بجٹ ریاست کا یا عوام کا

سب سے زیادہ بجٹ کا حجم غیر ملکی قرضوں اور اس کے سود کی ادائیگی، دفاع، وزراء کی تنخواہوں اور اخراجات کے لیے بنتا ہے۔


Zuber Rehman June 03, 2016
[email protected]

لاہور: ریاست کا بجٹ ریاستی آلہ کار یا ریاست کے ذیلی اداروں کے لیے بنایا جاتا ہے، جس میں بورژوازی (صاحب جائیداد طبقات) کو فائدہ ہو نہ کہ عوام کو۔ ریاست کا بجٹ چیمبر آف کامرس، اسمبلی اراکین، سرمایہ داروں، جاگیرداروں، اشرافیہ، علمائے سو، نوکرشاہی (وردی بے وردی) خاص کر ملٹی نیشنل کمپنیوں اور یوں کہہ لیں کہ آئی ایم ایف، ورلڈ بینک اور ڈبلیو ٹی او کے احکامات کے مطابق، جب کہ عوام کا بجٹ عوام کی امنگوں، ضرورتوں اور خواہشوں کے لحاظ سے بنایا جاتا ہے۔

ریاست کا سب سے زیادہ بجٹ کا حجم غیر ملکی قرضوں اور اس کے سود کی ادائیگی، دفاع، وزراء کی تنخواہوں اور اخراجات کے لیے بنتا ہے۔ عوام کا بجٹ تو عوام کی رہائش، صحت، تعلیم، روزگار اور خورونوش کی سستی اشیاء کے لیے ہوتا ہے۔ زمانہ قدیم میں جب ریاست کا وجود نہیں تھا تو بجٹ بھی نہیں ہوتا تھا۔ مل کر پیداوار کرتے تھے اور مل کر بانٹ لیتے تھے۔ مگر آج کی اس مہذب دنیا میں بجٹ کا بڑا حصہ سرمایہ داروں اور غیر پیداواری اخراجات پر خرچ ہوتا ہے۔ ہاں مگر جن خطوں یا ملکوں میں عوام کا دباؤ بڑھ جاتا ہے وہاں کچھ بچے کچھے ٹکڑے عوام کو بھی دے دیتے ہیں پاکستان، ہندوستان اور چین کی طرح۔

اب پاکستان کا 2016-17ء کا وفاقی بجٹ لے لیں۔ بجٹ کا کل حجم لگ بھگ 4500 ارب روپے، جن میں قرضوں (سامراجی اداروں کے) پر سود کی ادائیگی کے لیے 1420 ارب روپے اور دفاعی (جنگی) بجٹ پر 860 ارب روپے رکھنے کی تجویز دی گئی ہے۔ آدھا بجٹ تو ان دو مدوں میں چلا گیا۔ اب جب رہ گیا آدھا، تو یہ بات سمجھنے کے لیے کافی ہے کہ عوام پر کیا خرچ ہو گا۔

دنیا کے تمام بڑے ممالک کا دفاعی بجٹ سب سے زیادہ ہے اور آئی ایم ایف کے قرضے اور سود بھی۔ امریکا، چین، ہندوستان، پاکستان اور برطانیہ وغیرہ، سب ہی کا دفاعی بجٹ زیادہ ہے اور ہر سال اس میں اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ اس دنیا کا سب سے بڑا مقروض ملک امریکا ہے۔تعلیم اور صحت کا بجٹ کم ہی ہوتا ہے، اس لیے کہ دولت مند اعلیٰ نجی تعلیمی اداروں میں اپنے بچوں کو پڑھاتے ہیں اور بیرون ملک اسپتالوں میں علاج کرواتے ہیں۔ انھیں کیا ضرورت پڑی ہے صحت اور تعلیم کے بجٹ میں اضافہ کرنے کی۔ کچھ ممالک ایسے ہیں جہاں نسبتاً تعلیم کا بجٹ زیادہ ہے، جیسا کہ کیوبا کا 11 فیصد، اسی لیے یہاں شرح تعلیم 99.99 فیصد ہے۔ دنیا میں سب سے زیادہ ایٹم بم امریکا اور روس کے پاس ہیں، جب کہ پاکستان، ہندوستان، برطانیہ، اسرائیل اور فرانس کے پاس بھی ہیں۔ سب سے کم شمالی کوریا کے پاس ہے۔ اگر اسلحے سے امن قائم ہوتا تو آج دنیا امن کا گہوارہ ہوتی۔ جب کہ نتائج اس کے برعکس ہیں۔

بات ہورہی تھی پاکستان کے 2016-17ء کے بجٹ کی۔ پاکستان کوئی صنعتی ملک نہیں ہے بلکہ ایک زرعی ملک ہے اور جہاں دالیں 260 سے 280 روپے کلو بکتی ہیں، خوردنی تیل 200 روپے کلو، وہاں زراعت کی ترقی کا ہدف تین اعشاریہ چار فیصد رکھنے کی توقع ہے، جب کہ دیگر فصلوں میں اضافے کا ہدف صرف دو اعشاریہ پانچ فیصد۔ جہاں بکرے کا گوشت 700 اور گائے کا 400 روپے کلو بکتا ہو، وہاں لائیو اسٹاک کے شعبے میں نمو کا ہدف صرف چار فیصد رکھنے کی تجویز دی گئی ہے۔

جس ملک کا طویل ساحل سمندر ہو وہاں مچھلی کی پیداوار کا ہدف صرف تین فیصد۔ ہمارے ہاں بنیادی صنعتیں نہ ہونے کے برابر ہیں۔ بنیادی صنعتوں میں میٹالوجیکل، ایلکرونیکل اور کیمیکل کی صنعتیں ہیں۔ ہم ان شعبوں میں اسمبلنگ اور مینوفیکچرنگ تو کرتے ہیں مگر خام پیداوار کو مصنوعات میں تبدیل کرنے سے قاصر ہیں۔ پھر غور کریں کہ بنیادی صنعتوں کی ترقی کی کتنی ضرورت ہے جب کہ اس شعبے میں صرف سات اعشاریہ چھ نو فیصد ترقی کا ہدف رکھنے کی توقع ہے۔ مہنگائی کی شرح نمو چھ فیصد کی تجویز دی گئی ہے جب کہ یہاں ہر ہفتہ مہنگائی میں اضافہ ہوتا ہے۔

سال بھر میں سو فیصد سے زیادہ مہنگائی بڑھ جاتی ہے اور حکمران چھ فیصد کی بات کر رہے ہیں۔ یہ تو رہی ہماری نیک خواہشات، امنگ اور موضویت مگر معروض کچھ اور ہے۔ ریاست کے چند افراد اکثریت پر حکم چلاتے ہیں، اس لیے بجٹ بھی ان ہی کے لیے بنتا ہے۔ آپ خود دیکھیں، تھرپارکر، سرگودھا، فیصل آباد، بلوچستان، چولستان اور گلگت بلتستان وغیرہ میں ہزاروں بچے افلاس اور عدم علاج سے مررہے ہیں۔ ان کی دواؤں کا کوئی انتظام نہیں اور نہ صحت کا معقول بجٹ ہے، تعلیم تو درکنار۔ جب کہ ہمارے وزیراعظم کا علاج لندن میں ہورہا ہے۔ ان کے لیے ٹی وی پر دعائیں کروائی جارہی ہیں لیکن وہ جو روز بھوک اور عدم علاج سے مررہے ہیں، ان کے لیے کون دعا کر رہا ہے؟ پاکستان کے ارب پتیوں کے پاس جتنی رقوم ہیں اگر انھیں مناسب مقام پر استعمال کیا جائے تو کوئی بھی بیماریوں سے اس طرح نہیں مرے گا جس طرح اب مر رہے ہیں۔

ابھی بجٹ میں پٹرول اور ایندھن کی دیگر اشیا کی قیمتوں میں اضافہ کیا جا رہا ہے، یقیناً اس کے اثرات دوسری اشیاء پر پڑیں گے۔ ٹیکس کی وصولیابی کا ہدف 3620 ارب روپے رکھنے کی تجویز ہے۔ جب کہ بیشتر ٹیکس کا بوجھ عوام کے کاندھوں پر ہی آن پڑے گا۔ بڑے جاگیرداروں اور سرمایہ داروں سے کون ٹیکس لے گا؟ وہ خود ٹیکس وصول کرنے والوں میں سے ہیں۔ جو اپنی رقوم آف شور کمپنیوں میں چھپائے رکھتے ہیں۔

یقیناً تعلیم اور صحت کا بجٹ تمام بجٹوں سے کم ہوتا ہے، جب کہ اس وقت دنیا میں سب سے زیادہ ان پڑھ لوگ موریطانیہ میں ہیں، دوسرے نمبر پر ہیٹی اور تیسرے نمبر پر پاکستان۔ دنیا کے 185 ملکوں میں مردہ بچے پیدا کرنے والے ممالک میں پاکستان سرفہرست ہے، جب کہ ان دونوں شعبوں کا کل بجٹ ایک فیصد سے زیادہ نہیں ہے۔

عوام اپنے مسائل کے لیے روز پاکستان کی سڑکوں، اسپتالوں، کھیتوں، کھلیانوں اور درسگاہوں میں سراپا احتجاج ہیں۔ ملازمین، جونیئر ڈاکٹرز، نرسیں، کسان، اساتذہ، کھیت مزدور، فیکٹریوں اور ملوں کے مزدور سراپا احتجاج ہیں۔ وہ کبھی دھرنا دے رہے ہیں، کبھی ریلی نکالتے ہیں، کبھی مظاہرے کرتے ہیں، کبھی خودسوزی کرتے ہیں اور کبھی گولیوں کے شکار ہوتے ہیں۔ مگر حکمرانوں کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی ہے۔ دوسری جانب اسمبلی ممبران اپنی تنخواہیں 4 لاکھ روپے کروانے کے لیے ایک ہوجاتے ہیں جب کہ وہ پہلے سے ہی کروڑپتی ہوتے ہیں۔

ایسی دنیا جہاں بھوک سے روزانہ 75 ہزار انسان مرتے ہوں اور 85 ارب پتی آدھی دنیا کی دولت کے مالک ہوں، اس سے کہیں زیادہ وہ دنیا بہتر ہے جو سائنسی اور تکنیکی ترقی سے مبرا ہو۔ پوری دنیا کی سرحدیں ختم کرکے ایسے جنگل میں تبدیل کردیں تو اس میں سبزی، پھل، پرندے، جانور، صاف پانی، ماحولیاتی آلودگی سے پاک ہوا اور مچھلیوں کی بھرمار ہوگی۔ لوگ بیمار بھی کم ہوں گے اور بھوک سے بھی نہیں مریں گے۔

یقیناً ایسے ماحول میں کوئی طبقہ ہوگا، ملکیت ہوگی، سرحدیں ہوں گی، فوج ہوگی، پولیس ہوگی، عدالتیں ہوں گی، میڈیا ہوگا اور نہ ریاست۔ پھر لوگ حقیقی معنوں میں جینے لگیں گے۔ سچے جذبوں کی قسم وہ دن جلد آنے والا ہے جب دنیا کی ساری دولت کے مالک سارے لوگ ہوں گے۔ ایسا نہ ہوگا کہ کوئی کروڑوں روپے کی گھڑی پہنے اور کوئی چند ہزار روپے نہ ہونے کی وجہ سے عدم علاج کے باعث تڑپ تڑپ کر مرجائے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں