پاکستانی سالمیت کو درپیش خطرات
ہمارا ملک اپنے قیام سے حال تک انتہائی نازک ترین صورتحال سے دوچار ہے
DENVER:
ہمارا ملک اپنے قیام سے حال تک انتہائی نازک ترین صورتحال سے دوچار ہے، اپنوں کی ریشہ دوانیوں اور غیروں کی سازشوں نے پہلے تو اس کے ایک بازو کو الگ کیا اور اب اسے دنیا کے نقشے سے مٹانے کے لیے خطے کے تمام ممالک (ماسوائے چین) اتحاد و اتفاق کیے ہوئے ہیں جب کہ ان کا سرپرست اعلیٰ انکل سام ماضی کی پالیسی دہراتے ہوئے ہمیں پھر سے تنہائی کا شکار بنانا چاہتا ہے، جس میں کافی حد تک وہ کامیاب بھی نظر آتا ہے۔ ہم اس مقام تک کیسے پہنچے، اس کے لیے ہمیں ماضی کے دریچوں میں جھانکنے کی ضرورت ہے۔
قیام پاکستان کے فوری بعد ہم امریکی بلاک کا حصہ بن گئے، جس نے ہمیں افغان جہاد میں استعمال کیا، امریکا نے سوویت یونین کے ٹکڑے کرنے کے لیے دہشتگرد گروہوں کی تشکیل میں اہم کردار ادا کیا، پودے لگانے والا اب ہمیں ان ناسوروں کا سرپرست بھی قرار دیتا ہے جب کہ افغان وار کے تحائف مہاجرین کی آمد، منشیات و کلاشنکوف کلچر اور دہشتگردی کو ہماری نسلیں آج تک بھگت رہی ہے۔
امریکا تو اپنے مخصوص مفادات کی خاطر ہمیشہ خطے کے کسی نہ کسی ملک کو استعمال کرتا رہا ہے، جیسا کہ افغان جہاد میں پاکستان استعمال ہوا اور اب چین کو معاشی طور پر سپر پاور بننے سے روکنے کے لیے امریکا کے ہاتھوں ہندوستان استعمال ہوتا ہوا نظر آ رہا ہے مگر اس حوالے سے ہمیں اپنے گریبان میں بھی جھانکنا چاہیے کہ ہمارے پالیسی سازوں سے کہاں کہاں کون کون سی غلطیاں ہوئیں؟ ہم کبھی تو امریکا کے ہمنوا بن جاتے ہیں تو کبھی چائنہ سے ضرورت سے زیادہ وفاداری نبھاتے ہوئے خود کو دنیا سے الگ تھلگ کر لیتے ہیں۔
ہماری انھی غلط پالیسیوں کی وجہ سے ہم آج تاریخ کے انتہائی نازک ترین مرحلے پر آ پہنچے ہیں، پاک چائنہ اقتصادی راہداری منصوبے کی کامیابی سے پاکستان کے ایشین ٹائیگر بن جانے میں کسی بھی قسم کا شک و شبہ نہیں رہے گا، اس لیے بھارت منصوبے کو سبوتاژ کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہا ہے جب کہ خطے میں رونما ہونے والی بڑی تبدیلیوں سے ہماری سالمیت کو بھی خطرات لاحق ہو گئے ہیں۔
افغانستان، بھارت اور ایران کے گٹھ جوڑ کے بعد ہماری سالمیت کے لیے خطرناک تکونی جال بچھ چکا ہے اور مہرے استعمال ہو رہے ہیں۔ افغانستان میں امریکی شکست، برادر اسلامی ممالک کا بھارت سے گٹھ جوڑ اور ہندوستان کا بڑھتا جنگی جنون وطن عزیز کی سالمیت کے لیے ایک خطرناک تکونی جال کی حیثیت اختیار کر چکا ہے۔
اول، امریکا افغانستان میں اپنی شکست کا ملبہ پاکستان پر ڈالنا چاہتا ہے۔ جہاں طالبان اور افغان حکومت کے درمیان امن مذاکرات کا امکان دھندلا گیا ہے اور امن کے امکانات معدوم ہوتے جا رہے ہیں۔ افغانستان میں ناکامی کے بعد امریکا اپنا ناقابل شکست ہونے کا بھرم قائم رکھنا چاہتا ہے اور اپنی ساکھ بچانے کے لیے ہمیں کسی بھی مشکل میں ڈالنے سے گریز نہیں کرے گا چاہے اس کے لیے اسے افغان طالبان کا سہارا ہی کیوں نہ لینا پڑے۔
افغانستان کی بگڑتی ہوئی صورتحال بھی ہمارے لیے فکر کی بات ہے۔ امریکا افغانستان میں وقتی حل چاہتا جب کہ پاکستان اور چائنہ دائمی امن کے متمنی ہیں، افغان حکومت اپنا کردار ادا نہیں کر رہی اور پاکستان سے ایسی توقعات وابستہ کیے ہوئے ہے، جنھیں پورا کرنا پاکستان کے مفاد میں نہیں۔ افغان حکومت اور مغربی ممالک یہ سمجھتے ہیں کہ طالبان پاکستان کی بات مانتے ہیں جب کہ طالبان پاکستان کی کوئی بھی بات ماننے کو تیار نہیں اور نہ ہی کسی بھی قسم کی لچک دکھانے پر رضامند ہے۔ غالب امکان یہ ہی ہے کہ عنقریب امریکا اور افغان حکومتیں ناکامی کا سارا ملبہ پاکستان پر گرائیں گی۔
افغانستان کے حوالے سے اب تک امریکا پاکستان کا محتاج تھا مگر اس کے بعد پاکستان امریکا کا محتاج ہو جائے گا۔ پاکستان اور افغان طالبان کے تعلقات نیا رخ اختیار کریں گے۔ اس ساری صورتحال میں پاک افغان حکومتوں کی مصنوعی و ظاہری دوستی بھی ختم ہو کر رہ جائے گی۔ یہ تبدیلی پاکستان کے لیے نئے چیلنجز کا سبب بنے گی۔ امریکی کانگریس نے پاکستان کو ایف 16 طیاروں کی فراہمی میں ایسے وقت میں رکاوٹ ڈالی ہے جب دہشتگردی کے خلاف جنگ اہم مرحلے میں داخل ہو چکی ہے اور پاکستان کو اس جنگ کے لیے ایف 16 طیاروں کی اشد ضرورت ہے، اس صورتحال میں امریکا کا دہرا معیار کھل کر سامنا آ رہا ہے۔
دوئم، پاک چائنہ راہداری منصوبے کے معاملے میں بھارت کے ساتھ ایران بھی حریف بن چکا ہے۔ اس وقت پاک چائنہ راہداری کا منصوبہ بڑی تیزی سے پایہ تکمیل کی جانب گامزن ہے مگر ہمارا ازلی دشمن بھارت منصوبے کو سبوتاژ کرانے کے لیے ہمارے برادر اسلامی ملک کے ساتھ ملکر سرتوڑ کوششیں کر رہا ہے گوادر اور چاہ بہارکی بندرگاہوں کے تناظر میں ایران بھی حلیف سے زیادہ حریف بن گیا ہے۔ ایران اور ہندوستان کا اتحاد تو اپنی جگہ مگر اب امریکا بھی پاکستان کے مقابلے میں سہ فریقی اتحاد کا حصہ بن سکتا ہے۔ پاک بھارت تعلقات میں کشیدگی پیدا ہوئی تو امریکا ماضی کی طرح تناؤکم کرانے میں کوئی دلچسپی نہیں لے گا۔
سوئم، بھارت کا بڑھتا ہوا جنگی جنون خطے میں اپنی بالا دستی قائم کرنیکی خواہش کا اظہار کر رہا ہے۔ بھارتی حکومت کئی بار اس عزم کا اظہار کر چکی ہے کہ بھارت چین اور پاکستان کے مقابلے میں خود کو ایک بڑی معاشی اور عسکری قوت کے طور پر تیار کر رہا ہے جس کے لیے وہ اپنی دفاعی صلاحیت پر اربوں ڈالر خرچ کر رہا ہے، امریکا، روس، اسرائیل، فرانس، برطانیہ و دیگر طاقتور قوتوں کے تعاون سے اپنی دفاعی صلاحیت میں تیزی سے اضافہ کر رہا ہے، دنیا میں سب سے زیادہ اسلحہ خریدنے والا ملک بھارت ہی ہے۔
گزشتہ دنوں بھی بھارت نے سپرسونک میزائل کا تجربہ کیا، یہ میزائل کسی بھی حملہ آور بیلسٹک میزائل کو فضاء میں ہی تباہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے، اس سے قبل دسمبر 2015ء میں بھارت نے اسرائیل کی مدد سے کولکتہ میں ایک جدید میزائل کا تجربہ کیا، یہ میزائل زمین سے فضا میں دور تک مار کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے، اپریل 2015ء میں بھارت نے پہلی اسکورپین آبدوز کا تجربہ کیا، ڈیزل انجن سے چلنے والی فرانسیسی طرز کی اس جیسی چھ آبدوزیں تیار کی جائیں گی، بھارتی وزیر دفاع منوہر پاریکر کے مطابق 2018ء تک تمام چھ آبدوزیں بحریہ کے حوالے کر دی جائیں گی، بھارت جوہری ہتھیاروں سے مسلح کشتیاں بھی بنا رہا ہے۔
