گھروں کو روشن کیجیے

ویسے تو آج کل اخباری مضامین اور پھر کالم پڑھنا بڑا دل گردے کا کام ہے،


Saad Ulllah Jaan Baraq June 02, 2016
[email protected]

ویسے تو آج کل اخباری مضامین اور پھر کالم پڑھنا بڑا دل گردے کا کام ہے، دل گردے تو کیا پھیپھڑے، تلی، جگر سب کے سب لوہے کے یا پتھر کے ہوں تو دو چار پر منہ مار دے گا لیکن ایک تو اخبار اتنے ہو گئے کہ دس بیس آدمی مل کر بھی ان سب اخباروں کو گن نہیں پائیں گے اور پھر جب سے پورے پاکستان کی پوری آبادی کو ''شیخ سعدی'' فلو ہوا ہے تب سے تو ہر کوئی

مگر لکھوائے کوئی ان کو خط تو ہم سے لکھوائے
ہوئی صبح اور گھر سے کان پر رکھ کر قلم نکلے

لیکن اس مضمون یا کالم یا جو کچھ بھی تھا کیوں کہ آج کل یہ سارے ایک جیسے ہی لگتے ہیں اس پر ہماری نگاہ اس لیے ٹھہر گئی کہ ایک تو اس میں ''روشنی' کا نہایت ہل للچاؤ لفظ تھا خاص طور پر تاریکی عرف لوڈ شیڈنگ کی ھمہ گیری کے اس دور میں روشنی کا لفظ ایسا لگتا ہے جیسے کوؤں کے جھنڈ میں کوئی جگنو چمکتا ہوا نظر آئے اور پھر صرف روشنی ہی نہیں ایک اور لفظ ''گھر'' بھی اس میں تھا اور گھر کے ساتھ روشنی کا تصور ایسا ہے جیسے بیابان میں بہار آجائے ؎

ہے خیال حسن میں حسن عمل کا سا خیال
خلد کا ایک در ہے میرے گور کے اندر کھلا

تمام تذکرہ نگاروں اور مورخین کا اس پر اتفاق ہے کہ رحمن بابا لگ بھگ تین سو سال پہلے گزرے ہیں جب اورنگزیب کا سنہرا دور ختم ہوا تھا اور شاہ عالم کا ''روپہلا'' دور شروع ہوا تھا تو پھر آخر انھوں نے تین سو سال پہلے پشاور کا ٹھیک ٹھیک موجودہ نقشہ کیسے کھینچا، اس سے دو باتیں ممکن ہو سکتی ہے کہ شاید یہ پشاور کے بارے میں اتنا مبنی برحقیقت تبصرہ ... بعد میں بلکہ آج کل کے کسی شاعر کا کام ہے کہ اس نے اپنے جلے دل کے پھپھولے رحمن بابا کی آڑ میں پھوڑے ہوں گے اور کسی کو کچھ دے دلا کر اس شعر کو رحمن بابا کے دیوان میں انٹر کر دیا لیکن اس خیال کی تردید کے لیے یہ خیال خود ہی کافی ہے کیوں کہ اتنا زبردست بے مثل اور حقیقت افروز شعر کوئی کسی اور کے نام کیوں کرے گا، یہ تو ایسا ہے جیسے کوئی نہایت ہی قیمتی ہیرا اپنی جیب سے نکال کر چپکے سے کسی اور کی جیب میں ڈال دے، ہاں البتہ یہ خیال دل کو لگتا ہے کہ پرانے زمانے کے بزرگ شاعر صرف شاعر ہی نہیں بلکہ روشن ضمیر اور مستقبل بین بھی ہوا کرتے تھے جیسے غالب نے اپنا دیوان پاکستان میں بیٹھ کر وضع کیا ہو، اب رحمن بابا کا وہ شعر پڑھیے ؎

پہ سبب د ظالمانو حاکمانو
کور او گور او پیخور دریواڑہ یو دی

یعنی ظالم حاکموں یا محکموں کے سبب آج گھر، گور اور پشاور تینوں ایک جیسے ہیں اب اس شعر پر تبصرہ کرنے کے لیے کسی ٹی وی اینکر یا اقوام متحدہ کے کسی مبصر کا ہونا تو ضروری نہیں ہے جو کوئی بھی گھر، گور اور پشاور سے واقف ہو وہی سب سے بڑا مبصر ہے۔ اب اس مضمون کی بات کرتے ہیں جس میں گھر اور روشنی کا ذکر تھا بلکہ چلیے پورا عنوان ہی آپ کی نذر ہے جو کچھ یوں تھا اپنے گھر کو تعلیم کی روشنی سے منور کیجیے یا اپنے گھر کا اندھیرا تعلیم کی روشنی سے دور کر دیجیے یا تعلیم کی روشنی سے اپنے گھر کو جگ لگایئے۔

پہلے تو عنوان پڑھ کر ہمیں ہلکا سا شبہ یہ ہوا کہ شاید یہ کوئی محکماتی اشتراک عمل یا جوائنٹ وپنچر یا بین المحکماتی پراجیکٹ ہو کیوں کہ اکثر دیکھنے میں آیا ہے کہ اگر کوئی محکمہ کسی کام کو اکیلے اکیلے ''برباد'' کرنے میں کامیاب نہیں ہوتا تو کسی دوسرے محکمے کو ساتھ ملا کر اس کام کا تیاپانچہ کر دیتا ہے مثلاً ہم نے اکثر دیکھا ہے کہ جب محکمے اپنے تمام تر لائق افسروں اور اہل کاروں کے باوجود اپنے فنڈز کو ٹھکانے لگانے میں کامیاب نہیں ہو پاتے تو وہ کسی دوسرے محکمے کو جسے بھی فنڈز کا مسئلہ ہوتا ہے اپنے ساتھ ملا کر کچھ سیمیناروں، کانفرنسوں اور ورکشاپوں یا دوروں کا اہتمام کر دیتے ہیں ۔

جس میں بڑے بڑے اسکالروں، دانشوروں اور ماہرین کو کسی بڑے ہوٹل میں جمع کر کے بلی کے گلے میں گھنٹی ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن بلی بڑی چالاک ہوتی ہے خود تو نکل جاتی ہے اور گھنٹی ان محکموں کے گلے میں ڈال دیتی ہے بلکہ بہت زیادہ اندر کے آدمیوں کا کہنا ہے کہ بلی کو خود ہی پیش کر کے بھگا دیتے ہیں کیوں کہ اگر بلی ہی نہ رہے تو آیندہ کے لیے گھنٹی بنانے اور ڈالنے کا تو سلسلہ ہی ختم ہو جائے گا اور بجٹ یا فنڈ سرپلس ہو کر ہاتھ سے نکل جائے گا، ایسے سیمیناروں،کانفرنسوں اور ورکشاپوں میں ایک تیر سے کئی کئی شکار کیے جاتے ہیں سب سے بڑا شکار یعنی فنڈز اور بجٹ وغیرہ تو ایسا گھائل ہو جاتا ہے کہ تالو میں گھنگرو بولنے لگتا ہے۔

افسران کے اہل خانہ اور یار دوستوں کو ''باجوڑ'' دیکھنے کا موقع مل جاتا ہے، اب لگے ہاتھوں یہ باجوڑ کا قصہ بھی سن لیجیے۔ ایک شخص نے باجوڑ میں نمک کی مانگ کا سن کر آٹھ دس گدھے بار کر لیے لیکن باجوڑ پہنچے تو دوسروں نے بھی ایسا سنا تھا اس لیے نمک کا کوئی خریدار ہی نہیں تھا چنانچہ اس شخص نے نمک کو باجوڑیوں میں مفت تقسیم کیا اور خود واپس آگیا۔

کوئی پوچھتا کہ بھئی باجوڑ کا ٹرپ کیسے رہا تو جواب دیتا، اچھا تھا باجوڑیوں نے نمک کھایا اور گدھوں نے باجوڑ دیکھ لیا، خیر قصہ اس مضمون کا تھا مجبوراً پڑھنا پڑھا کہ شاید واپڈا نے محکمہ تعلیم کے تعاون سے گھروں کو روشن کرنے کا کوئی منصوبہ لانچ کیا ہو، جہاں تک تعلیم کی روشنی کے بارے میں بات ہے تو وہ تو ہم ہمیشہ سے سنتے بھی آئے ہیں کہ تعلیم سے دماغ روشن ہو جاتا ہے اور دیکھ بھی رہے ہیں کہ محکمہ تعلیم کے تعاون سے آج کل گلی گلی کوچے کوچے میں روشنی کے گرڈ اسٹیشن کھلے ہوئے ہیں لیکن یہاں دماغ کی نہیں بلکہ گھر کو روشن کرنے کی بات ہو رہی تھی اس لیے گور جسے گھروں میں رہنے والوں کا للچانا عین فطری تھا لیکن مضمون کے اندر اتر گئے تو بات ہی دوسری نکلی یہ کسی بلب یا ٹیوب سے گھر کو روشن کرنے کا سلسلہ نہیں تھا بلکہ ''تعلیم یافتہ'' بیوی سے گھر کو روشن کرنے کی بات تھی۔

جہاں تک تعلیم اور تعلیم کی روشنی کا تعلق ہے خاص طور پر خواتین یا تعلیم نسواں کا معاملہ ہے تو ہم اس پر کچھ بھی ''روشنی'' نہیں ڈال سکتے کیوں کہ اتنی ڈھیر ساری ''روشنی'' پر روشنی ڈالنے کے لیے کم از کم اتنی روشنی کی ضرورت پڑے گی جتنی واپڈا کے پاس بھی نہیں ہے البتہ سنا ہے آسمان میں جب بادل گرجتے ہیں اور بجلی چمکتی ہے تو وہ لاکھوں کروڑوں والٹ کی ہوتی ہے لیکن ایک تو وہ ہمارے بس میں نہیں ہے اور دوسرے اس میں بھی بہت سارے خطرے ہیں، البتہ جن جن گھروں میں تعلیم کی روشنیاں بیاہ کر آئی ہیں ان میں سے اکثر کے بارے میں ہم جانتے ہیں کہ ''بے چارے شوہر'' ... خیر چھوڑیئے مرے ہوئے لوگوں کے بارے میں کیا بات کرنا ... کہ اکثر تو اس روشنی کا کرنٹ لگنے سے انتقال پرملال ہو چکا ہے لیکن بے چارے بدستور خود کو زندہ سمجھے ہوئے ہیں کیوں کہ شہید مر کر بھی زندہ رہتے ہیں، لیکن گھروں میں بیاہ کر آنے والی روشنیوں پر ہمیں ایک بہت ہی پرانی امتیابھ بچن کی فلم یاد آئی جس میں بیویوں کی درجہ بندی کی گئی تھی جن میں علاوہ دوسری کیٹگریوں کے ایک کیٹگری ''گوری'' یعنی روشن بیوی کی بھی تھی کہ

جس کی بیوی گوری اس کا بھی بڑا نام ہے
کمرے میں لگا دو بجلی کا کیا کام ہے

ویسے کسی چیز کا تذکرہ ہو تو اس کے مقابل کا بھی خیال آجاتا ہے حالانکہ اس گانے میں کالی بیوی کا استعمال نہایت ہی مفید کام کے لیے بتایا گیا تھا لیکن ہم سوچ رہے ہیں کہ روشن یعنی تعلیم یافتہ بیوی سے اگر واقعی گھر میں روشنی آسکتی ہے تو یہ بڑے کمال کی بات ہو گئی ہے، بجلی کا سارا مسئلہ ہی حل ہو گیا اور وہ بھی کسی بجلی یا ڈیم وغیرہ کے بغیر، ویسے بھی اگر پاکستان میں ایسی ہی حکومتیں چلتی رہیں اور قرضہ لے لے کر مرحومین کو ثواب دارین پہنچانے کے لیے انکم سپورٹ قسم کے کام ہوتے رہے تو آیندہ سو سال میں بھی کسی نئے ڈیم یا بجلی گھر کا کوئی امکان نہیں ہے اس لیے فی الحال اسی منصوبے پر کام جاری رکھا جائے جو محکمہ تعلیم کے تعاون سے زیر غور ہے، ضرورت صرف اس بات کی ہے کہ دونوں محکمے مل کر ایک شادی دفتر قائم کریں اور کسی بھی گھر میں غیر تعلیم یافتہ بیوی کو جانے نہ دیں ؎

مگس کو باغ میں جانے نہ دینا
کہ ناحق خون پروانے کا ہو گا

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