احتساب کی فصل اور کٹائی کا موسم
نواز شریف کے سیاسی کیرئیر کی آخری اننگز نہایت برے انجام سے دوچار ہوتی چلی جا رہی ہے
وہ تمام خوش خیال اور احمقین جو یہ سوچ بیٹھے ہیں کہ احتساب کے غبارے سے ہوا اس مرتبہ بھی نکل جائے گی اور بیچارے احتساب کا حشر اس مرتبہ بھی وہی ہو گا جو ماضی میں ہوتا آیا ہے۔ جان لیں کہ اس مرتبہ بات بہت آگے نکل چکی ہے۔ پچھلے 3ماہ سے میڈیا میں جاری اینٹی کرپشن ڈرائیو کے تحت اتنا کچھ کہا اور سنا جا چکا ہے کہ اب اسے آسانی سے بند نہیں کیا جا سکتا۔ فوج کے اندر خود احتسابی کے عمل کو چوٹی سے شروع کر کے جس معاملے کی داغ بیل ڈالی جا چکی ہے اسے اب آرمی چیف بھی چاہے تو منطقی انجام تک پہنچائے بغیر ختم نہیں کر سکتا، نواز شریف کس باغ کی مولی ہے۔
ہماری انتہائی مصدقہ اطلاع کے مطابق پچھلے دنوں وزیر اعظم کی خدمت میں بعض حساس اداروں کی تیار کردہ ایک فہرست پیش کی گئی جس میں 138 افراد کے نام شامل ہیں۔ فہرست پیش کرنے والی انتہائی اہم شخصیت نے مودبانہ گزارش کی کہ جناب یہ فہرست ان سولین چور کے پتروں کی ہے جنھوں نے آپ کے دورِ حکومت میں سرکار کوکئی کھرب روپے کا ٹانکا لگایا ہے۔ ان مبینہ مردودوں میں سے 15 سیاستدان ہیں جبکہ بقیہ سارے کے سارے بیوروکریٹ ہیں۔ ان میں کرپٹ ترین وزیر اور افسران وہ ہیں جو آپ کے اورآپکے برادرِ عزیز کی آنکھ کے تارے ہیں۔ چنانچہ ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہنے کی بجائے ان کے خلاف فوری کارروائی کریں ورنہ ہم خود کر لیں گے۔۔۔ ہیں جی؟
وزیراعظم کے انتہائی قریبی حلقے ان کے ولایت تشریف لے جانے سے چند روز پہلے تک کے حالات پر بے حد تشویش کا اظہار کرتے پائے گئے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ نواز شریف کی پرائیویٹ گفتگو کا تجزیہ کیا جائے تو جو چیزیں نمایاں طور پر نظر آتی ہیں ان میں غم، بے چارگی اور خوف شامل ہیں۔ پہلے پہل غصہ بھی نمایاں ہوا کرتا تھا مگر پھر شاید نوشتہ دیوار بغور پڑھا تو ان کے غصے کی جگہ غم نے لے لی۔ ایسی ہی ایک گفتگو میں انھوں نے اپنے چند نام نہاد چہیتوںسے متعلق بات کرتے ہوئے کہا کہ سب سے پہلے سلطانی گواہ یہی بنیں گے۔ ایک وزیر با تدبیر بارے تو انھوں نے یہاں تک کہہ دیا کہ اگر برا وقت آن پڑا تو یہ آدمی قطر سے متعلق معاملات میں مجھے بھی پھنسائے گا اور اسحاق ڈار کو بھی۔۔۔ ہیں جی؟
اندر کے لوگ یہ بھی بتاتے ہیں کہ نواز شریف کو جن باتوں کا غم گھُن کی طرح کھائے جا رہا ہے ان میں ایک تو یہ ہے کہ ان کے سیاسی کیرئیر کی آخری اننگز نہایت برے انجام سے دوچار ہوتی چلی جا رہی ہے۔ ماضی کے چند پریشان کُن معاملات اور بدنامی کا کوڑا کرکٹ جسے وہ اور ان کا خاندان کسی نہ کسی طور پر سیاسی قالین کے نیچے چھپائے چلے آرہے تھے، اچانک پانامہ لیکس جیسی فضول اور معمولی سی بات پر طشتِ ازبام ہو گئے ہیں۔ پانامہ لیکس کی حیثیت ہے تو ایک مچھر جتنی مگر یہ کم بخت مچھر اس مرتبہ گھُس ناک میں گیا ہے اس لیے یہ مچھر اب میزائل سے بھی زیادہ خطرناک ہو چکا ہے۔
