احترامِ رمضان کیوں اور کیسے۔۔۔۔۔۔
مسلمانوں پر اﷲ کا فضل ہے کہ ہر سال انہیں ایک ایسا مہینہ نصیب ہوتا ہے، جو رحمتوں اور برکات کی بارش کرتا ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے ''رمضان کا مہینہ وہ ہے جس میں قرآن کریم اُترا، جو لوگوں کی راہ نمائی، ہدایت اور حق و باطل میں فرق کردینے والی باتیں لے کر آیا، تو تم میں سے جو کوئی اس مہینے کو پائے اسے چاہیے کہ اس مہینے کے روزے رکھے۔''
اسلامی سال کے نویں مہینے رمضان المبارک کا تذکرہ اﷲ کی کتاب میں ہونا اس حقیقت کو تسلیم کرنے کے لیے کا فی ہے کہ اس ماہ مبارک کی عظمت و فضیلت وقتی اور عارضی نہیں، بل کہ قیامت تک کے لیے اس مہینے کو سال کے بارہ مہینوں پر عظمت حاصل ہوچکی، اب جو خوش نصیب چاہے اس کی عظمت کا احساس کرکے خود عظمت حاصل کرلے۔ کیو ں کہ رمضان کی فضیلت اس لیے نہیں کہ لوگ اس کا احترام کرتے ہیں بل کہ یہ اس لیے ہے کہ اس میں اﷲ کی عظمت والی کتاب نازل ہوئی، لہٰذا جو خدا اپنی مقدس کتاب کا محافظ ہے وہی اس مقدس مہینے کی عظمت کا بھی محافظ ہے۔
قرآن کریم نے رمضان المبارک کی اہم ترین فضیلت یہ بیان کی کہ اس ماہ میں قرآن کریم نازل ہوا، مسلمانوں سے اس کی عظمت کو منوانے کے لیے یہ حکم دیا گیا کہ قرآن پر ایمان رکھنے والے اس پورے مہینے کے روزے رکھیں۔ بلاشبہ روزہ ایک عبادت اور قرب الٰہی کا یقینی ذریعہ ہے۔ لیکن یہ کسی دوسرے مہینے میں بھی فرض کیے جاسکتے تھے، خاص طور پر اس عبادت کے لیے رمضان کو متعین کرنا صرف اس لیے ہے کہ ماہ نزول قرآن کے احترام کرانے کا یہ سب سے عمدہ طریقہ ہے اور یہ عبادت اہل قرآن کو احکام قرآن کی پابندی کی عادی بنا دیتی ہے۔
اس انقلابی کتاب پر عمل اس وقت تک ناممکن ہے جب تک کہ قوم انقلاب کی عادی نہ ہو۔ روزہ اسی مقصد کے لیے فرض کیا گیا کہ یہ مسلمان کو طبعا انقلاب کا عادی بنا دیتا ہے۔ اس سے کھانے پینے کے اوقات اور سونے جاگنے کے وقت بدل جاتے ہیں، تکلیف برداشت کرنے اور صبر کرنے کی عادت ہوجاتی ہے، غریبوں کے ساتھ ہم دردی کا جذبہ بیدار اور ضبطِ نفس پیدا ہوتا ہے۔ حاکم حقیقی کا تصور مضبوط ہوتا ہے، برائیوں سے نفرت اور نیکیوں کی طرف دل مائل ہوجاتا ہے۔ لہٰذا روزہ ایسے عادات و اطوار پیدا کرنے کا ذریعہ ہے جن کے بعد ہر مسلمان کے لیے قرآن کریم پر عمل نہایت ہی آسان ہوجاتا ہے۔ گویا ماہ نزول قرآن میں روزے کی فرضیت کا مقصد مسلمانوں کے لیے قرآن کریم پر عمل کو سہل کرنا ہے ۔
رمضان کا مہینہ عظمت و برکت والا ہے اور عظمت و برکت کا ہر شخص خواہاں ہوتا ہے۔ مسلمانوں پر خدا کا فضل ہے کہ ہر سال انہیں ایک مہینہ نصیب ہوتا ہے جو ان کے گھروں میں آکر رحمت و برکت کی بارش کرتا ہے۔ لیکن ہماری حالت تو یہ بتاتی ہے کہ ہم بنجر زمین کی طرح ہیں کہ بارش تو ہر سال ہوتی ہے لیکن ہم پر کوئی اثر نہیں کرتی یا ہم اثر قبول کرنے کے قابل ہی نہیں رہے۔
