بجٹ201617
کیونکہ اب بجٹ کوئی خفیہ دستاویز نہیں رہا جیسا کہ کسی زمانے میں ہوتا تھا
آج بجٹ 2016-17ء پیش ہو گا۔ گوکہ وزیر خزانہ اسحاق ڈار بزعم خود یہ نوید دے چکے ہیں کہ اس بجٹ سے عام آدمی کو ریلیف ملے گا مگر ہمارے خیال میں یہجملہ روایتی ہے کیونکہ اس قسم کے جملے جب بھی بجٹ پیش ہوتا ہے تو وزیر خزانہ کے ساتھ ساتھ تمام حکومتی ارکان بھی ادا کرتے ہیں جب کہ حقیقت اس کے برعکس ہوتی ہے، چنانچہ اس سال بھی ایسا ہی کچھ ہونے والا ہے۔
کیونکہ اب بجٹ کوئی خفیہ دستاویز نہیں رہا جیسا کہ کسی زمانے میں ہوتا تھا، اب تو کیفیت یہ ہے کہ بجٹ پیش ہونے سے کوئی دو ہفتے قبل ہی اسٹیٹ بینک کی جانب سے یہ بیان سامنے آ چکا ہے کہ رواں سال یعنی 2015-16 میں ترقی کے اہداف پورے نہیں ہو سکے، چنانچہ آیندہ سال یعنی 2016-17 میں مہنگائی کی شرح مزید بڑھے گی جب کہ اعدا د وشمار کے ماہرین کا یہ خیال ہے کہ سال 2016-17 میں مہنگائی کی شرح ریکارڈ حد تک بڑھے گی۔ معلوم نہیں تمام تر حقائق کے باوجود وزیرخزانہ نے عام آدمی کو بجٹ 2016-17 میں ریلیف دینے کی غیر حقیقی بات کیسے کہہ دی۔
بہرکیف امکان یہ ہے کہ رواں برس 4500 ارب روپے کا بجٹ پیش کیا جائے گا ان 4500 ارب روپے میں 1420 ارب روپے تو فقط قرضوں کے سود کی مد میں ادا کیے جائیں گے، یعنی بجٹ کی کل رقم کا 33 فیصد حکومت کے حاصل کردہ قرضوں کی سود کی ادائیگی میں جائے گا۔ واضح رہے فقط سود کی ادائیگی نا کہ قرضوں کی ادائیگی۔ قرضوں کی رقم جوں کی توں برقرار رہے گی بلکہ ہر آنے والے دن کے ساتھ قرضوں کا حجم بڑھتا ہی جا رہا ہے۔
یہ ملکی وغیر ملکی قرضوں کا بڑھتا ہوا حجم ہی ہے کہ وطن عزیز میں غربت کی شرح بڑھ رہی ہے جب کہ آنے والے بجٹ میں یہ امکان بھی ظاہرکیا جا رہا ہے کہ سر کاری ملازمین کی اجرت میں پانچ سے دس فیصد اضافہ کیا جائے گا۔ اب اس سے بڑا مذاق سرکاری ملازمین کے ساتھ اور کیا ہو گا کہ مہنگائی کے گھوڑے کو بے لگام چھوڑ دیا جائے اور سرکاری ملازمین کی اجرت میں پانچ سے دس فیصد تک اضافہ کیا جائے؟
گزشتہ مالی سال کے دوران عام ضرورت کی اشیاء میں بے پناہ اضافہ دیکھنے میں آیا حتیٰ کہ دالوں کی قیمت میں فی کلو پچاس سے ساٹھ روپے تک یقینی اضافہ ہوا ہے جب کہ دال ماش کا یہ اضافہ فی کلو ایک سو روپے تک ہوا ہے یعنی اس وقت عام مارکیٹ میں دال ماش 270 روپے میں فروخت ہو رہی ہے جب کہ دیگر ضرورت کی اشیا جن میں سبزیاں، چاول، آٹا وغیرہ بھی ایسی اشیاء ہیں جن کی قیمتوں کو گویا پَر لگے ہوئے ہیں اور ہمہ وقت ان اشیا کی قیمتیں آسمانوں کو چھوتی ہوئی نظر آتی ہیں اور ان حالات میں سرکاری ملازمین کی اجرت میں پانچ سے دس فیصد اضافہ انتہائی نامناسب ہو گا کہ ان اجرتوں میں اضافہ پچاس سے ساٹھ فیصدکیا جائے جب کہ نجی اداروں میں اس وقت جو اجرت ہے وہ ہے کم سے کم 13 ہزار روپے اور یہ 13 ہزار ماہانہ اجرت پانے والے بھی بمشکل 15 سے 20 فیصد محنت کش ہیں جب کہ دیگر محنت کش 10 سے 11 ہزار روپے اجرت حاصل کرتے ہیں جب کہ اگر ایک ایسے خاندان کا گھریلو بجٹ بنایا جائے جس خاندان کے فقط 2 بچے ومیاں بیوی خود ہوں یعنی چار افراد پر مشتمل خاندان تو اس خاندان کے اخراجات کچھ یوں ہوتے ہیں۔
اشیاء خورو نوش جن میں دال، چاول و سبزیاں وغیرہ تو یہ خورونوش کی اشیا پر اٹھنے والے اخراجات ہوں گے۔ 12 ہزار روپے اور اگر ان اشیا میں مرغی، مچھلی، بکرے کا گوشت و گائے کا گوشت بھی شامل کر لیا جائے تو پھر ان اشیا کے حصول کے لیے 18 ہزار روپے بھی کم ہوں گے اور اگر موسمی پھل کو بھی غذا میں شامل کر لیا جائے تو مزید 3 ہزار روپے درکار ہوں گے مگر فی الوقت ہم موسمی پھل و لحمیات سے گریزکرتے ہوئے فقط سادہ غذا والا یعنی دال و سبزیوں والے بجٹ کی بات کرتے ہیں۔
جن اشیا پر اٹھنے والے اخراجات ہیں کم سے کم 12 ہزار روپے جب کہ 5 ہزار روپے رکھ لیں ان 2 بچوں کے تعلیمی اخراجات کے لیے تو یہ ہو گئے 17 ہزار روپے۔ اب اس خاندان کے 7 ہزار روپے رکھ لیں رہائشی خرچہ یعنی مکان کا کرایہ تو اب یہ ہو گئے 24 ہزار روپے۔ اب ذکر ہوجائے دیگر اخراجات کا جن میں کپڑوں کی دھلائی، نئے کپڑوں کی خریداری، بیماری کے اخراجات، کیبل کے اخراجات، صاحب خانہ کا بس کا کرایہ، مہمان داری کے اخراجات یہ سب چھوٹے چھوٹے اخراجات یقینی طور پر اٹھتے ہیں 6 سے 8 ہزار روپے۔ اس صورت میں یہ اخراجات بنتے ہیں 30 سے32 ہزار روپے جب کہ حکومت وقت کمال مہربانی فرماتے ہوئے اگر موجودہ اجرت میں جوکہ 13 ہزار روپے ہے میں ایک ہزار روپے کا اضافہ بھی کر دے تو یہ رقم ہو گی 14 ہزار روپے۔ اب مزید 16 سے 18 ہزار روپے جو کہ گھریلو اخراجات پورے کرنے کے لیے درکار ہوں گے وہ کہاں سے آئیں گے؟
یہ وہ سوال ہے جو کہ تمام پاکستانی کرتے ہیں مگر ان کو جواب دینے والا کوئی نہیں ہے جب کہ موجودہ حکومت کی لیڈر شپ نے اپنی انتخابی مہم میں 2013ء میں کم سے کم اجرت 15 ہزار روپے دینے کا وعدہ کیا تھا مگر دیگر وعدوں کی مانند اس وعدے کو بھی پس پشت ڈال دیا گیا ہے چنانچہ فی الوقت حکومت وقت کے لیے جو ضروری کام کرنے کے ہیں وہ یہ ہیں اول وہ بڑے منصوبے جو کہ زرکثیر کے طالب ہیں جن میں میٹرو بس، اورنج ٹرین منصوبہ، ملک بھر میں موٹر وے جیسے منصوبے ان تمام منصوبوں کو ترک کر دے کیونکہ قوم ان منصوبوں پر اٹھنے والے اخراجات کی متحمل نہیں ہو سکتی۔ (دوم) قوم کا معیار تعلیم بلند کرنے کے لیے اس شعبے میں زیادہ سے زیادہ رقم مختص کی جائے یہی اقدام صحت کے شعبے میں اٹھائے جائیں۔
(سوم) وزیراعظم ہاؤس کے ساتھ ساتھ چاروں صوبائی وزیراعلیٰ ہاؤسز صدارتی محل و چاروں صوبائی گورنر ہاؤسز کے اخراجات میں نمایاں ترین کمی کی جائے تمام ممبران اسمبلی جن میں چاروں صوبائی اسمبلیاں و سینیٹ کے ممبران بھی شامل ہیں کی تنخواہ کے ساتھ ساتھ ان کو دی جانے والی مراعات میں بھی قابل ذکر حد تک کمی کی جائے بلکہ سینیٹ کا ادارہ ہی ختم کر دیا جائے تو مناسب ہو گا کیونکہ اس ادارے کی افادیت تو نہ ہونے کے برابر ہے البتہ اس ادارے کے ممبران پر اٹھنے والے اخراجات اس غریب قوم کے لیے ناقابل برداشت ہیں۔
اسی طرح وزیر اعظم کے ساتھ ساتھ دیگر وزرا کے غیر ملکی دوروں میں بھی نمایاں ترین کمی کی جائے اور وزیر اعظم و دیگر وزرا بھی قومی مفاد کو مدنظر رکھتے ہوئے غیر ملکی دوروں سے اجتناب کریں دیگر یہ کہ بین الاقوامی تسلیم شدہ فارمولا پر عمل درآمد کرتے ہوئے اجرت کے فرق ایک اور پانچ کو رائج کیا جائے مطلب یہ کہ اگر کم سے کم اجرت 13 ہزار روپے ہے تو زیادہ سے زیادہ اگر کسی کو اجرت دینا مقصود ہو تو اسے 65 ہزار روپے دی جائے مگر یہاں تو 85 لاکھ روپے تک اجرت حاصل کرنے والے بیورو کریٹ بھی ہیں جب کہ دیگر مراعات الگ۔
لمحہ فکریہ ہے کہ کیا ہماری غربت کی ستائی ہوئی قوم اس قدر زر کثیر حاصل کرنے والے بیورو کریٹس کی متحمل ہو سکتی ہے؟ حرف آخر ہم حکومت وقت سے گزارش کریں گے کہ تمام حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے کم سے کم اجرت ماہانہ 30 ہزار روپے مقررکی جائے بصورت دیگر عام آدمی کا گزر بسر نہ صرف مشکل ہے بلکہ ناممکن ہے۔