سندھ کا قدیم شہر

سندھ کے اکثر شہر تاریخی پس منظر رکھتے ہیں۔


Shabnam Gul June 02, 2016
[email protected]

سندھ کے اکثر شہر تاریخی پس منظر رکھتے ہیں۔ تاریخ میں جھانک کے دیکھا جائے تو رنگین ثقافت کے ساتھ یہ شہر خون کی ہولی سے نہاتے رہے ہیں۔ آپ سندھ میں رہتے ہیں اور اگر اس خطے کی تاریخ سے ناآشنا ہیں تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ زمین کے دکھ اور اس کی تاثیر سے بے خبر ہیں۔ میرے بچپن کا کچھ حصہ سیہون شہر میں گزرا۔ گھر، لال شہباز کے مزار کے قریب تھا۔

لہٰذا بچپن مزار کے احاطے میں کھیلتے گزرا۔ طرح طرح کے لوگ دیکھنے کو ملے۔ کئی ان کہے دکھوں سے آشنائی ہوئی۔ والدہ کو سندھ کے صوفی شعراء اور درویش لوگوں سے خاص رغبت تھی۔ اس زمانے میں ہمارے گھر میں لکڑی کا خوبصورت جھولا ہوا کرتا تھا۔ جس میں بٹھا کر کبھی شمس تبریزکی حکایتیں سناتیں تو کبھی حضرت عبدالقادر جیلانی کی کرامات سے آگاہ کرتیں۔

سیہون شریف کی خوبصورت یادیں میرے ذہن پر اکثر دستک دیتی ہیں۔ جن شہروں میں آپ کا بچپن گزرا ہو وہ سدا دل کے قریب رہتے ہیں۔ یہ شہر طلسماتی اثر میں لپٹا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ گلاب اور اگربتی کی ملی جلی مہک، فضا میں تیرتی دعاؤں کی گونج، لوگوں کے دکھ، حسرتیں وخواب ایک ساتھ جمع ہوکے عجیب سماں باندھ دیتے۔

سیہون کا جغرافیائی محل وقوع بہت خوبصورت ہے۔ زمین کی خاصیت کے لحاظ سے اس شہر کو انرجی سینٹر پلیس کہا جا سکتا ہے۔ توانائی کا مرکز، ایسی زمین جو شفا دینے کا ہنر رکھتی ہے۔ پہاڑ، دریا اور مٹی کی زرخیزی سے ویسے بھی شفا بخش اثر رکھتی ہے۔ سیہون سندھ کا قدیم شہر ہے۔ کسی زمانے میں یہاں سمندر ہواکرتا تھا۔ پہاڑوں کے درمیان گھومتے ہوئے آج بھی زمین پر سیپیاں پڑی ہوئی مل جاتی ہیں۔ سیہون اسٹیشن کے قریب ''یک تھنبھی'' نامی غار واقع ہے۔ یہ انتہائی قدیم غار ہے۔ جس میں لال شہباز ؒ عبادت کیا کرتے۔ ایسے غار لکی کے مقام پر بھی واقع ہیں۔ ہزاروں سال پہلے پتھر کے زمانے کے لوگ غاروں میں رہا کرتے تھے۔ سیہون کے غار اسی دور کے ہیں۔

یہ شہر قدیم ہجری (پتھر کے دور) کے زمانے سے آباد ہے۔ کہا جاتا ہے کہ درآوڑ سندھ کے قدیم باشندے ہیں۔ یہ شہر درآوڑوں کے زمانے سے آباد تھا۔ درآوڑوں کے بعد یہاں پر آریا قوم آئی۔ آتے ہی درآوڑوں کو محکوم بنا لیا۔ آریا کے دور میں سیہون کو ''شوستھان'' کہا جاتا تھا۔ بعد میں سیوستان کے نام سے مشہور ہوا۔ سیہون نام کچھ عرصہ رہا جو حتمی طور پر سیہون کے نام سے جانا جانے لگا۔ کہا جاتا ہے کہ شیو کا مندر پاکستان بننے سے پہلے، لکی کے قریب بہتے ہوئے چشموں کے پاس واقع تھا۔ جہاں ہر سال شیو (ہندوؤں کا دیوتا) کا میلہ لگا کرتا تھا۔ شیوکے پجاریوں کو ''شوی آریا'' کہا جاتا تھا۔ شیو استھان کے بعد سیوستان کے نام سے یہ علاقہ مشہور ہوا۔

سیہون کے پہاڑ، دریا، غار و چشمے دنیا بھر کے سیاحوں کو قدیم زمانے سے یہاں کھینچ کر لاتے۔ لکی کے مقام پر بھگو ٹھوڑھو کے پہاڑ منفرد دکھائی دیتے ہیں۔ شام کے وقت شفق کے پس منظر میں یہ سرمئی پہاڑ کسی یوگی کا روپ دھار لیتے ہیں اور گیان و دھیان میں مصروف ہوجاتے ہیں۔ ایک عجیب صدیوں کی پراسراریت ان چٹانوں پر چھائی رہتی ہے۔ محقق اشتیاق انصاری اس ضمن میں لکھتے ہیں ''انگریز جب 1843ء میں سندھ فتح کر کے یہاں رہنے لگے تو وہ پرفضا مقامات کو کھوجنے لگے تاکہ فرصت کے لمحات وہاں گزار سکیں۔ ٹھٹھہ کے قریب جھرک شہر کی آب و ہوا نے انھیں متاثر کیا۔ لکی کے مقام کے قریب بھگو ٹھوڑھوکے پہاڑوں نے انھیں گرویدہ بنا لیا۔ لہٰذا اس جگہ باقاعدہ ریلوے اسٹیشن کی بنیاد ڈالی گئی۔ انگریزوں کو کھیر تھر کے پہاڑوں میں کسی بلند مقام کی تلاش تھی، جہاں ہل اسٹیشن کا قیام ممکن ہوسکے۔''

مشہور سیاح ابن بطوطہ جب سیہون آیا تھا تو وہ شیخ محمد بغدادی سے ملا۔ جس کی عمر 140 سال تھی۔ وہ حضرت قلندر شہبازکی درگاہ میں واقع چھوٹی سی کوٹھری میں قیام پذیر تھا۔ اس نے انکشاف کیا کہ وہ اس وقت بغداد میں موجود تھا جب ہلاکو نے خلیفہ معتصم باللہ کو قتل کیا تھا۔ ابن بطوطہ نے سرتیز عمادالملک کے ظلم و جبر کی داستانیں بھی رقم طراز کی ہیں۔ وہ روز لوگوں کو قتل کرواتا اور ان کے سر لٹکا دیا کرتا، شہر کی فصیلوں پر لاشیں لٹکتی نظر آتیں۔ شہر میں کھوپڑیوں کے ڈھیر دکھائی دیتے۔ ابن بطوطہ مدرسے کی چھت پر سویا کرتا۔ صبح اٹھتا تو لاشوں کو دیکھ کر دہشت زدہ ہوجاتا ۔ بالآخر اس نے مدرسے کو چھوڑ کرکہیں اور جاکے بسیرا کرلیا۔ لہٰذا اس شہر کی تاریخ خوشبوؤں کے ساتھ خونریزی کے واقعات سے مزین ہے۔

سیہون آکر رہائش پذیر ہونے والی معزز شخصیات میں علی بن حامد کوفی جوکہ فارسی کے اچھے شاعر تھے۔ اور شیخ عثمان ولد ابراہیم کبیر مروندی جنھیں عام طور پر لعل شہباز کے نام سے جانا جاتا ہے۔ قلندر لال شہباز، افغانستان میں ہرات کے قریب مروند کے رہنے والے تھے۔ آپ کی ولادت 1187ع (583 ہجری) میں ہوئی۔ ہندوستان کی سیاحت کے بعد آپ بہاؤالدین ذکریا ملتانی، فرید الدین شکرگنج اور جلال الدین جہانیاں اُچ والے کے ساتھ مل کر سندھ کا دورہ کیا۔ سیہون کا سکون اور الہامی خاموشی محسوس کرکے اس شہر میں سکونت پذیر ہوئے۔ سیہون میں چھ سال گزارے اور 1252ع (650 ہجری) میں خالق حقیقی سے جاملے۔