اس ماہ رمضان کی شب قدر میں عبا دت کا ثواب ہزار مہینوں کی عبادت سے زیادہ ہے۔ قرآن کریم بھی یہی فرما رہا ہے نیز آپؐ نے بھی فرمایا کہ اس مہینے میں کی جانے والی ایک نیکی کا بدلہ فرض کے برابر ہے اور فرض ادا کرنے کا ثواب ستّر گنا زیادہ ہوجاتا ہے۔ کاش ہم غور کریں کہ رمضان میں نیکیاں نہ کرکے اور شب قدر کی قدر نہ کرکے ہم اپنا کتنا نقصان کرتے ہیں۔
جب کہ ایک ایک پیسے کے لیے ہم کتنی محنت کرتے ہیں، دولت ملنے کی ذرا سی امید ہو تو ہم کوئی ادنی موقع بھی ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ لیکن خدا ہمیں دینے کا بہانا چاہتا ہے، کچھ تو ہم کریں کہ اس کی رحمت کی ہم پر برسے۔ لیکن ہم ہیں کہ دنیا کی جھوٹی لالچ پر جان دیتے ہیں اور آخرت کے لیے خدا کے سچے وعدے کی پروا نہیں کرتے۔ کاش ہم خود کو بدلنے پر بھی توجہ دیں، وہ بڑا ہی رحیم و کریم ہے، اس کی رحمت سے مایوس ہونا گناہ ہے، لہٰذا ہم رمضان کا استقبال اور احترام کریں، نیکیاں کرنے کے عزم کے ساتھ شب قدر کا ثواب حاصل کرنے کے ارادے سے تو یہ رمضان ہماری زندگی میں انقلاب کا ذریعہ بن سکتا ہے۔
نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ رمضان کا مہینہ صبر کا مہینہ ہے۔ اگر قوم میں صبر کی عادت پیدا ہوجائے تو معاشرے کے بیشتر مسائل خود بہ خود حل ہوجاتے ہیں۔ کبھی معمولی تکالیف پورے معاشرے کو اضطراب اور افراتفری میں مبتلا کردیتی ہیں کیوں کہ لوگوں میں صبر کرنے کی عادت نہیں ہوتی۔ لیکن کبھی بڑے بڑے طوفان، سیلاب اور زلزلے بھی معاشرے کے سکون پر اثر انداز نہیں ہوپاتے، صرف اس لیے کہ لوگ صبر کے ساتھ ان مصائب کا مقابلہ کرلیتے ہیں اور انہیں پتا بھی نہیں چلتا کہ مصیبت کب آئی اور کب گئی۔
خدا نے مسلم معاشرے میں سکون کو برقرار رکھنے کے لیے رمضان کا مہینہ عطا فرمایا کہ مسلمان اس کی راتوں میں خصوصی عبادت سحری کے وقت جاگنے کی تکلیف برداشت کریں، دن میں روزہ رکھیں تاکہ بھوک پیاس وغیرہ کی تکلیف برداشت کریں، اس طرح ان کی قوت برداشت زیادہ ہوتی اور وہ ہر تکلیف کو سہنے کے عادی بن جاتے اور ہر حال میں خدا کا شکر ادا کرتے ہیں۔
نبی کریم ﷺ نے فرمایا، رمضان کا مہینہ ہم دردی کا مہینہ ہے۔ اس حقیقت کا کس طرح انکار کیا جاسکتا ہے کہ باہمی ہم دردی و محبت کو معاشرے کی ترقی میں بنیادی حیثیت حاصل ہے۔ غربت و تنگ دستی، بے روزگاری اور ان سے پیدا ہونے والے جرائم، بدکرداری و بدعنوانیوں کا خاتمہ باہمی ہم دردی سے ہی ہوسکتا ہے۔ وہ قوم کیا خاک ترقی کرے گی جس کا ہر فرد خودغرضی میں مبتلا ہو اور اپنے ذاتی مفاد کے لیے دو سروں کو نوچنے ہی کی فکر میں رہتا ہو اور نوبت یہاں تک پہنچ جائے کہ بے اعتمادی کی ایسی کیفیت پیدا ہوجائے کہ باپ بیٹے پر، بھائی بھائی پر، پڑوسی پڑوسی پر غرض کہ کوئی کسی پر، کسی بھی معاملے میں اعتماد کرنے پر تیار ہی نہ ہو، تو کون کسی کے بُرے وقت میں کام آئے گا اور کون کسی کی مدد کرے گا۔ ہمیں اپنا محاسبہ کرنا چاہیے۔ اﷲ نے ہمیں یہ مبارک مہینہ عطا فرمایا اور ہمیں پھر موقع ملا ہے اصلاح نفس کا۔ بس اصلاح کے عزم سے احترام رمضان کیا جائے تو یقینا اصلاح ہوگی۔
نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ رمضان میں مسلمانوں کا رزق زیادہ کردیا جاتا ہے۔ رزق کی فراخی کی اہمیت محتاج بیان نہیں اور مسلمان کا یہ ایمان ہے کہ رزق حاصل کرنا صرف تدبیر و محنت سے نہیں، یہ خدا کا فضل ہے، جسے جتنا چاہے وہ اپنے خزانے سے عطا فرما دے۔ لہٰذا مسلمان کے لیے ضروری ہے کہ محنت اور تدبیر کے ساتھ رازقِ حقیقی پر بھی بھروسا کرے، اس کی رضا کا طلب گار رہے، رمضان کے مقدس مہینے میں جب بندہ صرف اپنے رب کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے بھوکا پیاسا رہتا ہے اور اس حال میں تلاش معاش میں سرگرداں بھی رہے تو اﷲ رحم فرماتا ہے اور حصول رزق کو اس کے لیے آسان کردیتا ہے۔ گویا جس طرح ہم فصلیں اُگانے میں دن رات محنت کرتے ہیں تاکہ رزق کی فراوانی ہو، اسی طرح ہمیں احترام رمضان اور اس کے احکام کی پابندی کی بھی کوشش کرنا چاہیے تو نبی کریم ﷺ کے ارشاد کے مطابق غربت اور تنگ دستی ضرور دور اور خوش حالی ضرور نصیب ہوگی۔
اﷲتعالیٰ ہم سب کو عمل کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
اسلامی سال کے نویں مہینے رمضان المبارک کا تذکرہ اﷲ کی کتاب میں ہونا اس حقیقت کو تسلیم کرنے کے لیے کا فی ہے کہ اس ماہ مبارک کی عظمت و فضیلت وقتی اور عارضی نہیں، بل کہ قیامت تک کے لیے اس مہینے کو سال کے بارہ مہینوں پر عظمت حاصل ہوچکی، اب جو خوش نصیب چاہے اس کی عظمت کا احساس کرکے خود عظمت حاصل کرلے۔ کیو ں کہ رمضان کی فضیلت اس لیے نہیں کہ لوگ اس کا احترام کرتے ہیں بل کہ یہ اس لیے ہے کہ اس میں اﷲ کی عظمت والی کتاب نازل ہوئی، لہٰذا جو خدا اپنی مقدس کتاب کا محافظ ہے وہی اس مقدس مہینے کی عظمت کا بھی محافظ ہے۔
قرآن کریم نے رمضان المبارک کی اہم ترین فضیلت یہ بیان کی کہ اس ماہ میں قرآن کریم نازل ہوا، مسلمانوں سے اس کی عظمت کو منوانے کے لیے یہ حکم دیا گیا کہ قرآن پر ایمان رکھنے والے اس پورے مہینے کے روزے رکھیں۔ بلاشبہ روزہ ایک عبادت اور قرب الٰہی کا یقینی ذریعہ ہے۔ لیکن یہ کسی دوسرے مہینے میں بھی فرض کیے جاسکتے تھے، خاص طور پر اس عبادت کے لیے رمضان کو متعین کرنا صرف اس لیے ہے کہ ماہ نزول قرآن کے احترام کرانے کا یہ سب سے عمدہ طریقہ ہے اور یہ عبادت اہل قرآن کو احکام قرآن کی پابندی کی عادی بنا دیتی ہے۔
