ماہ صیام اور فلسفہ زکوٰۃ

زکوٰۃ دین اسلام کا ایک اہم ستون اور عبادت ہے جو فتح مکہ کے بعد 9 ہجری میں فرض ہوئی۔


[email protected]

زکوٰۃ دین اسلام کا ایک اہم ستون اور عبادت ہے جو فتح مکہ کے بعد 9 ہجری میں فرض ہوئی۔ زکوٰۃ کے لفظی معنی پاکیزگی اور بالیدگی کے ہیں۔ حلال مال زکوٰۃ کے ذریعے سے صرف پاک و صاف ہی نہیں ہو جاتا بلکہ روحانی اور معاشی فیوض و برکات کے لحاظ سے خوب پھلتا، پھولتا، بڑھتا اور زیادہ ہوتا جاتا ہے۔ دامن نفس صفات مذمومہ (کذب، بخل، ریاکاری، ناشکری، تنگ دلی، حرص و طمع اور خود غرضی) کے داغ دھبوں سے پاک و صاف ہو کر صفات محمودہ (صدق وصفا، مہرووفا، جود و سخا، شرم و حیا، خوف خدا) کے موتیوں سے بھر جاتا ہے۔

زکوٰۃ کے لیے قرآن مجید میں دوسرا لفظ صدقہ استعمال ہوا ہے جس کا تعلق صدق (سچ) سے ہے۔ زکوٰۃ کو صدقہ اس لیے کہا جاتا ہے کہ اس کے ذریعے انسان اپنے مالک حقیقی کے سامنے دولت کے معاملے میں اپنی حیثیت نیابت، عبودیت اور اظہار بندگی کی صداقت، سچائی کا ثبوت پیش کرتا ہے۔ قرآن پاک کی چند آیات کا ترجمہ پیش خدمت ہے ۔

(1)۔ انسان طبعاً کمزور پیدا ہوا ہے۔ (سورۃ النساء آیت 28)
(2)۔ کچھ شک نہیں انسان بڑا بے انصاف اور ناشکرا ہے۔ (سورۂ ابراہیم آیت 34)
(3)۔ انسان دل کا بہت تنگ ہے۔ (سورۂ بنی اسرائیل، آیت 100)
(4)۔ کچھ شک نہیں کہ انسان کم حوصلہ پیدا ہوا ہے۔ (سورۃ المعارج، آیت 19)
(5)۔ وہ مال سے سخت محبت کرنے والا ہے۔ (سورۃ العادیات، آیت8)
زکوٰۃ مال و دولت کے معاملے میں اﷲ کی عبادت کا مقرر شدہ اسلامی طریقہ ہے۔ زکوٰۃ امراء کی دولت میں غربا کا حق ہے۔ (فرمان الٰہی)
زکوٰۃامرا سے لی جاتی ہے اور غربا کو دی جاتی ہے۔ (فرمان رسولؐ)
زکوٰۃ کی تعریف ہم یوں کرسکتے ہیں کہ۔
(1)۔ ایک مخصوص مال و ملکیت کے نصاب کا وہ مخصوص اور واجب الادا قانونی حصہ جو خوش دلی کے ساتھ اس کے کسی شرعی حق دار کو مستقل طور پر اس کی ذاتی ملکیت میں پورے حقوق تصرف کے ساتھ منتقل کردیا جائے۔
(2)۔ اﷲ کی دولت کا ایک حصہ، جو اﷲ کے بتائے ہوئے راستوں پر، اﷲ کی رضا کی خاطر خرچ کیا جائے۔
مذاہب عالم میں یہ امتیازی شان اور منفرد مقام دین اسلام کو حاصل ہے کہ اس نے غریبوں کی بنیادی ضروریاتِ زندگی کی کفالت کو انسان کے ضمیر یا آواز اخلاق کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑا بلکہ معاشرتی انصاف کو زکوٰۃ کی صورت میں قانون الٰہی کی ایک لازمی شق قرار دیا اور مرد صدیق کی پہچان بھی۔ قرآن حکیم میں آٹھ مقامات پر زکوٰۃ اور نماز کا ذکر ایک ساتھ آیا ہے، وہ شخص جو اپنے مال میں مستحق کا حق تسلیم نہیں کرتا وہ ہرگز نیکی کو نہیں پہنچ سکتا۔ اس کا دعویٰ ایمان بے بنیاد، کھوکھلا، رسمی، ظاہری اور فریب نفس ہے۔

زکوٰۃ اﷲ کے ذمے قرض حسنہ ہے روز قیامت اﷲ تعالیٰ اتنا ہی مال بندے کو نہیں لوٹائے گا بلکہ اپنے فضل سے زیادہ ہی دے گا۔ راہ خدا میں خرچ کیے جانے والے مال کی مثال اس دانے کی سی ہے جس سے سات بالیں اُگیں اور ہر ایک بال میں سو سو دانے ہوں۔ یہ تو ایک نیکی ہے جو انسان اپنے لیے آگے بھیج رہا ہے جو اسد کو ہلاکت سے بچائے گی اس کے گناہوں کو مٹائے گی، اس کی توبہ کی قبولیت اور اس کے لیے رحمت، بخشش اور مغفرت کا ذریعہ بنے گی۔

زکوٰۃ ٹیکس نہیں، عبادت ہے دونوں کے جوہر اصلی اور اسپرٹ میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ زکوٰۃ، عبد کا معبود کے حضور اظہار بندگی ہے یہ کسی پر احسان نہیں، ادائیگی فرض ہے۔ ٹیکس انسان ساختہ ہے اور زکوٰۃ خدا ساختہ۔ ٹیکس میں زبردستی، تنگ دلی، اظہار تاسف وناراضگی کی کیفیت پائی جاتی ہے جب کہ زکوٰۃ میں مرضی، خوش دلی، اظہار مسرت و آمادگی کی قلبی اور ذہنی کیفیت پائی جاتی ہے۔

ٹیکس کی شرح اور مصارف آئے دن بدلتے رہتے ہیں لیکن زکوٰۃ کے نصاب، شرح اور مصارف کو ثبات و دوام حاصل ہے۔ ٹیکس کے فوائد دنیوی زندگی تک محدود ہیں۔ جب کہ زکوٰۃ کے فوائد وسعت کے لحاظ سے دنیوی زندگی سے لے کر اخروی زندگی تک پھیلے ہوئے ہیں۔ ٹیکس امیر و غریب دونوں کے کام آتے ہیں۔ زکوٰۃ صرف غریبوں کے کام آتی ہے۔

اسلام کے نظام معیشت میں زکوٰۃ کی حیثیت ریڑھ کی ہڈی کی مانند ہے، زکوٰۃ کی روحانی نظر، معاشی اثر رکھتی ہے۔ یہ غریبوں کی حاجت روائی اور روزی رسانی کا شرعی فریضہ ہے۔ یہ دولت کی منجمد چٹان کو ٹکڑے ٹکڑے کرکے فضا میں بکھیر دیتی ہے۔ جوں جوں دولت پھیلتی ہے توں توں غربت و مصائب و آلام کا دائرہ سکڑتا جاتا ہے اور معاشی خوشگواری رونما ہوتی ہے جس کا اثر سب سے پہلے معاشرے کے نچلے طبقے کو پہنچتا ہے اور بتدریج نیچے سے اوپر کی جانب تمام طبقات خوشگوار معاشی اثرات سے مستفیض ہوتے چلے جاتے ہیں اور وہ منحوس گھڑی آنے نہیں پاتی کہ آدمی آدمی کو کھانے لگے۔

یہ مردہ جسد معاش میں دم عیسیٰ کی طرح روح پھونک دیتی ہے۔ غریبی، فقیری، مسکینی، معذوری اور مجبوری کی باد سموم جن چہروں کو جھلسادیتی ہے زکوٰۃ کی باد بہار سے ان چہروں کا رنگ و روپ نکھر آتا ہے ان پر شگفتگی، تازگی اور مسکراہٹ کی کلیاں کھلنے لگتی ہیں۔ قوت خرید میں خاطر خواہ اضافہ ہوتا ہے۔ نتیجتاً اشیائے صرف کی طلب میں اضافہ سے پیداوار کی رسد بڑھنے لگتی ہے چیزیں سستی ہوجاتی ہیں اور بازاروں میں آنے لگتی ہے بازاروں میں خاک اڑتی نظر نہیں آتی۔ دولت فضا کے خوف سے سرما یہ کاری کا روپ دھار لیتی ہے۔ مختلف مدات سے زکوٰۃ رس رس کر قطروں کی صورت میں ٹپک ٹپک کر دولت کا دریا بن جاتی ہے۔ قطرہ قطرہ گویا قنطرہ بن جاتا ہے۔

فکر فردا آج کے انسان کا اولین اور بنیادی معاشی مسئلہ ہے اس مسئلے کی نزاکت کے سامنے انسان کی روحانی اور اخلاقی اقدار بے معنی، بے وزن اور بے اثر سی ہوکر رہ گئی ہیں۔ فکر معاش دن رات اس کے اعصاب پر سوار ہے۔

گفتگو کسی سے ہو، تیرا دھیان رہتا ہے
ٹوٹ ٹوٹ جاتا ہے سلسلہ تکلم کا

ہر جگہ پیٹ کا رونا اور معاشی پریشانی کا دکھڑا موضوع بحث بنا رہتا ہے۔ آج اور کل کی غیر یقینی معاشی حالت، انجان خوف اور نامعلوم اندیشوں کے بھیانک نتائج سے خود کو اور اپنے لواحقین کو بچانے کے لیے خود غرضی پر اُتر آیا ہے، مختلف مصنوعی معاشی تدابیر اختیار کر رہا ہے لیکن جوں جوں دوا کر رہا ہے توں توں مرض بڑھتا جا رہا ہے۔

نہ جسم کو آرام ہے نہ روح کو سکون گویا تمام بدن میں سرطان ہے

بیمہ پالیسیاں اور بچت کی اسکیمیں فکر فردا کی ہی تو پیداوار ہیں، ایک زکوٰۃ فنڈ اور اسکیم انسان کو ہزاروں مصنوعی فنڈز اور تدابیر سے نجات دیتی ہے۔ ایک زکوٰۃ، ہزار نعمت ہے بشرطیکہ ہم اخلاص و بصیرت کے ساتھ سوچیں اور سمجھیں۔

وہ ایک سجدہ، جسے تو گراں سمجھتا ہے
ہزار سجدوں سے دیتا ہے آدمی کو نجات

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں