کچھ اور کیا ہو گا
قیاس آرائی کرنے والے لوگ یہ نہیں بتاتے کہ رٹ تو اب دائر ہوئی ہے جبکہ سازشی تھیوری تو کئی ماہ سے چل رہی ہے۔
نواز شریف پراعتماد ہیں کہ الیکشن ملتوی نہیں ہو سکتے۔
ان کا زیادہ زور اس بات پر ہے کہ دھاندلی نہیں ہونی چاہیے۔ لیکن کچھ اور حلقے سرگرم ہیں جن کو ''امید'' ہے کہ الیکشن نہیں، کچھ اور ہونے والا ہے۔ گویا ایک اور سازشی تھیوری ان دنوں ''پک'' رہی ہے۔ اس تھیوری کاذکرخاصے عرصے سے کیا جارہا ہے لیکن کچھ ہفتوں سے اس کی ''مقبولیت'' عروج پر پہنچنے لگی ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ کئی عوامل ایسے پیدا ہو گئے ہیں جن کی بنا پر فوج پردے میں رہ کر یا فرنٹ فٹ پر آ کر ذمے داریوں کا تعین کرے گی۔
سرفہرست یہ ہے کہ فوج عدالت میں دائر ہونے والی اُس پٹیشن پر جس میں آرمی چیف جنرل کیانی کی مدت ملازمت میں توسیع کو چیلنج کیا گیا ہے، بہت برہم ہے اور کچھ نہ کچھ کر ڈالے گی۔ قیاس آرائی کرنے والے لوگ یہ نہیں بتاتے کہ رٹ تو اب دائر ہوئی ہے جبکہ سازشی تھیوری تو کئی ماہ سے چل رہی ہے۔ اس تھیوری کی تفصیلات کے مطابق ''فہرستیں'' بھی بن چکی ہیں۔ گویا فہرستیں اُس زمانے میں بھی بن گئی تھیں جب مذکورہ رٹ کا کہیں دور دور تک پتہ تک نہیں تھا۔
''باخبر لوگوں'' کے مطابق مذکورہ لسٹیں کرپٹ عہدیداروں اور سیاستدانوں کی ہیں جن کے احتساب کے لیے عبوری حکومت بنے گی۔ دیگر عوامل میں کراچی کی بدامنی بھی شامل ہے جو قابو میں نہیں آ رہی۔ بدامنی کی حالیہ لہر کوئی نئی تو نہیں ہے۔ سوال یہ ہے کہ جو بدامنی ساڑھے چار سال تک عبوری حکومت کے ''عوامل'' میں شامل نہیں ہو سکی، اب وہ اچانک کیسے عوامل میں داخل ہو گئی؟ بہرحال سازشی تھیوری کے تھنک ٹینک یہ بتانا پسند نہیں کرتے کہ یہ رٹ دائر نہ ہوتی اور کراچی کی صورتحال بھی پرسکون ہوتی تو پھر عبوری حکومت کے عوامل میں کیا کچھ داخل کیا جاتا؟
کراچی کی صورتحال واقعی تشویش ناک ہے۔ نواز شریف نے اس مطالبے کی تائید کی ہے جو ان سے پہلے کئی سیاستدان کر چکے ہیں کہ کراچی میں تمام جماعتوں کے عسکری ونگز ختم کیے جائیں۔ کراچی میں ہر سیاسی اور مذہبی جماعت کا عسکری ونگ ہے، چاہے وہ متحدہ ہو یا پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم حقیقی ہو یا اے این پی، سنی تحریک ہو یا اہلسنت والجماعت۔ عسکری ونگز ختم کرنے کا فیصلہ ہوا تو سیدھی سی بات ہے جس جماعت کا جتنا حجم ہے اور جتنا پھیلائو ہے، وہ اس فیصلے سے اتنی ہی متاثر ہو گی، نتیجتاً سیاسی بحران بھی پیدا ہو جائے گا۔
یہ بات معنی خیز ہے کہ سینیٹ نے اے این پی کی وہ قرار داد منظور کر لی جس میں کراچی کو اسلحہ سے پاک کرنے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ متحدہ نے اس قرارداد کی مخالفت کی اور کہا کہ صرف کراچی نہیں پورے ملک کو اسلحہ سے پاک کیا جائے کیونکہ صرف کراچی کو اسلحہ سے پاک کیا گیا تو باقی ملک سے 6 ماہ کے اندر اندر اسلحہ پھر کراچی آ جائے گا۔گزشتہ روز قومی اسمبلی نے پورے ملک کو اسلحہ سے پاک کرنے کی قرارداد منظور کر کے متحدہ کو مطمئن کر دیا ہے۔
پورے ملک کو اسلحہ سے پاک کرنا پہاڑ جیسا کام ہے اور عبوری حکومت بننے سے پہلے تو بالکل نہیں ہو سکتا چنانچہ زیادہ خیال یہی ہے کہ اول تو یہ کام ہو گا ہی نہیں اور اگر ہوا تو صرف کراچی میں ہو گا کیونکہ حالیہ صورت حال کا محور کراچی ہی ہے۔ اگلا سوال یہ ہے کہ آپریشن سب کے خلاف یکساں ہو گا یا اس میں سیاسی و سیکیورٹی مصلحتوں کے تقاضے محفوظ رکھے جائیں گے۔ ہمارے ملک میں کسی معمولی چوری یا ڈکیتی کیخلاف آپریشن بھی کبھی منصفانہ نہیں ہو سکا۔ اتنے بڑے آپریشن کے منصفانہ ہونے کی ضمانت کون دے گا۔
متحدہ اچھی طرح یہ بات جانتی ہے کہ مشرف کے سارے دور میں جتنے بھی''منصفانہ'' آپریشن ہوئے وہ سارے جانبدارانہ تھے۔ پیپلز پارٹی کے حالیہ دور حکومت میں بھی اب تک اگر کوئی ایکشن ہوا ہے تو متحدہ کی ناراضگی مول نہیں لی گئی۔ اب اگر کوئی وسیع آپریشن ہوتا ہے تو کون جانے کسے زیادہ شکایت ہو گی۔ آپریشن کے خیال کی تائید کا دائرہ پھیل رہا ہے اور ایک نئی صورتحال پیدا ہو رہی ہے۔ اس صورتحال کی کوکھ سے عبوری حکومت کو درکار ایک یا ایک سے زیادہ مؤثر عوامل بھی جنم لے سکتے ہیں۔
عدلیہ نے جنرل کیانی کے خلاف رٹ سماعت کیلیے منظورکر لی ہے۔ یہ بات واقعی سنگین ہے لیکن سوال یہ ہے کہ اس صورتحال میں عدلیہ کو کیا کرنا چاہیے تھا؟ اگر وہ رٹ کو سماعت سے پہلے ہی مسترد کر دیتی تو سازشی تھیوری والوں نے عدلیہ پر چڑھ دوڑنا تھا کہ سیاستدانوں کے خلاف تو فوراً حرکت میں آتی ہے لیکن فوج کا معاملہ آیا تو سننے کی زحمت بھی نہیں کی۔ بہرحال اگر رٹ دائر کرنے والوں کا مؤقف غلط ہے تو عدالت نے ابھی اُس کے صحیح ہونے کی سند تو نہیں دی، صرف سماعت کیلیے منظور کیا ہے۔
رٹ غلط ہے یا صحیح اس کا فیصلہ سماعت کے بعد ہی ہو گا۔ ایک ٹھوس رائے یہ سامنے آئی ہے کہ اصولی پالیسی ہر جگہ نہیں چلانی چاہیے۔ حکمت اور دانشمندی کا تقاضا یہ ہے کہ ایسے نازک معاملے کو نہ چھیڑا جائے جس کے نتیجے میں جمہوریت اور سول حکومت کی بساط ہی لپیٹ دی جائے۔ یہ رائے واقعی حکمت پر مبنی ہے۔ گویا دانشمندی کا تقاضا ہے کہ
لوٹ پیچھے کی طرف اے گردش ایام تو
عدلیہ ایک سے زیادہ بار نظریہ ضرورت سپردخاک کر چکی ہے۔ اس سارے معاملے کا خلاصہ یہ ہے کہ عدلیہ نے ایک ایسی رٹ سماعت کیلیے منظور کر لی ہے جس نے بڑے قومی اداروں کو بندگلی میں لاکھڑا کیا ہے۔ واپسی کا راستہ تلاش کرنا ہر فریق کیلیے مشکل ہو گا۔ پارلیمنٹ تو بے چاری پہلے ہی بیک بنچر تھی، اب مزید کونے میں ہو چکی ہے۔ مختلف فریقوں کی لڑائی میں اصولی طو ر جیت اُس کی ہونی چاہیے جس کے پاس طاقت کا سرچشمہ ہے۔
براہ کرم اس ''لطیفے'' کو مت یاد کیجیے جس میں پیغام دیا گیا تھا کہ طاقت کا سرچشمہ عوام ہے۔
آج کل کے زمانے میں کسی بھی وقت کچھ نہ کچھ ہوسکتا ہے۔ جب گوربا چوف کے خلاف ریڈ آرمی نے بغاوت کی اور اسے معزول کرنے کے بعد لینن اسکوائر کی طرف مارچ شروع کیا تو مجھ جیسے سارے لوگوں کا خیال تھا کہ بس کوئی دم جاتا ہے، گوربا چوف کی لاش کسی چوک میں لٹکی نظر آئے گی اور ساتھ ہی بورس یلسن بھی کہیں لٹکے ہوئے ہوں گے جو گوربا چوف کے حق میں بڑی ریلی کر رہے تھے لیکن کچھ ہی گھنٹوں بعد اطلاع ملی کہ گوربا چوف بحال ہو گئے ہیں، مصر میں کتنی آسانی سے سویلین رول قائم ہو گیا اور ترکی میں سول رول نے کس طرح اپنی رٹ بنائی۔
بہرحال تم بھی سچ کہتے ہو اور غلط وہ بھی نہیں کے مصداق ان کی بات میں بھی وزن ہے جو یہ کہہ رہے ہیں کہ عدلیہ نجات دہندہ بن چکی ہے اور ناقابل تسخیر ہے اور وہ بھی غلط نہیں جن کا خیال ہے کہ عدلیہ اپنی طاقت کا اندازہ لگانے میں غلطی کر رہی ہے اور اس غلطی کا خمیازہ جمہوری نظام کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔ اب غلطی عدلیہ نے کی یا کسی اور فریق نے لیکن عبوری حکومت کا مبینہ نقشہ تو کسی کی غلطی سے کئی ماہ پہلے ہی بن چکا تھا، آج وقت کا اہم سوال یہ ہے کہ الیکشن ہوںگے یا کچھ اور ہو گا؟ کچھ اور ہوا توکیا ہو گا؟شاید مزید کچھ اور۔۔۔۔