اس انقلابی کتاب پر عمل اس وقت تک ناممکن ہے جب تک کہ قوم انقلاب کی عادی نہ ہو۔ روزہ اسی مقصد کے لیے فرض کیا گیا کہ یہ مسلمان کو طبعا انقلاب کا عادی بنا دیتا ہے۔ اس سے کھانے پینے کے اوقات اور سونے جاگنے کے وقت بدل جاتے ہیں، تکلیف برداشت کرنے اور صبر کرنے کی عادت ہوجاتی ہے، غریبوں کے ساتھ ہم دردی کا جذبہ بیدار اور ضبطِ نفس پیدا ہوتا ہے۔ حاکم حقیقی کا تصور مضبوط ہوتا ہے، برائیوں سے نفرت اور نیکیوں کی طرف دل مائل ہوجاتا ہے۔ لہٰذا روزہ ایسے عادات و اطوار پیدا کرنے کا ذریعہ ہے جن کے بعد ہر مسلمان کے لیے قرآن کریم پر عمل نہایت ہی آسان ہوجاتا ہے۔ گویا ماہ نزول قرآن میں روزے کی فرضیت کا مقصد مسلمانوں کے لیے قرآن کریم پر عمل کو سہل کرنا ہے ۔
رمضان کا مہینہ عظمت و برکت والا ہے اور عظمت و برکت کا ہر شخص خواہاں ہوتا ہے۔ مسلمانوں پر خدا کا فضل ہے کہ ہر سال انہیں ایک مہینہ نصیب ہوتا ہے جو ان کے گھروں میں آکر رحمت و برکت کی بارش کرتا ہے۔ لیکن ہماری حالت تو یہ بتاتی ہے کہ ہم بنجر زمین کی طرح ہیں کہ بارش تو ہر سال ہوتی ہے لیکن ہم پر کوئی اثر نہیں کرتی یا ہم اثر قبول کرنے کے قابل ہی نہیں رہے۔
اس ماہ رمضان کی شب قدر میں عبا دت کا ثواب ہزار مہینوں کی عبادت سے زیادہ ہے۔ قرآن کریم بھی یہی فرما رہا ہے نیز آپؐ نے بھی فرمایا کہ اس مہینے میں کی جانے والی ایک نیکی کا بدلہ فرض کے برابر ہے اور فرض ادا کرنے کا ثواب ستّر گنا زیادہ ہوجاتا ہے۔ کاش ہم غور کریں کہ رمضان میں نیکیاں نہ کرکے اور شب قدر کی قدر نہ کرکے ہم اپنا کتنا نقصان کرتے ہیں۔
جب کہ ایک ایک پیسے کے لیے ہم کتنی محنت کرتے ہیں، دولت ملنے کی ذرا سی امید ہو تو ہم کوئی ادنی موقع بھی ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ لیکن خدا ہمیں دینے کا بہانا چاہتا ہے، کچھ تو ہم کریں کہ اس کی رحمت کی ہم پر برسے۔ لیکن ہم ہیں کہ دنیا کی جھوٹی لالچ پر جان دیتے ہیں اور آخرت کے لیے خدا کے سچے وعدے کی پروا نہیں کرتے۔ کاش ہم خود کو بدلنے پر بھی توجہ دیں، وہ بڑا ہی رحیم و کریم ہے، اس کی رحمت سے مایوس ہونا گناہ ہے، لہٰذا ہم رمضان کا استقبال اور احترام کریں، نیکیاں کرنے کے عزم کے ساتھ شب قدر کا ثواب حاصل کرنے کے ارادے سے تو یہ رمضان ہماری زندگی میں انقلاب کا ذریعہ بن سکتا ہے۔
نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ رمضان کا مہینہ صبر کا مہینہ ہے۔ اگر قوم میں صبر کی عادت پیدا ہوجائے تو معاشرے کے بیشتر مسائل خود بہ خود حل ہوجاتے ہیں۔ کبھی معمولی تکالیف پورے معاشرے کو اضطراب اور افراتفری میں مبتلا کردیتی ہیں کیوں کہ لوگوں میں صبر کرنے کی عادت نہیں ہوتی۔ لیکن کبھی بڑے بڑے طوفان، سیلاب اور زلزلے بھی معاشرے کے سکون پر اثر انداز نہیں ہوپاتے، صرف اس لیے کہ لوگ صبر کے ساتھ ان مصائب کا مقابلہ کرلیتے ہیں اور انہیں پتا بھی نہیں چلتا کہ مصیبت کب آئی اور کب گئی۔