نواز شریف کا دوسرا دکھ یہ بیان کیا جاتا ہے کہ ان کے بعض انتہائی قریبی ساتھی، دوست حتیٰ کہ عزیز بھی ان کا ساتھ چھوڑ چکے ہیں۔ دروغ برگردنِ راوی، وزیراعظم یہاں تک کہہ جایا کرتے ہیں کہ یہ وہی لوگ ہیں جنھوں نے مجھے جدے بھیجا تھا، نجانے اب یہ مجھے کہاں بھیجنا چاہتے ہیں۔
موصوف کا تیسرا غم یہ ہے کہ پانامہ لیکس کا مچھر میزائل بن کر مریم نواز کے سیاسی کیرئیر پر بھی گرا ہے جسے اب ''ان ڈو'' (Undo) یعنی تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔ شنید ہے کہ پچھلے دنوں چند اہم نواز لیگیوں نے ایک شخصیت سے بالواسطہ گزارش کی کہ جناب وزارت عظمیٰ کیلیے چند پسندیدہ نام تجویز فرما دیں تاکہ ہم سمری وغیرہ تو پُٹ اپ کریں۔ مگر مذکورہ شخصیت نے اس گزارش کا جواب دینا بھی گوارہ نہیں کیا۔
اب ذرا چلتے چلتے پیپلزپارٹی کے ''گاجر خوروں'' کی بھی سنتے جائیے کہ ہماری اطلاع کے مطابق ان پر بھی بُرے دن آنے والے ہیں۔ بے چارے شرجیل میمن کی مٹی پلید ہوتے آپ سوشل میڈیا پر دیکھ ہی چکے ہوں گے کہ رب ِ کریم جب کسی کے مقدر میں ذلت و رسوائی لکھ دیتا ہے تو پھر بہانہ ایک مچھر ہی بنا کرتا ہے۔ گذشتہ شب ایک شراب خانے سے نکلتے ہوئے میمن صاحب کی جو خواری ہوئی، اس کا موجب بھی ایک عام شہری ہی تھا جسے یہ لوگ اقتدار کے دنوں میں ایک مچھر سے زیادہ اہمیت نہیںدیتے۔
ہماری اطلاع کے مطابق سابق وزیراعظم راجا پرویز اشرف کے گرد بھی گھیرا مکمل طور پر تنگ ہو چکا ہے۔ ان کے سابق دستِ راست قبلہ شاہد رفیع صاحب سلطانی نوعیت کی گواہی تقریباً ریکارڈ کروا چکے ہیں۔ اُدھر طاہر بشارت چیمہ الگ سے دھر لیے گئے ہیں اور تعلق ان کا بھی وزارتِ پانی و بجلی سے ہی تھا۔ چنانچہ اگر تو ہماری مخبری کے مطابق راجا پرویزاشرف داماد و ہمنوا سمیت لپیٹے میں آجاتے ہیں تو پھر اس کا مطلب صرف یہی ہے کہ اب پنجاب کے ڈاکٹر ''عاصموں'' کی فصل بھی تقریباً پک چکی۔ اب فقط کٹائی کا آغاز ہونا باقی ہے۔
احتساب دشمن عناصر کو ''نوید'' ہو کہ اصلی گیم اب شروع ہونے والی ہے اور کرپشن کے لا متناہی قصے سن سن کر اپنا ذہنی توازن کھو بیٹھنے والی معصوم و مظلوم مڈل کلاس کو بھی خبر ہو کہ بدعنوانی کی بدبودار فضا اب چھٹنے والی ہے۔ اب تمہارے سینے میں بھی ٹھنڈ پڑنے والی ہے۔
ظفر اقبال صاحب یہاں کہتے ہیں ،
بہت نیندیں نچھاور کر چکے اب چین سے سونا
کہانی ختم پر آئی ہے، مجنوں مرنے والا ہے!
ہماری انتہائی مصدقہ اطلاع کے مطابق پچھلے دنوں وزیر اعظم کی خدمت میں بعض حساس اداروں کی تیار کردہ ایک فہرست پیش کی گئی جس میں 138 افراد کے نام شامل ہیں۔ فہرست پیش کرنے والی انتہائی اہم شخصیت نے مودبانہ گزارش کی کہ جناب یہ فہرست ان سولین چور کے پتروں کی ہے جنھوں نے آپ کے دورِ حکومت میں سرکار کوکئی کھرب روپے کا ٹانکا لگایا ہے۔ ان مبینہ مردودوں میں سے 15 سیاستدان ہیں جبکہ بقیہ سارے کے سارے بیوروکریٹ ہیں۔ ان میں کرپٹ ترین وزیر اور افسران وہ ہیں جو آپ کے اورآپکے برادرِ عزیز کی آنکھ کے تارے ہیں۔ چنانچہ ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہنے کی بجائے ان کے خلاف فوری کارروائی کریں ورنہ ہم خود کر لیں گے۔۔۔ ہیں جی؟
وزیراعظم کے انتہائی قریبی حلقے ان کے ولایت تشریف لے جانے سے چند روز پہلے تک کے حالات پر بے حد تشویش کا اظہار کرتے پائے گئے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ نواز شریف کی پرائیویٹ گفتگو کا تجزیہ کیا جائے تو جو چیزیں نمایاں طور پر نظر آتی ہیں ان میں غم، بے چارگی اور خوف شامل ہیں۔ پہلے پہل غصہ بھی نمایاں ہوا کرتا تھا مگر پھر شاید نوشتہ دیوار بغور پڑھا تو ان کے غصے کی جگہ غم نے لے لی۔ ایسی ہی ایک گفتگو میں انھوں نے اپنے چند نام نہاد چہیتوںسے متعلق بات کرتے ہوئے کہا کہ سب سے پہلے سلطانی گواہ یہی بنیں گے۔ ایک وزیر با تدبیر بارے تو انھوں نے یہاں تک کہہ دیا کہ اگر برا وقت آن پڑا تو یہ آدمی قطر سے متعلق معاملات میں مجھے بھی پھنسائے گا اور اسحاق ڈار کو بھی۔۔۔ ہیں جی؟
اندر کے لوگ یہ بھی بتاتے ہیں کہ نواز شریف کو جن باتوں کا غم گھُن کی طرح کھائے جا رہا ہے ان میں ایک تو یہ ہے کہ ان کے سیاسی کیرئیر کی آخری اننگز نہایت برے انجام سے دوچار ہوتی چلی جا رہی ہے۔ ماضی کے چند پریشان کُن معاملات اور بدنامی کا کوڑا کرکٹ جسے وہ اور ان کا خاندان کسی نہ کسی طور پر سیاسی قالین کے نیچے چھپائے چلے آرہے تھے، اچانک پانامہ لیکس جیسی فضول اور معمولی سی بات پر طشتِ ازبام ہو گئے ہیں۔ پانامہ لیکس کی حیثیت ہے تو ایک مچھر جتنی مگر یہ کم بخت مچھر اس مرتبہ گھُس ناک میں گیا ہے اس لیے یہ مچھر اب میزائل سے بھی زیادہ خطرناک ہو چکا ہے۔