بھارت کا بڑھتا ہوا یہ جنگی جنون نہ صرف پاکستان بلکہ پورے خطے کے لیے خطرہ بن چکا ہے، اس کا یہ جنگی جنون کم ہونے کے بجائے روزبروز بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے، بھارت کے ہتھیاروں میں ہونے والی حالیہ پیشرفت پر پاکستان نے عالمی سطح پر آواز اٹھانے کا عندیہ دیا ہے مگر ہماری آواز سنے گا کون؟ کیونکہ بھارت کو جدید دفاعی ٹیکنالوجی امریکا، روس، فرانس ودیگر یورپی ممالک ہی فراہم کر رہے ہیں، جہاں ان ممالک کے اس خطے سے مفادات وابستہ ہیں وہاں ان کے اسلحے کی فروخت کے لیے بھارت ایک بڑی منڈی ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ افواج پاکستان اور ہمارے دفاعی ادارے ان گھمبیر مسائل اور بدلتی ہوئی صورتحال پر کڑی نگاہ رکھے ہوئے ہیں اور وطن عزیز کے دفاع و سالمیت کے لیے موثر حکمت عملی اپنا رہے ہیں تاہم ضرورت اس امر کی ہے کہ ہمارے پالیسی ساز سرد جنگ کے خاتمے کے بعد بدلتے ہوئے حالات کے مطابق خارجہ پالیسی تشکیل دیں، اپنے ارد گرد مخالفانہ فضاء کو ختم کرنے کی کوشش کی جائے اور دفاعی معاملات میں خود انحصاری اختیار کی جائے۔ پاک چائنہ راہداری منصوبہ بلاشبہ ایک گیم چینجر ہے لہٰذا دشمن کبھی نہیں چاہے گا کہ یہ منصوبہ مکمل ہو، دشمن کے عزائم کو خاک میں ملانے کے لیے ہمیں ہمہ وقت چوکنا رہنے کی ضرورت ہے۔
ہمارا ملک اپنے قیام سے حال تک انتہائی نازک ترین صورتحال سے دوچار ہے، اپنوں کی ریشہ دوانیوں اور غیروں کی سازشوں نے پہلے تو اس کے ایک بازو کو الگ کیا اور اب اسے دنیا کے نقشے سے مٹانے کے لیے خطے کے تمام ممالک (ماسوائے چین) اتحاد و اتفاق کیے ہوئے ہیں جب کہ ان کا سرپرست اعلیٰ انکل سام ماضی کی پالیسی دہراتے ہوئے ہمیں پھر سے تنہائی کا شکار بنانا چاہتا ہے، جس میں کافی حد تک وہ کامیاب بھی نظر آتا ہے۔ ہم اس مقام تک کیسے پہنچے، اس کے لیے ہمیں ماضی کے دریچوں میں جھانکنے کی ضرورت ہے۔
قیام پاکستان کے فوری بعد ہم امریکی بلاک کا حصہ بن گئے، جس نے ہمیں افغان جہاد میں استعمال کیا، امریکا نے سوویت یونین کے ٹکڑے کرنے کے لیے دہشتگرد گروہوں کی تشکیل میں اہم کردار ادا کیا، پودے لگانے والا اب ہمیں ان ناسوروں کا سرپرست بھی قرار دیتا ہے جب کہ افغان وار کے تحائف مہاجرین کی آمد، منشیات و کلاشنکوف کلچر اور دہشتگردی کو ہماری نسلیں آج تک بھگت رہی ہے۔
امریکا تو اپنے مخصوص مفادات کی خاطر ہمیشہ خطے کے کسی نہ کسی ملک کو استعمال کرتا رہا ہے، جیسا کہ افغان جہاد میں پاکستان استعمال ہوا اور اب چین کو معاشی طور پر سپر پاور بننے سے روکنے کے لیے امریکا کے ہاتھوں ہندوستان استعمال ہوتا ہوا نظر آ رہا ہے مگر اس حوالے سے ہمیں اپنے گریبان میں بھی جھانکنا چاہیے کہ ہمارے پالیسی سازوں سے کہاں کہاں کون کون سی غلطیاں ہوئیں؟ ہم کبھی تو امریکا کے ہمنوا بن جاتے ہیں تو کبھی چائنہ سے ضرورت سے زیادہ وفاداری نبھاتے ہوئے خود کو دنیا سے الگ تھلگ کر لیتے ہیں۔
ہماری انھی غلط پالیسیوں کی وجہ سے ہم آج تاریخ کے انتہائی نازک ترین مرحلے پر آ پہنچے ہیں، پاک چائنہ اقتصادی راہداری منصوبے کی کامیابی سے پاکستان کے ایشین ٹائیگر بن جانے میں کسی بھی قسم کا شک و شبہ نہیں رہے گا، اس لیے بھارت منصوبے کو سبوتاژ کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہا ہے جب کہ خطے میں رونما ہونے والی بڑی تبدیلیوں سے ہماری سالمیت کو بھی خطرات لاحق ہو گئے ہیں۔
افغانستان، بھارت اور ایران کے گٹھ جوڑ کے بعد ہماری سالمیت کے لیے خطرناک تکونی جال بچھ چکا ہے اور مہرے استعمال ہو رہے ہیں۔ افغانستان میں امریکی شکست، برادر اسلامی ممالک کا بھارت سے گٹھ جوڑ اور ہندوستان کا بڑھتا جنگی جنون وطن عزیز کی سالمیت کے لیے ایک خطرناک تکونی جال کی حیثیت اختیار کر چکا ہے۔
اول، امریکا افغانستان میں اپنی شکست کا ملبہ پاکستان پر ڈالنا چاہتا ہے۔ جہاں طالبان اور افغان حکومت کے درمیان امن مذاکرات کا امکان دھندلا گیا ہے اور امن کے امکانات معدوم ہوتے جا رہے ہیں۔ افغانستان میں ناکامی کے بعد امریکا اپنا ناقابل شکست ہونے کا بھرم قائم رکھنا چاہتا ہے اور اپنی ساکھ بچانے کے لیے ہمیں کسی بھی مشکل میں ڈالنے سے گریز نہیں کرے گا چاہے اس کے لیے اسے افغان طالبان کا سہارا ہی کیوں نہ لینا پڑے۔
افغانستان کی بگڑتی ہوئی صورتحال بھی ہمارے لیے فکر کی بات ہے۔ امریکا افغانستان میں وقتی حل چاہتا جب کہ پاکستان اور چائنہ دائمی امن کے متمنی ہیں، افغان حکومت اپنا کردار ادا نہیں کر رہی اور پاکستان سے ایسی توقعات وابستہ کیے ہوئے ہے، جنھیں پورا کرنا پاکستان کے مفاد میں نہیں۔ افغان حکومت اور مغربی ممالک یہ سمجھتے ہیں کہ طالبان پاکستان کی بات مانتے ہیں جب کہ طالبان پاکستان کی کوئی بھی بات ماننے کو تیار نہیں اور نہ ہی کسی بھی قسم کی لچک دکھانے پر رضامند ہے۔ غالب امکان یہ ہی ہے کہ عنقریب امریکا اور افغان حکومتیں ناکامی کا سارا ملبہ پاکستان پر گرائیں گی۔
افغانستان کے حوالے سے اب تک امریکا پاکستان کا محتاج تھا مگر اس کے بعد پاکستان امریکا کا محتاج ہو جائے گا۔ پاکستان اور افغان طالبان کے تعلقات نیا رخ اختیار کریں گے۔ اس ساری صورتحال میں پاک افغان حکومتوں کی مصنوعی و ظاہری دوستی بھی ختم ہو کر رہ جائے گی۔ یہ تبدیلی پاکستان کے لیے نئے چیلنجز کا سبب بنے گی۔ امریکی کانگریس نے پاکستان کو ایف 16 طیاروں کی فراہمی میں ایسے وقت میں رکاوٹ ڈالی ہے جب دہشتگردی کے خلاف جنگ اہم مرحلے میں داخل ہو چکی ہے اور پاکستان کو اس جنگ کے لیے ایف 16 طیاروں کی اشد ضرورت ہے، اس صورتحال میں امریکا کا دہرا معیار کھل کر سامنا آ رہا ہے۔
دوئم، پاک چائنہ راہداری منصوبے کے معاملے میں بھارت کے ساتھ ایران بھی حریف بن چکا ہے۔ اس وقت پاک چائنہ راہداری کا منصوبہ بڑی تیزی سے پایہ تکمیل کی جانب گامزن ہے مگر ہمارا ازلی دشمن بھارت منصوبے کو سبوتاژ کرانے کے لیے ہمارے برادر اسلامی ملک کے ساتھ ملکر سرتوڑ کوششیں کر رہا ہے گوادر اور چاہ بہارکی بندرگاہوں کے تناظر میں ایران بھی حلیف سے زیادہ حریف بن گیا ہے۔ ایران اور ہندوستان کا اتحاد تو اپنی جگہ مگر اب امریکا بھی پاکستان کے مقابلے میں سہ فریقی اتحاد کا حصہ بن سکتا ہے۔ پاک بھارت تعلقات میں کشیدگی پیدا ہوئی تو امریکا ماضی کی طرح تناؤکم کرانے میں کوئی دلچسپی نہیں لے گا۔
سوئم، بھارت کا بڑھتا ہوا جنگی جنون خطے میں اپنی بالا دستی قائم کرنیکی خواہش کا اظہار کر رہا ہے۔ بھارتی حکومت کئی بار اس عزم کا اظہار کر چکی ہے کہ بھارت چین اور پاکستان کے مقابلے میں خود کو ایک بڑی معاشی اور عسکری قوت کے طور پر تیار کر رہا ہے جس کے لیے وہ اپنی دفاعی صلاحیت پر اربوں ڈالر خرچ کر رہا ہے، امریکا، روس، اسرائیل، فرانس، برطانیہ و دیگر طاقتور قوتوں کے تعاون سے اپنی دفاعی صلاحیت میں تیزی سے اضافہ کر رہا ہے، دنیا میں سب سے زیادہ اسلحہ خریدنے والا ملک بھارت ہی ہے۔
گزشتہ دنوں بھی بھارت نے سپرسونک میزائل کا تجربہ کیا، یہ میزائل کسی بھی حملہ آور بیلسٹک میزائل کو فضاء میں ہی تباہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے، اس سے قبل دسمبر 2015ء میں بھارت نے اسرائیل کی مدد سے کولکتہ میں ایک جدید میزائل کا تجربہ کیا، یہ میزائل زمین سے فضا میں دور تک مار کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے، اپریل 2015ء میں بھارت نے پہلی اسکورپین آبدوز کا تجربہ کیا، ڈیزل انجن سے چلنے والی فرانسیسی طرز کی اس جیسی چھ آبدوزیں تیار کی جائیں گی، بھارتی وزیر دفاع منوہر پاریکر کے مطابق 2018ء تک تمام چھ آبدوزیں بحریہ کے حوالے کر دی جائیں گی، بھارت جوہری ہتھیاروں سے مسلح کشتیاں بھی بنا رہا ہے۔
بھارت کا بڑھتا ہوا یہ جنگی جنون نہ صرف پاکستان بلکہ پورے خطے کے لیے خطرہ بن چکا ہے، اس کا یہ جنگی جنون کم ہونے کے بجائے روزبروز بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے، بھارت کے ہتھیاروں میں ہونے والی حالیہ پیشرفت پر پاکستان نے عالمی سطح پر آواز اٹھانے کا عندیہ دیا ہے مگر ہماری آواز سنے گا کون؟ کیونکہ بھارت کو جدید دفاعی ٹیکنالوجی امریکا، روس، فرانس ودیگر یورپی ممالک ہی فراہم کر رہے ہیں، جہاں ان ممالک کے اس خطے سے مفادات وابستہ ہیں وہاں ان کے اسلحے کی فروخت کے لیے بھارت ایک بڑی منڈی ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ افواج پاکستان اور ہمارے دفاعی ادارے ان گھمبیر مسائل اور بدلتی ہوئی صورتحال پر کڑی نگاہ رکھے ہوئے ہیں اور وطن عزیز کے دفاع و سالمیت کے لیے موثر حکمت عملی اپنا رہے ہیں تاہم ضرورت اس امر کی ہے کہ ہمارے پالیسی ساز سرد جنگ کے خاتمے کے بعد بدلتے ہوئے حالات کے مطابق خارجہ پالیسی تشکیل دیں، اپنے ارد گرد مخالفانہ فضاء کو ختم کرنے کی کوشش کی جائے اور دفاعی معاملات میں خود انحصاری اختیار کی جائے۔ پاک چائنہ راہداری منصوبہ بلاشبہ ایک گیم چینجر ہے لہٰذا دشمن کبھی نہیں چاہے گا کہ یہ منصوبہ مکمل ہو، دشمن کے عزائم کو خاک میں ملانے کے لیے ہمیں ہمہ وقت چوکنا رہنے کی ضرورت ہے۔