غریب طبقات کی سیاسی قیادت
جس کا نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ منتخب نمایندے عوام کے مسئلے حل کرنے کے بجائے لوٹ مار میں لگے ہوئے ہیں
جمہوری نظام میں انتخابات وہ واحد ذریعہ ہوتے ہیں، جو عوام کو یہ موقعہ فراہم کرتے ہیں کہ وہ 5 سال کے لیے قانون ساز اداروں اور اسمبلیوں میں اپنے نمایندے اپنی مرضی اور پسند سے منتخب کرکے بھیجیں لیکن ہمارے انتخابی نظام کی مہربانی ہے کہ عوام انتخابات میں اپنے نمایندے منتخب کرنے کے بجائے اپنے طبقاتی دشمنوں کو منتخب کرکے انھیں قانون ساز اداروں میں بھیج رہے ہیں۔
جس کا نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ منتخب نمایندے عوام کے مسئلے حل کرنے کے بجائے لوٹ مار میں لگے ہوئے ہیں، ہمارے دیہی علاقوں کے غریب طبقات میں ایسے پڑھے لکھے ایماندار باصلاحیت نوجوان موجود ہیں جو قانون ساز اداروں میں جاکر عوام کے مفادات کے مطابق قانون بناسکتے ہیں اور قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں جاکر عوام کے مسائل حل کرسکتے ہیں لیکن ہماری زمینی اشرافیہ نے غریب عوام کو نفسیاتی طور پر ایک ایسے احساس کمتری میں مبتلا کردیا ہے کہ ان کا کام صرف اشرافیہ کی غلامی کرنا ہے اسمبلیوں میں جانا صرف اشرافیہ کا حق ہے۔
بڑے بڑے شہروں کے مقابلے میں گاؤں ،گوٹھ اور قصبوں کی آبادی اتنی ہوتی ہے کہ گاؤں کے لوگ ایک دوسرے کو جانتے پہچانتے ہیں ۔ اس میں شک نہیں کہ ہماری اشرافیہ نے انتخابی نظام ایسا بنایا ہے کہ انتخابات وہی شخص لڑسکتا ہے جو کروڑوں روپے رکھتا ہو لیکن دیہی علاقوں کے عوام اگر چاہیں تو بغیر بڑے سرمائے کے اپنے علاقوں سے باصلاحیت تعلیم یافتہ ایماندار نوجوانوں کو منتخب کرکے قانون ساز اداروں میں بھیج سکتے ہیں۔
چونکہ ایک حلقہ لاکھوں لوگوں اور کئی علاقوں پر مشتمل ہوتا ہے، اس لیے دیہی علاقوں کے عوام کو اپنے طبقات پر مشتمل ایسی کمیٹیاں بنانا چاہئیں جو ایک حلقہ انتخاب میں رابطہ کرکے متفقہ نمایندگی کی راہ ہموار کرسکیں اگر دیہی علاقوں کے عوام خصوصاً نوجوان ابھی سے اپنی کمیٹیاں بناکر مختلف علاقوں میں رابطہ مہم کا آغاز کریں تو 2018 تک بڑے آرام سے اپنے طبقاتی نمایندوں کی کامیابی کے لیے راہ ہموار کرسکتے ہیں مقامی اسکول اور مسجدوں کو اس کام کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔
بہ ظاہر یہ کام آسان لگتا ہے لیکن اس آسان کام کو اشرافیہ طرح طرح سے مشکل بناسکتی ہے عوام کو ڈرایا دھمکایا جاسکتا ہے۔ انتظامیہ کے ذریعے جو ان کی جیب میں رہتی ہے عوام کی مہم میں روڑے اٹکائے جاسکتے ہیں لیکن اگر عوام متحد ہوں تو وہ اپنی اجتماعی طاقت کے ذریعے اشرافیہ کی تمام سازشوں کو ناکام بناسکتے ہیں۔
اس حوالے سے دیہی علاقوں میں کسانوں ہاریوں کی تنظیمیں بنائی جاسکتی ہیں اسکولوں کے اساتذہ سے تعاون حاصل کیا جاسکتا ہے ہمارے ملک کے ہر علاقے میں این جی اوز کام کر رہی ہیں اگر دیہی علاقوں میں رہنے والے تعلیم یافتہ نوجوان این جی اوز سے رابطے کریں تو عوام سے مخلص این جی اوز اس حوالے سے کام آسکتی ہیں۔اس حوالے سے ہماری بات ایک بڑی این جی او پائلر کے ڈائریکٹر کرامت علی سے ہوئی تجویز یہ سامنے آئی کہ دیہی علاقوں کے عوام سے میڈیا کے ذریعے اپیل کی جائے کہ وہ اپنے علاقے کے اہل لوگوں کی جو قانون ساز اداروں میں اپنی ذمے داریاں ادا کرنے کی صلاحیتیں رکھتے ہیں نام مانگے جائیں۔
جس کے لیے شہر میں ایک مرکز قائم کیا جائے جو رابطے کا کام انجام دے اس مرکز میں علاقائی عوام کے بھیجے ہوئے متفقہ نمایندوں کی فہرستیں تیار کی جائیں اور شہر سے وفود علاقوں میں جاکر عوام کے بھیجے ہوئے نمایندوں سے ملاقاتیں کریں اور علاقے کے عوام سے صلاح مشورے کے بعد نمایندوں کے نام فائنل کریں اور ان متفقہ نمایندوں کی انتخابی مہم کی تیاری کی جائے۔
امید ہے کہ بہت جلد بلدیاتی ادارے فعال ہوجائیں گے اگر بلدیاتی ادارے کام کرنے لگ جائیں تو 2018 کے الیکشن میں غریب طبقات کی نمایندگی کی راہ ہموار ہوسکتی ہے کیونکہ یوسی لیول پر علاقے کے عوام کی جانکاری یوسیزکے پاس ہوسکتی ہے اور علاقوں کے عوام بلدیاتی نمایندوں کی مدد سے نچلے طبقات سے قانون ساز اداروں میں اپنے حقیقی نمایندے بھیجنے کی راہ ہموار کرسکتے ہیں خود بلدیاتی اداروں میں منتخب ہوکر آنے والوں میں ایسے اہل لوگ مل سکتے ہیں جو ایم پی اے، ایم این اے کے انتخاب لڑسکتے ہیں۔
ہمارا الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا آج کل ایلیٹ کی بدعنوانیوں اور اربوں کی لوٹ مار کو بے نقاب کر رہا ہے میڈیا کی ان مثبت پالیسیوں کی وجہ سے جہاں اشرافیہ کی بدعنوانیاں عوام کی نظروں میں آرہی ہیں عوام میں طبقاتی شعور بھی پیدا ہو رہا ہے۔ ہمارے الیکٹرانک میڈیا کے نمایندے ہر چھوٹے چھوٹے علاقوں گاؤں گاؤں میں موجود ہیں جو عوام کے حقیقی اور متفقہ نمایندوں کے قومی سطح پر تعارف میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔
ہمارے میڈیا خصوصاً الیکٹرانک میڈیا کی رسائی ملک کے چپے چپے تک ہے الیکٹرانک میڈیا عوام میں طبقاتی شعور پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کررہا ہے اگر 2018 کے الیکشن میں غریب طبقات کے اندر سے سیاسی قیادت ابھارنے کا کوئی مربوط اور جامع پروگرام بنایا جائے تو میڈیا اس پروگرام پر عملدرآمد میں بھرپور کردار ادا کرسکتا ہے۔
ہمارے بڑے اخبارات دیہی علاقوں میں بڑی دلچسپی اور سنجیدگی سے پڑھے جاتے ہیں ہمارے اخبار ایکسپریس کی رسائی بھی دیہی علاقوں تک ہے پچھلے دنوں پنجاب کے کسی ایسے دور دراز گاؤں سے ہمیں ایک فون آیا لیکن لگ یوں رہا تھا کہ علاقے کی دوری کی وجہ سے سگنل نہیں آرہے تھے کیونکہ آواز بار بار کٹ رہی تھی لیکن جو کٹی پھٹی آواز آرہی تھی اس میں یہ بات واضح تھی کہ ان کے گاؤں میں ایکسپریس آتا ہے اور گاؤں کے باسی ہمارا کالم بڑے شوق سے اجتماعی شکل میں پڑھتے ہیں۔ اس فون سے یہ اندازہ ہوسکتا ہے کہ الیکٹرانک میڈیا ہی میں نہیں بلکہ پرنٹ میڈیا میں بھی عوام کی دلچسپی بڑھتی جا رہی ہے۔
اصل مسئلہ 69 سالوں سے سیاست اور اقتدار پر قابض اشرافیائی مافیا سے چھٹکارا حاصل کرنا ہے۔ میڈیا آف شور کمپنیوں اور بینکوں سے کھربوں روپے کا قرض لے کر ہڑپ کر جانے والوں کو بے نقاب کر رہا ہے جس کے نتیجے میں عوام میں اشرافیہ سے نفرت بڑھتی جا رہی ہے اس موروثی کرپٹ قیادت کی جگہ نچلے طبقات سے سیاسی قیادت ابھارنے میں ہمارا میڈیا اہم کردار ادا کر سکتا ہے جو اسے کرنا چاہیے۔