صوفی درویش کے لیے پوری دنیا اس کا گھر ہے اور انسانیت اس کا مذہب۔ صوفی سب سے پہلے زمین سے رابطہ استوار کرتا ہے۔ پھر اس مٹی پر بسنے والوں سے تعلق جوڑتا ہے۔کوئی غیر زمین سے ہجرت کرکے آئے اور اس مٹی کی پہچان بن جائے تو اسے زمین اور انسانیت سے عشق کی معراج کہتے ہیں۔ آج دور دراز سے لوگ قلندر کے مزار پر حاضری دینے آتے ہیں۔

قلندر کا روضہ ہندوستان کے بادشاہ سلطان محمد تغلق کے عزیز سلطان فیروز شاہ نے تعمیر کروانا شروع کیا اور سیوستان اور ٹھٹھہ کے اس وقت کے نائب رکن الدین عرف اختیار الدین کی نگرانی میں پایہ تکمیل تک پہنچا۔ سیہون کے تاریخی مقامات میں لعل باغ، یک تھنبھی، لکی چشمہ، کافر قلعہ، لعل باغ اور باغ کے قریب پینے والا چشمہ آ جاتے ہیں۔

سیہون کسی زمانے میں مندر، مساجد، مدارس، باغات، ہنر، سبزی، مچھلی و میوہ جات کا شہر کہلاتا تھا۔ کاروباری مراکز ہونے کی وجہ سے سیاحوں اور تاجروں کی آمد و رفت سال بھرجاری رہتی۔

سیہون کی اہمیت اس لحاظ سے رہی کہ حملہ آور کھیر تھر کے پہاڑوں سے گزرکر قبضہ کر لیتے، بعد میں سندھ کی طرف ان کی پیشرفت جاری رہتی۔ تاتاریوں نے سیہون پر حملہ کیا تھا یہ اس زمانے کی بات ہے جب دہلی پر غیاث الدین کی حکمرانی تھی۔ اسی طرح جلال الدین خوارزم شاہ، بادشاہ اکبرکے سپہ سالار عبدالرحیم خانخاں نے بھی سیہون پر حملے کیے۔ سندھ میں شہباز قلندر، صوفی تحریک کے روح رواں تھے۔ ان کا مزار ہمہ وقت زائرین سے بھرا رہتا ہے۔

سائنسی طور پر یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ خوشبو، ذہنی و روحانی بیماریوں کا علاج کرتی ہے۔ یہ وجدانی کیفیت و ادراک کو تحرک عطا کرتی ہے۔ یہ لاشعور سے تعلق جوڑ دیتی ہے۔ لاشعور، روحانیت کا مرکزکہلاتا ہے۔ خوشبو منفی سوچ اور برے اثرات زائل کرتی ہے۔ مزار پر ہم پیدل چلتے ہیں۔ پاؤں براہ راست زمین سے رابطے میں رہتے ہیں۔ زمین سے مثبت توانائی جسم میں داخل ہو جاتی ہے۔

برگزیدہ ہستی کے مزار پر وجود کی توانائی ہمہ وقت موجود رہتی ہے۔ علاوہ ازیں انسان کا اپنا یقین اور عقیدہ اسے شفا عطا کرتا ہے۔ صوفی بزرگوں کے یہ مزار سماجی رابطوں، فن و فکر اور معاشی وسیلوں کا ذریعہ بنے ہوئے ہیں۔جمعرات کو دھمال کا الگ کیف ہوتا ہے۔ جسے دیکھنے کے لیے دور دراز سے لوگ آتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ انسانوں سے مایوس لوگ مزاروں کا رخ کرتے ہیں،گوکہ اکثریت اسے توہم پرستی سے منسوب کرتی ہے۔ اس سال بھی شدید گرمی کے باوجود حضرت قلندر شہباز کا عرس عقیدت و احترام سے منایا گیا، جس میں ہزاروں زائرین نے شرکت کی۔

یہاں بہت سے لوگ تلاش جستجو کے اکسانے پر آتے ہیں۔ راز ازل کا پیچھا کرتے ہوئے۔ بعض خود کو ڈھونڈنے آتے ہیں۔ مزار کی پراسراریت اور پرفسوں ماحول انھیں یہاں کھینچ لاتا ہے۔

چار چراغ تیڈے بلن ہمیشہ

سو پنجواں بالن آئی بلا جھولے لالن

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں