہو گی ورنہ خدا نخواستہ جمہوریت خطرے میں آ سکتی ہے، اس کی ذمے داری صرف اورصرف تمام سیاست دانوں پر ہو گی، جو حالات کو بند گلی میں لے جا رہے ہیں، کیونکہ پاکستان پر 16000 ارب کا قرضہ چڑھ چکا ہے۔ مہنگائی بیروزگاری، بجلی و گیس کی قلت نے عام آدمی کی زندگی اجیرن کر دی ہے۔ کوئی ریاست خلق خدا کو عزابوں کی نذر کر کے اپنی بقا کا سامان نہیں کر سکتی۔ ملک کو خطرات اور ان دیکھے طوفانوں نے گھیر رکھا ہے۔
وقت کا تقاضہ ہے کہ نیب اور ایف آئی اے اور تمام حساس ادارے مل کر صرف اور صرف قوم اور ملک کو بچائیں، عوام یہ توقع رکھتے ہیں، آیندہ کا جو منظرنامہ تبدیل ہو، اس میں عوام کی فلاح کے انتظامات ہو، پہلے شہروں کا انفرا اسٹکچر، وہاں کی ٹرانسپورٹ، بجلی اور گیس۔ پانی کی فراہمی اور بیروزگاری کے معاملات پر توجہ دی جائے پھر ایک شہری حکومت کا قیام عمل میں لایا جائے جو 2000ء میں تھا جو اس وقت کے جنرل تنویر نقوی نے تشکیل دیا تھا اور پارلیمانی نظام کے بدلے صدارتی نظام لایا جائے اور صرف سینیٹ کے ذریعے جمہوری نظام کو آگے بڑھایا جائے، مختصر سی وفاقی اور صوبائی کابینہ ہو جو ماہرین پر مشتمل ہواور دہشتگردوں اور کرپشن کرنے والوں پر مقدمات بنا کر انھیں انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے۔ اسی میں ہماری بقا اور سلامتی کا راز مضمر ہے، ہمیں علاقائی اور لسانی فرقہ وارانہ سیاست کو ختم کر کے صرف اور صرف قومی سیاست کرنے کا اختیار ہو۔
یہ تو ایک Layout ہوتا ہے کہ اس کمیشن کو ان حدود میں رہ کرکام کرنا ہے اور جمہوری نظام میں ٹی او آر کو غیر متنازعہ رکھنے کے لیے حزب اختلاف سے مل کر بنایا جاتا ہے یہ سب باتیں حکومت کو معلوم تھیں صرف وقتی طور پر ایک آئی بلا کو ٹالنے کے لیے حکومت نے خط لکھ دیا تھا۔ وزیراعظم کا نام جب پاناما کی آف شور کمپنیوں میں نہیں تھا، توانھیں قوم سے خطاب کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ اس سے بہتر یہ ہوتا کہ وہ پارلیمنٹ آ کر اپنی اولاد کے کاروبارکی وضاحت کر دیتے تو شاید اپوزیشن میں جو جمہوریت نواز ہیں وہ ان کی کچھ معاونت کر سکتے مگر وزیراعظم کو ایک بار پھر غلط مشورہ دیا گیا، پہلے تو وہ پارلیمنٹ میں آنے سے اجتناب برتتے رہے، پھر جب متحدہ اپوزیشن کے دباؤ پر قومی اسمبلی میں آئے اور اپنی کہانی بیان کر کے چل دیے ۔
کیا حکمرانوں کو یہ نظر نہیں آ رہا ہے کہ اپوزیشن میں ایک جماعت ایسی ہے جو انھیں کئی برسوں سے ہٹانے کی کوشش میں لگی ہوئی ہے، چاہے جمہوریت ڈی ریل ہو جب کہ دوسری جماعت کی مجبوری یہ ہے کہ وہ ڈرتی ہے کہ اگر وزیراعظم نواز شریف ہٹ گئے تواس کے بعد کا جو منظرنامہ ہو گا وہ صرف احتساب کی بات کرے گا، وہ بھی ہر ایک کا۔ اسی لیے جس پارٹی کے سربراہ آصف علی زرداری ہیں وہ میاں صاحب سے ڈیل کرنا چاہتے ہیں، جب کہ پی پی پی کے چیئرمین بلاول بھٹو وزیراعظم سے استعفیٰ کا مطالبہ کر رہے ہیں، یہ سیاست پی پی پی کے ابھرتے سورج کوگرہن لگا دے گی۔
اس بات کا ایک تازہ ثبوت پشاور پی پی8 کا حالیہ ضمنی انتخاب ہے، جو پی پی پی جیت سکتی تھی مگر واضح سیاسی پالیسی نہ ہونے کی وجہ سے بہت ہی کم مارجن سے ہار گئی، پی پی پی مفاہمت کی پالیسی پر اب بھی گامزن رہنا چاہتی ہے، حالانکہ اس مفاہمت ہی نے پی پی پی کا صفایا پنجاب میں کیا اور سندھ کے شہروں میں بھی۔ کیا اتنی گراس روٹ رکھنے والی اچھی عوامی جماعت جس کی بنیاد وفاق پر ستی اور جمہوریت کی آبیاری پر ہو وہ اب تک یہ بات نہیں سمجھ سکی کہ پنجاب میں جرات مند سیاست عوام کو متاثر کرتی ہے۔ ذوالفقارعلی بھٹو نے پنجاب میں بہت بڑے جلسہ عام میں کہا تھا کہ ''کشمیرکے لیے ہزار سال جنگ کرنا پڑی تو کریں گے'' ۔ ''گھاس کھائیں گے مگر ایٹم بم بنائیں گے''۔ صرف ان نعروں نے ذوالفقارعلی بھٹو کو پنجاب میں وہ شہرت دی جس کی مثال نہیں ملتی۔
یہ وقت کسی کو بچانے کا نہیں ہے۔ موجودہ وزیراعظم کو وقتی طور پر اپنے منصب سے علیحدہ ہو کراپنے الزامات کی صفائی پیش کرنی چاہیے۔ یہی جمہوری طریقہ ہے۔ اس بات میں کوئی دو رائے نہیں کہ وزیراعظم میاں نواز شریف نے خود کہا ہے کہ ان کے خاندان نے 1937ء سے کاروبار شروع کیا تھا اور 1972ء میں ہم سے سب کچھ چھین لیا گیا، پھر ہم نے محنت کی اور اپنے معاشی حالات بہتر کیے۔ تو کم سے کم یہ تو بتا دیں کہ 1972ء سے 1985ء تک ان کا سرمایہ جائیداد کتنی تھی، کتنا ٹیکس دیتے تھے پھر 1985ء سے لے کر 1999ء تک یہ مال و زرکتنا ہوا، کیسے ہوا اور پھر 1999ء سے 2007ء تک کتنا تھا کیونکہ اس کے بعد تو میاں نواز شریف نے اپنے اہل خانہ میں سارا مال و زر تقسیم کر کے یہ سمجھا کہ اب ان کے نام کوئی کاروبار نہیں تو وہ اب بری الذمہ ہیں۔ حالانکہ ایسا نہیں ہے کوئی کبھی اپنی ماضی سے جدا نہیں ہو سکتا۔ اس لیے اب وقت آ گیا ہے کہ احتساب ضرور ہو، جس کا آغاز حکمرانوں سے شروع ہو اور ہر ایک تک پہنچے۔ احتساب جمہوریت اور اداروں کے استحکام کی کلید ہے، اس سے صرف نظر کرنے کی بڑی بھیانک سزا قوم و ملک کو ملے گی، اس کا سیاست دان جلد ادراک کریں ۔
موجودہ اپوزیشن کو بھی ایک عوام دوست پالیسی بنانا ہو گی ورنہ خدا نخواستہ جمہوریت خطرے میں آ سکتی ہے، اس کی ذمے داری صرف اورصرف تمام سیاست دانوں پر ہو گی، جو حالات کو بند گلی میں لے جا رہے ہیں، کیونکہ پاکستان پر 16000 ارب کا قرضہ چڑھ چکا ہے۔ مہنگائی بیروزگاری، بجلی و گیس کی قلت نے عام آدمی کی زندگی اجیرن کر دی ہے۔ کوئی ریاست خلق خدا کو عزابوں کی نذر کر کے اپنی بقا کا سامان نہیں کر سکتی۔ ملک کو خطرات اور ان دیکھے طوفانوں نے گھیر رکھا ہے۔
وقت کا تقاضہ ہے کہ نیب اور ایف آئی اے اور تمام حساس ادارے مل کر صرف اور صرف قوم اور ملک کو بچائیں، عوام یہ توقع رکھتے ہیں، آیندہ کا جو منظرنامہ تبدیل ہو، اس میں عوام کی فلاح کے انتظامات ہو، پہلے شہروں کا انفرا اسٹکچر، وہاں کی ٹرانسپورٹ، بجلی اور گیس۔ پانی کی فراہمی اور بیروزگاری کے معاملات پر توجہ دی جائے پھر ایک شہری حکومت کا قیام عمل میں لایا جائے جو 2000ء میں تھا جو اس وقت کے جنرل تنویر نقوی نے تشکیل دیا تھا اور پارلیمانی نظام کے بدلے صدارتی نظام لایا جائے اور صرف سینیٹ کے ذریعے جمہوری نظام کو آگے بڑھایا جائے، مختصر سی وفاقی اور صوبائی کابینہ ہو جو ماہرین پر مشتمل ہواور دہشتگردوں اور کرپشن کرنے والوں پر مقدمات بنا کر انھیں انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے۔ اسی میں ہماری بقا اور سلامتی کا راز مضمر ہے، ہمیں علاقائی اور لسانی فرقہ وارانہ سیاست کو ختم کر کے صرف اور صرف قومی سیاست کرنے کا اختیار ہو۔