نواز شریف کا دوسرا دکھ یہ بیان کیا جاتا ہے کہ ان کے بعض انتہائی قریبی ساتھی، دوست حتیٰ کہ عزیز بھی ان کا ساتھ چھوڑ چکے ہیں۔ دروغ برگردنِ راوی، وزیراعظم یہاں تک کہہ جایا کرتے ہیں کہ یہ وہی لوگ ہیں جنھوں نے مجھے جدے بھیجا تھا، نجانے اب یہ مجھے کہاں بھیجنا چاہتے ہیں۔
موصوف کا تیسرا غم یہ ہے کہ پانامہ لیکس کا مچھر میزائل بن کر مریم نواز کے سیاسی کیرئیر پر بھی گرا ہے جسے اب ''ان ڈو'' (Undo) یعنی تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔ شنید ہے کہ پچھلے دنوں چند اہم نواز لیگیوں نے ایک شخصیت سے بالواسطہ گزارش کی کہ جناب وزارت عظمیٰ کیلیے چند پسندیدہ نام تجویز فرما دیں تاکہ ہم سمری وغیرہ تو پُٹ اپ کریں۔ مگر مذکورہ شخصیت نے اس گزارش کا جواب دینا بھی گوارہ نہیں کیا۔
اب ذرا چلتے چلتے پیپلزپارٹی کے ''گاجر خوروں'' کی بھی سنتے جائیے کہ ہماری اطلاع کے مطابق ان پر بھی بُرے دن آنے والے ہیں۔ بے چارے شرجیل میمن کی مٹی پلید ہوتے آپ سوشل میڈیا پر دیکھ ہی چکے ہوں گے کہ رب ِ کریم جب کسی کے مقدر میں ذلت و رسوائی لکھ دیتا ہے تو پھر بہانہ ایک مچھر ہی بنا کرتا ہے۔ گذشتہ شب ایک شراب خانے سے نکلتے ہوئے میمن صاحب کی جو خواری ہوئی، اس کا موجب بھی ایک عام شہری ہی تھا جسے یہ لوگ اقتدار کے دنوں میں ایک مچھر سے زیادہ اہمیت نہیںدیتے۔
ہماری اطلاع کے مطابق سابق وزیراعظم راجا پرویز اشرف کے گرد بھی گھیرا مکمل طور پر تنگ ہو چکا ہے۔ ان کے سابق دستِ راست قبلہ شاہد رفیع صاحب سلطانی نوعیت کی گواہی تقریباً ریکارڈ کروا چکے ہیں۔ اُدھر طاہر بشارت چیمہ الگ سے دھر لیے گئے ہیں اور تعلق ان کا بھی وزارتِ پانی و بجلی سے ہی تھا۔ چنانچہ اگر تو ہماری مخبری کے مطابق راجا پرویزاشرف داماد و ہمنوا سمیت لپیٹے میں آجاتے ہیں تو پھر اس کا مطلب صرف یہی ہے کہ اب پنجاب کے ڈاکٹر ''عاصموں'' کی فصل بھی تقریباً پک چکی۔ اب فقط کٹائی کا آغاز ہونا باقی ہے۔
احتساب دشمن عناصر کو ''نوید'' ہو کہ اصلی گیم اب شروع ہونے والی ہے اور کرپشن کے لا متناہی قصے سن سن کر اپنا ذہنی توازن کھو بیٹھنے والی معصوم و مظلوم مڈل کلاس کو بھی خبر ہو کہ بدعنوانی کی بدبودار فضا اب چھٹنے والی ہے۔ اب تمہارے سینے میں بھی ٹھنڈ پڑنے والی ہے۔
ظفر اقبال صاحب یہاں کہتے ہیں ،
بہت نیندیں نچھاور کر چکے اب چین سے سونا
کہانی ختم پر آئی ہے، مجنوں مرنے والا ہے!