خدا نے مسلم معاشرے میں سکون کو برقرار رکھنے کے لیے رمضان کا مہینہ عطا فرمایا کہ مسلمان اس کی راتوں میں خصوصی عبادت سحری کے وقت جاگنے کی تکلیف برداشت کریں، دن میں روزہ رکھیں تاکہ بھوک پیاس وغیرہ کی تکلیف برداشت کریں، اس طرح ان کی قوت برداشت زیادہ ہوتی اور وہ ہر تکلیف کو سہنے کے عادی بن جاتے اور ہر حال میں خدا کا شکر ادا کرتے ہیں۔
نبی کریم ﷺ نے فرمایا، رمضان کا مہینہ ہم دردی کا مہینہ ہے۔ اس حقیقت کا کس طرح انکار کیا جاسکتا ہے کہ باہمی ہم دردی و محبت کو معاشرے کی ترقی میں بنیادی حیثیت حاصل ہے۔ غربت و تنگ دستی، بے روزگاری اور ان سے پیدا ہونے والے جرائم، بدکرداری و بدعنوانیوں کا خاتمہ باہمی ہم دردی سے ہی ہوسکتا ہے۔ وہ قوم کیا خاک ترقی کرے گی جس کا ہر فرد خودغرضی میں مبتلا ہو اور اپنے ذاتی مفاد کے لیے دو سروں کو نوچنے ہی کی فکر میں رہتا ہو اور نوبت یہاں تک پہنچ جائے کہ بے اعتمادی کی ایسی کیفیت پیدا ہوجائے کہ باپ بیٹے پر، بھائی بھائی پر، پڑوسی پڑوسی پر غرض کہ کوئی کسی پر، کسی بھی معاملے میں اعتماد کرنے پر تیار ہی نہ ہو، تو کون کسی کے بُرے وقت میں کام آئے گا اور کون کسی کی مدد کرے گا۔ ہمیں اپنا محاسبہ کرنا چاہیے۔ اﷲ نے ہمیں یہ مبارک مہینہ عطا فرمایا اور ہمیں پھر موقع ملا ہے اصلاح نفس کا۔ بس اصلاح کے عزم سے احترام رمضان کیا جائے تو یقینا اصلاح ہوگی۔
نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ رمضان میں مسلمانوں کا رزق زیادہ کردیا جاتا ہے۔ رزق کی فراخی کی اہمیت محتاج بیان نہیں اور مسلمان کا یہ ایمان ہے کہ رزق حاصل کرنا صرف تدبیر و محنت سے نہیں، یہ خدا کا فضل ہے، جسے جتنا چاہے وہ اپنے خزانے سے عطا فرما دے۔ لہٰذا مسلمان کے لیے ضروری ہے کہ محنت اور تدبیر کے ساتھ رازقِ حقیقی پر بھی بھروسا کرے، اس کی رضا کا طلب گار رہے، رمضان کے مقدس مہینے میں جب بندہ صرف اپنے رب کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے بھوکا پیاسا رہتا ہے اور اس حال میں تلاش معاش میں سرگرداں بھی رہے تو اﷲ رحم فرماتا ہے اور حصول رزق کو اس کے لیے آسان کردیتا ہے۔ گویا جس طرح ہم فصلیں اُگانے میں دن رات محنت کرتے ہیں تاکہ رزق کی فراوانی ہو، اسی طرح ہمیں احترام رمضان اور اس کے احکام کی پابندی کی بھی کوشش کرنا چاہیے تو نبی کریم ﷺ کے ارشاد کے مطابق غربت اور تنگ دستی ضرور دور اور خوش حالی ضرور نصیب ہوگی۔
اﷲتعالیٰ ہم سب کو عمل کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین